• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عالمی یوم خواتین: امید ِسحر کی بات کرو.......

چند گھر بیٹھے روزگار کمانے والی خواتین اورسماجی کارکنان سے بات چیت

عصمت علی کامران

پاکستان میں گھر بیٹھے روزگار کمانے والے( ہوم بیسڈ ورکرز) کی تعدادتقریباً ایک کروڑ 20لاکھ ہے،جن میں 80 فیصد خواتین ہیں، جو زیادہ تر دیہی علاقوں میں کام کر رہی ہیں۔عموماً خواتین کے بارے میں یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ ناتواں وجود اس قدر صلاحیت نہیں رکھتا کہ گھرداری کے ساتھ معاشی ذمے داریاں پوری کرے یا مردوں کے شانہ بشانہ کام کرے ،لیکن ہمارے دیہی اور شہری علاقوں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد محدود وسائل میں نہ صرف گھر چلا رہی ہے بلکہ ملک کی معاشی ترقی کی راہ میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اپنا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے یہ خواتین ہنر سیکھتی ہیں اور دیگر خواتین کو سکھا کریا مصنوعات فروخت کر کے باعزت طریقے سے چار پیسے کما رہی ہیں۔

 یہ خواتین سرد و گرم کا مقابلہ کر کے شیشہ ورک، لیس بنانا، ڈرائی فروٹ پیک کرنا، گوٹا ورک، ڈیکوریشن پیس بنانا، آرٹیفشل جیولری بنانا، موم بتی بنانا، اسکول یونیفارم سینااورمسالہ جات کی پیکنگ کے ساتھ انہیں چھان کر صاف کرنا،گھروں میں سلائی کڑھائی اور ہاتھ کے دیگر ہنر سے وابستہ ہوکر اپنے اہل خانہ کے لیے روزگار کا سامان کر رہی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین کی مثالیں موجود ہیں ،جو ہنر سیکھ کر اپنی زندگیوں میں تبدیلی لائی ہیں،جبکہ اس تبدیلی کے پیچھے کارفرما اُن خواتین کی خدمات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے پسماندہ علاقوں میں بسنے والی ان ناخواندہ خواتین کے لیے اپنا آپ وقف کیا اور انتھک محنت،خلوص اور تدبیر سے ہیرے تراشنے میں کام یاب رہیں۔

اس مرتبہ ’’عالمی یوم نسواں ‘‘ کے موقعے پر ہم ایسی خواتین کا تعارف کروا رہے ہیں جنہوں نے دیہی و شہری علاقوں میں پرخلوص کوششیں کر کے اپنے حقوق و ٹیلنٹ سے ناآشنا خواتین کونہ صرف باعزت روزگار دیا بلکہ ان کی زندگیاں بدل دیں،اسی طرح یہاں کچھ ایسی خواتین سے بھی بات کی گئی ہے، جنہوں نےان کاوشوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہنر سیکھ کرباوقار مقام بنایا،ملاحظہ کیجیے:

بیگم شاکرہ ذکی: (سماجی کارکن)

عالمی یوم خواتین: امید ِسحر کی بات کرو.......

1958ء میں خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہی اور انہیں با اختیار بنانے کے لیےہم نے سماجی تنظیم ’’انجمن مفادِ نسواں‘‘ کی بنیاد رکھی، ہماری بانی کارکن بیگم باجی تھیں، جن کے ساتھ ورکرز کی ٹیم تھی،جن میں ،میں بھی شامل ہوں۔ ایک جوش و ولولہ تھا کہ عورت کی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ ہم نے شاہ فیصل کالونی کے پسماندہ علاقے میں ڈیڑھ سو روپے کرائے پر ایک عمارت حاصل کی اور اس میں ایک اسکول کھولا، جس کی فیس ’’چار آنے‘‘ تھی۔ اُس زمانے میں غربت بہت تھی۔ 

اسی طرح خواتین کو خودمختار بنانے کے لیے ایک انڈسٹریل ہوم کھولا جس کی فیس’’ ایک روپیہ ‘‘تھی۔ وہاں خواتین مختلف ہنر مثلاً سلائی، کڑھائی وغیرہ سیکھتی تھیں۔ اُن ہی خواتین کے بچّے اُسی اسکول میں تعلیم بھی حاصل کرتے تھے۔ میں خواتین کی ایک ٹیم لے کر روزانہ صبح نکلتی اور’’ چار آنے‘‘ چندہ اکٹھا کرتی تھی۔ 

خواتین اس قدر پُرجوش ہوتی تھیں کہ مکمل خلوص کے ساتھ وہ کچی بستیوں میں جاتیں اور وہاں کی عورتوں کو تعلیم و ہنر سیکھنے کے لیے آمادہ کرتی تھیں۔شہری کچی بستیوں کی خواتین شادی بیاہ کے کپڑے بہت دلچسپی سے پرونا سیکھتی تھیں۔ جب یہ خواتین سلائی کٹائی سیکھ جاتیں تو ہم انہیں گھروں پر کام دینا شروع کر دیتے۔ 

اس طرح وہ گھر بیٹھے پیسے کما لیا کرتی تھیں۔ ہم نے انہیں سلائی مشینیں مہیا کیں۔ اسی طرح آج بھی ہماری فلاحی آرگنائزیشن اسی اُصول پر عمل پیرا ہے کہ عورت کو بااختیار بنائو۔ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ عورت سے ہی گھر بنتا ہے جب یہ عورتیں بااختیار ہو جاتی ہیں تو ان کے گھر بھی سنور جاتے ہیں۔ 

ان سے وابستہ زندگیاں بھی سنور جاتی ہیں۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ کسی عورت کا شوہر چرس پیتا ہے یا جوا کھیلتا ہے، گھر میں پیسے نہیں دیتا ،لہٰذا اگر وہ عورتیں ہنرمند ہوں گی تو ظاہر ہے گھر سنبھال لیں گی اور شوہروں کو بھی راہ راست پر لے آئیں گی۔ آج بھی میں پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو روایتی شادی بیاہ کے کپڑے سلائی کے لیے دیتی ہوں۔

 اس طرح ان کاباعزت روزگار کا ایک ذریعہ بنا ہوا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ہم نے اس مشن میں تکلیفیں بہت اُٹھائی ہیں۔ رُکاوٹوں کا سامنا بھی رہا ہے۔ شہر میں امن و امان کے حالات بھی بہت خراب رہے لیکن ہم نے اپنا کام جاری رکھا۔ بہت افسوس ہوتا ہے کہ جب ان پسماندہ علاقوں میں جائو تو وہاں عورتوں کو اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا، لیکن ایک بات ماننی پڑے گی جو خواتین تعلیم حاصل کرنے یا ہنر سیکھنے آتی ہیں اُن کے گھر کے مرد انہیں نہیں روکتے۔ 

اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اسی طرح جب میں نے عورتوں کی فلاح کے لیے کام شروع کیا تو میرے شوہر نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔

 وہ خود بھی مزدوروں کے رہنما تھے۔ اُن کی حوصلہ افزائی سے مجھے آگے بڑھنے کا موقع ملا یہی وجہ ہے کہ آج بھی ناخواندہ خواتین ہمارے پاس آتی ہیں جنہیں ہم نا صرف تعلیم دیتے ہیں بلکہ ہنر سکھا کر باعزت طریقے سے روزگار کمانے کے قابل بھی بناتے ہیں۔

یاسمین لاری: (سماجی کارکن)

عالمی یوم خواتین: امید ِسحر کی بات کرو.......

خواتین کے حوالے سے کام کرنے کا سلسلہ 2005ء سے شروع ہوا۔ اس سے پہلے میں آرکیٹکٹ تھی اس کے بعد میں ثقافتی ورثے کے حوالے سے کاموں سے منسلک ہوگئی اور لاہور فورٹ کے لیے کام کیا۔ 2005ء میں کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں آنے والے زلزلے نے دُنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی۔اُن علاقوں میں بہت تباہی ہوئی تھی،وہاں ٹھنڈک بہت زیادہ تھی۔

 حالات بہت خراب تھے۔ مرد تو پھر بھی ریلیف کے لیے گھروں سے باہر چلے جاتے تھے لیکن وہاں کی خواتین گھروں میں قید ہوگئی تھیں اور گھر کیا تھے، کھنڈر میں تبدیل ہو چکے تھے۔ وہ علاقے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر تھے۔ پہاڑی علاقے تھے۔ سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ معصوم بچّے اسکولوں میں دَب گئے تھے۔ اُن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا کہ زندگی دوبارہ شروع کرتے۔

 میں اپنی فائونڈیشن کے لوگوں کو لے کر وہاں گئی۔ وہاں جا کر پتہ چلا کہ وہاں کے لوگ اور خصوصاً خواتین نہایت بُرے حال میں ہیں۔ اُن کے پاس ٹوائلٹس تک نہیں تھے۔ خواتین کو باہر جھاڑیوں میں فجر سے پہلے اور مغرب کے بعد رفاع حاجت کی اجازت تھی۔

 اندازہ لگائیں کہ وہ کس تکلیف دہ صورتِ حال کا سامنا کر رہی تھیں۔ یہ عورتیں گھروں میں تھیں اُن کے لیے کسی نے نہ سوچا کہ کیا کیا جائے۔ ہم نے وہاں ٹوائلٹس بنائے۔اُن کے ریلیف کے لیے کام کیا، اُن عورتوں کو سامنے لے کر آئے۔ 

وہ اپنے کھنڈروں پر بیٹھی رہتی تھیں۔ ہمیں انہیں مصروف کرنا تھا۔ ہم پہلے سوات اور مانسہرہ کی خواتین سے ہینڈی کرافٹ کا کام کروا چکے تھے۔ یہ کام شمالی علاقہ جات کی خواتین کو بھی آتا تھا۔ ہم نے سوچا کہ ان خواتین سے موتیوں کا کام کرایا جائے۔ ہم نے انہیں موتیاں لا کر دیں۔ انہوں نے موتیوں سے ہلکی جیولری بنانا شروع کی۔ اُن میں ہمت آ گئی۔

 اُن کی زندگی میں تبدیلی آئی کیونکہ وہاں کے لوگوں کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اگر اُن کے علاقوں میں سیلاب یا زلزلہ آ جائے اور تباہی ہو جائے تو وہ سوچتے ہیں کہ شاید یہ اُن کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے،لہذا وہاں کے لوگوں نگاہیں نیچے ہی رکھتے ۔ خصوصاً خواتین آنکھیں جھکا کر باتیں کرتی تھیں۔ ہم نے انہیں اعتماد دیا۔ 

ہم نے سوچا کس طرح ان کے لیے کام کیا جائے کہ ان کے ہاتھوں میں چار پیسے آ جائیں ، ان کی زندگی بدل جائے۔ مجھے کسی نے کہا کہ یہاں کام نہیں کرو، ان کے مردوں کو بُرا لگے گا، لیکن یہ دقیانوسی باتیں میں نے وہاں نہیں دیکھیں۔ میں نے دیکھا کہ مرد خود اپنی گھر کی عورتوں کے لیے موتیاں خرید کر لاتے۔مجھے یاد ہے ایک باپ نے نہایت خوشی سے کہا کہ دیکھیں میری بیٹی نے یہ ہار کتنا خوب صورت بنایا ہے۔

 بعد میں اُس نے وہ جیولری فروخت کرنے میں بیٹی کی مدد کی اور اپنی بیٹی کو تمام پیسے دیئے۔ اسی طرح 2010ء ملک میں بڑے سیلاب آئے بہت تباہی مچی تھی۔میں نے دیکھا اُن علاقوں میں کھڈّی کا کام بھی ہوتا ہے۔ وہ لوگ کام تو بہت کرتے لیکن انہیں ملتا کچھ نہیں تھا۔ ہم نے انہیں گھروں میں چھوٹی کھڈّیاں بنا کر دیں اور اُن عورتوں کو اُس پر کام کرنے کو کہا۔ اُنہوں نے کھڈی پر کام کر کے پیسے کمائے۔

خواتین کو سکھانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ خواتین میں Transformation تیزی سے ہوتی ہے۔ اُن میں آگے بڑھنے کی لگن اور جذبہ زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ وہ کچھ کر نہیں سکتیں یا کرنا نہیں چاہتیں۔اُن دیہی علاقوں کی عورتیں چاہتی تھیں کہ اُن کے حالات اچھے ہوں۔عورتیں جو کماتی ہیں گھر اور بچوں پر لگاتی ہیں ،تاہم مرد کمانے کے بعد پان، چھالیہ اور دیگر فضولیات میں پیسے خرچ کر دیتے ہیں، لیکن یہ شرح کم ہے۔ عورت جب تبدیلی چاہتی ہے اور تبدیلی کی طرف بڑھتی ہے تو معاشرے میں تبدیلی آتی ہے۔ 

سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ جب عورت خوشحال ہوتی ہے تو عزت بھی بڑھتی ہے۔ پہاڑی علاقوں کے علاوہ ہم نے سندھ کے دیہی علاقوں میں بھی کام کیا اور وہاں کے دیہات میں گھر بنائے۔میں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ جو بھی کام کیا جائے وہ’’ صفر‘‘ پیسے خرچ کر کے کیا جائے اور اس میں’’ صفر‘‘ کاربن ہو۔ 

میں نے دیکھا کہ پہاڑی علاقوں اور دیہی علاقوں کی خواتین مٹی کا کام بہت خوب صورتی سے کرتی ہیں۔ ہم نے عورتوں کو مٹی اور چونے سے اشیاء بنانا سکھائیں۔ انہیں مٹی کا کام سکھایا۔ اُن خواتین کے ہاتھوں سے کیا گیا پلاستر اس قدر خوب صورت اور نفیس ہوتا کہ کیا کوئی شہری مستری بناتا ہوگا۔ وہ اُن دیواروں پر نت نئے بیل بوٹے بناتیں۔ ہماری کوشش ہوتی کہ ہم عورتوں کو جو کام سکھائیں وہ اس سے پیسہ بھی کما سکیں۔ 

ہم نے اُن دیہی خواتین کو مٹی کا چولہا بنانا سکھایا۔ اُس چولہے کا نام ہم نے ’’پاکستان چولہا‘‘ رکھا، یہ چولہے کم گیس اور تیل کا استعمال کرتے ہیں۔ میں نے دو برنر کا مٹی اور چونے کا چولہاخود ڈیزائن کیا تھا۔ یہ ایک پلیٹ فارم پر بنایا جاتا ہے۔

 جس کی گرمی چولہے سے منسلک چمنی سے گزر کر وہاں رکھے ہوئے پانی کو بھی اُبال سکتی ہے۔ اُن عورتوں کو ہم نے مٹی اور چونے کے چولہے بنانا سکھائے۔ وہ چولہے بنا کر انہوں نے فروخت کیے۔

ایک جوڑے نے 2500چولہے بنائے اور فی چولہا 200 روپے میں فروخت کیا۔ خواتین اُن چولہوںں کو اس قدر خوب صورت بناتیں کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ زمین پر بیٹھ کر کھانا پکانے کا تصور ختم ہوا ار وہ پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر کھانا بنانے لگیں۔ ان چولہوں سے دُھواں بھی نہیں نکلتا اس طرح اُن خواتین کی صحت بھی بہتر رہنے لگی۔ وہاں لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں۔

ہم نے 10000 شیلٹر ہومز کا پروگرام بھی شروع کیا۔ یہ لوگ بہت محنتی ہیں، لیکن یہ لوگ کام سیکھنے کے بھی پیسے مانگتے تھے، جب ہم نے انہیں کام سکھایا تو انہوں نے چیزیں فروخت کیں۔ ان علاقوں کی خواتین میں کام کا جذبہ بہت ہے۔

 آج ہمارے ساتھ ان دیہی علاقوں کی کئی خواتین ہیں جو بڑھ چڑھ کر کام کر رہی ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ بھی کام کر رہی ہیں اور ہماری مصنوعات سیکھ کر بھی پیسے کما رہی ہیں۔ ہمیں اس کام میں دُشواریاں تو پیش آتی ہیں لیکن ہم قابو پا لیتے ہیں۔ 

شروع میں لوگوں نے بہت ڈرایا کہ ان علاقوں میں کام نہ کریں یہاں روایتی لوگ ہیں۔ عورتوں کو باہر آنے نہیں دیں گے، لیکن وہاں کی حالت اور خواتین کی زندگیاں دیکھ کر دل میں ہول اُٹھتا تھا کہ یہ کس طرح زندگی گزار رہی ہیں، تاہم جب ہم نے کام شروع کیا تو ان دیہی علاقوں کے مردوں نے بھی بھرپور تعاون کیا۔

نازیہ بابو: (سماجی کارکن)

عالمی یوم خواتین: امید ِسحر کی بات کرو.......

میں نے بہت کم عمری میں ہی بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن جوائن کر لی تھی۔ میں انسانی حقوق کے حوالے سے کیسزدیکھا کرتی تھی۔ لاپتہ افراد اور ماورائے عدالت قتل ہونے والے لوگوں کے لیے احتجاجی ریلیاں نکالتی تھی اور ایسے کیسز کی رپورٹ کرتی تھی۔ جب گریجویشن مکمل ہوگیا ،تو ایم اے سیاسیات میں داخلہ لے لیا۔ 

یونیورسٹی میں آنے کے بعد سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ لوگوں کے لیے کام آنے کا جذبہ پیدا ہوا لہٰذا ایم اے کے بعد میں نے ویمن ڈیولپمنٹ فائونڈیشن پاکستان جوائن کرلی۔ میں نے زیادہ تر لیاری کے علاقے میں کام کیا۔ وہاں لوگوں کو مدد کی ضرورت تھی، غربت بہت ہے اور وسائل بالکل نہیں ہیں۔

 میں نے اپنی آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر لیاری کی باصلاحیت اور ہنرمند خواتین کو آگے لانے کی کوشش کی۔ تھوڑے ہی عرصے میں ہم ایک بڑی تعداد میں ’’ہوم بیسڈ ورکر‘‘ خواتین کو سامنے لانے میں کامیاب ہوگئے۔ اُن خواتین کو بااختیار بنایا۔ میرا کام اُن خواتین کی حوصلہ افزائی اور انہیں موبلائز کرنا تھا،لہذا خواتین کی فلاح اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے مختلف پروجیکٹس پر کام کیا۔ 

اپنے پروگرام ’’کمیونٹی پیس اینڈ ہارمنی‘‘ کے لیے خواتین کو باشعور بنانے اور انہیں صحت مند ماحول دینے کے لیے مختلف پروجیکٹس شروع کیے۔ ہماری آرگنائزیشن نے ماری پور کے پسماندہ اور روایتی سوچ رکھنے والے لوگوں کے درمیان ’’لیڈیز ڈھابہ‘‘ کھولا۔ 

جہاں خواتین کھیل و تفریح کے ماحول میں آپس میں مل بیٹھتیں اور ایک دوسرے کے مسائل حل کرتی ہیں۔ ہم نے ووکیشنل سینٹر بھی قائم کیا ہے ،جہاں خواتین بیوٹیشن، سلائی کڑھائی اور کوکنگ بھی سیکھتی ہیں۔

 اکثر خواتین ہم سے کہتی ہیں کہ ہم سیکھ تو رہے ہیں لیکن چھوٹے سے گھر میں کس طرح کام شروع کریں گے، لیکن وہ اپنے چھوٹے گھروں میں ہی کاٹیج انڈسٹری لگانے میں کامیاب ہیں۔

 اُن کی شخصیت میں تبدیلی آئی ہے۔ ہمارے ڈھابے کی ایک شیف تھی۔ ہم نے اُس کے لیے ’’آن لائن کوکنگ‘‘ پروگرام ترتیب دیا۔ جس میں کوکنگ کی کلاسیں لینے والی دیگر خواتین بھی شامل ہوگئیں۔ اُن کا پروگرام اتنا کام یاب گیا کہ آج انہوں نے اپنے گھروں میں کوکنگ اسکول کھول لیے ہیں۔ ہم اُن سے یہی کہتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے نہیں ہے۔ یہ سب کچھ آپ کی بھلائی کے لیے ہے۔

 آپ کے معیار زندگی کی بہتری کے لیے ہے تا کہ آپ اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دے سکیں اورپنے اندر خودمختاری کا احساس اُجاگر کر سکیں۔ اسی طرح ہم نے رضاکارانہ طور پر ’’لیاری لٹریری فورم‘‘ کا بھی قیام کیا ہے جس کا مقصد علاقے کے لوگوں میں اَدبی ذوق پیدا کرنا اور انہیں صحت مند سرگرمی فراہم کرنا ہے۔ خاص کر وہ خواتین جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تا کہ وہ پاکستان کی تمام زبانوں کے بارے میں جان سکیں اور تلفظ بھی دُرست کرسکیں۔

بختیار بی بی : (ہوم بیسڈ ورکر)

عالمی یوم خواتین: امید ِسحر کی بات کرو.......

کراچی کے پسماندہ علاقے ماری پور کی رہائشی 38 سالہ بختیار بی بی نے بات کرتے ہوئے بتایا ’’میرا شوہر ڈرائیوری کرتا ہے اور میری ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ شوہر کی آمدنی بہت کم ہے۔ شادی سے پہلے میں کبھی کبھار سلائی کرلیا کرتی تھی۔ 

شادی کے بعد جب گزارا مشکل ہوا تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ سلائی کر کے کچھ کما لیا جائے لیکن مجھے نہ تو لکھنا پڑھنا آتا تھا اور نہ ہی میری سلائی بہتر تھی۔ اُن ہی دنوں ہمارے علاقے میں ویمن ڈیولپمنٹ فائونڈیشن آف پاکستان (سماجی تنظیم) نے اپنا دفتر اور سلائی کا ٹریننگ سینٹر کھولا۔ محلے کی خواتین وہاں جانے لگیں۔ 

انہوں نے مجھے بتایاکہ سینٹر میں مفت سلائی سکھائی جا رہی ہے۔ میں بھی وہاں گئی۔ میں نے انہیں بتایا کہ سلائی سیکھنے کے لیے بھی جمع، تفریق کا سیکھنا ضروری ہوتا ہے، لیکن مجھے تو پڑھنا لکھنا بالکل نہیں آتا۔ سینٹر کی باجی نے میرے اور مجھ جیسی دیگر خواتین کے لیے سلائی سینٹر میں ہی ابتدائی تعلیم کی کلاسز دینا شروع کر دیں۔ میں گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر سینٹر جانے لگی۔ وہاں میں نے بنیادی تعلیم حاصل کی اور سلائی بھی سیکھی۔ 

کچھ ہی عرصے میں مجھے بہت اچھی اور معیاری سلائی کرنا آ گئی۔ میں نے گزر اوقات بہتر کرنے کے لیے محلے کی خواتین کے کپڑے سینا شروع کیے اور ساتھ ہی اپنے سلائی سینٹر میں بھی خواتین کو سلائی کی ٹریننگ بھی دی۔ اس طرح مجھے سینٹر سے سلائی سکھانے کے پیسے ملنے لگے اور محلے کی خواتین بھی سلائی کے پیسے دینے لگیں اور میری آمدنی میں اضافہ ہوگیا۔ مجھے اپنے بچوں کی فکر رہتی تھی کہ کہیں یہ میری طرح ناخواندہ نہ رہ جائیں۔ انہیں اسکول بھیجنے کا بہت شوق تھا۔ 

جب میں نے کمانا شروع کیا تو اتنی بچت ہونے لگی کہ نہ صرف میں نے بچوں کو تعلیم دلانا شروع کی بلکہ اُن کی صحت، بہتر تربیت اور مستقبل کے لیے بھی پیسہ جوڑنا شروع کیا۔ اب مجھے لوگ ’’ڈریس ڈیزائنر‘‘ کہتے ہیں۔ خواتین کسی بھی طرز و انداز کے کپڑے سلانا چاہیں وہ میرے پاس آ کر مطمئن ہو جاتی ہیں۔ میں نہ صرف جدید طرز کی تراش خراش کے ساتھ ڈریس سلائی کرتی ہوں بلکہ اُن کی شخصیت کی مناسبت سے کپڑوں کے اسٹائل کے لیے مشورے بھی دیتی ہوں۔ یہ سب ہمارے پسماندہ علاقے میں خواتین کو بااختیار بنانے کی کوشش کرنے والے ادارے کی کاوشوں سے ہی ممکن ہو سکا ورنہ میں یہ نہیں کر سکتی تھی۔ 

آج میں ہر فیشن اور ڈیزائن کے ملبوسات تیار کرلیتی ہوں۔ ہمارے علاقے میں ایک بڑا اور اہم مسئلہ بجلی کا ہے۔ یہاں لوڈشیڈنگ بہت ہوتی ہے جس سے ہمارا کام متاثر ہوتا ہے تاہم جوں ہی بجلی آتی ہے میں دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو جاتی ہوں۔

مائی کریماں : (ہوم بیسڈ ورکر)

عالمی یوم خواتین: امید ِسحر کی بات کرو.......

مکلی کے دیہی علاقے کی رہائشی 50 سالہ مائی کریماں کاشی کے بنے ہوئے ٹائلز بنانے میں مہارت رکھتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں مکلی میں ایک مزار پر بھیک مانگا کرتی تھی۔ مجھے کوئی کام نہیں آتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک خاتون میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مائی تم بھیک کیوں مانگتی ہو،اپنے ہاتھوں سے کام کر کے رزق کیوں نہیںکماتی؟ پہلے تو میں نے اُس کی بات سُنی اَن سُنی کر دی۔ پھر وہ میرے پاس دوبارہ آئی کہ میں تمہیں کام کرنا سکھائوں گی۔ تم بھیک نہ مانگو۔ میں نے کہا مجھے کچھ نہیں آتا۔

 کہنے لگی اگر نہ سیکھ سکو تو دوبارہ بھیک مانگ لینا۔ میں نے حامی بھرلی۔ اُس نے مجھے چکنی مٹی لا کر دی، اُسے گوندھنا سکھایا۔ جب میں مٹی گوندھنے میں ماہر ہوگئی تو اُس نے مجھے مٹی اور سرامکس کے ٹائلز بنانے سکھائے اور ساتھ ہی کاشی کا کام بھی سکھایا۔ پہلے میرے کام میں زیادہ صفائی نہ تھی لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور آہستہ آہستہ میں کاشی کے ٹائلز بنانے میں ماہر ہوگئی۔ اُس خاتون کا تعلق ہیریٹیج فائونڈیشن سے تھا۔

 اُن لوگوں نے میری بہت مدد کی۔ میرے ہاتھوں کے بنے ہوئے ٹائلز بازار میں فروخت کے لیے دیئے اور آہستہ آہستہ اُن کی ڈیمانڈ بڑھ گئی۔ اب میں گھر پر ٹائلز تیار کر کے خود فروخت کرتی ہوں۔ یہ ٹائلز مزاروں میں بھی لگائے جاتے ہیں اور نہایت پرکشش اور ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ 

میں نے اپنے گوٹھ کی لڑکیوں کو بھی کاشی کے ٹائلز بنانا سکھائے ہیں۔ اب وہ بھی گھر پر یہ ٹائلز تیار کر کے فروخت کرتی ہیں۔ میں اس علاقے میں چادریں اور پراندے بھی خود تیار کر کے فروخت کرتی ہوں۔ آج میں ایک باعزت کاروبار سے منسلک ہوگئی ہوں۔ بھیک مانگنے سے بہتر ہےہنر سیکھ کر پیسہ کمایا جائے جو باعزت طریقہ ہے۔

چمپا (ہوم بیسڈ ورکر)

عالمی یوم خواتین: امید ِسحر کی بات کرو.......

سندھ کے دیہی علاقے خاصخیلی کی رہائشی،چمپا آج ایک باعزت اور خوش حال زندگی گزار رہی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ’’پہلے میں اور میرا شوہر کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔ہمارے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔بہت مشکل سے گزارا ہوتا تھا ،ہم دن رات مزدوری کر کے بھی گھر کا خرچ پورا نہیں کرپاتے تھے۔

قرض دار ہوگئے تھے۔ایک روز شہر سے ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی خاتون آئیں اور مجھ سے کہا مٹی گوندھنی آتی ہے؟ میں نے کہا ،جی آتی ہے۔انہوں نے مجھے سامنے بٹھا کر خود مٹی گوندھی اور اس میں چونا ملا کر چولہا بنانا سکھایا۔ایک دو بار کی پریکٹس کے بعد میں اور میرے ساتھ کچھ خواتین اور بھی تھیں،ہم چولہا بنانا سیکھ گئیں۔

میں نے فی چولہا 200روپے میں فروخت کیا ۔میں دوسرے گاؤں جاتی،پیدل سفر کرتی تھی،جب کچھ پیسے جمع ہوگئے تو میرے شوہر نے موٹر سائیکل لے لیا،جس کے بعد ہمارا سفر آسان ہوگیا۔میں دوردراز گاؤں جاتی وہاں عورتوں کو چولہا بنانے کا ہنر بھی دیتی اور فروخت بھی کرتی تھی اس طرح میری آمدنی میں اضافہ ہوگیا۔میں نے گھر کا سامان ،جانور اور زیور بھی خریدے، دو بیٹوں کی شادی بھی کر چکی ہوں۔اب میں ہینڈ پمپ بنانے کا کام بھی کر رہی ہوں۔یہ سب چیزیں ہمارے دیہی علاقوں کی ضروریات میں شامل ہیں۔آج میں ہنرحاصل کر کے باعزت و خوش حال زندگی گزار رہی ہوں۔

تازہ ترین