• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

عالمی یوم خواتین: معروف شاعرہ، افسانہ نویس اور ڈراما نگار ، حجاب عباسی سے ملاقات


عالمی یوم خواتین: معروف شاعرہ، افسانہ نویس اور ڈراما نگار ، حجاب عباسی سے ملاقات

خواتین کا استحصال دور جہالت کا تسلسل ہے

گفتگو:اخترسعیدی

عکاسی:اسرائیل انصاری

معروف شاعرہ، افسانہ نویس اور ڈراما نگار، حجاب عباسی کا تعلق ہندوستان کے ایک مردم خیز خطے ’’امروہہ‘‘ سے ہے، اُنہیں اَدبی ذوق ورثے میں ملا ہے، اِن کے والد گرامی، شعیب حزیں ایک قادرالکلام شاعر تھے، اُن کا شمار اساتذئہ فن میں ہوتا تھا۔ 

حجاب عباسی کم و بیش چالیس برس سے شاعری کر رہی ہیں، اِن کی شاعری میں کلاسیکی روایت کی پاسداری بھی ہے اور جدید طرزِ احساس بھی۔ ان کی غزل روزنامہ ’’مشرق‘‘کوئٹہ میں شائع ہوئی تو ان کی عمر 13 برس تھی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی میں، جبکہ میٹرک اور بی اے کوئٹہ سے کیا۔ ان کے تین شعری مجموعے ’’تجدیدِ ہجر‘‘ (2006ء)، ’’تحیرِ ہجر‘‘ (2011ء) اور ’’ثباتِ ہجر‘‘ (2013ء) میں منظرعام پر آئے۔ ایک مجموعہ ’’عکسِ جلال و جمال‘‘ حمد و نعت کے حوالے سے بھی ہے۔

 ڈراما نگاری میں بھی اِن کا ایک انداز ہے، اِن کے ڈراموں کا موضوع، معاشرتی برائیوں کی نشان دہی اور تہذیبی اقدار کی پاس داری ہے۔ حجاب عباسی سے گزشتہ دنوں ہم نے تفصیلی ملاقات کی، اس دوران ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔

س:۔ اپنے خاندانی پس منظر اور حالاتِ زندگی سے آگاہ فرمایئے؟

ج:۔ میرا خاندانی پس منظر، علمی و اَدبی اعتبار سے بہت روشن ہے۔ میرا تعلق امروہہ کے عباسی خاندان سے ہے۔ ہمارے خاندان میں کئی پشتوں سے لکھنے پڑھنے کا رواج تھا۔ میرے والد شعیب حزیں، شاعری میں استادانہ درجے پر فائز تھے۔ میرے دادا، محمد احسن عباسی ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے، بقول والد، اُن سے پہلے امروہہ میں کوئی مسلمان ڈاکٹر نہیں تھا، اُن کے چھوٹے بھائی حکیم فرید احمد عباسی کو ہندوستان میں ’’بابائے طب‘‘ کا خطاب ملا۔ مولانا حسرت موہانی، والد کے تایا کے شاگرد رہے، لیکن بعد میں یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ ان کے بھائی، محمود احمد عباسی تھے، جن کو ایک مورخ کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے، انہوں نے لاتعداد کتابیں لکھیں، اُن کی کچھ کتابوں پر بعض وجوہات کی بنا پر پابندی بھی لگی، اُن کا بھی علم و اَدب سے گہرا تعلق تھا، والد کے ایک اور تایا، حکیم حسین احمد عباسی بھی طبیبِ حاذق تھے۔

 ہمارے خاندان کے لوگوں کا اَدب، تاریخ اور طب سے گہرا تعلق رہا ہے، میرے والد، شعیب حزیں کے ہندوستان اور پاکستان میں بے شمار شاگرد تھے، جن میں نظر امروہوی، ہوش امروہوی، فرید جاوید اور شیدا گجراتی کے نام نمایاں ہیں۔ میرے ایک تایا، علی احمد عباسی ’’سوات کالج‘‘ کے پرنسپل بھی رہے۔ میری والدہ شہناز بیگم بھی طبیب تھیں اور میری دو بھابیاں بھی شعبۂ طب سے وابستہ ہیں۔ میں نے اپنا خاندانی پس منظر، نہایت اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے، جسے حتمی نہیں کہا جا سکتا۔

عالمی یوم خواتین: معروف شاعرہ، افسانہ نویس اور ڈراما نگار ، حجاب عباسی سے ملاقات
ڈاکٹر جمیل الدین عالی اور جنرل معین الدین حیدر کے ساتھ

س:۔ آپ کے علاوہ آپ کے خاندان میں کون کون لوگ اَدب سے وابستہ ہیں؟

ج:۔ میں 13 برس کی عمر سے شاعری کر رہی ہوں، ابتداء میں افسانے بھی لکھے، لیکن مجھے اپنی شاعری پر زیادہ فخر ہے۔ نویں جماعت کا امتحان دینے کے بعد میری شادی ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکی۔ 

بعدازاں کوئٹہ میں میٹرک اور بی اے کیا۔ میں سائیکالوجی میں ماسٹرز کرنا چاہتی تھی، میں نے یونیورسٹی میں داخلہ بھی لے لیا تھا، لیکن اس دوران میرے شوہر شدید بیمار ہوگئے، جس کی وجہ سے مجھے اُن کو لے کر کراچی جانا پڑا، جہاں اُن کی وفات ہوگئی، لہٰذا میں اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکی، جس کا مجھے افسوس ہے، لیکن میری شاعری کا سفر جاری تھا، جاری ہے اور جاری رہے گا۔ 

یہ بھی بتاتی چلوں کہ ایک کُل بلوچستان افسانوی مقابلہ ہوا تھا، جس میں میرے افسانے ’’نغمہ‘‘ کوپہلا انعام ملا، اُس وقت کے گورنر بلوچستان نے مجھے سند اور کیش ایوارڈ سے نوازاز۔ میں نے ایک خالص اَدبی جریدے، سہ ماہی ’’ادبِ عالیہ‘‘ کا آغاز کیا ہے، جس کے تین شمارے منظرِعام پر آ چکے ہیں، چوتھا شمارہ بھی آیا ہی چاہتا ہے۔ میں نے پاکستان کے کئی بڑے شہروں میں مشاعرے پڑھے، لیکن کبھی پاکستان سے باہر مشاعرہ پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کا مجھے افسوس بھی نہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ بروزِ حشر اللہ تعالیٰ مجھ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم نے کہاں کہاں مشاعرے پڑھے، یہ ضرور پوچھے گا کہ تم نے دین کے لیے کیا کیا۔

 اللہ کا شکر ہے کہ میں نے 2002ء میں عمرہ اور 2005ء میں حج کیا، اپنے پانچوں بچوں کی شادیوں سے عہدہ برآ ہوئی، میرے بڑے بیٹے، ندیم اعجاز کو بھی ڈراما نگاری میں دلچسپی تھی، اُس نے ڈائریکشن بھی کی، لیکن میں نے اُسے شوبز کی طرف نہیں آنے دیا۔ 

کیوں کہ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر اُس کا شعبہ تھا۔ ندیم اور اُس کی اہلیہ سنبل نے ایک ٹی وی چینل کے لیے رمضان المبارک کی مناسبت سے ایک ڈراما تیار کیا، جو پندرہ قسطوں پر مشتمل تھا، اُس کا معاوضہ نہ رائٹر نے لیا اور نہ اداکاروں نے۔ وہ ڈراما قرآنی موضوعات پر تھا، اُس دوران میرا ایک ڈراما بھی چلا، ڈرامے کا موضوع تھا ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہیں بدلا لینے کا اختیار ہے، لیکن معاف کر دو تو بہتر ہے اور ہم معاف کرنے والوں کو اَجر دیتے ہیں‘‘ 

میں نے ٹی وی کے لیے کئی لانگ پلے لکھے۔ میرا پہلا ڈراما ’’بات ہے رُسوائی کی‘‘ مدر ڈے کے حوالے سے تھا، جو تین سال تک مدر ڈے کے موقع پر چلا۔ میں نے ایک ڈراما ’’اندھیرے کا تیر‘‘ پی ٹی وی کے لیے لکھا، جسے بہت پسند کیا گیا۔ میرے ڈراموں کے موضوعات گھریلو اور معاشرتی ہوتے ہیں ’’سرائے‘‘ کے نام سے بھی میرا ایک لانگ پلے آیا تھا۔ اِن دنوں بھی ایک پروڈکشن ہائوس کے لیے ڈراما لکھ رہی ہوں، لیکن یہ سیریل ہوگا۔

 میری بیٹی، سمینہ اعجاز نے بہت کم عمری سے لکھنا شروع کر دیا تھا، وہ کالج کے زمانے سے اپنی ڈائری لکھ رہی تھی، پھر وہ ڈراما نگاری کی طرف آگئی۔ 

اس کے تحریر کردہ ایک ڈرامے پراُسے ’’بیسٹ رائٹر ایوارڈ‘‘ ملا۔ اہم بات یہ ہے کہ اُس ڈرامے کے ڈائریکٹر اور اداکاروں کو بھی ’’بیسٹ ایوارڈز‘‘ سے نوازا گیا۔ یہ تمام ایوارڈز، میرٹ کی بنیاد پر دیئے گئے۔ وہ تواتر سے ڈرامے لکھ رہی ہے، اُس کے پاس ہماری طرح تقریبات میں جانے کا وقت نہیں ہوتا۔ میرے چھوٹے بیٹےادیب اعجاز کو شاعری کا شوق ہے، وہ مجھے اپنا کلام دکھاتا ہے، اُس کی شاعری میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔ 

عالمی یوم خواتین: معروف شاعرہ، افسانہ نویس اور ڈراما نگار ، حجاب عباسی سے ملاقات
اپنے پوتے کے ساتھ

میری ایک بیٹی صائمہ خالدکو سلائی، کڑھائی سے زیادہ دلچسپی ہے، وہ ایک بوتیک چلا رہی ہے۔ آج کل وہ کسی رائٹر کے ساتھ، کورائٹر کی حیثیت سے ڈراما بھی لکھ رہی ہے۔ اس طرح ٹریننگ ہو جاتی ہے، ممکن ہے وہ بھی آگے چل کر ڈراما نگار بن جائے۔ اُس کے جملے بڑے کاٹ دار ہوتے ہیں۔میرے ایک بیٹے کانام عدیل اعجاز ہے، وہ شاعری نہیں کرتا،لیکن سخن فہم ضرور ہے۔

میرے چھوٹے بھائی، زبیر عباسی بھی ایک ڈراما نگار کی حیثیت سے اچھی شہرت رکھتے تھے، خدا اُن کی مغفرت فرمائے۔ انہیں چار مرتبہ ’’نگار ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ انہوں نے اُس وقت ڈراما نگاری کا آغاز کیا، جب ڈراما نگاروں کا فقدان تھا۔ وہ اٹلی میں زیادہ رہے، انہوں نے وہاں کی لائبریریوں میں بیٹھ کر دُنیا کی تاریخ پڑھی، وہ بہت قابل آدمی تھے، ابتداء انہوں نے بھی شاعری سے کی، لیکن اُن کی ڈراما نگاری، اُن کی شاعری کو کھا گئی، میرے بعد میری ایک بہن، سیما غزل نے لکھنا شروع کیا۔

 ابتداء میں انہوں نے بھی شاعری کی، لیکن ڈرامے کے میدان میں آنے کے بعد انہوں نے شاعری کا بستہ باندھ کر رکھ دیا، پورے پاکستان میں ڈرامے کے حوالے سے کوئی خاتون، سیما غزل کا مقابلہ نہیں کر سکتی، انہوں نے کافی ڈرامے اور سیریل لکھیں، جنہیں پسند کیا گیا۔ وہ میرے کہنے پر دوبارہ شاعری کی طرف آ گئی ہیں، وہ غزلیں بھی لکھتی ہیں، لیکن نظم میں بہت آگے ہیں، نثر نگار، نظمیں اچھی لکھ سکتا ہے۔ میری ایک بہن کا نام، نسرین نظامی ہے، انہوں نے بھی لاتعداد ڈرامے تحریر کیے، یہ اور بات کہ انہیں زیادہ پروجیکشن نہیں ملی۔ 

شہرت بھی لوگوں کی محتاج ہوگئی ہے، انہوں نے تقریباً پندرہ سیریل لکھے ہیں، جو مختلف چینلز پر دکھائے گئے، نسرین کے بیٹے شاہد نظامی نے بھی ڈرامے لکھے، وہ ڈائریکشن بھی کرتے ہیں، اُن کے دوسرے بیٹے خرم نظامی بھی ڈراما نگار ہیں، لیکن وہ کورائٹر کی حیثیت سے نسرین اور شاہد کے ساتھ منسلک رہے، اُسے کیمرے اور شوٹنگ کا خاصا تجربہ ہے، نسرین کی بیٹی، سطوت نے بھی کورائٹر کی حیثیت سے ڈرامے لکھے، کورائٹر کو زیادہ پروموٹ نہیں کیا جاتا، انہوں نے چینلز کی ڈیمانڈ کے مطابق کچھ کہانیاں لکھیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم اپنی خاندانی وراثت کو آگے لے کر جا رہےہیں، بیشتر نام ور اَدیبوں اور شاعروں کی اولاد، اَدب سے کوسوں دُور ہے۔ میرے ایک چھوٹے بھائی، عذیر عباسی، رائٹر تو نہیں، لیکن ایک اداکار کی حیثیت سے ڈراموں میں کام کر رہے ہیں۔

س:۔ آزادیٔ نسواں کے حوالے سے آپ کا مؤقف کیا ہے؟

ج:۔ خواتین کو آزادی ملنی چاہیے، لیکن ایک حد تک۔ آزادئ نسواں کے نام پر شرعی حدود سے تجاوز کرنا، غیر اخلاقی رویہ ہے،میں اُن کے اِس عمل سے متفق نہیں ہوں۔ بے شک خواتین کو لکھنے کی آزادی ہو، اظہار رائے کی آزادی ہو، لیکن اپنی خاندانی اقدار کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ بیشتر خواتین، صلاحیتیں ہونے کے باوجود منظرعام پر نہ آ سکیں، اس لیے کہ انہیں گھر سے اجازت نہیں ملی، ایک زمانے میں خواتین، مردانہ ناموں سے لکھا کرتی تھیں۔

 عورت کو اپنی نسوانیت کا خیال رکھتے ہوئے ہر میدان میں آنا چاہیے۔ اس طرح گھر والوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لاتعداد خواتین نے زندگی کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کر کے وطن عزیز کا نام روشن کیا۔ 

شکریہ خانم نے پہلی خاتون پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا، اگر انہیں گھر کی سپورٹ نہ ہوتی تو وہ کیسے اِس میدان میں آسکتی تھیں، ڈاکٹر ریحانہ شاہ، آرتھوپیڈک سرجن ہیں، انہوں نے بڑے بڑے آپریشن کیے ہیں، انہوں نے ایک کٹے ہوئے ہاتھ کو جوڑ دیا، کیا یہ کمال کی بات نہیں۔ باصلاحیت خواتین کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، وہ اگر تہذیبی دائرے میں رہتے ہوئے کسی میدان میں آئیں تو اُن کے کام میں کوئی رُکاوٹ نہیں آئے گی، معاشرے میں خواتین کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

س:۔ خواتین کا استحصال کیوں کیا جاتا ہے، اِس حوالے سے آپ کیا کہیں گی؟

ج:۔ خواتین کا استحصال، دورِ جہالت کا تسلسل ہے۔ بلاشبہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے، وہ جاہل طبقہ جس نے تعلیم حاصل نہیں کی، جس کو تعلیم کے فوائد نہیں معلوم، جو عورت کے مقام سے بے خبر ہے، وہ آج بھی ہر سطح پر خواتین کا استحصال کر رہا ہے۔ 

عورت کا مقام تو قرآن کریم نے متعین کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے عورت کے قدموں میں جنت رکھ دی ہے۔ جہاں جہالت ہو، اُس معاشرے میں برائیاں کیسے ختم ہوں گی، بہتری لانے میں بہت عرصہ لگے گا، لوگوں کو قربانیاں دینا پڑیں گی۔ عورت کا استحصال کرنے والے، دینی اقدار سے بے خبر ہیں۔ اگر علمائے کرام اِس سلسلے میں کوئی پیش رفت کریں تو بہتری کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ 

اس معاشرے میں ذرا ذرا سی بات پر عورت کو مارنا، پیٹنا اور جلا دینا معمول بن گیا ہے۔ یہ تمام صورتِ حال تعلیم سے دُوری کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ تعلیم ، صرف ڈگری کو نہیں کہتے، ڈگری تو ملازمت کے حصول کا ایک ذریعہ ہے، ہم چھ ماہ کے بچّے کو ٹریننگ دینا شروع کر دیتے ہیں، عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بچّے میں تبدیلی آتی ہے، شیخ سعدی کے پاس، ایک خاتون اپنے بچّے کو لے کر گئی کہ میں اسے تربیت کے لیے لائی ہوں، انہوں نے پوچھا کہ بچّے کی عمر کیا ہے، خاتون نے کہا کہ چھ سال، کہنے لگے تُو نے اس بچّے کی تربیت کا وقت نکال دیا۔ اب اس کی تعلیم کا وقت ہے۔ 

تعلیمی ادارے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں، تربیت نہیں، بچّے کی تربیت، ماں کو کرنی ہوتی ہے، تھوڑا بہت حصہ باپ کا بھی ہوتا ہے، کچھ اثر ماحول کا بھی ہوتا ہے۔ درندہ صفت لوگوں کو بچہ، نہ بچی اور نہ عورت نظر آتی ہے، ایسے لوگوں کے لیے قرآن نے کہا ہے کہ ہم اُن کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔

عالمی یوم خواتین: معروف شاعرہ، افسانہ نویس اور ڈراما نگار ، حجاب عباسی سے ملاقات

س:۔ کیا اِس معاشرے میں خواتین کو وہ حقوق مل رہےہیں، جو اُن کا حق ہے؟

ج:۔ کچھ خواتین کوحقوق مل رہے ہیں، کچھ کو نہیں، پڑھے لکھے لوگ، عورت کے حقوق کو پہچاننے لگے ہیں، بعض خواتین سے دوستانہ ماحول میں بات ہوتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ وہ اندر سے کتنی دُکھی ہیں، اِس لیے وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ، ہمارا حق نہیں ملا۔ اللہ کا شکر ہے کہ 80 فیصد خواتین کو اُن کا حق مل رہا ہے، اُمید ہے کہ آگے چل کر خواتین کی تمام شکایات دُور ہو جائیں گی۔

س:۔ کیا نسائی اَدب نے معاشرے پر کوئی اثرات مرتب کیے؟

ج:۔ اَدب کے حوالے سے لاتعداد خواتین کے نام ذہن میں آتے ہیں، جیسے عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، امرتا پریتم، حجاب امتیاز علی، جمیلہ ہاشمی، اَدا جعفری، زہرا نگاہ، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید۔ خواتین لکھاریوں کی ایک طویل فہرست ہے، کچھ ایسی خواتین بھی ہیں، جو گمنامی میں زندگی گزار گئیں، لیکن اُن کے نام آج بھی لوگوں کو یاد ہیں،جیسے شوبز میں رہتے ہوئے مینا کماری نے بھی شاعری کی اور اُن کا شعری مجموعہ بھی شائع ہوا۔ 

نسائی اَدب نے معاشرے پر اپنے اثرات تو چھوڑے ہیں، مزید یہ سلسلہ آگے بڑھے گا۔ پڑھی لکھی خواتین کو مردوں کے معاشرے نے اہمیت دینا شروع کر دی ہے، ایک وہ دور تھا، جب مشاعروں میں خواتین کو مدعو نہیں کیا جاتا تھا، اَدبی رسالوں میں بھی خواتین کی تحریریں دکھائی نہیں دیتی تھیں، اب صورتِ حال بدل گئی ہے، اب خواتین کو مشاعروں میں بھی بلایا جاتا ہے اور اَدبی رسالوں میں بھی اُن کو نمائندگی ملتی ہے،بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں خواتین نمایاں نظر آنے لگی ہیں۔

عالمی یوم خواتین: معروف شاعرہ، افسانہ نویس اور ڈراما نگار ، حجاب عباسی سے ملاقات

س:۔ خواتین کی حکمرانی کے بارے میں آپ کا نقطۂ نظر کیا ہے؟

ج:۔ خواتین، گھر میں اچھی حکمرانی کرلیتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فوقیت دی ہے، عورت کو دوسرے درجے پر رکھا گیا ہے، پاکستان میں بے نظیر بھٹو کا دور حکمرانی مجھے یاد ہے۔ انہوں نے اپنے دور میں بہت اچھے اقدامات کیے، خواتین کو بھی اُن کا جائز حق دیا، اُن کے بتائے ہوئے راستے پر آج بھی اُن کی پارٹی عمل پیرا ہے، اُن کے خیالات اور اُن کے کاموں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا،ا نہیں مزید زندگی ملتی تو وہ بہت آگے جاتیں۔ وہ ایک جرأت مند اوربہادر خاتون تھیں، پاکستان کے لیے اُن کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

س:۔ کن خواتین قلم کاروں نے آزادیٔ نسواں کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا؟

ج:۔ پاکستان میں فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، شاہدہ حسن اور ڈاکٹر فاطمہ حسن نے آزادیٔ نسواں کی تحریک کو ہمیشہ بڑھاوا دیا اور خواتین بھی اس تحریک کا حصہ رہیں، فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید کی جرأت مندی اور بہادری بے مثال ہے۔

 انہوں نے ہمیشہ خواتین کے لیے آواز حق بلند کی، جب ان دونوں سے گفتگو ہو، تب یہ کھلتی ہیں، انسان، اِن کی باتیں، اِن کے خیالات سن کر دنگ رہ جاتا ہے، یہ خواتین کے دَرد کو اپنا دَرد سمجھتی ہیں، اِن کی تحریروں میں بھی، ان کی زندگی نظر آتی ہے، بہت سی باتیں، جو فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید کہہ جاتی ہیں، دُوسری خواتین نہیں کہہ سکتیں، ہمیں اِن کے افکار و خیالات سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اِن کا احترام، ہمارا اخلاقی فرض ہے۔

س:۔ کسی بھی معاشرے میں قلم کاروں کا کیا کردار ہونا چاہیے؟

ج:۔ معاشرے کو قلم کار ہی بناتے ہیں۔ کسی مفکر کا کہنا ہے کہ جس قوم کا اَدب ترقی نہیں کرتا، وہ قوم بھی ترقی نہیں کرتی۔ ہمارے معاشرے میں لکھنے پڑھنے کا رُجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ 

اب ایسی تحریریں سامنے آنی چاہئیں، جن سے معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں آئیں، موجودہ نسل، کتاب سے دُور ہوگئی ہے، اِس کے لیے سب کچھ انٹرنیٹ ہے، میرے پانچ بچّے ہیں، جو کتاب سے جڑے ہوئے ہیں، تمام قلم کاروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو مطالعے کی ترغیب دیں۔ کسی بھی معاشرے میں فن کاروں اور قلم کاروں کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ حبیب جالب کو آج بھی اِس لیے یاد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ہر دور میں عوام کی بات کی، آمرانِ وقت کو للکارا، اِس لیے اُن کا نام زندہ ہے۔

س :۔ لکھنے والوں کی نئی نسل کے بارے میں آپ کیا کہیں گی؟

ج:۔ ہر دور کی نئی نسل، آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہے، سینئرز کا فرض ہے کہ وہ اُن کی راہ نمائی کریں، اگر نئی نسل پر توجہ دی گئی تو صورتِ حال خود بہ خود بہتر ہو جائے گی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہماری نئی نسل خود بھی تربیت کے لیے تیار نہیں۔ انہیں مجموعہ لانے کی جلدی ہوتی ہے۔ 

کتاب میں غلطیوں کی نشاندہی کی جائے تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں۔ تہذیب، رفتہ رفتہ ہمارے معاشرے سے اُٹھتی جا رہی ہے، میں نے ایک خاتون سے کہا کہ آپ اپنا کلام کسی سینئر کو دکھا دیا کریں تو انہوں نے برہمی سے کہا کہ کیا آپ کو اُستاد بنا لوں، میں نے کہا کہ میں منصبِ اُستادی سے بہت دُور ہوں، میں تو خود سیکھنے کے عمل سے گزر رہی ہوں، مجھے شاعری کرتے ہوئے چالیس برس ہوگئے، لیکن میں خود کو آج بھی طالب علم سمجھتی ہوں۔ فیس بک کی داد و تحسین نے نوجوانوں کو خودسری میں مبتلا کر دیا ہے، فیس بک پر ایسے اشعار کو بھی سراہا جاتا ہے، جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ میرا نظریہ ہے کہ کسی اچھے شاعر کو فیس بک پر نہیں ہونا چاہیے۔ 

ہم نے پڑھ کر اور سن کر کسی لفظ کا استعمال سیکھا ہے، جبکہ آج کل یہ رُجحان نہیں ہے۔ نئے لکھنے والے ایسے ایسے لفظ نکال کر لاتے ہیں کہ میں حیران ہو جاتی ہوں، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اَدب زوال پذیر ہے، ایسا نہیں ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اَدب بہت زیادہ ترقی بھی نہیں کر رہا۔

س :۔ اَدب کے فروغ میں اَدبی ادارے کیا کردار ادا کررہے ہیں؟

ج:۔ شہر کی کئی اَدبی تنظیمیں، تواتر کے ساتھ مشاعرے اور اَدبی تقریبات کر رہی ہیں، جس سے یقیناً اَدب کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ میری بھی ایک تنظیم ہے ’’تخلیق کار‘‘ جس کی میں جنرل سیکرٹری ہوں، اِس کے تحت ہر ماہ ایک پروگرام ہوتا ہے۔ 

ہمارا دائرہ مشاعروں تک محدود نہیں ہے، ہم شامِ افسانہ بھی کرتے ہیں، باہر سے آنے والے ادیبوں اور شاعروں کے اعزاز میں تقاریب کا اہتمام بھی کیا جاتاہے۔ہمارے ایک پروگرام کا موضوع تھا ’’کیا آج کا ڈراما، ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے‘‘ جس میں ہم نے سینئر پروڈیوسرز کو مدعو کیا تھا، اِس میں نئے لوگوں نے اپنی مشکلات بتائیں، پھر پرانے لوگوں سے سوالات کیے گئے۔ ہم نے فنونِ لطیفہ کے ہر شعبے کو نمائندگی دی ہے، ہم تمام مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو مدعو کرتے ہیں، ہم ہر نشست میں دو نئے شعراء کو متعارف کراتے ہیں۔

س :۔ اپنی زندگی کا کوئی یادگار واقعہ؟

ج:۔ میری تمام زندگی، یادگار واقعات سے عبارت ہے، لیکن ایک واقعہ ناقابلِ فراموش ہے۔ میرے والد کا تعلق، ریڈیو سے تھا، کراچی ریڈیو پر شمس الدین بٹ ہوا کرتے تھے، والد صاحب علیل ہوئے تو وہ اُن کی عیادت کے لیے گھر آئے۔ انہوں نے والد سے پوچھا کہ کیا تمہارے بچوں میں سے کسی کو شاعری کا شوق ہے، والد نے میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ اِسے شاعری سے دلچسپی ہے۔ 

والد نے کہا کہ جس دن ہمارے ہاں شعری نشست ہوتی ہے، یہ سوتی نہیں، دروازے کے پاس بیٹھ کر شعراء کا کلام سنتی ہے۔ ماں کہتی ہے کہ سو جائو، صبح اسکول جانا ہے، لیکن یہ دُوسرے دن وقت سے پہلے اُٹھ جاتی ہے تا کہ مشاعرہ سننے سے نہ روکا جائے۔ بٹ صاحب نے مجھ سے کہا کہ جانتی ہو، شعر کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا دو مصرعوں کا، کہنے لگے تمہیں مصرع دیا جائے تو اُس پر مصرع لگائو گی، انہوں نے ساحر لدھیانوی کا ایک مصرع ’’تیرا مرنا خوشی کی بات سہی‘‘ دے دیا۔ 

میں کچھ دیر تو خاموش رہی، پھر میں نے مصرع لگایا کہ ’’دفن کر کے اُداس رہتا ہوں‘‘ وہ کھڑے ہوگئے اور مجھے گود میں اُٹھا لیا، انہوں نے والد صاحب سے کہا کہ ’’تم لکھ لو، یہ پکی شاعرہ ہے‘‘ انہوں نے مجھے انعام کے طور پر دو آنے کا ایک سکہ بھی دیا۔


میرے لیے لکھنا، سانس لینے جیسا عمل ہے

میں اِس طرح لکھ رہی ہوں، جیسے لکھنا مجھ پر فرض ہے۔ لکھنا میرے لیے، سانس لینے جیسا عمل ہے، جو زندگی کے لیے ناگزیر ہے۔ عموماً مثال دی جاتی ہے کہ فلاں، سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوا ہے، میں کہتی ہوں کہ میں سونے کا قلم ہاتھ میں لے کر پیدا ہوئی۔ قدرت نے میری اُنگلیوں کو قلم تھامنے کا قرینہ اور لفظ لکھنے کا سلیقہ عطا کیا۔ 

بچپن سے یہ خیال ذہن میں تھا کہ لکھنا، پڑھنا، میرے خاندان کی پہچان ہے، خصوصیت ہے، لہٰذا میرے لیے بھی لکھنا ضروری ہے، تا کہ میں اپنے آپ کو عباسی خاندان کا فرد ثابت کر سکوں، کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ تم کب سے لکھ رہی ہو، تو ایسا ہے کہ ایک عمر ہوتی ہے، جب بچّے کے ہاتھ میں پنسل آتی ہے اور وہ ہر جگہ لکیریں کھینچتا ہے، جب میرے ہاتھ میں پنسل آئی اور میں نے لکیریں کھینچیں تو وہ ’’حرف‘‘ بن گئیں۔

 میں شاعری میں کس حد تک کامیاب ہوئی ہوں، یہ تو میرے پڑھنے والے بتائیں گے۔ اے رَبِّ ذوالجلال تیرا احسان ہے کہ تُو نے میرے سخن کو وسعت اور ہاتھوں کو قلم تھامنے کا سلیقہ عطا فرمایا، مجھے میرے جسم کے مکان میں قیام پذیر کیا، ورنہ ’’میں اِس میں نہیں تھی تو مرا ذکر کہاں تھا‘‘

نظم ’’اعتبارِ وفا‘‘

میںہوں بیٹی زمیں کی، زمیں پر مجھے

اعتبارِ وفا اس طرح مل گیا

میری آدھی گواہی بھی پوری ہوئی

اِک نئے نور سے میں بھی نوری ہوئی

اپنے ہاتھوں میں محنت کی عظمت لئے

میں جھکے سر کو اپنے اُٹھا کر چلی

خواب آنکھوں میں اپنی بسا کر چلی

پھول ،خوشبو، ہوا میں اُڑا کر چلی

روشنی، روشنی میں ملا کر چلی

حوصلہ میرا اور ولولہ دیکھ کر

آسماں نے محبت سے دیکھا مجھے

اِس زمیں پر محبت کی تعمیر کا

کارِ فیض و عمل آج سونپا مجھے

بے ثباتی کی تصویر عالم میں جب

میرے دستِ حنائی نے رنگ بھر دیئے

میرے اُجلے بدن کے اُجالوں نے پھر

ظلمتِ شب میں شام و سحر بھر دیئے

میں نے فکر و عمل سے یہاں چار سُو

فہم و ادراک کے آشیانے بھرے

جہل رُخصت ہوا، میری تعلیم نے

علم و فن اور ہُنر کے خزانے بھرے

میرے ہاتھوں کی محنت بھری اُنگلیاں

اِک نئی قوم تعمیر کرنے لگیں

میری آنکھیں، جو خوابوں کی خوگر رہیں

اب اُنہیں خود ہی تعبیر کرنے لگیں

اب نئی خوشبوئیں پھوٹتی ہیں بہت

میرے دستِ حنا کے چمن زار سے

اب مجھے اعتبارِ وفا مل گیا

یعنی خدمت کو میری صلہ مل گیا

حرف و قرطاس کو آسرا مل گیا

گوشہ گوشہ دمکتا ہے اب ذات کا

یوں بھرم اُس نے رکھا مری بات کا

صف بہ صف تارے آنچل میں سجنے لگے

جلترنگ سے مرے دل میں بجنے لگے

میں ہوں بیٹی زمیں کی، مجھے اب مگر

آسماں دیکھتا ہے بہت پیار سے

اب مجھے اعتبارِ وفا مل گیا

تازہ ترین
تازہ ترین