علا مہ راشد الخیری اور اصلاح نسواں
شاہ نواز فیاض
سر سید کے رفقاء میں سب سے پہلے مولوی نذیر احمد نے عورتوں کی تعلیم کی اہمیت اورضرورت کو محسوس کیا اور اس کی اشاعت کا بیڑہ اٹھایا۔ ان کے بعد حالی ،سرشار، شرر، رسوا،پریم چند اور تقریباََ تمام مصنفین نے اپنی تصنیفات کے ذریعے نہ صرف عورتوں کو تعلیم کی طرف توجہ دلائی ،بلکہ عورتوں کے اندرایک زمانے سے جاری سماجی و معاشرتی خامیوں کو بھی دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ۔
اردو ناول کی تاریخ میں علا مہ راشد الخیری کا شمار ایسے ہی ادیبوں میں ہوتا ہے۔ وہ صحیح معنوں میں مولوی نذیر احمد کے سچے جانشین تھے۔انہوں نے اپنی تقریباََ تمام تصانیف میں عورتوں کے مسائل اور ان کی پسماندگی ،ذہنی کشمکش اور الجھنوں کو موضوع بنایا۔
علامہ راشدالخیری ،ایک مٹتی ہوئی تہذیب اور بکھرتی ہوئی اجتماعی زندگی کے نوحہ گر دکھائی دیتے ہیں ،مگر ان کے ناولوں میں کچھ نقطے ایسے اور بھی ہیں جوہماری توجہ اپنی جانب مبذول کراتے ہیں، جیسے ہوش ربا تبدیلیوں کے اس دور میں بھی علامہ راشد الخیری نے ماضی کے احساس کو برقرار رکھا اور اس سلسلے میں وہ ایک مربوط اور منظم اخلاقی موقف میں ثابت قدم بھی رہے۔
دوسرے یہ کہ انہیں اسلامی تہذیب کے منتشر ہوتے ہوئے شیرازے اور اس کے واقعاتی سیاق کا علم ہی نہیں تجربہ بھی تھا۔علامہ راشدالخیری کا مشاہدہ وسیع اور ان کی بصیرت تیز تھی۔اس کے علاوہ اپنے مشاہدوں،تجربوں اور بصیرتوں کو قصے ،کہانیوںکی زبان میں منتقل کرنے کا سلیقہ بھی رکھتے تھے۔اسی لئے ان کے فن،کارنامے اور مسلم عورتوں پر اس کارنامے کے مجموعی اثرات کا جائزہ اور مطالعہ ہر لحاظ سے قابلِ توجہ ہے۔
علامہ راشدالخیری کی زندگی کا صرف ایک مقصد رہا۔اوروہ تھااصلاحِ نسواں ۔وہ اس مقصد کے لئے زندگی کے آخری ایام تک اپنے قلم سے جہاد کرتے رہے ۔انہوں نے ادب کی جس صنف میں طبع آزمائی کی، خواہ وہ صحافی رہے یا نظم نگار،ناول یا افسانہ نگار،ان کا مقصد صرف اور صرف اصلاح وتربیتِ نسواں ہی رہا۔اپنی تصنیف شبِ زندگی میں نیک بیوی کے متعلق لکھتے ہیں:
’’بیٹی ہو کر ماں باپ کے، بہن بن کر بھائی بہنوں کے،چھوٹی ہو کر بڑوں اور بڑی بن کر چھوٹوں کے حقوق اور خیال مرتے دم تک فراموش نہ کئے ، بیوی بنی تو ایسی کہ شوہر اور شوہر کے گھرانے والے ہر وقت اس کا کلمہ پڑھتے ۔ما(ماں) ایسی ہوئی کہ بچہ کامل تین سال تک اس ملک میں اور اس مقام میں اس شہر میں اور ان لوگوں میں رہا جہاں خدا کا نام لینا گناہ اور مذہب کا خیال کرنا حرام، مگر ایک وقت کی نماز قضا نہ ہوئی۔‘‘
درج بالا اقتباس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک نیک خاتون کا اثر اس کے اپنے بچوں پر کس طرح سے ہوتاہے۔ اور اس اقتباس سے اس بات کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ ماں کی گود بچے کے لئے پہلا مکتب ہوتی ہے۔
علّامہ راشد الخیری نےعورتوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان کی معاشی حیثیت کو بلند کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ انہوں نے عورتوں کے مسائل کو عورتوں کی نظر سے دیکھا اور ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھ کر اس کا مداوا کرنے کی سعی کی اور اس کوشش میں ان کی نظر عورت کی زندگی کے ہر پہلو پر گئی، اس طرح سے ہمارا ادب پہلی مرتبہ عورت کی معاشرتی حیثیت کا صحیح مصوّر ا ور مفسّر بننے کے علاوہ ان کی ذہنی اور جذباتی زندگی کا آئینہ دار بنا۔
یوں زندگی کا ایک ایسا گوشہ جس پر اب تک لوگوں کی نظر نہیں گئی تھی،ایک اچھّے ادیب کے صحیح اور باریک بین مشاہدے کی وجہ سے جیتا جاگتا ہو کر سامنے آیا۔
علّامہ راشد الخیری چاہتے تھے کہ عورتیں تعلیم حاصل کریں تاکہ ان کے اندر علم دین کے ساتھ ساتھ معاشرت کا بھی شعور پیدا ہو سکے ۔عورتوں کی جواپنی ذمّہ داریاں ہیں وہ اس سے اچھّی طرح واقف ہو سکیں،اور دوسرے پر ان کے اپنے کیا حقوق ہیں ان کا علم ہو سکے۔اس طرح تمام کوششیں علّامہ راشد الخیری نے اسلام کے دائرے میں رہ کرکیں۔
علّامہ راشد الخیری تقریباً چالیس سال تک مسلسل حقوقِ نسواں کے لئے اکیلے اپنے قلم کے ذریعے بادِمخالف کا ڈٹ کر سامنا کرتے رہے۔صرف قلم ہی کے ذریعہ نہیں بلکہ جب اور جہاں موقع ملا،تقریروں سے بھی انہوں نے حقوقِ نسواں کی بات کی۔
ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف عورتوں کے حقوق کے لئے ہی لکھتے رہے،بلکہ انہوں نے عورتوں کی اصلاح اور فرائضِ نسواں کے متعلّق خواتین کےعصمت، سہیلی اوربنات جیسے رسالے بھی جاری کئے،تاکہ عورتوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان کو اپنے فرائض سے بھی روشناس کرایا جا سکے۔
اورمعاشرے میں سعادت مند بیٹیاں ،فرمانبردار بیویاں اور عاقبت اندیش مائیں پیدا کی جا سکیں، جو حقوق عورتوں کو دیے ہیں وہ انھیں حاصل کریں۔
گویا کہ علّامہ راشدالخیری کے پیشِ نظر عورتوں کی اصلاح ، اُن کی تربیت اور اُن کے حقوق ہی رہے۔وہ عورتوں کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔ علّامہ کو اپنی اس کوشش میں بہت حد تک کامیابی بھی ملی۔ان کی تحریروں اور تقریروں سے عورتوں کے اندر تعلیم کے تئیں بیداری پیدا ہوئی۔
اور لوگوں کے نظریے بھی بدلے ،جو عورتوں کو باہر جانے سے روکتے یا اسے معیوب سمجھتے تھے،ان میں بھی عورتوں کی تعلیم کے تئیں مثبت رجحان پیدا ہوا ۔عورتوں کے حقوق کے متعلّق لوگوں کے رویّے میں بہت حد تک نرمی پیدا ہوئی۔
سب رنگ تیرے
اے عورت ، تو اس جہاں کی سب سے خوبصورت مخلوق ہے ، تیرے لئے بادشاہوں نے تحت چھوڑے ، تیری خاطر جنگیں لڑیں ، تیرے لئے زمین پھاڑکر سونا نکالا ، تیرے لئے سمندر کی تہہ میں جا کہ موتی لائے ۔ ۔ تیرے لئے شعر لکھے داستانیں بنائیں ۔۔ ساز بجے ، رقص کیا ۔ ۔ ۔ اور تجھے دیوی بنا کہ پوجا ۔ ۔ ۔ اے عورت تو نے اس دنیا کو خوبصورتی دی ، زندگی دی ، آبادی دی ۔ ۔ سب رنگ تیرے لئے سب سنگ تیرے لئے ۔ ۔ ۔
(کرشن چندر کی تحریر سے اقتباس)
پاکیزہ سیرت
آزمائش جس مقام پر اب منگلا ڈیم واقع ہے وہاں پر پہلے میرپور کا پرانا شہر آباد تھا۔ جنگ کے دوران اس شہر کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بنا ہوا تھا۔ ایک روز میں ایک مقامی افسر کو اپنی جیپ میں بٹھائے اس کے گرد و نواح میں گھوم رہا تھا، راستے میں ایک مفلوک الحال بوڑھا اور اس کی بیوی ایک گدھے کو ہانکتے ہوئے سڑک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ دونوں کے کپڑے میلے کچیلے اور پھٹے پرانے تھے، دونوں کے جوتے بھی ٹوٹے پھوٹے تھے۔
انہوں نے اشارے سے ہماری جیپ کو روک کر دریافت کیا۔ ’’بیت المال کس طرف ہے؟‘‘ آزاد کشمیر میں خزانے کو بیت المال ہی کہا جاتا ہے۔
میں نے پوچھا۔ ’’بیت المال میں تمہارا کیا کام؟‘‘
بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا۔ ’’میں نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر میرپور شہر کے ملبے کو کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں، اب انہیں اس کھوتی پر لاد کر ہم بیت المال میں جمع کروانے جارہے ہیں۔‘‘
ہم نے ان کا گدھا ایک پولیس کانسٹیبل کی حفاظت میں چھوڑا اور بوریوں کو جیپ میں رکھ کر دونوں کو اپنے ساتھ بٹھالیا تاکہ انہیں بیت المال لے جائیں۔
آج بھی وہ نحیف و نزار اور مفلوک الحال جوڑا مجھے یاد آتا ہے تو میرا سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتا ہے کہ جیپ کے اندر میں ان دونوں کے برابر کیوں بیٹھا رہا۔ مجھے تو چاہئے تھا کہ میں ان کے گرد آلود پاؤں اپنی آنکھوں اور سر پر رکھ کر بیٹھتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے پاکیزہ سیرت لوگ پھر کہاں ملتے ہیں۔
(قدرت اللہ شہاب کی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ سے اقتباس)
امریکی خواتین نے ووٹنگ کے حق سے لے کرتاحال اپنی جدو جہد کے سفر میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ وہ نیو یارک کے علاقے، سینکا فالز میں قائم نیشنل ویمنز ہال میں پیش کی جاتی ہیں،جسے عرف عام میں خواتین کا’’ہال آف فیم‘‘ کہاجاتاہے۔
نیو یارک کے علاقے سنیکا فالز میں سن 1969 میں یہ ہال، جسے میوزیم کادرجہ حاصل ہوگیا ہے، ان امریکی عورتوں کی خدمات کو سامنے لانے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا ،جنہوں نے معاشرے کی فلاح کے لیے نمایاں کا م سرانجام دیئے اوردےرہی ہیں۔اس کی تعمیر کا ایک اہم مقصد آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ان کی خدمات اور تاریخ کو محٖفوظ کرنا ہے۔
میوزیم کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی شریک صدر کےمطابق، ہا ل آف فیم میں شمولیت کے لیے ہر امیدوار کو درخواست دینی ہوتی ہے اور پھر ایک طویل کارروائی کے بعد اس کا نام ہال آف فیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ہم اس میوزیم میں ہر دوسرے سال نمایاں کار ہائے انجام دینے والی خواتین کا اضافہ کرتے ہیں۔
خواتین کا ہال آف فیم ان خواتین کو خراج پیش کرتا ہے جنہوں نے خواتین کے حقوق کے لیے جدو جہد کی ۔ ہم اسے ایک ایسی جگہ سمجھتے ہیں جہاں سے خواتین کے حقوق کی جدو جہد کا آغاز ہوا۔
جب ہال آف فیم میں داخل ہوں تو وہاں خواتین کے حقوق کی علمبردار سوزن ایتھونی کا پلیٹ فارم دکھائی دے گا ۔ 1872 میں سوزن ایک ایسے وقت میں جب خواتین کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا ، اپنا ووٹ ڈالنے پر ایک سو ڈالر کے جرمانے کے الزام میں عدالت میں پیش ہوئی تھیں۔
اسی طرح ایک پلیٹ فارم ایلین کو لینز کا ہے ۔ وہ پہلی خاتون تھیں جو 1995 میں آٹھ روزہ خلائی مشن میں خلائی شٹل کی پائلٹ تھیں۔
ہال آف فیم کی خواتین میں پہلی خاتون صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن اور فلکی طبیعیات کی ماہر ڈاکٹرجوڈیٹھ پیفر بھی شامل ہیں۔ پیفر اُن لوگوں میں شامل تھیں، جنہوں نے چاند کی ٹیلی اسکوپک انفراریڈ تصاویر بنائیں تھیں۔ پیفر کہتی ہیں کہ ’’خواتین نے بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن انہیں ابھی بہت آگے تک جانا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ خواتین اور مرد یکساں عہدوں پر کام کر تے ہیں،لیکن اُن کی تنخواہوں میں عدم مساوات موجود ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ خواتین کا کبھی کبھی کم تر سطحوں پر تبادلہ بھی کر دیا جاتا ہے۔ بہت سی خواتین کاکمپنیوں میں سربراہوں، سی ای اوز یا صدور کے طور پر حصہ بھی بہت کم ہے‘‘۔
خواتین کی اجاگر کی جانے والی کامیابیاں اتنی زیادہ ہیں کہ ہال آف فیم کی دیواریں ان سے بھر چکی ہیں اور اب ایک نئی اور زیادہ بڑی جگہ کے لیے فنڈز اکٹھے کیے جارہے ہیں۔
اس ہفتے کا مسیج
آہستہ بولیں! قوم سو رہی ہے
ہم نے بہت بڑا ظلم کیا،جواپنی بچیوں کو سکھا دیا کہ تم ڈگریوں کے ڈھیر نہیں لگاؤگی تو تمہیں اچھا رشتہ نہیں ملے گا.اچھی ملازمت نہیں ملے گی،اچھا رتبہ نہیں ملے گا.
“اچھی عورت” کی ایسی ایسی نایاب تعریفیں رائج کردی گئیں کہ اب لڑکی بےچاری کو اچھا بننے کے لیے بڑی مشقت کرنی پڑتی ہے.پہلے اچھا طالبعلم بننے کے لیے جی جان سے محنت کرتی ہے،پھر اچھی بیٹی،بیوی،بہو بننے کے لیے اپنا آپ خرچتی ہے،کیونکہ وہ پڑھ لکھ جائے تب بھی گھر اور گھر کی ذمےداریاں اسے ہی اٹھانی ہوتی ہیں.
اور وہ اس فکر میں گھلنے لگتی ہے کہ ہر کام میں سلیقہ اور جدت لا سکے، ورنہ فورا طعنہ دے دیا جاتا ہے کہ ایسی تعلیم کا کیا فائدہ ،جب سیب کی بطخ اور گاجر کے پھول سلاد میں رکھنے کے لیے نہ بنانے آسکیں.
اس معاشرے کو عورت کی لاتعداد ورائٹی چاہئے.اچھی بیٹی،اچھی طالب علم،اچھی ڈاکٹر،اچھی انجینئر،اچھی باورچن،اچھی دھوبن…وہ بھی کولہو کے بیل کی طرح سب کرتی جاتی ہے اور جب اچھی ماں بننے کی باری آتی ہے تو وہ اتنا تھک چکی ہوتی ہے کہ دن انگلیوں پر گنتی ہے کہ بچہ تین سال کا ہو تو اسے کنڈرگارٹن میں ڈال کر پھر سے اچھی عورت ہونے کا ثبوت دے سکے.
لیکن سچ پوچھو تو تب اسے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ جن کے لیے اسے اچھا بہت اچھا ہونا چاہئے تھا،ان کے لیے ویسی اچھی نہیں ہوپارہی.. ( تنزیلہ ریاض)
جس عورت کی عمر سب سے زیادہ ہو
عورتوں نے بڑے بحث مُباحثے کے بعد ایک انجمن تشکیل دی۔ جب عہدوں کی تقرری کا وقت آیا تو یہ طے پایا کہ جس عورت کی عمر سب سے زیادہ ہو، صدارت کا منصب اسے سونپا جائے۔ عبوری کمیٹی سیکرٹری نے بآواز بلند خواتین سے درخواست کی۔
” آپ میں جن خواتین کی عمر سب سے زیادہ ہو، براہ کرم وہ کھڑی ہو کر مطلع فرمائیں!” اس درخواست کے بعد دس منٹ تک سیکرٹری نے جواب کا انتظار کیا لیکن جُملہ خواتین چُپ رہیں۔
آخر عبوری کمیٹی کی سیکرٹری نے دوسرے منصب کا اعلان کیا ” اور سیکرٹری کا منصباس خاتون کو پیش کیا جائے گا جو عمر میں سب سے کم ہو گی!” پھر درخواست کی۔
” براہ کرم وہ خاتون کھڑی ہو جائیں جو خود کو سب سے کم عمر سمجھتی ہوں!” دوسرے ہی لمحے شریک مجلس جملہ خواتین کھڑی ہو چکی تھیں۔
’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘
حمیرا شہباز
اقبال خودی اور خود شناسی کے علمبردار ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے انسانوں کی تربیت اور خود شناسی کا اہتمام کیا۔ عورت کے کردار پر ان کی خوب صورت شاعری ان کے اردو اور فارسی کلام کی زینت ہے۔ اقبال اپنی شاعری میں خواتین کے ہر کردار کی اہمیت کو سراہتے ہیں۔
علامہ کے نزدیک دین اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق عورت ہر حیثیت، یعنی بیٹی، بہن ، بیوی اور ماں کے روپ میں قابلِ تکریم ہے۔ عورت اپنی زندگی میں بتدریج مختلف کردار نبھاتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔
علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں تاریخ سے عمدہ مثالوں کی مدد سے عورت کے بہترین کردار کے راہنما اصولوں کا تعین کیا ہے۔دنیا میں ماں سے بڑھ کر کوئی بھی اتنی شیفتگی اور عشق سے اولاد کی جسمانی اور روحانی ضروریا ت کو پورا نہیں کرسکتا۔
ماں بچے کی پہلی تربیت گاہ ہے۔ ایک تعلیم یافتہ ماں‘ بالخصوص دینی تعلیم سے آراستہ‘ ماں ہی اولاد کی تعلیم میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ خود اقبال اپنی کامیابی کی وجہ اپنی ماں کی تربیت بتاتے ہیں، جو ان کے خاندان کی سربلندی کی وجہ بنی۔
علامہ اقبال کی والدہ ، امام بی بی نے دین اور دنیا دونوں اعتبار سے ان کی تربیت کا اہتمام کیا اورماں کی ہمت افزائی نےعلامہ کو زندگی کے مراحل میں مشکلات کا سامنا کرنے کی طاقت بخشتی ہے۔ وہ اپنی ماں کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر میرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا
دفتر ہستی میں تھی زرین ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیاکا سبق تیری حیات
قطع تیری ہمت افزائی سے یہ منزل ہوئی
میری کشتی بوس گستاخ لب ساحل ہوئی
علامہ اقبال نے اپنے کلام میں جا بجا ایسی تاریخ ساز خواتین کی مثالیں بیان کی ہیں جن کو وہ ملت آفرین سمجھتے ہیں ۔
اسلامی تاریخ میں عورتوں کی جہاد میں شمولیت کی مثالیں ملتی ہیں۔ فاطمہ بنت عبداللہ کی جو عرب کے قبیلہ البراعصہ کے سردار شیخ عبداللہ کی گیارہ سالہ بیٹی تھی جو 1912 میں جنگ طرابلس میں غازیوں کو پانی پلاتی شہید ہوگئی تھی۔ ’’بانگ درا‘‘ اقبال نے اس مجاہدہ کو قوم کی آبرو قرار دیا ہے:
فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرّہ ذرّہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے
یہ سعادت حور صحرائی! تری قسمت میں تھی
زیان دیں کی سقائی تیری قسمت میں تھی
یہ جہاد اللہ کے راستے میں بے تیغ و سپرہے
جسارت آفرین شوق شہادت کس قدر
پس علامہ اقبال عورت کو بیٹی کے روپ میں معصوم، با حیا ، تعلیم یافتہ،کافرانہ ادا سے عاری، ایک بہن کے روپ میں جرأت مند، بیوی کے روپ میں صبر اور تسلیم و رضا کا پیکر، شوہر کی دلجو، ماں کے روپ میں اولاد کی تربیت گاہ اور تقدیر امم،ایک مجاہدہ کے روپ میں، نڈر انسان، آبروئے امت،اور ایک فرمانروا کی حیثیت میں نیک نام، غمگسار، عادل اور فرض شناس انسان پاتے ہیں۔
ان خصوصیا ت کی حامل مثالی عورت ایک مثالی خاندان اور اس کے نتیجے میں ایک مثالی معاشرہ اور مثالی ملت تشکیل دیتی ہے اور ایسی ہی خواتین کے لئے اقبال نے فرمایا کہ:
’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘