• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بطور خاص : تبدیلی کا وقت آگیا

 عورتوں کو تشدد سے پاک زندگی، زمین اور پیداواری اثاثوں تک رسائی دینے اور تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے دیہی علاقوں میں اقدامات کرنا ضروری ہے

مہناز رحمن

امسال خواتین کے عالمی دن کا مقصد دیہی اور شہری خواتین کی زندگیوں میں تبدیلی لانے والی کارکنوں کی ان تھک کوششوں کو سراہنا ہے۔ خواتین تحریک کی سرگرم کارکنوں کی کاوشوں کے بار آور ہونے کا وقت آ پہنچا ہے۔ اس مرتبہ یہ دن عورتوں کے حقوق، مساوات، انصاف، جنسی ہراسانی، عورتوں کے خلاف تشدد اور امتیاز کے بارے میں حال ہی میں چلنے والی عالمی تحریک کے بعد آ رہا ہے۔ یہ تحریک شہ سرخیوں اور عوامی مباحث کا حصہ بنی اور تبدیلی لانے کا عزم مضبوط ہوتا چلا گیا۔ دنیا بھر میں لوگ ایک ایسے مستقبل کے لئے جمع ہو رہے ہیں، جو زیادہ مساوی ہو گا۔ کہیں عالمی مارچ ہو رہے ہیں، کہیں تحریکیں چلائی جا رہی ہیں۔

 ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ہیش ٹیگ می ٹو اور دیگر ممالک میں بھی جنسی ہراسانی اور تشدد کے خلاف ایسی ہی تحریکیں چلائی جا رہی ہیں، جیسے میکسکو، اسپین، سائوتھ امریکا اور دیگر ممالک میں ہیش ٹیگ یو ٹیمبین، اٹلی میں ہیش ٹیگ کویلا وولٹاچے،فرانس میں ہیش ٹیگ بیلنس ٹون پورک،عرب ممالک میں ہیش ٹیگ انا-کمن،ارجنٹائن سے شروع ہونے والی عورتوں کے قتل کے خلاف تحریک نی انا مینوس(ایک کم نہیں)اور ایسی بہت سی تحریکیں جوعورتوں کے لئے مساوی معاوضہ سے لے کر سیاسی شراکت جیسے متنوع موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔

عورتوں کا عالمی دن 2018 ء ہمیں اس جذبے کو عملی شکل دینے کا موقع فراہم کرتا ہے، تا کہ عورتیں خواہ دیہی ہوں یا شہری انہیں خود مختار بنایا جائے اور ان ایکٹوسٹس کو سراہا جائے ،جو عورتوں کے حقوق اور ان کی صلاحیتوں کو سامنے لانے کے لئے ان تھک کام کر رہی ہیں۔اقوام متحدہ دیہی عورتوں کے حقوق اور ان کے ایکٹوزم کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتی ہے ۔یہ عورتیں دنیا کی افرادی قوت کا 43فی صد اور مجموعی آبادی کا ایک چوتھائی ہیں۔یہ عورتیں لوگوں کا پیٹ بھرنے کے لئے کاشتکاری کرتی ہیں،لیکن صنفی امتیاز کی وجہ سے مردوں اور شہری عورتوں سے پیچھے رہ جاتی ہیں۔

یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اقوام متحدہ کی جانب سے 2007سے دیہی عورتوں کا دن ہر سال پندرہ اکتوبر کو منایا جاتا ہےاور امسال عالمی دن کے موضوع میں دیہی ایکٹوسٹس کو بھی شامل کیا گیا ہے۔پاکستان کے دیہات میں عورتوں کے لئے کام کرنے والی خواتین آواران، تھر پارکر، چولستان اور ہنزہ جیسے دُور دراز علاقوں میں بھی سرگرم ہیں۔دیہی آبادی پاکستان کی کل آبادی کا 61.4فی صد ہے، جس میںعورتوں کی تعداد 50.8 فی صد ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دیہی لیبر فورس میں عورتوں کی شراکت16.8 فی صد ہے،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ79.4فی صد خواتین زراعت کے شعبے میں کام کرتی ہیں،یعنی مردوں کے مقابلے میں عورتیں زراعت کے شعبے میںزیادہ کام کرتی ہیں۔دیہات اور شہروں میں گھر مزدور خواتین، یعنی ہوم بیسڈ ورکرز بھی پاکستان کی معیشت میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔

پاکستان کی دیہی اور شہری ایکٹوسٹس کی رائے میں عورتوں کے حالات بہتر بنانے کے لئے پدر سری اور مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ ضروری ہے۔دیہات میں جاگیردارانہ نظام بھی عورتوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

ان عورتوں کا مطالبہ ہے کہ مرد کسان کی طرح عورت کسان کی حیثیت کو بھی تسلیم کیا جائے، غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو سہولتیں فراہم کی جائیں،عوامی نمائندگی کے اداروں میں عورتوں کے لئے 33فی صد نشستیں مخصوص کی جائیں، لوکل باڈیز اور براہ راست انتخابات میں عورتوں کی نشستیں بڑھائی جائیں۔

خواتین کے حوالے سے بننے والے قوانین پر عملدرآمد کیا جائے۔غیر مسلم پاکستانی خواتین کوتحفظ فراہم کیا جائے۔ہر طرح کے تشدد کا خاتمہ اور تشدد کا شکار بننے والی خواتین کو معاشرے میں با وقار زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔فوڈ سیکورٹی کو بہتر بنایا جائے، معذور افراد کے لئے خصوصی کوٹہ رکھا جائے۔

دیہی عورتیں اُسی وقت غربت، محتاجی اور اسستحصال سے نجات پا سکتی ہیں، جب انہیں زمین کے مالکانہ حقوق دئیے جائیں۔ پاکستان میں زرعی اصلاحات کی جائیں،وراثت، معائلی تعلقات اور خاندانی امور میں انہیں برابری کا درجہ دیا جائے، گھر سے باہر نکلنے،اپنی رائے کا اظہار کرنے اورتنظیم سازی کا حق دیا جائے۔

عورتوں کے عالمی دن سے چند روز قبل یو نیسیف کی ایک تشویش ناک رپورٹ سامنے آئی، جس کے مطابق پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ظاہر ہے اس مسئلے کا تعلق براہ راست خواتین سے ہے، اس کا مطلب ہے کہ خاندان، معاشرہ اور ریاست حاملہ عورتوں کی صحیح دیکھ بھال نہیں کر پا رہے۔ اس دنیا میں آنے والے ہر بچے کو زندہ رہنے کا حق ہے، اس کے لئے ہمیں ہر ماں اور اس کے بچے کے لئے قابل استطاعت طبی دیکھ بھال کی سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی۔

 رپورٹ کے مطابق تربیت یافتہ دائیوں، جراثیم کش ادویات، صاف پانی، ماں کے دودھ اور اچھی غذا کے ذریعے اّسی فی صد اموات کو روکا جا سکتا ہے۔ غریب ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ تربیت یافتہ طبی عملے کی کمی ہے۔

دنیا کے غریبوں میں اکثریت عورتوں کی ہے۔ دنیا کی دولت تک ان کی غیر مساوی رسائی کی وجوہات اقتصادی بھی ہیں اور ثقافتی بھی۔ عورتوں کے ساتھ شروع سے ہی امتیاز روا رکھا گیاہے۔ انہیں مردوں کے مقابلے میں یکساں کام کا کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔بہت کم عورتیں جائیداد کی مالک ہیں۔غربت اور ماحولیاتی انحطاط سے عورتیں زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔

گھروں میں بچوں، بوڑھوں اور مریضوں کی دیکھ بھال بھی عورتوں کی ذمے داری ہے۔اب اسے کئیر اکانومی کا نام دیا گیا ہےاور یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ بچوں، بوڑھوں اور مریضوں کی دیکھ بھال صرف عورتوں کی نہیں، بلکہ مردوں،خاندانوں، کمیونیٹیز اور سرکاری اور نجی شعبے کی یکساں ذمے داری ہونی چاہیے۔عورتیں بہت سے کام بلا معاوضہ کرتی ہیں، اس لئے ان کاموں کو نہ تو اہمیت دی جاتی ہے اورنہ سرکاری اعداد و شمار میں شامل کیا جاتا ہے۔

پاکستان کے صوبہ سندھ میں عورتوں کو زمینوں کے مالکانہ حقوق دینے کا قدم اٹھایا گیا ہے۔اس کے علاوہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت بھی عورتوں کی مالی مدد کی جا رہی ہے۔مائیکرو فنانس بینک قائم کئے گئے اور رورل اسپورٹ پروگرامز شروع کئے گئے ہیں۔ 

این جی اوز بھی اس کے لئے کام کر رہی ہیں۔ عورتوں کو پھل اور سبزیاں محفوظ کرنے اور اپنی بنائی ہوئی چیزیں مارکیٹ میں لےجانے کی تربیت دی جا رہی ہے۔ ان سارے اقدامات کے باوجود عورتوں اور بچوں پر ہونے والے مظالم اور تشدد میں کمی نہیں آ رہی، حالانکہ ہماری حکومتوں نے بہت سے بین ا لاقوامی معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں اور ہمارا آئین بھی بنیادی آزادیوں کی ضمانت دیتا ہے، لیکن سماجی تعصبات، امتیازی قوانین اور نا اہل سرکاری اداروں کی وجہ سے عورتوں کی سلامتی، اُن کا سماجی اور سیاسی مقام خطرے میں رہتا ہے۔

پاکستان کی ایک بیٹی ملالہ یوسف زئی 2014میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کی اپنی کوششوں کی وجہ سے امن نوبل انعام حاصل کر چکی ہے۔ یہ نو عمر ایکٹوسٹ اُس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنی، جب 2012میں ملا فضل الہہ کی تحریک طالبان نے سوات میں اس پر قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ پاکستان میں صنفی عدم برابری اور عورتوں پر تشدد کا خاتمہ اشد ضروری ہے۔ عورتوں کی زندگی میں تبدیلی لانے کا وقت آ گیا ہے۔

 اقوام متحدہ کا وعدہ ہے کہ کسی کو پیچھے نہیں چھوڑا جائے گا۔ لوگوں کو خاطر خواہ معیار زندگی فراہم کرنے، عورتوں کو تشدد سے پاک زندگی، زمین اور پیداواری اثاثوں تک رسائی دینے، تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے دیہی علاقوں میں اقدامات کرنا ضروری ہے۔ دیہی خواتین اور ان کی تنظیمیں اس حوالے سے کام کر رہی ہیں۔

ترقی پسند حلقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات:

عورتوں کے عالمی دن اور اقوام متحدہ کی عورتوں کے حوالے سے ترقی پسند حلقوں کی جانب سے اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے کہ کیا کسی ایسے اقتصادی نظام کے تحت فیمنزم اور فیمنسٹ تحریکوں کی اقدار کو سامنے لایا جا سکتا ہے، جو محنت کش طبقے کے استحصال کے ذریعے منافع خوری میں یقین رکھتا ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ کچھ فیمنسٹس نے خود کو مساوی معاوضہ جیسے مطالبات تک محدود رکھا ہوا ہے، لیکن سماجی انصاف اور مساوات پر مبنی معاشرے کے لئے اس سے آگے بڑھنا ہو گا۔ 

سرمایہ دارانہ نظام اپنی موجودہ شکل میں جس طرح عورتوں کے حقوق کی تحریک کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے، اس کے خلاف سب سے زور دار احتجاج نینسی فریزر نے کیا ہے، وہ ایک فیمنسٹ مفکر اور اس فیمنسٹ مکتب کا حصہ ہیں، جو انصاف کے تصور کے بارے میں زیادہ فکر مند رہتی ہیں، خاص طور پر وسائل کی تقسیم، مختلف گروہوں کی محنت کو تسلیم کرنا اور (لسانی)نمائندگی۔ 

ان کی رائے میں مارکسی نظریے کا تعلق وسائل کی تقسیم سے ہے۔ اُنہوں نے مارکس کی سرمایہ کی تعریف کو از سر نو یوں دریافت کیا ہے:یہ ایک سماجی تعلق ہے، ذرائع پیداوار رکھنے والوں اور ان لوگوں کے درمیان جو صرف اپنی محنت کی صلاحیت کو بیچ کے ان ذرائع پیداوار تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ نینسی فلسفے اور سیاسیات کی پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غربت اور عالمگیریت کے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے صنفی مساوات کے فروغ کی بین الا قوامی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ 

نسائی حقوق کی تحریک عورتوں کے مقام کو تسلیم کرانے کی کوشش میں کچھ نا مطلوب نتائج بھی حاصل کر چکی ہے، فلاحی ریاست پر ان کی تنقید نیو لبرل ازم کے حق میں گئی، یعنی اس نظام کے حق میں جو غریبوں کو غریب تر کر رہا ہے اور اب نینسی فریزر نے سوال اٹھایا ہے کہ فیمنسٹس اپنی تحریک کے انقلابی وعدے کو دوبارہ کیسے حاصل کر سکتی ہیں؟ اس سوال کا جواب صرف عورتوں پر نہیں، بلکہ ہر اس شخص پر فرض ہے، جو غریبوں کا خون چوسنے والے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہے۔

ایک زمانے میں فیمنسٹ خواتین اس معاشرے پر تنقید کرتی تھیں، جو کیرئیرازم کو فروغ دیتا تھا، لیکن اب وہ خود کیرئیر کی طرف جھکائو رکھتی ہیں۔ سماجی یکجہتی کو ترجیح دینے والی یہ تحریک اب کاروباری خواتین کی کامیابیوں کا جشن مناتی ہے۔

 پہلے دوسروں کی دیکھ بھال اور باہمی انحصار کو اہمیت دی جاتی تھی، اب انفرادی ترقی اور ذاتی صلاحیتوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ نئی نسل کی خواتین کو ایک سیاسی اور اجتماعی فیمنزم یا حقوق نسواں کی تحریک کو فروغ دینا چاہیے۔ اس تحریک کی دوسری لہر کی سرگرم کارکنوں کی حکمت عملی پر انحصار کرتے ہوئے اکیسویں صدی کے مادی حقائق اور ثقافت کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔

سماجی تبدیلی کے لئے عورتوں کی جدوجہد بنیادی طور پر وسائل،علم اور اختیارات کی طبقاتی جنگ ہے۔ اس وقت عالمی آمدنی کا ۸۳فی صد حصہ دنیا کے ۲۰ فی صد امیر ترین افراد کے پاس ہے، جب کہ دنیا کے بیس فیصد غریب افرادکے حصے میں عالمی آمدنی کا صرف ایک فی صد حصہ آتا ہے۔

 سوویت یونین کے انہدام اور چین کی پالیسیوں میں تبدیلی کے بعد نسائی ثقافتی سیاست کی توجہ اب صنفGENDER,،نسل، جنسیت اور طبقے پر تو ہے لیکن اب وہ عورتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف لڑائی کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جنگ سے جوڑ نہیں پا رہیں۔ ہم ان مادی حقائق کو جھٹلا نہیں سکتے، جو صنف (GENDER)نسل، جنسیت اور طبقے کا تعلق محنت سے جوڑتے ہیں۔ 

بطور خاص : تبدیلی کا وقت آگیا

مسئلہ وہی پرانا ہے کہ عورت کی محنت کو تسلیم نہیں کیا جاتا، عورت بچوں کی پرورش کرتی ہے، بیماروں اور ضعیفوں کی دیکھ بھال کرتی ہے اور گھر سے باہر کم اجرت پر کام بھی کرتی ہے اور یوں خود غریب رہ کر سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ سماجی طور پر ضروری محنت عورت ہی کرتی ہے، مگر اس کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا، کیونکہ وہ بلا معاوضہ ہوتی ہے۔ اس بات کو یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ صنف اور نسل سے قطع نظر غربت سرمایہ داری نظام کا لازمی حصہ ہے اور بچے اور مردبھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ 

۱۹۹۰ء میں عالمی بینک نے کہا تھا کہ ایک ڈالر یومیہ سے کم میں گزارا کرنے والے انتہائی غریب ہوتے ہیں۔ ۲۰۰۸ء میں اسے تبدیل کر کے سوا ڈالر یومیہ مقرر کیا گیا۔ غربت کے اس پیمانے پر لوگوں کو یہ اعتراض رہا ہے کہ اس میں صرف آمدنی اور اخراجات پر توجہ دی گئی ہے، جب کہ غربت کے مسائل اور بھی ہیں، جن میں خوراک، پینے کا صاف پانی، صفائی کی سہولتیں، صحت کی سہولتیں، سر چھپانے کا ٹھکانہ، تعلیم اور سماجی خدمات تک رسائی بھی شامل ہے۔

عالمی بینک کی ۲۰۱۵ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی پچاس فی صد سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ اب بین الاقوامی غربت کی لکیردو ڈالر یا ۲۰۵ روپے کی کمائی پر کھینچی جاتی ہے۔ پاکستان کی بارہ اعشاریہ سات فی صد آبادی سوا سو روپے روزانہ، یعنی انتہائی غربت کے عالم میں گزارہ کرتی ہے۔ اس طرح کے پیمانے مقرر کرنے کا ایک نقصان یہ ہوا کہ حکومتوں کی ساری توجہ اقتصادی نمو یا گروتھ پر مرکوز رہی۔ سماجی عدم مساوات، یعنی امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق اور ماحولیات پر ان پالیسیوں کے مضرت رساں اثرات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

دیہی اور شہری ایکٹوسٹس کو عالمی دن کے موقع پر سراہتے ہوئے یہ نہ بھولیں کہ پاکستان کی نصف آبادی خط غربت سے نیچے رہ رہی ہے۔ دیہی علاقوں میں صورتِ حال زیادہ تشویش ناک ہے۔ اگر ہم سندھ کے حالات پر نظر ڈالیں تو ہمیں صرف شکارپور میں ہر ۱۰۰ میں سے ۳ ۲بچے غذائی کمی کا شکار نظر آتے ہیں۔

 سندھ کی ۷۰ فیصد سے زیادہ مائیں وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی نصف تعداد کی نشوونما صحیح نہیں ہو رہی اور چالیس فی صد بچے وزن کی کمی کا شکار ہیں۔ قومی غذائی سروے ۲۰۱۱ء کے مطابق سندھ میں بچوں اور عورتوں میں غذائی کمی کی شرح پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ہے۔

ایک طرف تو ہم سندھ میں عورتوں کے حق میں قانون سازی پر فخر کر سکتے ہیں۔ گو ہم عورتوں پر گھریلو تشدد اور کم عمری کی شادی کے خلاف قوانین بنوا چکے ہیں۔ عورتوں کے خلاف رسوم و رواج کے خاتمے کا قانون بھی بن چکا ہے، مگر دوسری طرف آج بھی سندھ کی بیٹیوں کو کاری کیا جا رہا ہے۔ دیہات میں کم عمری کی شادیاں روکنا بھی ایک چیلنج ہے اور عورتوں پر گھریلو تشدد کی روک تھام نہیں ہو پا رہی۔ قوانین سے آگاہ نہ ہونے اور سماجی دبائو کی وجہ سے ایسے کیسیز رپورٹ نہیں ہوتے۔ 

علاوہ ازیں عورتوں پر ہونے والے تشدد کی روایتی اقسام کے بارے میں تو بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، لیکن جدید سائنسی ایجادات کی مدد سے عورتوں پر ہونے والے تشدد کے بارے میں لوگوں کو اتنی آگاہی نہیں ہے۔ ہر نئی سائنسی ایجاد جہاں ہمارے لئے بے شمار فائدے لے کر آتی ہے، وہیں اس کا غلط استعمال تکلیف اور اذیت کا باعث بھی بنتا ہے۔مثال کے طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بہت سے فوائد کے ساتھ سائبر جرائم بھی ہو رہے ہیں۔

 اسے آپ عورتوں پر ہونے والے تشدد کی جدید ترین شکل بھی کہہ سکتے ہیں۔ انٹر نیٹ تک رسائی، موبائل فونز کا بڑھتا ہوا استعمال۔ سوشل میڈیا ایک طرف تو عورتوں کے مسائل کو سامنے لانے اور ان پر تشدد کے خاتمے میں مدد تو دیتا ہے، لیکن دوسری طرف یہ عورتوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بھی بن رہا ہے۔ عورتوں پر ہونے والا سائبر تشدد ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے، اس کے انسانی معاشروں اور معیشتوں پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد پائیدار ترقی کے اہداف خاص طور پر صنفی مساوات اور عورتوں کی خود مختاری کے حصول کو مشکل بنا دے گی۔

کوئی دن نہیں جاتا کہ کوئی لڑکی یا عورت اپنے اوپر ہونے والے جسمانی یا زبانی تشدد کی شکایت لے کر سامنے نہ آتی ہو۔ نو عمر لڑکیاں آن لائن ہراسیت کی وجہ سے خود کشی کر رہی ہیں۔ سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ سندھ میں انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کے کمیشن اور دیگر ادارے بھی ان مسائل کو حل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔

کیا عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ پر حقوق مخالف عناصر کا دبائو بڑھ رہا ہے؟

دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے انسانی حقوق کے لئے گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے، لیکن یہ سب کچھ خلا میں نہیں ہو رہا، اس کا تعلق جفرافیائی سیاست، بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور اقتصادی تفاوت، تنازعات، عسکریت پسندی اور دیگر سیاسی، سماجی اور اقتصادی عوامل سے ہے، جن کی بنا پر شدت پسند عناصر علاقائی اور بین الاقوامی پالیسیوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ یہ عناصر اقوم متحدہ میں بھی سرگرم نظر آتے ہیں۔یہ عناصر انسانی حقوق کے بنیادی تصورات، اداروں اور تحفظات کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے انسانی حقوق اور صنفی انصاف پر تباہ کن اثرات ہوں گے۔ 

اس میں جنسی حقوق، تولیدی حقوق، مساوی املاک اور وراثت کے حقوق، عائلی قانون میں ہر لحاظ سے مساوی حقوق اور اظہار رائے، عقیدہ اور اجتماع کی آزادی جیسے بہت سے حقوق شامل ہیں۔

 بین الاقوامی سطح پر یہ حقوق مخالف عناصر گزشتہ تین دہائیوں میں فیمنسٹس اور ترقی پسند کاوشوں کے رد عمل کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ یہ ایک رجعت پسند تبدیلی لانا چاہتے ہیں، یہ جدیدیت کی مخالفت کرتے ہیں، حالانکہ خود جدیدیت کی پیداوار ہیں اور اپنی لڑائی جدید آلات کی مدد سے ہی لڑتے ہیں، بہر حال ہر سال عورتوں کا عالمی دن منانے کا مقصد ان کی سماجی، اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی کامیابیوں کو سراہنا ہے۔ اس دن صنفی مساوات کے لئے کئے جانے والے اقدامات میں تیزی لانے کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے۔ ’’عورتوں کی مساوات کے حصول کی جدوجہد کی کہانی کسی ایک فیمنسٹ خاتون یا تنظیم سے تعلق نہیں رکھتی۔

 اس کا تعلق انسانی حقوق کے علمبرداروں کی مشترکہ کاوشوں سے ہے‘‘(گلوریا اسٹینم)۔ عورتوں کے عالمی دن کا مقصد یہ ہے کہ ہم اکٹھے ہوں،خوشیاں منائیں، سوچ بچار کریں، پیروکاری کریں اور عملی قدم اٹھائیں۔ یہ دن ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ سے منایا جا رہا ہے اور ہر سال اس کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

 1996 سے اقوام متحدہ نے عورتوں کے عالمی سال کے لئے ایک موضوع کا اعلان کرنا شروع کیا۔ پہلا موضوع’’ماضی کا جشن منانا۔ مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا‘‘تھا۔ 1997کا موضوع’’عورتیں مذاکرات کی میز پر‘‘1998 کا موضوع’’عورتیں اور انسانی حقوق‘‘ تھا۔

 1999 کا موضوع تھا ’’عورتوں پر تشدد سے پاک دنیا‘‘ ، اسی طرح یہ سلسلہ چل رہا تھا،مگرنئے ہزارئیے2000 کے آغاز تک بہت سے ملکوں میں عالمی دن کی سرگرمیاں ماند پڑ گئی تھیں،دنیا آگے بڑھ گئی تھی اور فیمینزم ایک مقبول موضوع نہیں رہا تھا۔

عالمی دن میں پھر سے جان ڈالنا ضروری تھا۔فوری کام کی ضرورت تھی، لڑائیاں ابھی جیتی نہیں گئی تھیں، صنفی مساوات ابھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔اس دن کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور عورتوں کی کامیابیوں کا جشن منانے کے لئے Theglobal internationalwomensday.com ۔digital hubکا آغاز کیا گیا۔اب ہر سال لاکھوں لوگ عالمی دن کے موقع پر اس ویب سائٹ پر جاتے ہیں۔

صنفی مساوات پر یقین رکھنے والی کارپوریشنیں اس ویب سائٹ کی اعانت کرتی ہیں۔گرل گائیڈ اور گرل اسکائوٹس کی عالمی ایسوسی ایشن کے ذریعے عالمی دن کے لئے فنڈز جمع کئے جاتے ہیں۔ 2011 میں عورتوں کے عالمی دن کی سو سالہ سالگرہ منائی گئی۔ 

امریکا کی اُس وقت کی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہلیری کلنٹن نے "100 Women Initiative: Empowering Women and Girls through International Exchanges". نامی مہم کا آغاز کیا۔برطانیہ میں مشہور ایکٹیوسٹ اینی لینوکس نے لندن پل پر ایک بے مثال جلوس کی قیادت کی۔بہت سے رفاہی اداروں نے خصوصی تقریبات منعقد کیں۔

2018 کے آتے آتے عورتوں کی مساوات اور آزادی کے بارے میں خود عورتوں اور معاشرے کی سوچ اور رویوں میں کافی تبدیلی آئی ہے۔

عورتوں کے عالمی دن کی تقریبات میں امسال دیہی خواتین کے حالات توجہ کا مرکز بنیں گے۔یو این ویمن کا کہنا ہے کہ عورتوں کا عالمی دن ہر طبقے کی عورت خواہ دیہی ہو یا شہری کو با اختیار بنانے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر ان ایکٹوسٹس کو خراج تحسین پیش کیا جائے گا، جنہوں نے عورتوں کے حقوق کے لئے ان تھک کام کیا ہے۔یو این ویمن کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں عورتوں اور مردوں کی اجرتوں میں 23 فی صد فرق پایا جاتا ہے، لیکن دیہی خواتین کے مقابلے میں یہ فرق چالیس فی صد تک پہنچ جاتا ہے۔

دیہی عورتیں کاشتکاری کرتی ہیں، غلہ اگاتی ہیں، لوگوں کا پیٹ بھرتی ہیں،غذائی سیکورٹی کی ضمانت دیتی ہیں اور ماحول کی حفاظت کرتی ہیں،لیکن پھر بھی دیہی مردوں اور شہری عورتوں کے مقابلے میں کہیں بری زندگی گزارتی ہیں۔

عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر شہری اور دیہی ماحول میں صنفی مساوات اور عورتوں کی خود مختاری کے حصول کے لئے عورتوں کی آواز، شراکت اور قیادت پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔بعد میں اسی موضوع پر اقوام متحدہ کے کمیشن برائے مرتبہ ء خواتین کے باسٹھویں اجلاس میں ۱۲تا ۲۳ مارچ ۲۰۱۸ء نیو یارک میں گفتگو ہو گی۔ عورتوں اور سول سوسائٹی کے لئے سکڑتی ہوئی جگہ اور جمہوریت اور اقتصادی گورننس میں سول سوسائٹی کی شراکت اور قیادت جیسے مسائل پر غور وفکر ہو گا۔          

تازہ ترین