محمد فیصل
میرے خیال میں شاعری اپنے جذبات و احساسات کو سلیس اور سارہ زبان میں مختلف تشبیہات اور استعاروں سے بیان کرنے کا نام ہے۔ اساتذہ اور دیگر شعراء بھلے اس تعریف کو نہ تسلیم کریں، مگر یہ ایک بالکل عام قاری کے ذہن میں آنے والا خیال ہے۔ میرے نزدیک اچھی شاعری وہ ہے، جس میں اپنے آپ پر گزرنے والی واردات میں آپ دوسروں کو اس طرح شریک کرتے ہیں کہ آپ کے محسوسات صرف آپ کے نہیں رہتے، بلکہ اس میں آپ کا قاری بھی شریک ہوجاتا ہے۔ اُردو یا لشکری زبان کے آغاز کے ساتھ ہی اس زبان کے بہت سے شاعر، مشہور اور معروف ہوگئے۔
ابتدا میں فارسی کا بہت گہرا رنگ اُردو شاعری پر چڑھا رہا، جسے انیسویں صدی میں شعرائے کرام نے خالص اُردو کے قالب میں ڈھالا۔ مختلف مکاتب فکر وجود میں آگئے، جن میں دو مکاتب، میر اور غالب آج بھی شعرائے کرام کی بنیادی تقسیم کا اہم ذریعہ ہیں۔ اُن دونوں شعراء نے اُردو شاعری پر بہت گہرا اثر ڈالا۔
مجھے اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ان دونوں اساتذہ نے نہ صرف اپنے زمانے کے لیے شاعری کی، بلکہ آنے والے تمام زمانوں کو اپنے شعروں کا تحفہ دیا۔ ان اساتذہ کے بعد اُردو شاعری نے بہت بڑے بڑے نام پیدا کیے، جن میں حالی، اقبال، داغ، ذوق، ظفر علی خان اور پھر ان کے بعد آنے والوں میں فیض، عالی، جالب، فراز وغیرہ شامل ہیں، اس قبیلے میں اقبال و حالی نے امت مسلمہ کو مخاطب بنایا اور ایک مشن کے تحت شاعری کی۔ بعد میں فیض اور ناصر کاظمی نے عام ڈگر سے ہٹ کر ایک نئی راہ اپنائی۔
اسی قبیلے کے اہم رکن، اسلم کولسری بھی ہیں، جن کے فن اور عمدہ شاعری سے آپ کو روشناس کروانے کی ایک کوشش یہ مضمون ہے۔
ہمارے ہاں آج بھی ہجر، جدائی، وصال، نشہ آنکھیں اور ان جیسی بے شمار اصطلاحات، جو اُردو شاعری کے آغاز سے ہی موضوعِ سخن رہی ہیں، شد و مد کے ساتھ آباد ہیں اور عام ڈگر کے شاعر ان کو اپنی شاعری میں استعمال کر کے قاری اور شاعری دونوں کا امتحان لیتے ہیں اور آخر میں قاری اور شاعری دونوں شرمندہ ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایسے شاعر بھی موجود ہیں، جو تول کہ شاعری کرتے ہیں۔ جی ہاں، جب لکھے ہوئے کاغذوں کا وزن ایک کلو ہوگیا تو ایک کتاب تیار۔
اس طرح شاعری میں اوزان کی اہمیت ہوتی ہے، تاہم اس وزن سے قطع نظر، شاعر موصوف، ٹنوں کے حساب سے شاعری کرچکے ہیں اور جب کتابیں بکنا بند ہو گئی تو کسی نجی چینل پر میزبانی۔ اپنی شاعری گائیں اور سنائیں گے بھی۔ ایک بڑے شاعر ایسے بھی گزرے ہیں کہ ایک رسالہ نکالتے تھے، جس میں شائع کروانے کے لیے آنے والی اچھوتی شاعری کی طرز پر پہلے اپنی نظم یا غزل چھاپ لی، پھر اس غریب کی شاعری شائع کی، جو ان عظیم مرتبہ شاعر کی نقل ظاہر ہوتی تھی، پھر ایک گروہ ایسا ہے، جو دھڑے بندی کر کے کسی مقام تک پہنچا اور پھر!! پچھلے چند سالوں سے ایک اور طرز کی بنیاد پڑی ،جس میں اپنی کتاب کو سرخ رنگ سے سجا کر ساتھ ایک سی ڈی فری اور ویلٹنائن ڈے کا تحفہ تیار۔
یاد رہے کہ یہ مقدمۂ شعر و شاعری نہیں ہے ،بلکہ اس تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ آج بھی ایسے شاعر ہیں، جو اُردو میں ایسی شاعری کررہے ہیں کہ عام ڈگر سے ہٹ کر اور انوکھی ہے۔
اسلم کولسری نے مختصر اور طویل دونوں بحروں میں اچھوتی اور عمدہ غزلیں تخلیق کی ہیں۔ ان کی ذاتی زندگی کے تجربات، ان کی شاعری پر بہت زیادہ اثر انداز ہوئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک عام آدمی، جن مصائب کا سامنا کرتا ہے اور معاش کے لیے جن خاردار راستوں پر گزرتا ہے، جن مصائب کا اسے سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ تمام کے تمام اپنی تلخ حقیقتوں سمیت ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری کی مثال ایسے دی جاسکتی ہے۔
جیسے بانسریا کی مدھر آواز میں کسی ڈار سے بچھڑی کونج کی آہ شامل ہوجائے، جیسے گھائل ہوکر گرنے والا پرندہ گرتے گرتے نظر اٹھا کر آسمان کو دیکھتا ہو یا جیسے کسی حساس دل پر کوئی ناگہانی آفت بیت جائے۔ اُن کی شاعری میں گائوں کی فطری سادگی ، پھر اس سادگی کے خاتمے کا دکھ، مشینوں کا راج، ہجرت کرنے کا دکھ، اپنی مٹی سے بچھڑ جانے کا دکھ، اپنا آپ بھلا دینے کا غم، معاشی ناہمواری کا نوحہ، سب اپنی شدت کے ساتھ اثر انداز ہوئےہیں۔