منور مرزا
ڈاکٹر مہاتیر محمد ایک مرتبہ پھر ملائیشیا کی قیادت کے لیےرواں برس اگست میں مُلک میں ہونے والے عام انتخابات میں حصّہ لے رہے ہیں اور یہ پوری دُنیا کے لیے ایک بہت بڑی خبر ہے۔ وہ 4جماعتوں پر مشتمل متّحدہ اپوزیشن کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں اور ملائیشیا کے موجودہ وزیرِ اعظم، نجیب رزاق کے خلاف الیکشن لڑیں گے، جن کی جماعت کا نام ’’یونائیٹڈ ملایا آرگنائزیشن‘‘ ہے۔ آج عالمی طاقتوں اور علاقائی ممالک کے درمیان کشمکش کی وجہ سے جنوب مشرقی ایشیا میں خاصا تنائو پایا جاتا ہے اور اس اعتبار سے بھی مہاتیر محمد کا ملائیشیا کی سیاست میں دوبارہ فعال ہونا، خطّے اور بالخصوص امریکا اور آسیان ممالک کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ مہاتیر محمد بِلاشُبہ موجودہ ترقّی یافتہ اور جدید ملائیشیا کے معمار ہیں ۔
آج ملائیشیا میں جمہوریت بھی ہے، ترقّی بھی اور اسلامی اقدار بھی۔ مہاتیر محمد 1981ء سے 2003ء تک ملائیشیا کے وزیرِ اعظم رہے اور یوں انہوں نے سب سے طویل عرصے تک ایک منتخب وزیرِ اعظم کے طور پر حُکم رانی کا ریکارڈ قائم کیا۔ مہاتیر محمد ہی نے ملائیشیا کی موجودہ سمت کا تعیّن کیا، جس کی وجہ سے یہ آج پوری دُنیا میں ایک باوقار مُلک کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
اپنے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں مہاتیر محمد مغرب کے بہت بڑے ناقد رہے، جس کی وجہ سے انہیں بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اختلافات کو ملائیشیا کی ترقّی میں کبھی رُکاوٹ نہیں بننے دیا۔ انہوں نے اقتصادی معاملات میں امریکا، یورپ اور خطّے کے ممالک سے اچّھے مراسم قائم رکھے، جس کا فائدہ ملائیشین عوام کو پہنچا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انہیں پیار سے ’’ڈاکٹر ایم‘‘ یا ’’بزرگ لیڈر‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
مہاتیر محمد کم و بیش 15برس بعد 93برس کی عُمر میں ملائیشیا کی سیاست میں واپس آ رہے ہیں اور اگر وہ انتخابات میں کام یاب ہو جاتے ہیں، تو وہ دُنیا کے معمر ترین منتخب وزیرِ اعظم ہوں گے۔ مہاتیر محمد 1925ء میں ملائیشیا کے الوٹر نامی گائوں میں ایک نچلے متوسّط طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے میں پیدا ہوئے اور 10بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ اُن کے والد معلّم تھے۔
مہاتیر محمد بچپن ہی سے سخت محنت کے عادی تھے اور انہوں نے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کیلے بھی فروخت کیے۔ اُن کی زندگی کے ابتدائی برسوں میں ملائیشیا، برطانیہ کی کالونی تھا اور تب چینی اور ہندوستانی باشندوں کا اس کی معیشت پر کنٹرول تھا۔ مہاتیر ایک ذہین اور محنتی طالبِ علم تھے اور انہوں نے اپنے پورے تعلیمی کیریئر میں شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ وہ ابھی ہائی اسکول سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ اُن کا مُلک دوسری جنگِ عظیم کی لپیٹ میں آ گیا اور جاپان نے اس پر قبضہ کر لیا۔
دورانِ جنگ تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے، تو مہاتیر محمد نے فارغ بیٹھنے کی بہ جائے کافی اور کیلے فروخت کرنا شرع کر دیے۔ جنگ کے بعد انہوں نے سنگا پور میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد طب ہی کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ وہ ایک کام یاب معالج ثابت ہوئے اور اپنی ذہانت و محنت کی بہ دولت خُوب پیسا اور عزّت کمائی۔ تاہم، وہ دَورِ طالب علمی ہی سے سیاست داں بننا چاہتے تھے اور حصولِ تعلیم کے دوران بھی سیاست سے وابستہ رہے، مگر 1960ء کی دہائی میں پہلی مرتبہ قومی دھارے کی سیاست میں شامل ہوئے اور 1964ء میں رُکنِ اسمبلی منتخب ہونے کے بعد اُس وقت کی حکم ران جماعت،’’ یونائیٹڈ ملایا نیشنل آرگنائزیشن‘‘ میں شمولیت اختیار کی۔
مہاتیر محمد نے جس دَور میں آنکھ کھولی، تب ملائیشیا کی سیاسی صورتِ حال خاصی پیچیدہ تھی۔ برطانیہ کی کالونی ہونے کے ناتے اس پر انگریزوں کا کنٹرول تھا اور پورا مُلک مختلف ریاستوں میں تقسیم تھا، جن کے حُکم رانوں کو باشاہوں کا درجہ حاصل تھا اور انہوں نے اپنی اپنی ریاست کی حفاظت کی خاطر انگریزوں سے معاہدے کر رکھے تھے۔ ملائیشیا تین بڑی لسانی اکائیوں پر مشتمل ہے۔ ملایا، جن کی معمولی سی اکثریت ہے، انڈینز اور چائنیز اور موخر الذّکر دونوں اکائیوں کا آزادی کے وقت کاروبار اور حکومتی اداروں میں خاصا عمل دخل تھا، جب کہ ملایا قوم سے تعلق رکھنے والے باشندے بہت پس ماندہ تھے اور اس کا سبب تعلیم اور کاروبار سے دُوری تھا۔ ملائیشیا 1957ء تک برطانیہ کی کالونی رہا اور اس دوران مختصر سے عرصے کے لیے جاپان نے اس پر حُکم رانی کی۔
تاہم، اس پورے عرصے میں کسی نے بھی ملایا قوم کی پس ماندگی دُور کرنے پر خاطر خواہ توجّہ نہیں دی۔ نتیجتاً ملائیشیا میں فسادات بھی ہوتے رہے۔ ملائیشیا کی سیاست سے متعلق مہاتیر محمد کے خیالات دوسروں سے مختلف تھے۔ وہ ایک قوم پرست لیڈر تھے اور اسی لیے انہوں نے صرف ملائیشیا کی ترقّی کو ترجیح دی۔ مہاتیر ایک جارحانہ اقتصادی پالیسی کے داعی بن کر سامنے آئے اور اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملایا باشندوں کو اپنی عددی برتری کے اعتبار سے مُلکی معاملات میں کردار دیا جانا چاہیے۔
گرچہ اپنے اس مٔوقف کی بنا پر مہاتیر پر تعصّب کو ہوا دینے کا الزام عاید کیا گیا، لیکن انہیں ملائیشین عوام کی اکثریت کی حمایت بھی مل گئی۔ مہاتیر محمد کے طرزِ سیاست کی وجہ سے اُن کا سیاسی کیریئر ہمیشہ اونچ نیچ کا شکار رہا اور وقتاً فوقتاً اُن کے اپنی پارٹی لیڈر شپ سے اختلافات بھی سامنے آتے رہے۔ تاہم، اپنی پارٹی کے لیڈر اور سابق وزیرِ اعظم، ٹنگو عبدالرحمٰن کے منظرِ عام سے ہٹنے کے بعد مہاتیر محمد نے بڑی تیزی سے ترقّی کا سفر طے کیا اور1981ء میں ملائیشیا کے وزیرِ اعظم منتخب ہونے میں کام یاب ہوگئے۔
مہاتیر محمد نے اقتصادی استحکام اور تعلیم کو ملائیشیا کی ترقّی کا ستون قرار دیا، کیوں کہ وہ یہ بات اچّھی طرح جانتے تھے کہ تعلیم کسی بھی مُلک کی معیشت کو ترقّی دینے کے لیے ریڑھ کی ہڈّی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیرِ اعظم بننے سے قبل جب وہ وزیرِ تعلیم تھے، تو انہوں نے تعلیم کو اوّلین ترجیح بنانے کے لیے راہ ہم وار کی اور اپنے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں بھی اسی پالیسی پر گام زن رہے۔ جب مہاتیر نے ملایا باشندوں کی پس ماندگی ختم کرنے کے لیے تعلیم کو بنیاد بنایا، تو انہیں اندازہ ہوا کہ تعلیم کی عام شہری تک رسائی میں انگریزی زبان ایک بڑی رُکاوٹ ہے اور اسے دُور کرنے کے لیے انہوں نے ملایا زبان کو ذریعۂ تعلیم قرار دیا۔
اُن کے دَور میں مُلک بَھرمیں اسکولز، کالجز اور یونی ورسٹیز کا جال بچھایا گیا اور اس کے ساتھ ہی تعلیمی معیار کو بین الاقوامی معیارِ تعلیم سے ہم آہنگ کرنے پر بھی خصوصی توجّہ دی گئی۔ معاشرے میں توازن پیدا کرنے اور مُلکی ترقّی میں خواتین کا کردار بڑھانے کے لیے مہاتیر محمد نے لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجّہ دی، جس کی وجہ سے رواں صدی کے آغاز تک ملائیشین جامعات میں نصف تعداد طالبات کی تھی۔ خیال رہے کہ آج بھی ملائیشیا میں ہائی اسکول کی سطح تک مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے، جب کہ یونی ورسٹی کے 90فی صد اخراجات حکومت ادا کرتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے انہوں نے تربیت یافتہ پیشہ وَر افراد کی ایک بہت بڑی کھیپ تیار کی، جس نے نہایت کم عرصے میں ملائیشیا کو ایشین ٹائیگرز کی فہرست میں شامل کر دیا۔
مہاتیر محمد کے برسرِ اقتدار آنے سے قبل ملائیشیا کی معیشت کا انحصار خام ربر اور ٹن کی برآمدات پر تھا اور اسے زیادہ سے زیادہ ترقّی پزیر معیشت قرار دیا جا سکتا تھا، لیکن جب 2003ء میں مہاتیر محمد ریٹائر ہوئے، تو ملائیشیا کی سالانہ فی کس آمدنی 4036ڈالرز ہو چُکی تھی۔ تاہم، ترقّی کا یہ سفر اب بھی جاری ہے اور آج فی کس آمدنی 9766ڈالرز پر پہنچ چُکی ہے۔ مہاتیر محمد کے وِژن کی بہ دولت ملائیشیا کا شمار دُنیا کے ترقّی یافتہ ممالک میں ہونے لگا تھا اور آج بھی ملائیشین پاسپورٹ دُنیا کا پانچواں طاقت وَر پاسپورٹ مانا جاتا ہے۔ ملائیشیا کے پیٹرو ناس ٹاور کو دُنیا کی سب سے بلند عمارت کا اعزاز حاصل رہا اور اس کے جدید شہر اور خُوب صُورت جزائر دُنیا بَھر کے سیّاحوں کا پسندیدہ ترین مقام بن چُکے تھے۔
مہاتیر محمد کے عروج کے دَور میں ہمیںبھی دارالحکومت، کوالالمپور اور ملاکا سمیت کئی شہروں اور جزائر میں جانے کا موقع ملا اور ہم اس کی ترقّی دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ ملائیشیا کے بین الاقوامی ہوائی اڈّے، جدید تجارتی مراکز، حسین باغات اور تفریح کے دیگر مقامات، عالمی معیار کی جامعات، جدید ٹیکنالوجی کے حامل اداروں اور مساجد نے ہمیں بے حد متاثر کیا۔
تاہم، ہمارے لیے ملائیشیا میں پائی جانے والی امن و امان، رواداری اور اتحاد کی فضا حیران کُن تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے سارے ملائیشین عوام غیر معمولی لگن کے ساتھ اپنے مُلک کی ترقّی میں جُٹے ہوئے ہیں۔ ملایا، چائنیز اور انڈینز اپنے ملائیشین ہونے پر برملا فخر کا اظہار کرتے اور انہیں اپنے قائد کی غیر معمولی بصیرت پر بھی مکمل بھروسا تھا۔ ہمیں کوالالمپور میں بہت سے غیر مُلکی ماہرین اور سیّاحوں سے بات چیت کا بھی موقع ملا اور ان سب کا یہی کہنا تھا کہ ملائیشیا کو ترقّی کے لحاظ سے کسی بھی جدید یورپی شہر کا ہم پلّہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ ملائیشیا، دُنیا میں ربر، ٹن اور پام آئل پیدا کرنے والا سب سے بڑا مُلک رہا ہے اور مہاتیر محمد نے انہیں ایک جدید صنعت میں تبدیل کر کے اسے بڑی مہارت سے مُلکی ترقّی کی بنیاد بنایا۔ ان کے دَور ہی میں ملائیشیا نے پروٹون کار بنائی، جو عالمی معیار کی حامل اور انتہائی سَستی تھی۔ اس ایجاد نے بھی ملائیشین عوام میں اعتماد پیدا کیا اور وہ غیر مُلکیوں کے سامنے بڑے فخر سے اس کا ذکر کرتے۔ اسی طرح مہاتیر محمد نے سیّاحت کو بھی ترقّی دی اور آج یہ زرِ مبادلہ فراہم کرنے والا تیسرا بڑا ذریعہ ہے۔
عوام کے ووٹوں سے اقتدار حاصل کرنے والے مہاتیر محمد نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ کسی بھی عُنصر کو مُلک کی ترقّی کی راہ میں رُکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے دَور میں کسی کو احتجاجی مظاہرے کرنے کی آزادی حاصل نہیں تھی اور پریس کی آزادی بھی محدود تھی، جس کی وجہ سے انہیں اکثر مغربی ممالک کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا۔
اگر مہاتیر کے دَور میں ملائیشیا کی حیران کُن رفتار سے ترقّی کا جائزہ لیا جائے، تو اس کی دو وجوہ سامنے آتی ہیں۔ اوّل، ترقّی کا ایجنڈا رکھنے والی ایسی پُر عزم قیادت کہ جو کسی بھی عُنصر کو اپنی اقتصادی ترقّی کی راہ میں حائل نہ ہونے دے اور دوم، ایسے متحرک عوام کہ جن کا ہدف صرف اور صرف اپنے مُلک کو ترقّی یافتہ اور خوش حال بنانا ہو۔
مہاتیر محمد کے دَور میں پورے جنوب مشرقی ایشیا میں اقتصادی سرگرمیاں عروج پر تھیں اور ہر مُلک ترقّی کی دوڑ میں شامل تھا۔ ان تمام ممالک نے ترقّی کے لیے جاپان کو اپنا رول ماڈل بنایا کہ اُس نے ایٹم بم کی راکھ سے نکل کر دُنیا میں ترقّی کے اَن مٹ نقوش چھوڑے اور ثابت کیا کہ ترقّی صرف مغربی ممالک کی میراث نہیں۔
جاپان ہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سنگا پور، تھائی لینڈ، ہانگ کانگ، فلپائن اور تائیوان ایشن ٹائیگرز بنے اور پھر چین بھی اسی راہ پر چلتے ہوئے دُنیا پر چھا گیا۔ مہاتیر اس لحاظ سے بھی خوش قسمت رہے کہ اُن کے ہم عصر سیاسی رہنمائوں میں تھائی لینڈ کے تھاکسن شنواترا، سنگاپور کے لی کوان یو اور چین کے ڈینگ ژائو پھنگ جیسی عظیم شخصیات شامل تھیں۔
مہاتیر محمد نے ان رہنمائوں کی روایات کو اپنایا اور معاشی انقلابیوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے ہر شعبے میں پیداوار کو عروج دیا اور اس مقصد کے لیے ضروری انفرااسٹرکچر بھی فراہم کیا۔ نیز، کاروبار دوست ماحول کو فروغ دیا، جب کہ اس کے برعکس عموماً ترقّی پزیر ممالک میں سیاسی رہنما، سرمایہ کاروں کے خلاف محاذ بناتے ہیں اور ناخواندہ اور غریب عوام میں اُن کے خلاف جذبات اُبھار کر ووٹ حاصل کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اکثر نقصان ہی اُٹھانا پڑتا ہے۔ ایسے ممالک کے سیاست دان اور عوام ہمیشہ خیالی دُنیا میں مگن رہتے ہیں اور ٹھوس اقتصادی منصوبے ان کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ نتیجتاً وہ غُربت کی دلدل میں دھنستے ہی چلے جاتے ہیں۔
مہاتیر محمد کی تعلیمی پالیسی کے نتیجے میں ایسی پُرعزم اور تربیت یافتہ افرادی قوّت سامنے آئی کہ جس نے اُن کے اقتصادی وِژن کو حقیقت کا رُوپ دیا۔ اپنے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں مہاتیر محمد مغرب اور یہودیوں کے شدید مخالف رہے اور وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ انہوں نے عالمی معیشت پر اپنا تسلّط قائم کر رکھا ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی وہ اسلامی ممالک کے زوال کا سبب بننے والی خرابیوں کو بھی سامنے لاتے اور انہیں دُور کرنے پر زور دیتے۔ انہوں نے اپنی ملایا قوم کو بھی اُس کی کوتاہیوں پر کبھی معاف نہیں کیا۔ وہ انہیں ڈانٹتے ہوئے سُست اور ناشکرا کہا کرتے اور انہیں محنت کی تلقین کرتے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ 24گھنٹے کام کرتے ہیں۔
حالیہ انتخابات میں مہاتیر محمد اپوزیشن اتحاد، ’’پاکاتان ہراپان‘‘ کے امیدوار ہیں اور انہیں اپنے دَور کے نائب وزیرِ اعظم، انور ابراہیم اور ان کی اہلیہ، وان عزیزہ کی حمایت بھی حاصل ہے، جو ڈاکٹر اور پارٹی کی صدر بھی ہیں۔ خیال رہے کہ انور ابراہیم کو خود مہاتیر محمد نے زیادتی کے الزام میں جیل بھیج دیا تھا اور وہ اب تک پابندِ سلاسل ہیں، لیکن اب یہ طے ہوا ہے کہ اگر مہاتیر محمد انتخابات میں کام یابی کے بعد وزیرِ اعظم منتخب ہوتے ہیں، تو وہ کسی مرحلے پر انور ابراہیم کو اقتدار سونپ دیں گے اور وان عزیزہ نائب وزیرِ اعظم ہوں گی۔
ملائیشیا کے موجودہ وزیرِ اعظم، نجیب رزاق پر کرپشن کےالزامات ہیں، لیکن وہ انہیں مسترد کرتے ہیں۔اگرملائیشیا کی آبادی کا جائزہ لیا جائے، تو اس میں 30سے40سال کے افراد کی اکثریت ہے اور 93سالہ مہاتیر محمد کے لیے اپنی انتخابی مُہم کے دوران سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ وہ اپنا پیغام اس نسل تک پہنچانے میں کس قدر کام یاب ہوتے ہیں، کیوں کہ ان نوجوانوں نے ملائیشیا کو ایک ترقّی یافتہ مُلک کے رُوپ ہی میں دیکھا ہے۔ وہ مہاتیر محمد کو اپنا مصلح تو مانتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ انہیں موجودہ دَور میں اپنی قیادت کا اہل بھی سمجھتے ہیں اور اس کا انحصار مہاتیر کی انتخابی حکمتِ عملی پر ہے۔
دوسری جانب اب عالمی معاملات اور خطّے کے اُمور بھی تبدیل ہو چُکے ہیں۔ ماضی میں مہاتیر کا واسطہ ہوجن تائو، بل کلنٹن اور نسبتاً دھیما لہجہ رکھنے والی جاپانی قیادت سے رہتا تھا، جب کہ آج چین ایک بڑی طاقت بن چُکا ہے اور جاپان بھی اپنی قوّت میں اضافہ کر رہا ہے اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ، شی جِن پِنگ اور شینزو ایبے جیسے قوم پرست رہنمائوں کودُنیا میں بڑی اہمیت دی جاتی ہےاور اُن کا خطّہ تنائو اور معاشی مقابلے کی دوڑ میں شامل ہے۔ ایسے میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر مہاتیر محمد اقتدار میں آتے ہیں، تو دُنیا میں ملائیشیا کا کیا کردار ہو گا اور کیا وہ خطّے میں توازن قائم کر پائیں گے؟