• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
       
اپنا علاج خود نقصان دے ہوسکتا ہے!

’’میرے سر میںدرد ہورہاہے ۔‘‘

’’فلاں گولی کھالو۔‘‘

’’ کل سے کھانسی ہو رہی ہے یار ، ‘‘

’’یہ والا سیرپ پی لو ٹھیک ہو جائو گے ۔ـ‘‘

یہ ہے ہماری روز مرہ کی کہانی ! موسم کوئی بھی ہو ، ہم اکثر آزمودہ دوائوں کو استعمال کرتے کرتے خود کو ڈاکٹر سمجھنے لگتے ہیں اور نہ صرف خود بنا تشخیص اپنا علاج آپ کرنا شروع کردیتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی بڑے وثوق سے تجویز کردیتے ہیں۔ شاید اس کا فائدہ وقتی طور پر ہوجاتا ہولیکن خود تشخیصی علاج یا سیلف میڈیکیشن نقصان دہ ہونے کےساتھ ساتھ خطرنا ک بھی ہو سکتاہے۔

اگر ہم ترقی یا فتہ ممالک کی بات کریں تو وہاں ادویات کی خریدوفروخت کے حوالے سے باقاعدہ قوانین موجود ہیں ۔لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے ایکٹ اور قوانین کے باوجود بھی ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے مسائل میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ادویات کے غیر ضروری استعمال سے بہت سی بیماریاں مثال کے طور پر جلدی امراض ،ڈپریشن ،معدے میں گرمی ہونا، نفسیاتی مسائل اور دل کے امراض کا ہونا عام ہیں ۔

ایسی ادویات جو خود سے استعمال کی جاتی ہیں ان میں بروفن، پیراسٹامول، اسپرین بہت عام ہیں ۔مثال کے طور پر اگر لوگ ڈینگی بخار کے دوران اسپرین کا استعمال کر لیں تواس سے موت واقع ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اور بعض اوقات تو ڈاکٹر کی ہدایت کے بغیر ان کا استعمال کئی قیمتی جانوں کے ضیاع کاباعث بنتا ہے۔

سیلف میڈیکشن کا زیادہ تر استعمال گھریلو خواتین اور وہ لوگ کرتے ہیں جو ڈاکٹر اور ہسپتال کے مہنگے علاج برداشت نہیںکر سکتے۔بعض اوقات وہ لوگ جو نشے کے عادی ہوتے ہیں اور بہت زیادہ ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں ان میں بھی خود سے ادویات لینے کا رحجان عام ہوتا ہے ۔ہمارے ہاں ڈاکٹرز کی عدم دستیابی اور صحت کے حوالے سے کم علمی اور جہالت بھی سیلف میڈیکیشن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔

تاہم سیلف میڈیکیشن کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں تک سستی اور موثر ادویات کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور لوگوں میں شعور بیدار کیا جائے کہ ان کے استعمال سے صحت پر برے ا ثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ حکومتی اداروں کا فرض ہے کہ غیر ضروری ادویات بیچنے والے سٹورز پر پابندی لگائی جائے اور اس سلسلے میں باقاعدہ قانون سازی کی جائے اگر حکومت ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی موجودگی کے نظام کو بہتر بنا دے تو اس سے بھی خاطر خواہ نتائج حاصل ہو سکتے ہیں ۔

وہ لوگ جو نیند اور سکون آور کی گولیاں لینے کے عادی ہوتے ہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ خواب آور گولیوں کی بغیرمعالج کے نسخے کے خرید وفروخت پر پابندی عائد کی جائے اور لوگوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ ڈاکٹر کی ہدایت کے بغیر ادویات کا استعمال نہ کریں ۔

کوئی بھی مرض خواہ موسمی نزلہ زکام ہو یا پھر خدانخواستہ کوئی دائمی تکلیف ہو حتیٰ کہ عمومی کمزوری ہی کیوں نہ ہو سب سے پہلے ہمیں اپنے معالج سے رجوع کرنا چاہیئے۔ 

اگر وہ کوئی ٹیسٹ تجویز کریں تو فوری طور پر ٹیسٹ کرواکر رپورٹ معالج کو دکھانا چاہئے اور بیماری کی تشخیص میں اپنے معالج کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔ ممکن ہے یہ مراحل دقت طلب ہوں ، لیکن اس موقع پر مریض اور ان کے اہل خانہ دونوں کو ترجیحی بنیادوں پر ایک دوسرے کے ساتھ بھی اور اپنے معالج سے ذہنی ہم آہنگی کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ صحیح تشخیص ، باقاعدگی کے ساتھ مقررہ وقت پر دوائوں کا استعمال پرہیز اور مضبوط قوت ارادی وہ بنیادہ عوامل ہیں جو کہ چھوٹی بڑی ہر بیماری سے شفا کے حصول میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یقین مانیئے اس طرح زیادہ سے زیادہ صرف مرض کی علامات کو دور کیا جا سکتا ہے اور بس۔

خود تشخیصی علاج کے نتیجے میں بسا اوقات علامات اس قدر دبا دی جاتی ہیں کہ معمولی امراض بھی برس ہا برس تک مریض کی صحت کو دیمک کی طرح چاٹتے رہتے ہیں اور کسی کو محسوس بھی نہیں ہوتا۔ تاوقتیکہ خدانخواستہ کوئی نقصان دہ صورت حال سامنے آجائے۔

 ہمارے معاشرے میں زیادہ تر غریب طبقہ گھریلو ٹوٹکوں کی مدد سے کام چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ گھریلو ٹوٹکوں کا کردار بہت ہی ثانوی ہوتا ہے یعنی علاج کے ساتھ ساتھ جزوی قوت اور راحت کا حصول۔ بنیادی حل صرف مستند معالج سے رجوع کرنے میں ہی مضمر ہے۔ یاد رکھئے ڈاکٹر ہماری صحت کے بارے میں بہتر جانتے ہیں۔

آپ کسی بھی اجتماع میں بیٹھ کے ذرا کسی مرض کا تذکرہ تو کر کے دیکھئے ایسا کم ہی ہوگا کہ کوئی دانشمند آپ کو کسی مستند معالج سے رجوع کرنے کا مشورہ دے اس کے برعکس فوراً کئی لوگ آپ کو اس مرض یا اس سے ملتے جلتے مرض میں استعمال کی گئی تین چار دوائیوں کے نام تجویز کردیں گے اب یہ آپ کی پسند پر منحصر ہے کو خود پر کونسی دوا کا تجربہ کرتے ہیں۔

 اس سلسلہ میں آپ کسی بھی فارمیسی یعنی میڈیکل اسٹور پر چلے جائیں بعض جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ آتے ہیں اپنی یا اہل خانہ کی کسی تکلیف کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات فراہم کرتے ہیں اور وہاں پر موجود اسٹاف سے دوا لے کر استعمال کرنے لگتے ہیں۔ نہ ڈاکٹر کی فیس، نہ اپائنٹمنٹ کا جھنجھٹ نہ کسی لیبارٹری کی زحمت ، ہوگیا مسئلہ حل۔

 دیکھا آپ نے بظاہر معمولی نظر آنے والی یہ عادات ہماری صحت اور بسا اوقات زندگی کو بھی بے شمار خطرات کا شکار کرسکتی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری معمولی سے لاپروائی اور غفلت کس قدر نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

آخر میں ہم آپ کو میڈیسن اور ڈرگ کافرق بتاتے چلیں کہ اگر ڈاکٹر کے لکھے نسخے کے مطابق آپ فارمیسی سے جو بھی لیں گے وہ ادویات یا میڈیسن کہلاتی ہیں، خود سے جاکر بغیر ڈاکٹری نسخے کے جو بھی آپ ادویات لیں گے وہ ڈرگ کہلاتی ہے اب یہ آپ پر منحصرہے کہ آپ ڈرگ لے رہیں یا میڈیسن؟

تازہ ترین