• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ بھی منزل حاصل کرلیں گے، بس۔۔۔۔۔ جہد مسلسل،لگن کو اپنا سشعار بنالیں

  
آپ بھی منزل حاصل کرلیں گے، بس۔۔۔۔۔ جہد مسلسل،لگن کو اپنا سشعار بنالیں

  یونس محمود

زندگی کے بے شمار رخ ہیں، جنہیںسمجھنا انتہائی ضروری ہے۔آج کا دور، جدید سہولتوں سے مزین ہے۔ زندگی کو پُر تعیش اور پُر آسائش بنانے کا ہر سامان موجود ہے،لیکن سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اتنی آسانیاں ہونے کے باوجود آج کا نوجوان وہ مثالی کارکرد گی کیوں نہیں دکھا پا رہا، جو اس کے بڑوں نے دکھائی۔ اس کے بر عکس نسل نو بہت نالاں نظر آتی ، اسے اپنی زندگی بے مقصد نظر آتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ وہ چاہے انفرادی طور پر، کتنی ہی کوشش کرے وہ معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتاہے۔ 

یہ سوچ ہمارے معاشرے میں اب جڑ پکڑتی جارہی ہے۔ ہر دوسرا نوجوان ناامیدی کی باتیں کرتا دکھائی دیتا ہے، آخر کیوں نسل نو نے ایسا سوچنا شروع کردیا ہے؟ اگر ہم ایک مختصر جائزہ لیں، تو پتا چلتا ہے کہ تاریخ میں جس کسی نے بھی اپنا نام یا کوئی بڑا کام کیا ،تو اس میںان کی سوچ کا بہت عمل دخل رہا۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بڑاکام کرنے کے لیے زیادہ سرمائے یا سفارش کی نہیں بلکہ مثبت سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ ہمت نہ ہاریں آگے بڑھیں، شخصیت سنواریںاور بلند جذبے کے ساتھ آگے بڑھیں۔ پھر ان کے سامنے بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی ، زندگی کا سفر کام یابی سے طے ہوجائے گااور وہ اپنی منزل مقصود پر ضرور پہنچیں گے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ آج کل نوجوان دوسروں کی بات بغور نہیں سنتے، مگر یہ ضرور چاہتے ہیں کہ سب ان کی بات کو سب توجہ سے سنیں، یاد رکھیںجب تک آپ دوسروں کو عزت نہیں دیں گے، ان کی بات کو اہمیت نہیں دیں گے، تو آپ کو بھی عزت نہیں ملے گی۔

اگر کوئی آپ سے مشورہ طلب کرے یااپنا کوئی مسئلہ شیئر کرے، تو آپ کا رویہ نامناسب نہ ہو بلکہ ان کی بات غور سے سنیں، اپنی رائے دیں ، انہیں تسلی دیں، اس طرح آپ خود بھی بااعتماد محسوس کریں گے۔ صرف یہی نہیں اگر آپ آگے بڑھنا، چاہتے ہیں تو اپنی غلطیاں تسلیم کرناسیکھیں،محض انا کی وجہ سےاپنی غلطیوں سے نظر پوشی کرنا نہ صرف آپ کو ، منزل مقصود سے دور کردے گا۔آپ کبھی کام یابی حاصل نہیں کر سکیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں ایسے ہی لوگ کام یاب ٹھہرے ہیں، جو اپنی بات ، اپنے وعدے کا پا س رکھتے ہیں۔ 

جذبات میں آکر ایسے وعدے نہ کر بیٹھیں، جنہیں پور اکرنا آپ کے بس کی بات نہ ہواور جب ایک بار، کوئی کام کرنے کی ٹھان لیں، تو اسے ضرور پورا کریں۔ دنیا میں کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہے، بس محنت، مستقل مزاجی اور پوری لگن درکار ہوتی ہے۔

بہت سے نوجوانوںایسے نظر آتے ہیں، جو کسی کام کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں ، پھران کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کام کو کریں ـ، اس طرح وہ کسی کا کام کا آغا تو کر دیتے ہیں، چند دن تک تو وہ کام بہت خوش و خروش سے کیا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ اس میں کمی واقعی ہوجاتی ہے ، پہلے سا شوق نہیں رہتا اور پھر ایک دن آتا ہے جب یہ تمام اسباب و وسائل اپنے مطلوبہ نتائج پیدا کرنے کی بجائے سرد مہری کا شکار ہو جاتے ہیں ـ 

ان پر گرد جمنے لگتی ہے اور جو کام بہت خوش و خروش سے شروع کیا گیا تھا ـ اس کا انجام خسارے کے اور کچھ نہیں نکلتا ـ یہ تعمیری کام مطلوبہ نتائج تک نہیں پہنچتے ، آخر کیوں ؟کیوں کہ وہ چند ہی دنوں میںا س کام سے اُکتا جاتے ہیں،وہ ہاتھوں پہ سر وں جمانا چاہتے ہیں، ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ایک رات میں کام یابی ان کے قدم چومنے لگے، حقیقتاً یہ نا ممکن ہے، کسی بھی منزل پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ دلجمعی سے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی جائے، تب تک ہار نہ مانی جائے، جب تک وہ پورا نہیں ہوتا۔

اس لیے کہ کسی بھی کام کو اس کے مطلوبہ نتائج تک پہنچانے کے لیے صرف یہی ضروری نہیں کہ انسان میں شوق اور ہمت ہو ، ایک بہت ضروری چیز تسلسل کے ساتھ محنت کرنا بھی ضروری ہے ـ جو لوگ کسی کام کو تسلسل کے کرتے رہتے ہیں وہ اپنی ناؤ کو ایک دن ضرور ساحل تک پہنچا کر رہتے ہیں ـ۔

تازہ ترین