سلیم اللہ شیخ، بلڑی شاہ کریم
16دسمبر 2014کو،سانحہ پشاورمیں 132معصوم بچوں سمیت 144افراد کی شہادت کے بعد عسکری و سول قیادت اور تمام سیاسی جماعتیں سرجوڑکربیٹھ گئیں اور ایسی قانون سازی پر زور دیا گیا کہ جس کے تحت ملک بھرمیں دہشت گردوں اوران کے سہولت کاروں کے خلاف کاروائیاں عمل میں لائی جاسکیں۔ملکی سلامتی کے لیے،تمام اسٹیک ہولڈرز کی متفقہ رائے سے، ملک بھرمیں نیشنل ایکشن پلان کے نام سے ایک اہم آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیاجس کے تحت کی جانے والی کارروائیوں کے ذریعےپورے ملک میں دہشت گردوں کی کمرتوڑ دی گئی اور وطن عزیز میںامن بحال ہوا۔
لیکن سندھ میںنیشنل ایکشن پلان کے کئی اہم حصوں پراب تک عمل درآمد نہیں ہوسکا ۔ ملک بھر میں غیر قانونی بھتے کی وصولی جیسے جرائم کا خاتمہ بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ تھا لیکن سندھ کے صوبے میں اس جرم کے سدّباب میں نہ جانے حکام بالا نے کیوںچشم پوشی اختیار کررکھی ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کاروبار میںقانون کے محافظ ملوث ہیں ۔
آج بھی سندھ میں بھتہ مافیا کا راج ہے اور قانونی سرپرستی میں غیر قانونی کاروبار کیے جارہے ہیں۔اندرون سندھ میں مرکزی و ذیلی شاہ راہوں پر ایکسائزپولیس کے اہلکار، وہیکل ٹیکس کے کاغذات کی چیکنگ کے بہانے قانونی سقم نکال کر خطیر رقم رشوت کی مد میں وصول کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں چپے چپے پر ٹریفک پولیس کے اہلکار بھی ناکے لگا کر گاڑیوں کی رجسٹریشن اور لائسنس کے نام پر بھاری رقم بطوربھتہ وصول کرتے ہیں۔اکثر مقامات پر ٹریفک پولیس اہلکاروں نےاپنی سہولت کے لیے یومیہ اجرت پر سول لوگوں کو بھی مبینہ طور پر بھتے کی وصولی کے کام پر لگا رکھاہے۔ ٹنڈو محمد خان میں بھتہ مافیا کوبااثرسیاسی شخصیات کی سرپرستی حاصل ہے ۔
شہر میں جگہ جگہ پرائیویٹ بسوں ، مسافر کوچوں اور ویگنوں کے غیر قانونی اڈے قائم کرکے لاکھوں روپے بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔سول کپڑوں میں بھتہ وصول کرنے والوں کو اسٹارٹرز کا نام دیا گیا ہے۔ٹنڈو محمد خان بدین روڈ پر قائم اڈے کے اسٹارٹر سے جب نمائندہ جنگ نے اڈے کے مالک کا نام دریافت کیا تو اس نے انکشاف کیا کہ یہ اڈہ علاقے کے ایک بااثررکن صوبائی اسمبلی کا ہے۔ذرائع کے مطابق اس اڈے کے ذریعے مبینہ طور سےپچاس ہزار روپے یومیہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔
ٹنڈو محمد خان ،سجاول روڈ پر بھی بھتہ مافیاسرگرم ہے اور ٹریفک پولیس کی جانب سے تعینات کیے گئے ’’اسٹارٹرز‘‘ ہر آنے جانے والی گاڑی کو روک کر ، مالکان سے سوروپے سے ، پانچ سو روپے تک بھتہ وصول کرتے ہیں، مزاحمت پریہ عناصر شہریوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ۔ذرائع کے مطابق، پولیس اہل کاروں کی کمی کی وجہ سے ٹریفک حکام نے یومیہ اجرت پر غنڈہ عناصر کو بھرتی کررکھاہے جو ناجائز بھتے کے خلاف مز احمت پر لوگوں کو زدوکوب کرتے ہیں۔سندھ کے دیہی علاقوں میں صورت حال اور بھی زیادہ ناگفتہ بہ ہے۔محکمہ ریونیو کے افسران نے بھی زمین کی ملکیت کے کاغذات کی مد میں رقم بٹورنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔
زرعی زمینوں کی ملکیت کے مختلف کاغذات کی تیاری کے لیے محکمے نے اپنے ایجنٹ مقرر کررکھے ہیں اور ان کے ذریعے، اراضی مالکان سے بھاری رقم بٹوری جاتی ہے۔ زرعی اراضی کی رجسٹریشن ، فارم 7کی وصولی ، فروخت کا سرٹیفکیٹ ، فوتی کھاتہ ، ٹی اوکے اندراج، سالوینسی سرٹیفکیٹ ، لون سرٹیفکیٹ، زرعی پاس بک اور دیگر زرعی معاملات، مذکورہ ایجنٹ ہی چلا رہے ہیں ۔ ان کاغذات کی تیاری کے سلسلے میں ایجنٹ حضرات کی جانب سے سرکاری خزانے میں صرف چند سو روپے کا چالان جمع کرایا جاتا ہے جب کہ اراضی مالکان سےلاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں اور یہ تمام رقم محکمہ ریونیوکےبدعنوان افسران، اہل کاروں اور ایجنٹس کی جیب میں جاتی ہے۔
اس سلسلے میں نمائندہ جنگ کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق زرعی اراضی کی رجسٹری کے نام پر ایک لاکھ روپے فی ایکڑ مالیت کی زمین پر7 فی صد ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، جس کی کوئی رسید نہیں دی جاتی۔ایف آئی اے اور نیب اس معاملےکی اگر مکمل چھان بین کرےتو اس کاروبار میں ملوث کئی بااثر شخصیات بھی بے نقاب ہوجائیں
سندھ میں بجلی کا محکمہ بھی کرپشن کا شکار ہے۔ افسران میٹر کے ڈیمانڈ نوٹس کے نام پر دس سے پندرہ ہزار روپے وصول کررہے ہیں جبکہ سرکاری طورپر چند سو روپے فیس مقرر ہے۔بجلی کے صارفین کوجان بوجھ کر بھاری بل ارسال کیےجاتے ہیں جس کے باعث وہ یشان ہوکر بجلی کے کنکشن کٹوا کر محکمے کے اہل کاروں کی مدد سے ہی کنڈے لگوا لیتے ہیں۔ افسران کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ صارفین کنڈاسسٹم کے تحت بجلی جلائیں کیوں کہ اس مد میں حاصل ہونے والی تمام رقم افسران کی جیب میں جاتی ہے۔
شہروں میں بھتہ خوری بالکل ہی مختلف شکل میں رائج ہے۔ کاروباری وتجارتی مقامات پر گاڑیوں کی پارکنگ کے نام پر بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی بااثر شخص ،کسی بھی اہم اورمصروف سڑک کو اپنے کاروبار کےلیے مختص کرلیتا ہے اورپھرپولیس کی سرپرستی میں وہاںغیرقانونی پارکنگ قائم کردی جاتی ہے جہاں سے لاکھوں روپے روزانہ پارکنگ فیس کے نام پر بھتہ وصول کیاجاتاہے۔
ریلوے اسٹیشن ، شاپنگ پلازہ ،مصروف مارکیٹوں، ہفتہ وار بازار اور بسوں کے اڈوں پر غیر قانونی پارکنگ قائم کردی گئی ہیں جس کے نام پرہر مصروف شاہراہ پربڑی تعداد میں دو طرفہ گاڑیاں کھڑی دکھائی دیتی ہیں جن کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میںبھی خلل پڑتاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری و غیرسرکاری طور سے بھتہ وصولی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائی کی جائے، صوبائی حکومتسرکاری سرپرستی میں بھتہ خوری کے رجحان کا خاتمہ کرے۔