(تیرہویں قسط)
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ
حضرت سلمان فارسی جنہوںنے اسلام کی نعمت حاصل کرنے کیلئے بڑا لمبا سفر کیا ۔ ایران کے ایک مالدار زمیندار کے بیٹے تھے۔ لیکن ان میں حق کی لگن تھی جو انہیں ارض طیبہ لے آئی اوریہاں تک پہنچتے پہنچتے انہوں نے خداوندان کلیساؤں کی مذہبی حالت اور اخلاقی انحطاط کا بچشم خود ملاحظہ کیا بنوکلب سے تعلق رکھنے والے ایک قافلے کے ساتھ آپ وادی القریٰ پہنچے ۔ لیکن انہوں نے بے وفائی کرکے حضرت سلمان کو غلام بنا لیااور وادی القریٰ کو ایک یہودی کے ہاتھ انہیں بیچ دیا ۔پھر اس یہودی کا ایک دوست جو قبیلہ بنو قریظہ (یثرب… مدینہ النبیؐ) سے تعلق رکھتاتھا وہ انہیں خرید کریثرب لے آیا یعنی آخر کار کسی نہ کسی طرح راہ حق کا متلاشی ایران سے وادی یثرب پہنچ ہی گیا ۔ اس زمانے میں یثرب کی وادیاں نور نبوت سے منور ہوچکی تھیں اور سیدنا محمد کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وازکی التسلیم بنفس نفیس طیبہ کی فضاؤں میں نور نبوت بکھیر رہے تھے ۔ سلمان کی تلاش حق کا سفر تمام ہوا اور آپ آغوش نبوت میں پہنچ گئے ۔رسول اقدس کے قلب مبارک میں ان کی کتنی قدر تھی ! انہیں اپنے گھرکافرد قرار دے دیا اوراوراہل ایمان کے دلوں میں سیدنا سلمان کا مقام سلمان ابن اسلام کے طور پر اجاگر ہوا۔ غزوہ خندق میں حضرت سلمان نے فارسی طریق جنگ کو استعمال کرتے ہوئے خندق کھودنے کامشورہ دیا اور اسلام میں اس غزوہ کا نام ہی غزوہ خندق پڑگیا۔سیدنا وامامنا فاروق اعظم کے دور میں ایران فتح ہوا تو اس عظیم الشان موقع پر سیدنا سلمان بھی موجود تھے ۔ پھر فاروق اعظمؓ ہی نے انہیں مدائن کا گورنر مقرر کردیا اور اس دور میں انہوں نے تونگری کی بجائے فقیری کا منش جاری رکھا عبا اور اونچا پاجامہ پہنتے رہے جوکچھ مال ملتااسے فوراً غربا میں تقسیم کردیاکرتے تھے۔اور اس منصب پر آپ خلافت سیدنا عثمان ابن عفان کے دور تک فائز رہے ۔ 33ھ میں آپ مدائن ہی میں فوت ہوئے ۔
آں مسلمان کہ میری کردہ اند
در شہنشاہی فقیری کردہ اند
مسجد سلمان الفارسیؓ سے چند سیڑھیاں اوپر چڑھیں تو اس احاطے میں مقام حضرت رابعہ بصری ہے ۔ حضرت رابعہ بصریہ عدوی قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں۔ پتہ چلتا ہے کہ موصوفہ اپنے زمانے کی مشہور مبلغہ اور معلمہ تھیں۔ لیکن انہیں اہل تصوف کسی اور روپ میں پیش کرتے ہیں ان کے بارے میں بے شمار روایات پھیلی ہوئی ہیں ۔ ان ساری روایات کا منبع کسی لحاظ سے بھی مستند نہیں ہے ،کیونکہ ایک صوفی منش مصنف شیخ فرید الدین عطار نے صدیوں بعد بیان کیاہے اور بغیر کسی سند روایت کے ۔اس خاتون کو اللہ کی ولیہ اور آدھی قلندر بھی کہا جاتا ہے۔ حقیقت کیا ہے کچھ معلوم نہیں اوران کی طرف منسوب روایات کی سچائی یاجھوٹ کاکوئی معیار سرے سے نہیں ہے ۔بہرحال مسجد سلمان بہت خوبصورت ہے ۔مفتی اعظم فلسطین کا اعلی اخلاق ،وہاں موجود ان کے خدام کاحسن سلوک ، بابرکت علاقہ ، بابرکت پہاڑ ، جبل زیتون کی بلندی سے یروشلم کا نظارہ اور قبۃ الصخراء کا چمکتا گنبد عجیب احساسات پیدا کررہا تھا ۔ ہم جبل زیتون کے اس رخ پر کھڑے تھے جہاں سے یروشلم کا قدیم شہر اپنی گود میں قبہ صخراء لیے ڈوبتے ہوئے سورج کی زرد کرنوں میں جھلملاتا نظر آرہاتھا ۔ اہل فلسطین کو حق پہنچتا ہے کہ وہ فخر سے کہیں یہ دنیا کی خوبصورت ترین عمارت ہے ۔
یروشلم کاعجوبہ…غار سلیمانی کا وزٹ
اگلی صبح میں تھکاوٹ کی وجہ سے اپنے کمرے میں لیٹا ہوا تھا کہ ہمارے رہبرڈاکٹر یاسین صاحب کافون آیا کہ اگر ہمت عود آئی ہو تو آجائیں کافی جگہ دیکھنے جانا ہے۔ میں فوراً تیار ہوکر چلا گیا تو باب ہیروڈیس سے متصل ایک غار ہے جہاں ہمارے گروپ کے سبھی ساتھی میراانتظار کررہے تھے اس جگہ دیکھنے کیلئے ٹکٹ لینا پڑتا ہے ۔ باہر لکھا ہوا کہ یہ غار حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب ہے اور ساتھ ہی حضرت سلیمان علیہ السلام کی مزعومہ فوٹو لگائی ہوئی ہے۔ اس لیے میں نے اس کی تصویرنہیں بنائی ۔اس غار کے بارے میں کافی لٹریچر موجود تھا اس کے مطابق مسجد اقصی کی تعمیر میں جو پتھر لگے ہیں وہ اس غار سے شاید لیجائے گئے تھے ۔ایک ایک پتھر ساٹھ ساٹھ ٹن کا ہوگا۔ اور ایک بلاک تو کئی ٹن وزنی ہوگا۔مصلی مروانی میں پتھروں کی موجودگی بتارہی ہے کہ یہ علاقہ کتنا قدیم اور مضبوط ہے ۔غار میں ایک جگہ پانی کے قطرات مسلسل گررہے ہیں کہاجاتاہے کہ یہ کسی بڑے آدمی جس کا نامSdiqioبتایاجاتاہے ،جب ان پر اسرائیلیوں نے ظلم کیااورناجائز قتل کرنے لگے، تو ان کی آنکھوں سے جو آنسو گرے وہ امر ہوگئے اور ابھی تک گررہے ہیں ۔ میں نے ان کو قطرات کوہاتھ میں لیکر چکھا عام پانی لگتاہے، جیسا پہاڑوں سے پانی نکلتا ہے پتہ نہیں اس کہانی کا پس منظر کیا ہے ظاہر ہے یہ سنگدل اور ازلی بدنصیب قوم سترسترانبیاء کو ایک دن میں ناجائز قتل کرکے بازارمیں جاکر اپنا روزانہ میں مشغول ہوجانے والی قوم تھی۔ معلوم نہیں کن کن انبیاء کرام اور صالحین کوان ظالموں نے قتل کیا ہوگا اور مسلسل کررہے ہیں ۔ بہر حال کسی مظلوم کے آنسو گررہے ہوں گے۔یاپہاڑی چشمہ ہے جس سے عام پانی قطرہ قطرہ بہہ رہا ہے۔پھر اس غارکے بارے میں لٹریچر پڑھا تو یہ انکشاف ہوا کہ فری میسن تنظیم جو شیطان و فرعون اور جادومیں یقین رکھتی اورانہیں اپنا امام مانتی ہے ۔ انہیں معبود قرار دیتی ہے ان کی خیالی تصاویر اوربتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتی ہے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف بھی یہودیوں نے جادو کومنسوب کیا تھا۔اوران کی عظیم الشان سلطنت کو جادو کا شاخسانہ قراردیاتھا۔جس کی دنیاکی سب سے مستند کتاب قرآن مجید نے سختی کے ساتھ تردیدفرمائی ہے کہ جادو ٹونہ کرنا کفر ہے اور کوئی نبی اس کفرکامرتکب نہیں ہوا {سورہ البقرہ آیت نمبر102}اور آپ نے جنوں کے ذریعے سے مسجد اقصیٰ تعمیرکرائی تھی ۔فری میسن تنظیم اس وجہ سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی تقدیس کی شایدقائل ہے۔اس کے خیال میں بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے جن یہاں سے پتھر نکالاکرتے تھےیہ غار 1845میں دریافت کی گئی تھی اس کی لمبائی 200میٹر اور چوڑائی400میٹر اور اونچائی 4.15 میٹر ہے ۔ یہ غار فری میسن سے متعلقہ لوگوں کا مرکزاور قبلہ بھی ہے اسی لیے وہ اپنا سالانہ انتخابی اجلاس اسی غار میں منعقد کرتے ہیں ۔ اور اس کا طریق کار کہ یہ ہے کہ ایک آدھ دن پہلے انتخابی تاریخ کا اعلان کیاجاتاہے اور دنیا بھر سے اس تنظیم کے اراکین اگلی صبح یروشلم کی اس غار میں جمع ہوجاتے ہیں ۔کوہ صہیون کے اس حصے کے اوپرمسجداقصی کی دیوار ہے اور جہاں اس کی لمبائی ختم ہوتی ہے وہاں سے مسجداقصی شروع ہوجاتی ہے، ہم غارسلیمانی میں داخل ہوئے کافی نشیب میں چلتے گئے اور دم بدم اندھیرا بڑھتاجارہاتھا۔ہم نے چل پھر کی اس غار کو دیکھابہرحال یہ غاربھی یروشلم کا عجوبہ ہے غار سے باہرنکلے تو دو مقامی فلسطینی نوجوان جنہیں ڈاکٹر یاسین صاحب نے بطور گائیڈ لیاتھا ۔ ان کی ہمراہی میں ہم نے اپنا سفر شروع کیا اولڈ سٹی کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں سے نکل کر پہلے ہم مسجد عمرؓگئے جوبند تھی کیونکہ نماز کا وقت نہیں تھا اس لیے باہر ہی سے ہم اسے دیکھ سکے، اس سے صرف دس گز دور کنیسۃ القیامہ ہے عیسائیوں کا مشہور چرچ بیت المقدس کی مغربی دیوار کے قریب یہ کلیسا’’ کنیسۃ القایامۃ کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے ۔
جمعہ جولائی14۔2017۔ شوال۲۰ ۔۱۴۳۸ھ
مسجد اقصیٰ بند کردی گئی
معمول کے مطابق ہمارا قافلہ صبح تین بجے تہجد کے لیے مسجد اقصیٰ چلا جاتا ہے اور اشراق پڑھ کر واپس آتا ہے ۔لیکن آج جمعہ ہےجس کی ادائیگی کیلئے بے شمار مسلمان فلسطین اور اس کے گردو نواح کے علاقوں سے بڑی تعداد میںجمعہ کی ادائیگی کیلئے آتے ہیں اورگیارہ بجے تک مسجداقصی نمازیوں سے مکمل بھر جاتی ہے ہم نے معمولات جمعہ سورہ کہف کی تلاوت اور درود شریف اوردیگرضروری معمولات سے فراغت کے بعد دس بجے مسجد اقصیٰ جانے کا منصوبہ بنا لیاتھا ۔ 9بجے ہم ہوٹل میں ناشتہ کررہے تھے کہ ٹی وی کی خبرنے چونکا دیاجس کے مطابق مسجد اقصی میں فائرنگ ہوگئی ہے اور نتیجے میں تین فلسطینی نوجوان شہید کردئیے گئے ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ اور ایک اسرائیلی سپاہی بھی ہلاک ہوگیاہے اس حادثے کی کوئی وجہ سامنے نہیں آئی سوائے اس کے اسرائیلی فورسزنے چند مسلمان خواتین کے ساتھ بے عزتی کا سلوک کیا تب یہ نوجوان جو فلسطین کے نواحی علاقے سے تعلق رکھتے تھے مشتعل ہوئے اور انہوں نے یہودی گارڈکے پیٹ میں چاقو گھونپ دیا ، چونکہ یہ حادثہ فوری اشتعال کانتیجہ تھا پہلے سے کوئی منصوبہ بندی نہ کی گئی تھی اس وجہ سے ان نوجوانوں سے غلطی یہ ہوگئی کہ انہوں نے شہرکی طرف بھاگنے کی بجائے مسجد اقصی میں پناہ لے لی ،جہاں صحن مسجداقصیٰ میں ان نوجوانوں کو بڑی آسانی سے فائرنگ کا نشانہ بنادیاگیا۔اور اسے بہانہ بنا کرانہوں نے مسجد اقصی کو بند کردیا۔ یوں جمعہ اداکرنے پر پابندی کابہانہ مل گیا کیونکہ نماز جمعہ میں بہت بڑااجتماع ہوتا ہےاس لیے غاصبین نے مسجداقصیٰ کو مکمل بند کردیا کہ کوئی بھی شخص مسجد میں داخل ہوسکے نہ احتجاج ہوسکے۔پھر تسلسل کے ساتھ یہ خبراپ ڈیٹ ہوتی رہی جو ساتھی صبح تہجد کیلئے گئے تھے انہوں نے بتایا کہ ہم 7بج کر 10منٹ پر مسجد سے نکلے جبکہ فائرنگ7.25پر ہوئی یعنی پندرہ منٹ کے بعد یہ حادثہ فاجعہ ہوگیا مسجد اقصیٰ جانے والے سب دروازے بند کر دئیے گئے ہیں چونکہ شہرکادروازہ (ہیروڈیس گیٹ) ہمارا سب سے قریبی دروازہ ہے۔ ہم باہرنکلے تاکہ صورتحال دیکھ سکیں لیکن بلدیہ اور پولیس تھانہ جو ہمارے ہوٹل سے تین چار منٹ دور ہے وہاں اسرائیلی فوجی تعینات تھے انہوں نے ہمیں وہیں روک لیا اور واپس جانے پر مجبور کیا ۔ ہم نے انہیں باور کرانے کی کوشش کی کہ ہمیں اس واقعہ کا علم نہیں ہمارا مقصد صرف جمعہ کی ادائیگی ہے لیکن انہوں نے ایک نہیں سنی۔ چاروں طرف سے لوگ وہاں پہنچ رہے تھے ہم واپس ہوٹل آگئے کہ اب یہیں جمعہ ادا کریں گے۔ فرسٹ فلور میںہوٹل کے مالک جو ایک فلسطینی ڈاکٹر ہیں ، انہوں نے سرجری والا پورشن جمعہ کی ادائیگی کیلئے کھول دیا۔سب ساتھی وہاں جمع ہوگئے اور راقم نے خطبہ دیا۔ دوران خطبہ مزید دو ساتھی لندن سے پہنچ آئے یہ ہمارے ہی قافلے کے لوگ تھے ۔ہمیں اس بات کا شدید صدمہ ہواکہ ایک ہی جمعہ مسجد اقصی میں ادا کرنا تھا اور وہ بھی ادانہ کرسکے ۔لیکن راضی برضا رہے کہ دوگنا ثواب تو مل ہی جائے گا ۔ہم نے تو پھر چند دن مسجداقصیٰ میں خوب حاضری دی لیکن ہمارے نئے آنے والے دو ساتھیوں کو تو کچھ بھی استفادہ کا موقع نہ مل سکا۔دیگر لاتعداد لوگوں کی طرح مفتی اعظم فلسطین بھی جم غفیر کے ہمراہ جمعہ پڑھانے کیلئے مسجد اقصی جانا چاہتے تھے ۔لیکن انہیں وہیں روک لیا گیا انہوں نے پولیس تھانہ کے سامنے پہنچ کر احتجاج کیااس کے باوجود انہیں شہرمیں داخل نہ ہونے دیا گیا تو انہوں نے وہیں خطبہ دیناشروع کردیا۔ اردگردکے لوگ جمع ہوتے گئے نماز جمعہ کے بعداسرائیلی فورسز نے نمازیوں پر دھاوا بول دیا اورمفتی اعظم کو گرفتار کرکے لے گئی ۔لیکن احتجاج کسی طرح رکنے میں نہیں آرہاتھا ۔عصرومغرب وعشاء کی نمازوں میں بھی ہم نے مسجد اقصی جانے کی کوشش کی لیکن اسرائیلی فورسز ایک انچ بھی آگے نہیں جانے دیتی تھی ۔سبھی لوگ وہیں سڑک پر نماز ادا کرلیتے تھے اور ظالموں نے وہاں نماز ادا کرنے والوں پر بڑا سخت حملہ کیا۔جس کی وڈیو یوٹیوب پر وائرل ہوگئی ہے اور ترکی صدر طیب اردگان نے بھی اپنی تقریر میں اس کا ذکر کیا ہے اتنا ظلم کہ اللہ کے سامنے سربسجود نمازیوں کو ٹھوکریں مار کرگرایا گیا اور اسلحہ سے ان پر فائرنگ کی گئی ۔ اور کہتے ہیں کہ ہم نعوذ باللہ خداکی اولاد اور اس کے پیارے ہیں۔ (اللہ نے فرمایا) نہیں تم بڑی بری مخلوق ہو{نحن ابناؤ اللہ واحباؤہ…المائدہ18}۔ ہماراچونکہ ہوٹل بالکل ساتھ تھا اس لیے ہم نے ساری نمازیں وہیں اداکیں 1969کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ مسجد اقصیٰ میں جمعہ ادا نہیں کرنے دیا گیا بلکہ دو دن مسجد اقصی کو بند کردیاگیا۔کسی امام کو داخل ہونے دیا گیا اور نہ کسی نمازی کو یوں یہ مسجد انبیاء نماز و اذان کے بغیرپورے دو دن مسلمانوں کی حالت زار پر نوحہ کناں رہی ۔