• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آفرین ہے کہ کہہ کون رہا ہے ،کس کے بارے میں کہہ رہا ہے اور کیا کہہ رہا ہے۔ اسی لئے تو مولانا ابو الکلام آزاد نے فرمایا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اورسیاسیات کے استاد میکاولی کا کہنا تھا کہ سیاست میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی، یہاں صرف ذاتی مفاد مقدم ٹھہرتا ہے۔ میکاولی کے پیروکار پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے یقینا اسی مقولے پر عمل کرتے ہوئے تین سال تک چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر فائز رہنے والے اپنی ہی پارٹی کے قد آور رہنما میاں رضا ربانی کو صرف اس لئے دوسروں کی نظروں میں گرانے کی کوشش کی کہ وہ انہیں آئندہ چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد نہیں کرنا چاہتے تھے۔ جس شخص کی پہچان ہی آئین ،جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کی جدوجہد سے عبارت ہو اس پربہتان تراشی کی گئی کہ اس نے تین سال نواز شریف کی طرف سے کی جانیوالی آئین کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کیا ا سلئے ان کی زیادہ قربت مسلم لیگ ن کے قائد کیساتھ ہے اور یہ طعنہ بھی دیدیا کہ رضا ربانی نے اٹھارویں ترمیم پر پیپلز پارٹی کے تحفظات کو دور نہیں کیا۔ خود کو مفاہمت کا بادشاہ کہلائے جانےپر خوش ہونیوالے آصف زرداری اتنی بڑائی کا مظاہرہ تو کرتے کہ چاہے نواز شریف کی متفقہ چیئرمین لانے کی پیشکش کا مثبت جواب نہ دیتے لیکن پیپلزپارٹی کے حقیقی تشخص کے نمائندہ میاں رضا ربانی کے بارے میں ایسی لب کشائی نہ کرتے جس نے پارٹی کے دیگر سینئر رہنماوں کو بھی افسردہ کردیا۔ یہ بھی کتنی ستم ظریفی ہے کہ رضا ربانی کے کردار اور طرز عمل پر اس وقت انگلی اٹھائی گئی جب موجودہ پراگندہ سیاسی ماحول کے باوجود کم و بیش ملک کی تمام سیاسی جماعتیں انہیں دوبارہ متفقہ طور پر چیئرمین سینیٹ دیکھنے کی خواہشمند تھیں۔ اگر کسی جماعت نے پیپلزپارٹی کے ساتھ ان کی وابستگی کے باعث سیاسی حوالے سے ان کی مخالفت بھی کی تو بطور سیاسی رہنما اور چیئرمین سینیٹ ان کے آئین اور جمہوریت پر غیر متزلزل ایمان کی وجہ سے در پردہ ان کی حمایت میں چار کلمات ضرور ادا کئے۔اس پر تو آئین کی بالا دستی اور جمہوریت کے تحفظ کی جنگ میں شہید ہونے والی بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کو فخر کرنا چاہئے تھا لیکن ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کے شکارزرداری صاحب بھول گئے کہ یہ وہی رضا ربانی ہیں جن کی آنکھیں آج بھی اپنی شہید قائد کی تصویر کو دیکھ کر نم ہو جاتی ہیں۔ شریک چیئرمین کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے ملکی تاریخ میں پہلی بار متفقہ انتخاب کے بعد چیئرمین سینیٹ کا حلف اٹھاتے ہوئے واشگاف الفاظ میں عہد کیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کو غیر جمہوری قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنا دیں گے اور پھر گزشتہ تین برسوں میں انہوں نے اپنے کہے گئے ایک ایک لفظ کی لاج رکھی اور اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ صرف آئین کی حکمرانی کے ذریعے ہی جمہوریت کے تسلسل کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ جس چیئرمین سینیٹ نے اپنے عہدے سے سبکدوش ہوتے ہوئے بھی آئین کی سربلندی اور پارلیمان کی بالادستی کا درس دیا اس پر آئین سے انحراف کا الزام لگانا ان کی عمر بھر کی کمائی کی نفی کرنے کے مترداف ہے۔ سابق صدر کے ذہن سے تو یہ بھی محو ہو گیا کہ جس اٹھارویں ترمیم پر پیپلز پارٹی کے تحفظات دور نہ کرنے کا شکوہ کیا گیا اس کے تخلیق کاروں کی قیادت اسی رضا ربانی نے کی تھی اور جو آج تک اس کے ہرنکتے پرعمل درآمد کیلئے خدمتگار بنا رہا ہے۔ اس تاریخی آئینی ترمیم پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے سینیٹ کی ڈیوولیوشن کمیٹی کے قیام اور ہر دو ماہ بعد اس کی رپورٹ کے ایوان میں پیش ہونے کو یقینی بنانے کا سہرا بھی انہی کے سر بندھتا ہے۔ ان پر نواز شریف کی طرفداری کا بہتان لگانے والے ریکارڈ دیکھ لیتے تو جان پاتے کہ پارلیمانی تاریخ میں حکومت وقت کے خلاف درجنوں رولنگز دینے کا اعزاز انہیں ہی حاصل ہوا،وفاقی وزرا کے ایوان میں داخلے کی پابندی اور وزیر خارجہ کی رکنیت کی معطلی جیسے منفرد اقدامات انہی کے کارہائے نمایاں ہیں۔ باخبر لوگ جانتے ہیں کہ آصف زرداری جس نظریہ ضرورت کے راستے پر آج گامزن ہیں ان میں رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر جیسے ضمیر کے قیدی کسی طور پورا نہیں اتر سکتے۔ قائد اعظم کے ساتھ بطور اے ڈی سی کام کرنے والے عطا ربانی کے بیٹے سے یہ توقع کرنا کہ وہ حق گوئی کا راستہ چھوڑ کر پارٹی کے مفادات کاتحفظ کرتا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ ان سطور کو تحریر کرنے تک سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کیلئے امیدواروں کا اعلان نہیں کیا جا سکا تھا لیکن ان کی اشاعت تک جو بھی امیدوار حتمی طور پر سامنے آئیں گے وہ مفادات اور اقتدار کے کھیل کی اس تمام رسہ کشی کوضرور آشکار کر دیں گے۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا کہ درحقیقت پارلیمنٹ کے ایوان بالا پر گرفت مضبوط کرنے کی منصوبہ بندی پرکام اسی وقت سے شروع ہو گیا تھا جب بلوچستان اسمبلی میں 21 نشستیں رکھنے والی مسلم لیگ ن کے وزیر اعلیٰ کی چھٹی کرا دی گئی تھی اور 65 رکنی اسمبلی میں جن کے 46 ارکان تھے ان سے اقتدار چھین کر اسمبلی میں 5 نشستیں رکھنے والی جماعت کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ کے منصب پرچھ سو ووٹ لینے والے شخص کو بٹھا کر یہ بھی ثابت کر دیا گیا کہ عوام چاہے حکمرانی کا مینڈیٹ جس کو بھی دیں ،سہاگن وہی بنے گی جو پیا من بھائے۔ دوسری طرف کل تک ہارس ٹریڈنگ پر لعنت بھیجنے اور اسے شرمناک قرار دینے والے کپتان نے انہی کی چوکھٹ پر حاضر ہو کر اپنے تیرہ سینیٹرز ان کی جھولی میں ڈال دئیے جن کا انتخاب ہی ہارس ٹریڈنگ کا شاخسانہ ہے۔ وہ تو ڈپٹی چیئرمین شپ فاٹا کے ان ارکان کو دینے کا مطالبہ بھی کرتے رہے جن کے سینیٹرز بننے کی شرمناک کہانیاں زبان زد عام ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ایک ہی سانس میں آصف زرداری اور نواز شریف کو مطعون کرنے والے عمران خان نے بلواسطہ پیپلز پارٹی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا اورہمیشہ کی طرح خان صاحب کو ایک بار پھر اپنا موقف اور راستہ تبدیل کر کے منزل پر ذرا لمبا چکر کاٹ کر پہنچنا پڑا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ نواز شریف اگرچہ اقتدار کی بجائے اقدار کی سیاست کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن رضا ربانی کی بطور چیئرمین سینیٹ نامزدگی کی تجویز کے پس پردہ یہ مفاد بھی کارفرما تھا کہ وہ نہ صرف ان کے موجودہ بیانیے کی حمایت کیلئے موزوں ترین ہیں بلکہ اس طرح یہ تاثر بھی زائل ہوجاتا ہے کہ اداروں کے اپنے دائرہ اختیار کے اندر رہنے اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کی باتیں صرف ن لیگ کے رہنما ہی کرتے ہیں۔ اس اہم موقع کو اپنے مفاد میں تبدیل کرنے کی پالیسی پرفاٹا ارکان بھی کاربند نظر آئے جنہوں نے جس گروپ سے بھی بات کی اس سے حمایت کے عوض ڈپٹی چیئرمین اور فنڈز کا تقاضا کیا جبکہ فاٹا اصلاحات پر عمل درآمد کو ساتھ نتھی کر کے مطالبات کو جائز بنانے کی کوشش کی۔ اسی طرح ایم کیوایم کے دونوں دھڑوں نے اپنے ووٹوں کے عوض کارکنوں کی رہائی ، دفاتر کی واپسی سمیت وہی روایتی مطالبات پورے کرانے پرزیادہ زور دیا۔ پہلی بار ہوا کہ جے یو آئی ف نے براہ راست کچھ دو کچھ لو سے اجتناب کرتے ہوئے متفقہ چیئرمین لانے کیلئے بیک ڈور ڈپلومیسی میں اہم کردار اد اکیا۔ اسی طرح جماعت اسلامی نے بھی مشروط حمایت کی بجائے جمہوری طرز عمل اختیار کرنے کی حمایت کی۔اے این پی بھی جمہوریت کی مضبوطی پرگامزن نظرآئی جبکہ سب سے زیادہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی قیادت کی طرف سے دیکھنے میں آیا جس نے کسی بھی قسم کی سودے بازی کی اور نہ ہی کوئی مطالبہ پیش کیا۔ یوں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات سے عوام پر یہ ضرورواضح ہو گیا کہ کس نے اقتدار کی سیاست کی اور کون اقدار کی سیاست پر قائم رہا۔

تازہ ترین