محمد نوید اسلم
گلی قاسم جان جو کہ بلی ماراں سے نکلتی ہے میں ایک حویلی کے سامنے سے گزریں تو منہ پر یہ شعر خود بخود، باترنم آجایا کرتاہے۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
یہ غزل ونود سہگل کی آواز میں ترنم کے ساتھ ڈرامہ سیریز’’ مرزا غالب ‘‘میں تھی۔نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ ’’مرزا غالب‘‘ پر سب سے پہلے1954 میںبھارت میں بننے والی فلم’’مرزا غالب‘‘ کی ہدایات سہراب مودی نے دی تھی جبکہ فلم پروڈیوسر بھی وہی تھے۔ ڈائیلاگز راجندر سنگھ بیدی جبکہ کہانی سعادت حسن منٹو کی تھی۔ فلم کی موسیقی غلام محمد نے دی تھی۔اس فلم کو لوگوں نے کافی پسند بھی کیا۔ بھارت بھوشن بھی غالب کے رول میں اچھے لگے۔
یہاں تک کہ پاکستان میں بھی انہیں وہی عزت ملی جو ہندوستان میں ملتی رہی ہے۔اس فلم کی کاسٹ میں بھارت بھوشن، ثریا، نگار سلطانہ، درگا کھوٹے ،مرا اوردیگر شامل تھے۔اس فلم میںبہادر شا ہ ظفر کا دور دکھایاگیا تھا۔ اس میں دکھایا جاتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر کا دربار سجا ہوا ہے اوراس میں شیخ ابراہیم ذوق، حکیم مومن خان مومن،مصطفی خان شیفتہ،محمدعلی تشنہ کے ساتھ ایک محفل سجی ہوئی ہے۔ اس کاآغازبہادر شاہ ظفر کے کلام
ظفرآدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا سے ہوتاہے۔مرزا غالب کی جب باری آتی ہے تو وہ اپنا کلام
ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور
یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
سناتے ہیں اس کوپذیرائی ملنے کی بجائے ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ وہ اس محفل سے مایوس ہوکر نکلتے ہیں… غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔فلم انڈسٹری کی بات کی جائے توبالی وڈ ہویا ہالی وڈ ان پر فلمسازی آسان نہیں تھی لیکن فنکاروں نے اس کردار کو بڑی مہارت سے ادا کیا۔
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں
دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم، غیر ہمیں اْٹھائے کیوں
1961 میں پاکستان میں مرزا غالب پر اسی نام سے ایک فلم بنی۔ اس فلم کو ایم ایم بلو مہرا نے بنایا تھا۔ اس فلم میں سدھیر نے غالب کا رول نبھایا تھا اس میںان کے ساتھ نور جہاں تھیں۔ یہ فلم 24 نومبر 1961کو ریلیز ہوئی تھی۔ باکس آفس پر اسے اوسط کامیابی بھی ملی تھی۔
بھارت بھوشن نے سدھیر سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سدھیر اس کردار کیلئے فٹ نہیں تھے کیونکہ ان کی شخصیت غالب کے کردار کیلئے موزوں نہیں تھی۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ ان کا امیج پنجابی فلموں کے ہیرو کا تھا۔ بہرحال پاکستان میں بننے والی فلم بھی سپرہٹ تھی اور بھارت میں بنائی جانے والی فلم نے بھی باکس آفس پر زبردست کامیابی حاصل کی۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ دونوں فلموں میں غالب کی غزلیں بڑی خوبصورتی سے گائی گئیں۔ پاکستانی فلم میں میڈم نور جہاں اور بھارتی فلم میں ثریا اور طلعت محمود نے مرزا غالب کی غزلیں انتہائی لاجواب طریقے سے گائیں۔ آج تک ان دونوں فلموں کی غزلوں کو یاد کیا جاتا ہے۔
’’مرزا غالب ‘‘کی بات ہورہی ہے تو نصیرالدین شاہ کا تذکرہ نہ ہو یہ کیسے ہوسکتاہے۔ انہوں نے گلزار کی ٹیلی فلم ’’غالب‘‘ میں کام کیاتھا۔ اس میں غالب کی پوری زندگی کا احاطہ کیا گیا۔ بلاشبہ گلزار نے اس ٹیلی فلم پر بہت محنت کی تھی۔ اس کا سکرپٹ بہت عمدہ تھا اور پھر مکالموں کا تو جواب ہی نہیں تھا۔ گلزار نے بڑی تحقیق کے بعد یہ ٹیلی فلم بنائی تھی۔
اداکاری میں نصیرالدین شاہ کے علاوہ نینا گپتا اور شفیع انعامدار اور دیگر اداکاروں نے بھی اپنے فن کے خوب جوہر دکھائے۔ اس بھرپور فلم میں غالب کی شخصیت مکمل طور پر ناظرین کے سامنے آئی ہے۔ خاص طور پر انہوں نے جو دکھ جھیلے اور مصائب برداشت کیے ان کی تفصیل بھی ملتی ہے۔ غالب کی ٹیلی فلم کی ایک اور خوبی جگجیت سنگھ کی گائی ہوئی غزلیں تھیں۔یہ بہت اعلیٰ طریقے سے گائی گئیں۔ان غزلوں نے اس ٹیلی فلم کی شان میں بہت اضافہ کیا۔ نصیرالدین شاہ کا گیٹ اپ بھی نہایت متاثر کن تھا۔ جن اداکاروں نے چھوٹے چھوٹے کردار ادا کیے انہوں نے بھی حق ادا کر دیا لیکن اس کا کریڈٹ تو گلزارکوجاتا ہے۔
بلی ماراں کے محلے کی وہ پیچیدہ دلیلوں کی سی گلیاں
سامنے ٹال کے نکڑ پہ بیڑوں کے قصیدے
چند دروازوں پہ لٹکے ہوئے بوسیدہ سے کچھ ٹاٹ کے پردے
اور دھندلائی ہوئی شام کے بے نور اندھیرے سائے
ایسے دیواروں سے منہ جوڑ کر چلتے ہیں یہاں
چوڑی والان کٹرے کی بڑی بی جیسے
اپنی بجھتی ہوئی آنکھوں سے دروازے ٹٹولے
اس بے نور اندھیری سی گلی قاسم سے
ایک ترتیب چراغوں کی شروع ہوتی ہے
ایک قرآن سخن کا بھی ورق کھلتا ہے
اسد اللہ خاں غالب کا پتہ ملتا ہے
جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ کی غزلوں کوآج کی لازوال کہا جاتا ہے۔ٹی وی شو اور سینماہی نہیں، غالب کی زندگی کو نہ جانے کتنی بار رنگ منچ پر سجایا گیا۔ پارسی تھیٹر سے شروع کرتے ہوئے ہندوستانی تھیٹر کے دنوں تک مہدی کی تحریر کردہ ناٹکوں میں نہ جانے کتنی بار محمد ایوب نے غالب کا رول نبھایا۔
سبحانی بایونس کراچی ٹی وی کے ڈراموں میں کام کرتے تھے اور بڑے باکمال اداکار تھے۔ انہوں نے غالب کا کردار ادا کر کے سب کو چونکا کے رکھ دیا۔ ان کا گیٹ اپ بھی بڑا زبردست تھا اور انہوں نے اداکاری بھی شاندار کی۔سبحانی بایونس 2 جون 1924کو حیدر آباد دکن کے مقام اورنگ آباد میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان کے بعد انہوں نے سٹیج ڈرامے سے اپنی فنکارانہ زندگی کا آغاز کیا۔
1969 میں حکومتِ پاکستان نے ہدایتکار خلیق ابراہیم کو مرزا غالب پر ایک دستاویزی فلم بنانے کا ٹاسک دیا۔ اس دستاویزی فلم میں سبحانی بایونس نے غالب کا کردار ادا کیا تھا، یہ فلم 1972 میں مکمل ہوئی لیکن ریلیز ہونے سے پہلے ہی بند ڈبوں میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ کردی گئی، البتہ سبحانی بایونس کو یہ فائدہ ضرور ہوا کہ بعد میں انہوں نے ایک ٹی وی ڈرامے میں غالب کا یہی کردار ادا کرکے شہرت حاصل کی۔
آغا حشر کاشمیری کے بعد برصغیر کے دوسرے بڑے ڈرامہ نویس خواجہ معین الدین تھے، جنہوں نے مرزا غالب بندر روڈ پر اور تعلیم بالغاں جیسے مشہور ڈرامے لکھے، ہم میں سے بہت سے لوگوں کو خواجہ معین الدین کا لکھا ہوا ڈرامہ ’’مرزا غالب بندر روڈ پر‘‘ ضرور یاد ہوگا جس میں اردو کے اس مشہور شاعر کو پاکستان کے پہلے دارالحکومت کراچی کا دورہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
سبحانی بایونس، خواجہ معین الدین احمد جیسے عظیم ڈرامہ نگار کی ٹیم میں شامل تھے اور انہوں نے ان کے متعدد ڈراموں میں لازوال کردار ادا کئے، جن میں سے سب سے زیادہ شہرت ’’مرزا غالب بندر روڈ پر‘‘ نے ہی پائی، اس ڈرامے میں سبحانی بایونس نے غالب کا کردار ادا کیا اور پھر اس کے بعد وہ اس کردار کیلئے لازم و ملزوم بن گئے۔
محمد قوی خان نے بھی غالب کا کردار ادا کیا اور وہ بہت پسند کیے گئے۔ انہوں نے 50 منٹ کے اس ڈرامے میں جس طرح غالب کو پیش کیا وہ ہر لحاظ سے قابل تحسین تھا۔ خاص طور پر ان کے مکالمے بولنے کا انداز اور چہرے کے تاثرات کمال کے تھے۔
ان کا گیٹ اپ بھی زبردست تھا۔ قوی خان کے بہترین ڈراموں میں یہ ڈرامہ بھی تھا۔ وہ فلموں میں بھی کام کرتے رہے اور انہوںنے اس حوالے سے بہت سی فلموں میں مختلف کردار ادا کیے۔ قوی خان کی فنی عظمت کا اعتراف نہ کرنا یقینا ناانصافی ہوگی۔
حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچھاہے
اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچّھا ہے
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچّھا ہے
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچّھا ہے