• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

خانوادے: صاحبِ کردار سیاست کار: حُسین شہید سہروردی

خانوادے: صاحبِ کردار سیاست کار: حُسین شہید سہروردی

متّحدہ ہندوستان کا زرخیز اور مردُم خیز خطّہ، مرکزِ ادب و ثقافت، تہذیب کا منبع، مشرقی حُسن کا مُرقّع، رقص و موسیقی اور نغمہ و آہنگ کا سرچشمہ، انقلابی تحریکوں کا ہراول دستہ، رنگ و سنگ کا اتّصال، رابندر ناتھ ٹیگورؔ کی سرزمین اور فورٹ ولیم کالج کی جنم بھومی، بنگال کا مشرق بھی لاجواب اور مغرب بھی۔ اسی متحرّک سرزمین کے مغربی ضلع، بردوان کے علاقے، مدناپور میں ایک مسلمان گھرانا آباد تھا، جو انگریز کے زمانے میں وہاں کے تعلیم یافتہ گھرانوں میں شمار کیا جاتاتھا۔ 

اس خاندان کے آبا ئواجداد عراق کے شہر، سہرورد سے ہجرت کر کے مغربی بنگال آ بسے تھے۔ سلسلۂ تصوّف کے بانی، شہاب الدّین سہروردی خاندان کے مورثِ اعلیٰ تھے۔ سو، خاندان کے افراد اس نسبت سے ’’سہروردی‘‘ کہلواتے۔ یہ خانوادہ کئی پُشتوں سے علمی و ادبی اور سیاسی و سماجی سرفرازی کی داستانیں رقم کر تاآرہا تھا۔1890ء میں اس گھرانے میں ایک بچّہ پیدا ہوا، جس کا نام حسن شاہد سہروردی رکھا گیا۔ 

دو ہی سال گزرے تھے کہ 8ستمبر 1892ء کو ایک اور بچّے نے جنم لیا اور اس کا نام حُسین شہید سہروردی رکھا گیا۔ والد، سر زاہد سہروردی نام وَر شخص تھے اور کلکتہ (موجودہ نام کولکتہ) ہائی کورٹ کے جج کے عُہدے پر فائز تھے۔ غیر معمولی استعداد رکھنے کے ساتھ جدید دَور کے تقاضوں سے بھی پوری طرح آگاہ تھے۔ عربی، فارسی، انگریزی اور اُردو زبانوں پر عبور تھا۔ 

خانوادے: صاحبِ کردار سیاست کار: حُسین شہید سہروردی

شریف النّفس اتنے کہ کسی نے بلند آواز سے کلام کرتے نہیں سُنا اور شخصیت کا احترام اتنا کہ کوئی اُن کی بات رَد نہ کر پاتا۔ والدہ، خجستہ اختر بانو ادب سے گہرا شغف رکھتی تھیں۔ فارسی ادبیات سے خاص لگاؤ تھا۔ اُردو زبان کے اوّلین ناول نگاروں میں شمار کی جاتی تھیں۔ سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کرنے والی وہ پہلی مسلمان خاتون تھیں۔ زاہد سہروردی اور خجستہ بانو میں چچا زاد اور پھوپی زاد بھائی، بہن کا رشتہ تھا۔ ماموں، حسن سہروردی برطانوی فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عُہدے پر فائز رہ چُکے تھے۔ 

نانا، مولانا عبید اللہ العبیدی سہروردی عربی اور فارسی کے عالم ہونے کے علاوہ پروفیسر بھی تھے۔ ڈھاکا، مدرسے کے بانیوں میں شمار ہوتا تھا۔ عربی، فارسی اور اُردو میں کئی کتابیں تحریر کیں۔ ’’عربی زبان کے قواعد‘‘،’’اُردو دیوان (اردو نظمیں)‘‘،’’فارسی دیوان‘‘(فارسی نظمیں)، ’’دستارِ فارسی آموز‘‘ (فارسی قواعد) اور دیگر تصانیف کے علاوہ چند انگریزی کُتب کے تراجم بھی کیے۔ سر سیّد احمد خان کے دوستوں میں بھی شامل تھے اور اُن سے متاثر بھی۔ گھرانا تعلیم یافتہ اور صاحبِ ثروت ہونے کے باعث آسائشات اور تعیّشات کے حصول تک رسائی کا آسان موقع رکھتا تھا۔ 

دونوں بھائیوں کو علم و ادب اور قانون سے شغف وراثتی طور پر منتقل ہوا تھا۔ بھائیوں کی عُمروں میں بھی زیادہ فرق نہ تھا۔ اب اُن کی تعلیم و تربیت کا دَور شروع ہوا۔ بڑے بھائی، حسن کی طبیعت خاصی حد تک شاعرانہ تھی۔ ادب، فنِ تعمیر، ثقافت اور خوابوں کی دُنیا میں مگن رہنااُس کا چلن تھا، جب کہ اس کے مقابلے میں حسین ارد گرد کی فضا اور رُونما ہونے والے واقعات میں گہری دلچسپی کا اظہار کرتا تھا۔ 

بڑے بھائی نے1908ء میں اعزاز کے ساتھ کلکتہ یونی ورسٹی سے انگریزی میں گریجویشن کیا۔ مزید تعلیم کے لیے اسکالر شپ پر برطانیہ کا سفر اختیار کیا اور اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں تاریخ اور قانون کو بہ طور مضمون اختیار کیا۔

حُسین شہید سہروردی کی عُمر کا اوّلین حصّہ اپنی غیر معمولی لیاقت رکھنے والی ماں اور عالمِ دین نانا کی سرپرستی میں بسر ہوا۔ ابتدائی تعلیم کلکتہ عالیہ مدرسہ میں ہوئی۔ بچّے کی ذہانت اساتذہ کی نظروں میں آ گئی اور یوں وہ خصوصی توجّہ کا مرکز قرار پایا۔ اسکول کی تعلیم مکمّل ہوئی، تو سینٹ زاویار کالج سے سائنس کے مضمون میں اعزاز کے ساتھ گریجویشن اور 1913ء میں کلکتہ یونی ورسٹی سے عربی میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ 

ماسٹرز کی تعلیم اپنی ماں کی خواہش کے احترام میں مکمل کی۔ مزید تعلیم کے لیے اوکسفرڈ یونی ورسٹی کا رُخ کیا اور یہیں سے بی ایس سی (آنرز) اور بی سی ایل کی اسناد اعزاز کے ساتھ حاصل کیں۔ پولیٹیکل اکانومی اور پولیٹیکل سائنس میں ڈپلوما بھی مکمل کیا۔ بیرونِ مُلک سے حاصل کی جانے والی اُن کی آخری سند بیرسٹری کی تھی، جو1918 ء میں ’’گریز اِن‘‘ سے وصول کی۔

 اب انہوں نے دوبارہ ہندوستان کا رُخ کیا اور کلکتے سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ محض ایک سے دو سال کے اندر کلکتے کی گلیوں، کُوچوں میں اُن کی وکیلانہ استعداد کے چرچے ہونے لگے۔ نام وَر وکیل کے طور پر کلکتہ ہائی کورٹ میں روزانہ ہی وقت گزارنا پڑتا، چناں چہ اعلیٰ پائے کے ججز سے بھی دوستانہ مراسم استوار ہوئے۔ 1920ء کا زمانہ تھا کہ کلکتہ ہائی کورٹ کے جج، سر عبدالرحمٰن کی، جو ’’انڈین لیجسلیٹیو اسمبلی‘‘ کے صدر اور گورنر کی ’’ایگزیکٹیو کائونسل‘‘ کے رُکن بھی تھے، دُختر، ناز فاطمہ سے نکاح کے بندھن میں بندھ گئے۔

 ’’تحریکِ خلافت‘‘ کی حمایت گویا اُن کی سیاسی زندگی کا آغاز تھا۔ انگریزوں کی مخالفت پر مبنی ’’تحریکِ عدم تعاون‘‘ سے بھی عملی طور پر تعاون کیا۔1920-21ء کے آس پاس سہروردی ایک بیٹے، شہاب اور بیٹی، اختر جہاں کے باپ بن چُکے تھے۔1921ء میں بردوان ڈویژن کے مسلم حلقۂ انتخاب سے ’’بنگال قانون ساز اسمبلی‘‘ کے رُکن منتخب ہوئے۔ 1922ء میں شادی کے تیسرے ہی سال اہلیہ، ناز فاطمہ انتقال کر گئیں۔ یہ سہروردی کے لیے بڑا کٹھن وقت تھا۔ بچّے بالکل ہی ناسمجھ تھے اور اُن کی تعلیم و تربیت کا کڑا وقت سَر پہ آن کھڑا تھا۔

اسی کے ساتھ ہی ہندوستان کی سیاست کا رُخ بھی آہستہ آہستہ بدل رہا تھا۔ انگریز سے چُھٹکارے کی تدبیریں سوچی جا رہی تھیں۔ سیاسی منظر نامے پر گاندھی اور محمد علی جناح کا نام تواتر سے لیا جانے لگا تھا۔ سہروردی نے دونوں رہنماؤں کا اندازِ کار نظروں میں رکھنا شروع کر دیا تھا۔ خود کلکتہ میں سیاسی بیداری کی لہر خاص و عام کو متاثر کیے دے رہی تھی۔ ایسے میں حُسین شہید سہروردی کو دو محاذوں پر لڑنا پڑ رہا تھا۔

 ایک اندرونی محاذ، جہاں اہلیہ کے انتقال سے گھر کا شیرازہ بِکھر چُکا تھا اور دوسرا بیرونی محاذ، جہاں غیر مقامی یا بیرونی طاقت مُلک کی دولت اور وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لُوٹنے میں مگن تھی۔ حُسین شہید سہروردی نے بھرپور عزم و ارادے سے دونوں محاذوں پر دلیرانہ انداز میں لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ کلکتہ کی مزدور تنظیموں کو متحرّک کیا اور ساتھ ہی ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو پاٹنے کا انتہائی اہم کام انجام دیا۔

1924ء میں ایک بار پھر اسمبلی کے رُکن منتخب کیے گئے۔ تب چترنجن داس(1870-1925ء) ہندوستان کی آزادی کے سلسلے میں کلکتے میں ہر ممکن ذریعے کو کام میں لا رہا تھا۔ وہ نہ صرف ایک منجھا ہوا سیاست دان تھا، بلکہ ایک قابل وکیل بھی تھا۔ اسی کے ساتھ وہ بنگال میں ’’سوراج پارٹی‘‘ کا بانی بھی تھا، جس کا مقصد ہندوستان کی آزادی کے لیے کام کرنا تھا۔ 

یہی نہیں ،بلکہ چترنجن داس کا شمار بنگال کے معروف شعراء میں کیا جاتا تھا۔ ’’تحریکِ عدم تعاون‘‘، جو انگریزوں کے خلاف ہندوستان کے باشندوں کے عزمِ صمیم کا مظہر تھی، بنگال میں چترنجن داس کے جرأت آمیز کردار کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ حُسین شہید سہروردی کو چترنجن داس کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔

 ’’کلکتہ میونسپل کارپوریشن‘‘ کاقیام عمل میں آیا، تو چترنجن اُس کے میئر اور حسین شہید سہروردی نائب منتخب ہوئے۔1925ء میں چترنجن داس کے دیہانت کے بعد حُسین شہید سہروردی نے ’’سوراج پارٹی‘‘ سے علیحدگی اختیار کر لی۔

1926 ء میں بنگال میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین فسادات ہوئے۔ ایک سو سے زاید افراد مارے گئے اور دُگنی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔ حُسین شہید سہروردی نے جرأت و بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان خطرے میں ڈال کر متاثرہ علاقوں کو پُر امن بنایا۔ احساسِ برتری سے کوسوں دُور، عوام کے دُکھ سُکھ کو پوری طرح محسوس کرنے والے حُسین شہید سہروری کا ذکراب ہندوستان میں عمومی طور پر اور بنگال میں خصوصی طور پر ہونے لگا۔ 

اُس کوچۂ سیاست میں اُن کی بلند قامتی کے چرچے ہونے لگے، جہاں زیادہ دیر تک لوگوں کے دِلوں میں رہنا گویا جُوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔1926 ءہی کا سال تھا کہ جب انہوں نے کائونسل کے انتخابات کے لیے ’’انڈی پینڈنٹ مسلم پارٹی‘‘ قائم کی۔1927ء میں ’’نیشنل لیبر فیڈریشن‘‘ کی بنیاد رکھی اور ’’کلکتہ خلافت کمیٹی‘‘ کے جنرل سیکریٹری کے طور پر بھی کام کا آغاز کیا۔ انتہائی محدود وقت میں سہروردی نے 36مزدور تنظیموں کو ایک مرکز تلے متّحد کر دیا۔ اُن تنظیموں میں ماہی گیر، پٹ سَن کے کاروبار سے منسلک مزدور، روئی کے کارخانے میں کام کرنے والے افراد، ریلوے ملازمین اور رکشے کھینچنے اور ریڑھی لگانے والے لوگ شامل تھے۔

خانوادے: صاحبِ کردار سیاست کار: حُسین شہید سہروردی

 اب اُنہیں مزدور طبقے کے دُکھ درد کا پوری طرح احساس ہو چُکا تھا۔ وکالت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے وہ بہت سے مزدوروں کی خاموشی کے ساتھ مالی معاونت بھی کر دیا کرتے۔ اُن کی شخصیت روایت اور جدّت کا امتزاج تھی۔ اسی سال وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر بنگال قانون ساز اسمبلی کے رُکن قرار پائے۔

1928 ء میں انہوں نے کلکتے میں پہلی ’’آل بنگال مسلم کانفرنس‘‘ منعقد کروائی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے 20ویں اجلاس منعقدہ کلکتہ میں شرکت کی اور بنگال کی صوبائی مسلم لیگ کے سیکریٹری منتخب ہوئے۔ ’’سائمن کمیشن‘‘ میں مسلمانوں کے لیے تجویز کیے جانے والے ناروا اقدامات کی بھرپور مخالفت کی۔ اسی سال جب ’’نہرو رپورٹ‘‘ سامنے آئی، تو اُس پر تنقید کرنے والوں میں سہروردی بھی شامل تھے۔

 کائونسل کے 1929ء میں ہونے والے انتخابات کے لیے سہروردی نے ’’بنگال مسلم الیکشن بورڈ‘‘ قائم کیا۔ زندگی کے آنے والے برس اور عشرے اُن کے لیے اعلیٰ ترین حکومتی مناصب سے پُر تھے۔1933 ء میں وہ مسلم کانفرنس کے نمایندے کی حیثیت سے لندن میں منعقد ہونے والے آئینی اصلاحات کمیشن کے رُو برو پیش ہوئے۔ 1936 ء میں سہروردی نے ممتاز رہنماؤں کے ساتھ مل کر ’’انڈی پینڈینٹ مسلم کانفرنس‘‘ قائم کی اور اس کے پہلے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔

 تاہم، کچھ عرصے بعد ہی صوبائی مسلم لیگی رہنماؤں کی خواہش پر دونوں جماعتوں کو مدغم کر کےانہیں ’’بنگال پراوِنشل مسلم لیگ‘‘ کا نام دے دیا اور اس کے پہلے جنرل سیکریٹری بھی مقرّر ہوئے۔ 1937کے انتخابات میں ’’یونائیٹڈ مسلم پارٹی‘‘ کے سیکریٹری کی حیثیت سے بنگال سے رُکنِ اسمبلی منتخب ہوئے اور لیبر اینڈ کامرس منسٹر کے طور پر کام کیا۔ یہ سرگرمیاں جاری ہی تھیں کہ 1940ء میں اُن کا بیٹا شہاب، جو اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم تھا، عین جوانی میں دُنیا سے رخصت ہو گیا۔ سہروردی جوان بیٹے کی موت سے گویا ٹوٹ کر رہ گئے۔

 ہمّت کر کے خود کو سنبھالا اور ایک بار پھر قوم کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ بیٹی، اختر جہاں کی شادی سر محمد سلیمان کے بیٹے، شاہ احمد سلیمان سے انجام پائی تھی۔ سر محمد سلیمان ،الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ اسی کے ساتھ وہ فیڈرل کورٹ آف انڈیا کے جج بھی تھے۔ اُنہیں الہ آباد یونی ورسٹی کا وائس چانسلر ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔

عزیزوں اور دوستوں کے پیہم اصرار پر حُسین شہید سہروردی نے عقدِ ثانی کیا۔ اہلیہ، ماسکو آرٹ تھیٹر کی سابق اداکارہ، ویرا ٹیسینکو تھیں، جن سے ایک بیٹا، راشد پیدا ہوا۔1951ء میں اُن کے درمیان علیحدگی ہو گئی۔ راشد سہروردی نے اداکاری کو اپنے اظہار کا ذریعہ قرار دیا۔ لندن میں اپنی زندگی کے ایّام گزارنے والے راشد سہروردی نے’’ Robert Ashby ‘‘کے نام سے فلمی دُنیا میں شناخت قائم کی۔ یہ رشتہ اس وجہ سے ممکن ہو سکا کہ حُسین شہید سہروردی کے بھائی، حسن شاہد سہروردی جب ڈائریکشن کے لیے ماسکو آرٹ تھیٹر پہنچے، تو ویرا وہاں موجود تھیں۔ 

حسن شاہد نے ویرا کو ہندوستان آنے کی دعوت دی، جو انہوں نے قبول کر لی۔ ویرا کی پہلی شادی ایک رُوسی سرجن سے ہوئی تھی۔ نئی مصروفیت کے ساتھ سہروردی نے’’بنگال پراوِنشل مسلم لیگ‘‘ کو پوری ریاست میں فعال کرنے کا بڑا کام بھی شروع کر دیا۔ لوگ اُن کے اعلیٰ کردار اور جرأت مند اندازِ کار کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ کی جانب متوجّہ ہونے لگے۔

1943-45ء تک خواجہ ناظم الدّین کی بنگال میں قائم حکومت میں سول سپلائیز منسٹر، لیبر منسٹر، فنانس منسٹر اور دیگر وزارتوں میں خدمات انجام دیں۔ 1946ءمیں مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اُنہیں متّفقہ طور پر بنگال کا لیڈر منتخب کر لیا گیا۔ بنگال کے اُس وقت کے گورنر، سر فریڈرک بوروز نے اُنہیں حکومت بنانے کی دعوت دی اور یوں وہ خواجہ ناظم الدّین کے بعد بنگال کے وزیرِاعظم (چیف منسٹر) قرار پائے۔ 

خانوادے: صاحبِ کردار سیاست کار: حُسین شہید سہروردی

حُسین شہید سہروری کے وزیرِاعظم (چیف منسٹر)بننے کے بعدبنگال ایک بار پھر فسادات کی زد میں آیا ۔ پورے ہندوستان میں بنگال واحد ریاست تھی کہ جہاں مسلم لیگ کی حکومت تھی۔ بنگال اور مسلم لیگ کو ایک دوسرے سے ویسے بھی خاص نسبت تھی۔ مسلم لیگ نے 1906 ء میں جس تاریخی شہر میں آنکھ کھولی، وہ ڈھاکا تھا۔ 1940میں ’’قراردادِ لاہور‘‘ کے محرّک کنندہ، بنگال کے اے کے فضل حق تھے۔

نیز، 1946ء کے فیصلہ کُن انتخابات میں مسلم لیگ کو فقید المثال کام یابی بھی بنگال ہی سے حاصل ہوئی اور اس نے 121میں سے 114نشستیں جیت لیں۔ اس فتح کے پیچھے سہروردی کی متحرّک، بیدار اور شاداب قیادت کار فرما تھی اور بنگال ہی پورے ہندوستان میں وہ واحد ریاست تھی، جہاں مسلم لیگ کی وزارت تھی۔ حُسین شہید سہروردی ایک بار پھر اپنی جان خطرے میں ڈال کر فسادات رُکوانے کے لیے متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئے اور بالآخر اُن کی کوششیں رنگ لائیں۔

1947 ء میں ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے سہروردی کی سیاسی بلند قامتی کو دیکھتے ہوئے انہیں گشتی سفیر بنانے کی پیش کش کی، جسے سہروردی نے نا منظور کر دیا۔ وہ کچھ وقت بنگال ہی میں رہے۔ 

یہ سارا وقت سہروردی نے گاندھی کے ساتھ مل کر کلکتے کے حالات بہتر بنانے اور وہاں آباد ہندوؤں اور مسلمانوں میں یگانگت قائم کرنے میں صَرف کیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ مہاتما گاندھی نے مسلمانوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آپ کے پاس جناح جیسا مُدبّر، لیاقت جیسا سیاست دان اور سہروردی جیسا رہنما موجود ہے۔‘‘ محض ایک سال کے اندر وہ پاکستان چلے آئے۔ 

وزیرِ اعظم، لیاقت علی خان اور ان کے درمیان بعض سیاسی معاملات میں اختلاف پایا جاتا تھا، جس کا اظہار دیکھنے میں آتا رہا۔ سہروردی نے اپنے خیالات کے اظہار میں کسی تکلّف، تصنّع اور بناوٹ سے کام نہ لیا۔ جیسا دیکھا، محسوس کیا، بیان کر دیا۔ مسلم لیگ کی طرف سے بنگال کی قیادت کے لیے حُسین شہید سہروردی کی بہ جائے خواجہ ناظم الدّین کو آگے رکھا گیا اور سہروردی پر مسلم لیگ کے دروازے بند کر دیے گئے۔

 اس کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان کی حکومت نے، جس کی قیادت خواجہ ناظم الدّین کے پاس تھی، سہروردی کی مشرقی پاکستان آمداور جلسوں سے خطاب پر بھی پابندی عاید کر دی۔ سیاسی اور قانونی محاذ پر اوائلِ عُمری سے متحّرک رہنے والے سہروردی نے اس پابندی کے خلاف عوام سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔1948ء کا اوائل تھا کہ ’’ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹس لیگ‘‘ قائم کی گئی۔ لیاقت علی خان کی حکومت نے 1949ء میں ایک مسودۂ قانون پیش کیا، جس کے تحت پاکستان میں مستقل سکونت نہ رکھنے والا کوئی شخص پاکستان کی مجلسِ دستور ساز کا رُکن نہیں رہ سکتا تھا۔ اُس وقت تک سہروردی نے پاکستان میں مستقل سکونت اختیار نہ کی تھی۔

 سو، وہ اس بِنا پر رُکنیت سے محروم قرار دے دیے گئے۔ 1949ء کے وسط میں ’’ایسٹ پاکستان عوامی مسلم لیگ ‘‘ بھی قائم ہو گئی۔ مقصد جمہوریت اور حقوق کے لیے آواز بلند کرنا تھا۔ ’’پنڈی سازش کیس‘‘ میں حُسین شہید سہروردی نے فیض احمد فیضؔ اور دیگر ملزمان کے وکیل کے طور پر ایک بار پھر اپنی قانونی مہارت کے جوہر دکھائے۔1953 ء میں حُسین شہید سہروردی نے اے کے فضل حق اور مولانا بھاشانی کے ساتھ مل کر ’’یونائیٹڈ فرنٹ‘‘(جگتو فرنٹ) قائم کی، جس نے 1954ء میں مشرقی پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ کو شکست دی۔

حُسین شہید سہروردی اپنی کرشمہ ساز شخصیت کی وجہ سے ایک بار پھر عوام کے دِلوں میں موجود تھے۔ 1954 ء ہی میں محمد علی بوگرہ کی حکومت میں وزارتِ قانون کا قلم دان سنبھالا۔1955ء میں دونوں بازوؤں کے رہنماؤں کو ایک مرکز پر لانے کے لیے ’’Muree Pact ‘‘ تیار کیا، جو دراصل پاکستان کے لیے آئین تیار کرنے کا ایک قدم تھا۔ یوں اُس کے اگلے ہی برس ’’1956 کا آئین‘‘ سامنے آیا۔ 

اس کی تیاری میں سہروردی کی قانونی مہارت اور معاونت ہر آن شامل رہی تھی۔ 11اگست 1955 ء تا یکم ستمبر 1956ء وہ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف رہے۔ وقت گزرتا رہا، یہاں تک کہ 12ستمبر 1956ء کو حسین شہید سہروردی ری پبلکن پارٹی کی حمایت سے پاکستان کے وزیرِاعظم مقرّر ہوئے۔ یوں متّحدہ ہندوستان میں بنگال کی وزارتِ عظمیٰ کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز رہنے والے عوامی رہنما، سہروردی نے پاکستان کے اعلیٰ ترین منصب کو بھی پا لیا۔ تاہم، ابھی دو چار سخت مقامات اور بھی تھے۔ 

محض 11ماہ کے اندر اتحادی جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوا، جس نے بڑھ کر بُحران کی شکل اختیار کی اور حسین شہید سہروردی نے محض تیرہویں ماہ ہی میں وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔1958ء کا مارشل لا سیاست دانوں کے لیے سخت ثابت ہوا۔ فوجی حُکم راں، ایوّب خان نے ’’ایبڈو‘‘ کے ذریعے جب سیاست دانوں کو نااہل قرا ر دیا، تو اُس کی زد میں سہروردی بھی آئے۔

31جنوری 1962ء کو انہیں ریاست کے خلاف سرگرمیوں کے جُرم میں گرفتار کیا گیا۔ سات ماہ کی قیدِ تنہائی کے بعد رہائی ملی، تو اُنہیں ڈھاکا میں زبردست طریقے سے خوش آمدید کہا گیا۔ بعدازاں، انہیں عارضۂ قلب کی شکایت ہوئی۔ علاج کے لیے بیروت گئے اور وہیں 5دسمبر 1963ء کو انتقال کر گئے۔ خیال رہے کہ اُن کے انتقال کے سلسلے میں مقتدر حلقوں کی اُن کو دی گئی سیاسی دھمکی کا بھی کسی نہ کسی حلقے میں ذکر کیا جاتا ہے۔

حسین شہید سہروردی کے بڑے بھائی، حسن شاہد سہروردی بھی معمولی صلاحیتوں کے حامل شخص تھے۔ فنِ تعمیر، شاعری، ادب، سیاست اور اہلِ علم و دانش سے مراسم اُن کا مشغلۂ حیات تھا۔ اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے تاریخ پڑھی اور’’اوکسفرڈ مجلس‘‘ کے مدار المہام ہونے کے باعث وہاں آنے والے ہندوستانی اور مقامی افراد سے میل جول کے وسیع مواقع میسّر آئے۔ 

رابندر ناتھ ٹیگور، ڈی ایچ لارنس، فلپ ہیزلٹائن جیسے نابغۂ روزگار اُسی فضا کا حصّہ تھے۔ اوکسفرڈ سے گریجویشن کے بعد حسن شاہد مختلف مغربی دارالحکومتوں میں کام کرتے رہے۔ سینٹ پیٹرز برگ کی ’’ایمپریل یونی ورسٹی‘‘ اور ’’وومن یونی ورسٹی‘‘، ماسکو میں انگریزی زبان اور ادب کے ریڈر کے طور پر خدمات انجام دیں۔1917ء کے بالشویک انقلاب سے پہلے وہاں کے مختصر المدّتی وزیرِاعظم، الیگزینڈر کیرنسکی کے اتالیق بھی قرار پائے۔ 

ماسکو آرٹ تھیٹر میں رابندر ناتھ ٹیگور کے ڈرامے بھی پیش کیے۔ رُوسی انقلاب کے بعد برلن چلے گئے۔ ’’لیگ آف نیشنز‘‘ میں’’آرٹس ایڈوائزر‘‘ کے طور پر بھی کام کیا۔ یورپ میں بھرپور زندگی گزارنے کے بعد 1940ء میں ہندوستان واپس آئے اور کلکتہ یونی ورسٹی میں آرٹ پڑھانے پر مامور ہوئے۔ کلکتے کا مشہور اخبار، ’’اسٹیٹس مین‘‘ انہیں فخریہ طور پر اپنے اخبار کی زینت بناتا، جس میں آرٹ پر اُن کے مضامین تواتر سے شائع ہوتے۔

 اُسی زمانے میں انہوں نے رُوسی اور چینی آرٹ کی کتابیں انگریزی میں ترجمہ کیں۔ اُنہیں جرمن، اطالوی، فرانسیسی اور ہسپانوی زبانوں پر عبور تھا۔ انگریزی اور اُردو اس کے علاوہ تھیں۔ پاکستان آ کر انہوں نے دفترِ خارجہ میں خدمات انجام دینا شروع کیں۔ انہیں اسپین میں پاکستان کے سفیر کے طور پر بھی تعیّنات کیا گیا۔ نیز، کولمبیا یونی ورسٹی میں آرٹ پر لیکچرز دینے کا ا عزاز بھی حاصل ہوا۔ وہ انگریزی زبان کے بہت اچّھے شاعر تھے اور اُن کے لیکچرز پر مبنی کتاب ’’The Art of the Mussalmans of Spain ‘‘ بھی شایع ہو چُکی ہے۔

حسین شہید سہروردی کی حقیقی ماموں زاد بہن، بیگم شائستہ اکرام اللہ تھیں، جو 22جولائی 1915ء کو کلکتے میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والد، سر حسّان سہروردی کلکتہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر رہ چُکے تھے۔ والدہ، شہر بانو تہذیبی قدامت کی تصویر تھیں۔ بیگم شائستہ کی تربیت میں ماں اور باپ دونوں کا بھرپور اثر تھا۔ 

وہ صحیح معنوں میں غیر معمولی صلاحیتوں سے متّصف خاتون تھیں۔ اُنہیں پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کی رُکنیت کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہوا اور یہ اعزاز اُن کی طویل سیاسی اور سماجی خدمات کی بہ دولت ملا۔ انہوں نے برّصغیر کی خواتین اور خصوصاً مسلم خواتین کو تعلیم اور سماجی شعور کی طرف راغب کرنے میں بے مثال کردار ادا کیا۔ 

اُن کی شخصیت قدیم و جدید کا دِل کش امتزاج تھی۔ اُن کی تعلیم کلکتے اور لندن میں ہوئی۔ لندن یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔ صاحبِ قلم بھی تھیں اور صاحبِ لسان بھی۔ قائداعظم محمد علی جناح کا اعتماد حاصل تھا۔ ’’عصمت‘‘،’’تہذیبِ نسواں‘‘،’’ہمایوں‘‘جیسے وقیع جریدوں کے علاوہ بھی بہت سے اخبارات کے لیے کام کیا۔ کئی کُتب انگریزی اور اُردو میں تحریر کیں، جن میں افسانوں کی کتاب ’’کوششِ ناتمام‘‘ بھی شامل ہے۔ اُن کے شوہر، محمد اکرام اللہ آئی سی ایس افسر تھے۔

 تقسیم سے پہلے بھی اعلیٰ حکومتی مناصب پر فائز رہے اور قیامِ پاکستان کے بعد دفترِ خارجہ میں خدمات انجام دیں۔ کئی مرتبہ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی نمایندگی کرنے کے علاوہ متعددممالک میں پاکستان کے سفیر کے طور پر تعیّنات رہے۔

حسین شہیدسہروردی کی نواسی، بیرسٹر شاہدہ جمیل کو مُلک کے قانونی حلقوں میں احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے نہایت بھرپور اور متحرّک زندگی گزاری اور آج پیرانہ سالی میں بھی مصروفِ کار ہیں۔ اُن کے شوہر، محمد جمیل بھی بیرسٹر تھے، جن کا چند برس پہلے انتقال ہوا۔ شاہدہ جمیل کے دو بیٹے ہیں اور دونوں بیرسٹر ہیں۔ بڑے بیٹے، زاہد جمیل پاکستان میں، جب کہ چھوٹے بیٹے، شاہد جمیل بیرونِ مُلک خدمات انجام دیتے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین