(چودہویں قسط)
ہفتہ۔ جولائی۔۱۵۔2017۔ شوال۔۲۱ ۔1438ھ
اگلی صبح نماز تہجد کیلئے جانے کیلئے تیار ہوئے لیکن کل والی ہی صورتحال تھی اس لیے نماز فجر بھی ہم نے فرسٹ فلور پر ہی اداکرنی پڑی ۔نماز کے بعد ہمیں پروگرام دیاگیا کہ آج حبرون ،بیت اللحم ، سدوم (قوم لوط کا علاقہ) اور اریحادیکھنے جانا ہے ۔چونکہ ایک ہی دن میں ہم نے بہت سی جگہوں پر جانا ہے، اس لیے ساڑھے سات روانہ ہوجائیں گے ۔ہم سب ناشتے کے بعد لابی میں جمع ہوگئے اورڈرائیور کاانتظار کرنے لگ گئے ۔جو ساڑھے سات کی بجائے گیارہ بجے پہنچ سکاکیونکہ اسرائیلی فورسزنے سارے راستے بند کیے ہوئے تھے ۔سواگیارہ وہاں سے نکلے ۔یہ ڈرائیور الحسینی فلسطینی تھا ۔ عربی تو اس کی مادری زبان تھی لیکن انگریزی سے بالکل ناآشنائی ظاہر کررہاہے یہ خود تو یروشلم کارہائشی ہے اور اس نے شادی غزہ میں کررکھی ہے یہ وہاں جانہیں سکتااوراس کی بیوی یہاں آنہیں آسکتی ایسی حالت میں سوائے دعاکی درخواست کے، یہ کیا کہہ سکتاہے ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ کی قبر
ہمارا قافلہ ہوٹل سے نکلا، جبل زیتون کوعبور کرتے ہوئے راستے میں واقع قبرستان میں حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ حضرت راحیل(Rachel)کی قبر کا سائن نظرآیا تو میں چونک گیا۔اس سڑک کانام بھی ’شارع راحیل‘ ہے ۔ چونکہ حضرت راحیل کے نام سے کوئی بھی واقف نہ تھا حتی کہ فلسطینی ڈرائیور بھی نہیں جانتاتھا۔گاڑی بھی تیزی سے نکل گئی اس لیے میں نے مختصرتعارف کرایا۔ فلسطین کے پرانے نقشے کے مطابق موسی علیہ السلام کے بعد جب بنی اسرائیل بارہ قبیلوں میں بٹ گئے ، تو یہ علاقہ بنی بن یامین کے حصے میں آیا ، چنانچہ حضرت یوسف اور حضرت بنیامین کی والدہ دفن ہیں ۔ اور اس کے بعد بنی افرائیم کا علاقہ ہے ۔جہاں حضرت ابراہیم، حضرت یعقوب ،حضرت یوسف اور حضرت ایوب کی قبور مطہرہ ہیں ۔یروشلم سے باہر نکلیں مغربی کنارے کو جاتے ہوئے تو راستے میں پہاڑوںکے حسن کو ہم دیکھ کر مبہوت ہوگئے ۔ اتنے خوبصورت اور روشن پہاڑ ہم نے پہلی دفعہ دیکھے تھے جس پر قرآن کریم کی یہ آیت یاد آتی رہی …{الذی بارکنا حولہ لنریہ من آیاتنا…}مسجداقصیٰ کے اردگرد کو ہم نے بابرکت بنایا…مگرپیدائشی فسادی قوم یہودکے فسادنے اسے تپتاصحرابنارکھاہے ۔
حل حلول میں مقام یونس علیہ السلام
حبرون جاتے ہوئے راستے میں کئی علاقے آئے جن کاتعارف بھی کرایاجاتارہاکچھ فلسطینی ڈرائیور بتارہاتھا اور میں ترجمہ کرکے اپنے ساتھیوں کوبتارہاتھاکیونکہ مجھے یہاں کی تاریخ سے کافی دلچسپی ہے اس لیے اس کے ایک اشارے پر میرادماغ کئی دروازے کھول لیتاتھا ۔راستے میں ہم نے مغربی کنارے والی وہ دیواربھی دیکھی جسے اس دور میں بھی یہود نے پرانے استعماریوں کی طرح اہل فلسطین اور یہود کے درمیان آڑ بنارکھاہے پہاڑوں کی اونچائی اورپھر نشیب میں اترنے کااپناہی ایک لطف تھا۔ سارا راستہ پہاڑوں کی اونچائیاں اور نشیب سب ہرے بھرے ، انگور ، آلوبخارے ، آلوچے اور بے شمار فروٹوں سے لدے ہوئے تھے ،۔ ایک ساتھی نے توجہ دلائی کہ ہمارے کچھ لوگ کہتے ہیں اسرائیلی مصنوعات کا بائکاٹ کیاجائے لیکن یہاں کے فلسطینی کسان کہاں سے کھائیں گے کیونکہ انہی کی مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں ۔ مجھے اس موضوع پر کوئی خاص معلومات نہیں اس لیے خاموش رہا۔ جو علاقے فلسطینیوں کے آتے وہاں غربت و نکبت کی کہرتنی ہوتی ، افلاس ان کے درو دیوار سے ٹپک رہی ہوتی تھی ۔کئی جگہ کی حالت زار دیکھ کر بے اختیار دل خون کے آنسو روتاتھاکہ اہل وطن اس حالت میں اورباہر سے آنے والے قابضین وغاصبین اتنے دیدہ دلیر کہ انہوں نے اپنے علاقے ہی الگ کرلیے ہیں جہاںسیکورٹی فورسززکامکمل پہرہ ہے۔ان ناجائز قابضین نے فلسطینی علاقوں کے حسن کویورپ کی طرح جگمگارکھاہے جبکہ اہل وطن کیلئے زمین بھی تنگ کی جارہی ہے ۔یروشلم سے گھنٹہ بھر کی ڈرائیوکے بعد ایک شہر ہے حل حلول حل کامعنی اترنااوراور حلول کامعنی Salostion جن دونوں کو اکٹھا پڑھاجائے تو معنی بنتاہے جہاں ایک سال تک حضرت یونس قیام فرما رہے ۔یہ بھی فلسطینی علاقہ ہے ۔
جب ہم مقام یونس علیہ السلام والی مسجد کے سامنے پہنچے ۔ ہماری گاڑی کیارکی کہ فلسطینی نوجوانوں کی ٹولی نے گاڑی پر دھاوا بول دیا۔ہمارا دل تو اپنے فلسطینی بھائیوں کے فقر و فاقہ کودیکھ کرپہلے ہی درد میں ڈوبا ہواتھا۔ان کے ساتھ مالی تعاون کے خیال سے کچھ رقم ساتھ تھی کہ مغربی کنارے بیچارے فلسطینیوں میں مستحقین میں تقسیم کی جائے گی لیکن غیر متوقع یہاں نوجوانوں کامعاملہ دیکھ کرتوہمیں اپنی جان چھڑانا مشکل ہوگیا۔ عصمی یا اس طرح کا اس نے نام بتایا۔عمر یہی کوئی اٹھارہ انیس سال ،بہت ہی خوبصورت شکل کامالک ، بتارہاتھا۔میرے والد کو کینسر ہے یا شہید کردیاگیاتھا ۔مجھے اس کے علاج کیلئے پیسے چاہئیں ۔ میں سوچ رہاتھا کہ میں اس سے پتہ پوچھوں ہسپتال کانام پوچھوں اور خود وزٹ کرکے ان کے ساتھ تعاون کروں لیکن اس نوجوان کی ایک ہی رٹ تھی مجھے کچھ دو ۔یہ تو میرے ساتھ چمٹ ہی گیا۔میں اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر اسے کچھ دینا چاہتاتھالیکن یہ ایک لمحے کیلئے بھی مجھے اکیلا نہ ہونے دے رہاتھا ۔اور خطرہ ایسے ہوگیاتھاکہ اگر اس کے سامنے جیب کھولی تو یہ مجھ سے سارے پیسے چھین لے گا۔ میں نے اسے اپنے ایک ساتھی کی طرف جانے کااشارہ کیاتاکہ کچھ رقم نکال سکوں لیکن یہ جان ہی نہیں چھوڑرہاتھا ۔پھرہمت کرکے دس بیس کے دو یا تین شیکل کے نوٹ نکالے تو اس نے جھپٹ لیے۔ اتنی دیر میں نوجوانوں کاایک گروہ اس پر جھپٹ پڑا کہ ہمیں بھی حصہ دو ۔اگر یہ صبر سے کام لیتے تو میں ساری جیب خالی کردیتا۔ لیکن انہوں نے تو مجھے ہی بے بس کرڈالا تھا۔مجھے ان کی معذوری کابھی خیال جاگزیں رہا ۔میں نے اپنے ساتھیوں کو سمجھایا کہ ان کی طرف نہ دیکھو اپنی طرف دیکھو۔ اللہ کے احسانات کا احساس کرو ۔ ان نوجوانوں کی مجبوری سمجھو یہودیوںنے انہیں ان کے اپنے وطن میں اجنبی بنا رکھاہے ۔ان کاکوئی کاروبار نہیں ہے، کوئی ملازمتیں نہیں ہیں ۔یہ کہاں سے کھائیں ؟اسی مجبوری ومعذوری میں ان بچوں نے آنکھ کھولی اوراسی میں پرورش پائی ۔ایک ساتھی نے لقمہ دیا درانی صاحب ،پہلے پہل تو واقعی ان کی مجبوری ہوگی لیکن اب توان کی عادت بن گئی ہے ۔میں نے سمجھایاکہ اسے زیادہ ہم سوچ نہیں سکتے۔اس سے بھی زیادہ تشویشناک صورتحال کا سامنا ہمیں حبرون (الخلیل )میں کرنا پڑا جہاں خوبصورت فلسطینی نوجوانوں نے ہماری وین کوپیٹنا شروع کردیا۔ ڈرائیور نے بڑی پھرتی کے ساتھ ان کے نرغے سے گاڑی نکالی اسی طرح ایک بارہ سالہ بچہ حبرون میں ہمارے پیچھے پڑارہا۔اسرائیلی فوجیوں کوکوستارہا ۔ذرا بھی ڈر نہیں تھا اس کے دیدوں میں ۔مجھے تو کئی بار خطرہ لاحق ہوگیاکہ کہیں اشتعال میں آکر یہ اسرائیلی فوجی اس کوبرسٹ ہی مار نہ دیں، مگر میں نے اس طاقتور فوجیوں کی بے بسی، اور ان نہتے بچوں کے بے خوفی دیکھی ، تو بڑا لطف لیاکہ اسلحہ بردار قابض فوجی ان نہتے بچوں کے سامنے گھگیا رہے ہیں جبکہ ان بچوں کے دیدوں میں موت کا ذرا بھی خوف نظرنہیں آیا ۔(کسنور مغلوب یصول علی الکلب) مجبور و مقہوربلی کتے پر بھی حملہ آور ہوجاتی ہے بہرحال جیسے تیسے ممکن ہوا ہم نے وضو بنا کر مقام یونس پربنی ہوئی خوبصورت مسجدمیں دورکعت پڑھیں مسجد کے ایک جانب سیدنا یونس علیہ السلام کی جائے قیام یاان کی بیٹھک کانشان بناہوا ہے ۔ اور اس پر{ لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین}…کی بڑی خوبصورت گرافک کی گئی ہے وہاں موجودفلسطینی خطیب و امام شیخ عصام ہمارے قافلے کو دیکھ کرتشریف لے آئے۔ ملاقات میں باہمی معلومات کا تبادلہ ہوا اور انہوں نے مقام یونس کا پس منظر سمجھانا شروع کردیاکہ حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے نکلنے کے بعد اس علاقے میں پوراسال قیام پذیر رہے حضرت یونس علیہ السلام البحر الابیض المتوسط (یا میڈیٹیرین سی) میں مچھلی پیٹ میں سے نکلے تھے۔’’ یافہ‘‘ اب بڑی بندرگاہ بن چکا ہے جو یہاں سے چالیس کلو میٹر دورہے۔ حضرت یونس علیہ السلام وہاں سے نکل کر یہاں تشریف لائے تھے ۔اسی لیے اس شہر کو حل حلول کہا جاتاہے۔ الشیخ عصام نے اس واقعہ سے توحید کاسبق بھی یاد کرایا کہ صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ انبیائے کرام بھی حق تعالی کے حکم کی غلامی و عبدیت کا درس دینے آئے تھے ۔لوگوں کوغلط فہمی ہوجاتی ہے کہ کسی کے حکم سے سمندر میں بیڑہ پار ہوتاہے ۔سیدنا یونس علیہ السلام تو اللہ کے نبی تھے اس کے باوجود انہیں سمندر میں کودنا پڑا۔اگر نہ کودتے تو کشتی ڈوب جاتی ۔عقیدہ توحید کے خلاف جو بھی جاتاہے بے دلیل ہوتا ہے ۔ بحرو برمیں صرف اللہ ہی کا حکم چلتا ہے جب انبیائے کرام علیھم السلام بھی اسی کے فرمانبردار ہیں تودوسراکون ہے جو بیڑے پار کرسکتاہے ؟ یہ سب جاہلانہ اورمشرکانہ باتیں ہیں ۔حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ سے ایک اورسبق بھی ملتاہے کہ دعاو تسبیح سے تقدیر بدل جاتی ہے جب مچھلی کو حکم ہوا کہ وہ اس معززمہمان کواپنے پیٹ میں جگہ دے دے اورتاقیامت اس کے پیٹ میں رہیں گے مگر بعد میں اسے حکم ہوا کہ انہیں ساحل پر پہنچادو کیونکہ وہ دعا تھی وہ تسبیح تھی جس کی وجہ سے حکم ربانی میں تبدیلی آگئی ۔اس لیے ہر انسان کوہر معاملے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے دعا کرتے رہنا چاہئے شیخ عصام کی علمی باتیں بڑا لطف دے رہی تھیں ۔لیکن ہمیں ابھی لمبا سفر کرنا ہے ۔میرے جی میں بار بار آرہاتھا کہ ان کی کچھ مالی خدمت کی جائے ۔جب انہیں پتہ چلاتوانہوں نے میراہاتھ پکڑکرکہاآپ ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں ؟ ۔عرض کیا بالکل! کہاآپ واپس برطانیہ جاکر سارے مسلم بھائیوں کو ہمارا سلام کہیں اورہماراپیغام بھی دیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میںیہاں آئیں اور فلسطینیوں کی مشکلات کو خود دیکھیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ باہر سے آکرقبلہ اول کی زیارت کرسکتے ہیں ہم جو یہاں کے پیدائشی ہیں ہم وہاں نہیں جاسکتے میں نے 1991سے اب تک قدس الشریف نہیں دیکھا ۔مجھے کیا؟کسی کوبھی جانے نہیں دیا جاتا۔انہوں نے اپنے گھرچلنے کی دعوت بھی دی میں دل و جان سے حاضر تھالیکن پورا قافلہ ساتھ اور وقت بہت محدود۔ اس لیے بادل نخواستہ اجازت لی اور معانقہ کیاافسردہ دل وہ بھی تھے اور میں بھی پتہ نہیں اب دوبارہ زندگی میں اپنے اس مسلمان بھائی سے ملاقات ہوتی ہے یا نہیں ۔مسجد سے نکلتے ہوئے ایک ڈونیشن بکس نظرآیامیں نے چپکے سے سوپچاس شیکل اس میں ڈال دئیے کہ ان مساجد سے زیادہ کون حقدار ہے۔ تقبل اللہ ساتھیوں کوبھی ترغیب دی اللہ ہمارے بھائیوں کی مدد فرمائے اور اس مصیبت سے نجات دے ۔ وما ذالک علی اللہ بعزیز۔