عکاّسی:اسرائیل انصاری
سکندر بخت کا شمار، اُن پاکستانی کرکٹرز میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کے آغاز میں ہی شاندار کارکردگی کےجوہر دکھا کر اپنے ہم وطنوں کے دل جیت لیے تھے۔ وہ قومی کرکٹ ٹیم کے میڈیم فاسٹ بالر تھے اور انہوں نےاس کھیل میں اس دور میں جگہ بنائی جب دنیا کے تیزرفتاربالرز کی حیثیت سے عمران خان اور سرفراز نواز کا طوطی بولتا تھا۔سکندر کامحدود کرکٹ کیریئر ہر قسم کے تنازعات اور اسکینڈلز سےپاک رہا ہےاور انہوں نے اپنی تمام ترتوجہ ملک و قوم کے لیے اچھی کرکٹ کھیلنے پر مرکوز رکھی۔
آج کل وہ جیو ٹی وی چینل سے منسلک ہیں، جس پر کرکٹ کے حوالے سےتجزیاتی پروگرامز پیش کرتے ہیں ۔ گزشتہ دنوںایک انٹرویو کے دوران انہوں نے نمائندہ جنگ کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے بعض اہم انکشافات کیےجو ذیل میں نذر قارئین ہیں۔
جنگ: ہمارا سب سے پہلا سوال آپ کے خاندانی پس منظر کے بارے میں ہے؟
سکندر بخت: میرے والدکا تعلق دہلی اور والدہ کا مدراس کےتعلیم یافتہ گھرانوں سے ہے۔ میری پیدائش1957میںکراچی میں ہوئی۔ والد صاحب کی کم سنی میں ہی میری دادی کاانتقال ہوگیا تھا، اس لیے ان کی پرورش کی ذمہ داری ان کے ماموں زاہد حسین نے اٹھائی، جو قائد اعظم کے قریبی ساتھی تھے، جن کی تقرری جون 1948میں اسٹیٹ بینک کے پہلے گورنر کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ ان کے صاحب زادےجسٹس ناصر اسلم زاہد، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور وفاقی شریعت عدالت اور سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کے سابق امیر ، خرم جاہ مراد ، میرے والدکے سگے خالہ زاد بھائی تھے ، میرے ماموں، امان اللہ حسینی، ملک کے ایک معروف انگریزی روزنامہ کے چیف ایڈیٹر رہے ہیں،جب کہ کمنٹیٹر چشتی مجاہد میرے چچا ہیں۔ میری پھوپھی سیالکوٹ میں صحافت کے پیشے سے وابستہ ہونے کے علاوہ جماعت اسلامی کی ضلعی ناظمہ تھیں۔ ابونے بھارت میں سینٹ اسٹیفن کالج اور علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔وہ الیکٹریکل و مکینکل انجینئرنگ میں گولڈ میڈلسٹ تھے۔پاکستان آنے کے بعد این ای ڈی کالج سے منسلک ہوگئے، وہاں وہ پڑھاتے بھی تھے اور ایگزامنر کی حیثیت سے امتحانات بھی لیتے تھے۔میری اہلیہ بھی تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ میرے دو بیٹے ہیں، جو امریکا میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔میں نے سینٹ لارنس اسکول سےمیٹرک اور آدم جی سائنس کالج سے انٹر، جب کہ پرائیوٹ امیدوار کی حیثیت سے کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔
جنگ: کرکٹ کھیلنے کا شوق کب ہوا اورپہلی مرتبہ کس کلب کے ساتھ میچ کھیلے؟
سکندر بخت: بچپن کا زیادہ تر حصہ ناظم آباد میں گزرا ، پھر ہم نارتھ ناظم آبادمنتقل ہوگئے، اُسی زمانے میں مجھے کرکٹ کھیلنے کا شوق ہوا۔ محلے کے لڑکوں کے ساتھ ٹیم بنا کرسڑک اور قریبی میدانوں میں کھیلتا تھا۔ میرا گھر اصغر علی شاہ اسٹیڈیم سے دوسری گلی میں واقع تھا، اُس زمانے میں یہ اسٹیڈیم نہیں تھا۔ ٹیم کےزیادہ تر دوستانہ میچز اسی گراؤنڈ میں منعقد ہوتے تھے،بعدازاں میں نے گلی کےلڑکوں کے ساتھ مل کر ایک کرکٹ کلب بنایا، جس کی باقاعدہ رجسٹریشن کرائی گئی۔
اس کے بعد کلب کے نام پر ایک گراؤنڈ کے الاٹمنٹ کی کوشش شروع کی جس میں کامیابی ہوئی اور پہاڑ گنج چورنگی کے ساتھ ایک وسیع و عریض میدان، کلب کے نام پر الاٹ کردیا گیا ۔1990کے عشرے میںڈاکٹر محمد علی شاہ کرکٹ کی متحرک شخصیت کے طور پر منظر عام پر آئے، وہ خود تو اس کھیل سےوابستہ نہیں تھے لیکن انہوں نے کراچی کی سطح پر اس کے فروغ کے لیےکافی خدمات انجام دیں۔ 1993میں انہوں نے میری اجازت سے اس جگہ ایک اسٹیڈیم کی تعمیر کروائی جسے ان کے والد، سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج، جسٹس اصغر علی شاہ کے نام سے موسوم کیا گیا، گراؤنڈ کی رجسٹریشن آج بھی میرے اور کلب کے نام پر ہے، جب کہ جس گلی میں میرا گھر تھا ، اسے سکندر بخت اسٹریٹ کے نام سے موسوم کردیا گیا۔
70کے عشرے میںسندھ کولٹس کے نام سےصوبائی سطح پر ایک کرکٹ ٹیم تھی، مجھے اس میں شامل کرلیا گیا، قاسم عمر، جاوید میاں دادبھی میرے ساتھ اس ٹیم میں تھے، بعد میں کرکٹرعارف الدین بھی ہمارا ساتھی بنا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سندھ کولٹس کی جانب سے کھیلنے والے کرکٹرز میں سے آٹھ سے دس کھلاڑی فرسٹ کلاس میچزتک ہی محدودرہے جب کہ مجھے، قاسم عمر اور جاوید میاں داد کو ٹیسٹ کرکٹر کی حیثیت سے کھیلنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
جنگ :آپ کے خاندان میں سے کسی اور فرد کا تعلق بھی اس کھیل سے رہا ہے؟
سکندر بخت: میرےابو، کلب کرکٹ کھیلتے تھے، ان کا شمارکالج اور یونیورسٹی کے کرکٹ اور ہاکی کے بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا تھا۔ہندوستان سے ہجرت کے بعدجب وہ کراچی منتقل ہوئے تو یہاںکی ایک کرکٹ ٹیم، پاک مغل کلب سے وابستگی اختیار کی، جس میں حنیف محمد،ان کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔وہ این ای ڈی کالج میں درس و تدریس کے ساتھ اس کی ٹیم کی جانب سے کرکٹ بھی کھیلتے تھے، جس کا ذکر ایک سابق کرکٹر نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب میں بھی کیا ہے۔
انہوں نے اس کھیل سے میرا گہراشغف دیکھتے ہوئے میری حوصلہ افزائی اور ہر ممکن رہنمائی کی، حالاں کہ خاندان کےدیگر افراد میرے کرکٹ کھیلنے کے خلاف تھے ،اس کی وجہ یہ تھی کہ زیادہ تر رشتہ دار پڑھ لکھ کر اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے، وہ مجھے بھی کسی بڑے عہدے پر کام کرتا دیکھنا چاہتےتھے۔
جنگ: قومی ٹیم میں آپ کیسے منتخب ہوئے، میرٹ، پرچی یا سفارش کی بنیاد پر؟
سکندر بخت: میں فخریہ طور سے کہتا ہوں کہ قومی ٹیم میں میرا انتخاب میرٹ کی بنیاد پر ہوا۔ 1975-76میںسندھ کی ٹیم کی طرف سے انڈر -19کے میچز کھیلے۔ اسی سال پاکستان کی انڈر-19ٹیم میں میرا سلیکشن ہوا، جس کے کچھ عرصے بعد ہی سری لنکا کی جونئیرٹیم کے ساتھ ’’بھٹو ٹرافی ‘‘ کے مقابلوں کا انعقاد ہوا۔ جاوید میاں داد اس ٹیم کے کپتان تھے۔
میں نے میچ کی پہلی اننگ میں سری لنکا کے نو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ یہ میچ پاکستان کرکٹ بورڈ کےاُس وقت کے صدر، عبدالحفیظ کاردار نے بھی دیکھا۔ انہوں نے میچ ختم ہونے کے بعد مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ’’تم پاکستان کا روشن مستقبل ہو‘‘۔ یہیں سے ٹیسٹ کرکٹ میں میرا سفر شروع ہوا۔
پہلی مرتبہ 1975میں میرا سلیکشن پی آئی اے کی ٹیم میں ہوا۔اسی سال میں سندھ کی ٹیم کی طرف سے فرسٹ کلاس میچ کھیلا جس میں ظہیر عباس کپتان تھے، ان کے تجربے سے مجھے کافی رہنمائی ملی۔
جنگ: آپ نے زیادہ تر میچوں میں سندھ کی ٹیم کی طرف سےکھیلنے کا تذکرہ کیا ہے، کراچی ٹیم کی جانب سےکبھی نہیں کھیلے؟
سکندر بخت: کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن سے الحاق شدہ کئی ٹیمیںموجود تھیں لیکن مجھے انہوں نے کبھی کراچی کی طرف سے کھیلنے کا موقع فراہم نہیں کیا، انہوں نے ایسا کیوں کیا،اس سے میں خود لاعلم ہوں۔ مجھے صوبائی سطح پر کھیلنے کے بھرپور مواقع ملے ،جن سے میں نے استفادہ کیا، سری لنکا کے ساتھ میچ کے بعد مجھے قومی ٹیم میں شامل کیا گیا۔
شروع میں مجھےایک سہ روزہ میچ میں وکٹ کیپر کی حیثیت سے منتخب کیا گیا۔ وکٹوں کے پیچھے میری کارکردگی انتہائی خراب رہی، میں نے ایک اسٹمپ چھوڑا ،جس کی وجہ سے ٹیم یہ میچ ہار گئی۔ اس کے بعد میں نےاپنی توجہ بالنگ کی جانب مرکوز کردی۔ میں نارتھ ناظم آباد جیم خانہ کی ٹیم میں نیٹ کے اندر بالنگ کراتا تھا۔ٹیم کے کپتان ایس جی حسنین نے میری بالنگ کارکردگی دیکھتے ہوئے کہا ’’ تم اچھے فاسٹ بالر ہو، اپنی ساری توجہ بالنگ پر مرکوز کردو، کامیاب رہو گے‘‘۔ ان کے مشورے کے بعد میں نے صرف بالنگ پر توجہ دینا شروع کی۔
جنگ: آپ قومی ٹیم کے اسکواڈ کا باقاعدہ حصہ کب بنے اور پہلا میچ کس ٹیم کے خلاف کھیلا؟
سکندر بخت: میرے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز 1976میں ہوا، اس سال نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم، گلین ٹرنر کی قیادت میں پاکستان کے دورے پر آئی، مشتاق محمد قومی ٹیم کے کپتان تھے۔ کراچی میں تیسرے ٹیسٹ میچ کے موقع پر مجھے ٹیم میں شامل کیا گیا، اس میچ سے میں نے آغاز کیا۔ پہلی اننگز میں ایک اور دوسری میں دو وکٹیں حاصل کیں، مجھ سے زیادہ میرے ابوخوش تھے، جب کہ میرےوہ دوست احباب جو مجھ سےناخوش رہتے تھے، ان کی مسرت بھی دیدنی تھی۔ اس کے بعد مسلسل ٹیسٹ میچوں میں حصہ لیتا رہا اور کئی ریکارڈ ساز اننگز کھیلیں۔
جنگ: آپ نے 1979میں بھارتی سرزمین پر دہلی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں آٹھ اور دوسری میں تین وکٹیںلینے کاریکارڈ قائم کیا ، قومی کرکٹ کی تاریخ میں یہ کارنامہ چند ہی بالرز نے انجام دیا ہے، لیکن اس کے بعد آپ دوسرے میچوں میں اپنی کارکردگی برقرار نہ رکھ سکے، اس کی کیا وجہ تھی؟
سکندر بخت: پاکستان کے دورہ بھارت کے دوران دہلی میں دوسرے ٹیسٹ میچ میں مجھے کھیلنے کا موقع دیا گیا۔ اس ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں انتہائی معمولی اسکورپر آٹھ بھارتی بلے بازوں کو پویلین واپس بھیجنے کا کارنامہ انجام دیا، جن میں سنیل گواسکر جیسے لیجنڈ بیٹس مین کی وکٹ بھی شامل تھی۔
دوسری اننگز میں بھی میری کارکردگی دیگر بالرز سے بہتر رہی اوراس میںتین وکٹیں حاصل کیں، جن میں سنیل گواسکر کو میں نے دوبارہ آؤٹ کیا تھا، مجموعی طور سے دہلی ٹیسٹ میں، میں نے گیارہ وکٹیں لی تھیں۔ اس کے بعد کے دیگر میچوں میں بھی میری کارکردگی بہتر رہی، میں نے ممبئی اور کانپور ٹیسٹ میں بھی اس تسلسل کو برقرار رکھا اور ان میچوں میںتقریباً 24وکٹیں حاصل کیں۔ اس کے بعد تین ہفتے تک مجھے کھیلنے کا موقع نہیں دیا گیا، آخری دو ٹیسٹ میچوں میں کھلایا گیا جن میںسابقہ کارکردگی برقرارنہیں رکھ سکا۔
جنگ: آپ کے ٹریک ریکارڈ کے مطابق ، بالنگ کی بہ نسبت بیٹنگ کارکردگی زیادہ بہتر نہیں تھی، ٹیسٹ اور ایک روزہ میچز میںآپ قابل ذکر اسکور نہ کرسکے،وجہ؟
سکندر بخت: یہ بات درست ہے کہ بہ حیثیت بیٹس مین مناسب کارکردگی نہیں دکھا سکا، لیکن فرسٹ کلاس میچوں میں میرے اسکور کی اوسط خاصی بہتر رہی ، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس دور میں، آج کی طرح ٹیل اینڈرز کو بیٹنگ کے مواقع کم ہی ملتے تھے۔ پوری ٹیم میں سے صرف آٹھ دس کھلاڑی بلے باز تھے، جس کی وجہ سے میں سات سالہ ٹیسٹ کیریئر کے دوران مناسب اسکور نہیں بناسکا۔
جنگ: ٹیسٹ وکٹوں کی اوسط کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ آپ کو مزید کرکٹ کھیلنا چاہیے تھی ، لیکن کن وجوہات کی بنا پر آپ کو ریٹائرمنٹ پر مجبور ہونا پڑا؟
سکندر بخت: اس دور میں کرکٹ بورڈ نے ایسے بالرز کو آزمایا، جو سفارش کی بنیادپر آئے تھے، لیکن وہ ایک دو میچز سے زیادہ نہیں کھیل پائے،مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ بورڈ نے ٹیم کو تجربات کی نذر کردیا،میرا ایسے کھلاڑیوں کی وجہ سے کافی وقت ضائع ہوا۔
میرا کھیل، بہت سے میچوں میں کافی اچھا رہا تھا، لیکن اس کے باوجود مجھے ٹیم کے انتخاب کے وقت نظر انداز کیا جاتا رہااس کی وجہ یہ تھی کہ میری پی آر نہیں تھی، اس وجہ سے میں بورڈ حکام کا پسندیدہ کھلاڑی نہیں بن سکااور میرے لیے ایسے حالات پیدا کردیئے گئے کہ مجھے ریٹائرمنٹ پر مجبور ہونا پڑا۔
جنگ: جب آپ نے اپنے کیریئر کا بہ طور میڈیم فاسٹ بالر آغاز کیا تواس وقت قومی ٹیم میں عمران خان اور سرفراز نواز کا شمار دنیا کے تیز ترین بالرز میں کیا جاتا تھا، ان کے درمیان ٹیم میں جگہ بنانے کے لیے آپ کو کس قسم کی صورت حال سے گزرنا پڑا؟
سکندر بخت: اُس وقت پاکستانی ٹیم میں سرفراز نواز، آصف مسعود، سلیم الطاف اور عمران خان سمیت چار فاسٹ بالرز تھے۔ مجھے آصف مسعوداور سلیم الطاف کی جگہ ٹیم میں شامل کیا گیا۔عمران خان اور سرفراز نواز کے ہوتے ہوئے مجھے زیادہ موقع نہیں دیا گیا، میرے لیے ان دونوں کے درمیان ٹیم میں جگہ برقرار رکھنا کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔ دورہ بھارت کے دوران، سرفراز ٹیم میں شامل نہیں تھے، ان کی عدم موجودگی کے سبب مجھ پر کافی دباؤ تھا،لیکن اس موقع سے فائدہ اٹھا کرمیں نے متاثر کن کارکردگی دکھائی۔
جنگ:آپ کا ایک روزہ کیریئر، 12سالوں پر محیط تھا، لیکن اتنے طویل عرصے میں آپ نے صرف 27ون ڈے میچز کھیلے، اس کی وجہ کیاتھی؟
سکندر بخت: ایک روزہ کرکٹ کا آغاز 1971میں محدود اوورز کی کرکٹ کے طور پر کیا گیا تھا۔ اس سلسلے کا پہلا میچ میلبورن میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان کھیلا گیا،اس کے بعد زیادہ تر محدود اوورز کے کرکٹ مقابلوں کا انعقاد آسٹریلیا میں ہوتا رہا، جب کہ دیگر ممالک میں اس فارمیٹ کا انعقاد کم ہی کیا جاتا تھا۔مجھے بھی 1977سے 1989تک کم ہی میچوں میں حصہ لینے کا موقع مل سکاجن میں اوسطاً میری کارکردگی بہتر رہی۔ اپنے آخری سیزن کے میچوں میں میں نے کافی وکٹیں لی تھیں۔
جنگ:اپنے کیریئر کے دوران کتنے ممالک کے خلاف میچ کھیلے؟
سکندر بخت: میںنے قومی ٹیم کے ساتھ تمام ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کے خلاف میچز کھیلے، سوائے جنوبی افریقہ کے۔ جنوبی افریقہ پر نسلی امتیاز پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے پابندیاں عائد تھیں۔ اب تو افغانستان، نیدرلینڈ سمیت کئی نئے ممالک ٹیسٹ اسٹیٹس حاصل کرچکے ہیں، لیکن میری کرکٹ کا اختتام اس سے کافی عرصے قبل ہوگیا تھا۔
جنگ: ایک میچ میں بالر کے گیند پھینکنے سے قبل ہی کریز چھوڑنے کی وجہ سے آپ کو رن آؤٹ قرار دیا گیا تھا، وہ کون سا میچ تھا، کیا آپ نے اس متنازعہ فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کی تھی؟
سکندر بخت: اُس زمانے میں کرکٹ میچوں میں جدید ٹیکنالوجی کا رواج نہیں تھا، نہ ہی ٹی وی ایمپائر ہوتے تھے ۔ یہ واقعہ آسٹریلیا کے ساتھ ایک میچ کے دوران رونما ہوا تھا۔آصف اقبال قومی ٹیم کے کپتان تھے، جنہوں نے میرے غلط آؤٹ دیئے جانے کےفیصلے کے خلاف اپیل کی تھی ، لیکن بے سود رہی ۔ کرکٹ کی تاریخ کے بدترین میچوں میں سےیہ ایک میچ تھا، جس میں دونوں ٹیموں کے کئی کھلاڑیوں کومتنازعہ آؤٹ دیا گیا۔
جنگ: کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کب کیا؟
سکندر بخت: میں نے 1983میں بھارت کے خلاف ٹیسٹ کیریئر کا آخری میچ کھیلا ۔ اس کے بعد بی سی پی اور سلیکٹرزکی تنگ نظری،متعصبانہ رویے اور نظرانداز کیے جانے کی پالیسیوں سے تنگ آکر ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا لیکن ایک روزہ میچوں میں حصہ لیتا رہا۔ ان میں بھی مجھے کھیلنے کا موقع کم ہی دیا جاتا تھا۔1989میں نیوزی لینڈ کے خلاف آخری ایک روزہ میچ کھیلا، اس کے بعد کرکٹ کے کھیل سے مکمل طور سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
جنگ: کھیل سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے کمنٹری باکس میں بیٹھنے کو ترجیح دی، اس کی کیا وجہ تھی؟
سکندر بخت: جب میں نے کھیل سے حتمی ریٹائرمنٹ لی تو اس وقت میچوں کی کمنٹری ریڈیویا ٹیلی ویژن سے ہوتی تھی، سابق کرکٹر ماجد خان اُس زمانے میں پی ٹی وی اسپورٹس کے ڈائریکٹر تھے۔ انہوں نےایک موقع پر اعلان کیا تھا کہ کرکٹ کی کمنٹری کے لیے سابق ٹیسٹ کرکٹرزیا ایک روزہ کرکٹرز کی خدمات حاصل کی جائیں گی،اُس وقت آسٹریلیا میں کمنٹری کے لیے یہی طریقہ کار رائج تھا۔ میںنے ماجدخان سے ملاقات کی اور ان سے کمنٹیٹر بننے کی خواہش کا اظہار کیا۔
اُنہوں نے ایک میچ میں مجھےپہلی مرتبہ چشتی مجاہد کے ساتھ کمنٹری کرنے کا موقع دیا،میچ کےاختتام پر مجھے بلا کر کہا کہ تم پاس ہوگئے ہو، بعدازاں میں نے اسے بہ طور پیشہ اپنا لیا، کچھ عرصے بعد مجھے کرکٹ کمنٹری کا ایکسپرٹ اور تجزیہ کار بننے کا شوق ہوا،نجی چینلز کی آمد کے بعد مجھے زیادہ مواقع ملے ، اِن دنوں بھی میں کرکٹ کے تجزیہ کار کی حیثیت سے جیو ٹی وی سے وابستہ ہوں۔
جنگ: کھیل سے کنارہ کشی کے بعد زیادہ تر کھلاڑی کوچنگ یا سلیکشن کا شعبہ اپنا تے ہیں ، آپ نے اس طرف آنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟
سکندر بخت: کمنٹیٹر بننے سے قبل میں نے کوچنگ بھی کی تھی۔ بی سی پی انتظامیہ نے قومی ٹیم کے کوچز، رچرڈ پائی بس اور مدثر نذر کے ساتھ اسسٹنٹ کوچ کی حیثیت سے میری تقرری کی، لیکن میں نے محسوس کیا کہ ایک کوچ کو اپنی نوکری برقرار رکھنے کے لیے ہر کسی کا ناروا رویہ برداشت کرنا پڑتا تھا۔کھلاڑی کوچ پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتے تھے، اور ان کی مرضی کےخلاف چلنے والوں کا ٹکنا مشکل ہوجاتا تھا، مخالف لابیز بن جاتی تھیں، ان حالات کی وجہ سے جاوید میاں داد اور وقار یونس کو بھی کٹھن حالات کا سامنا رہا۔کھلاڑی میچز کے دوران اپنی ناقص کارکردگی پر کوچ کو مؤرد الزام ٹھہراتے تھے، اس صورت حال میں میرے لیے کام کرنا دشوار تھا، اس لیے میں نے استعفیٰ دے دیا۔
2000میںمیری سلیکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات حاصل کی گئیں، لیکن میںخود کو وہاں کے ماحول کے مطابق نہیں ڈھال سکا۔ بہ حیثیت سلیکٹر ، میں نے محسوس کیا کہ بی سی پی کے چیئرمین ، اپنی مرضی کے مطابق ٹیم کا انتخاب کرکے کھلاڑیوں کی فہرست سلیکٹرز کے سامنےصرف توثیق کی غرض سے رکھ دیتے تھے۔ ٹیم کے انتخاب کے وقت ، سلیکٹرز کو بی سی پی حکام کے اہل خانہ کی مداخلت کا بھی سامنا رہتا تھا۔ میرے ساتھی سلیکٹرز، اعلی عہدیداروں کے علاوہ ان کے بیوی بچوں کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے ان کے احکامات کی بھی تعمیل کرتے تھے،جو ٹیلی فون پر کسی کھلاڑی کی سفارش کرتے تھے۔
میری خواہش تھی کہ ٹیم میں کھلاڑیوں کا انتخاب صرف میرٹ کی بنیاد پر ہو۔ میرے بی سی پی انتظامیہ سے اس وقت اختلافات شدید ہوگئے جب میری لاعلمی میںایک لڑکے کو ٹیم میںشامل کرکے غیر ملکی دورے پر بھیجا گیا۔ اس واقعے کے بعد مجھے سلیکشن کمیٹی کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا، جس کی حیثیت محض ربر اسٹیمپ کے طور پر تھی اور میں اس کے لیے موزوں نہیں تھا۔ میں نے استعفیٰ دے دیا جب کہ میرے ساتھ کام کرنے والےسلیکٹرز ، آج بھی سلیکشن کمیٹی میں موجود ہیں۔
جنگ: آپ نے اپنے کیریئر کے دوران عالمی کپ کے کتنے میچوں میں حصہ لیا اور ان میں آپ کی کارکردگی کیا رہی؟
سکندر بخت: میں 1979کے ورلڈ کپ میں ٹیم اسکواڈ کا حصہ تھا، اس ٹورنامنٹ میں، میں نے پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کا اعزاز حاصل کیا اور ویسٹ انڈیز کے مائیکل ہولڈنگ اورانگلینڈ کے مائیک ہینڈرک کے بعدعالمی کپ میں سب سے زیادہ وکٹیں لیں۔
جنگ: آپ میڈیم فاسٹ بالر رہے ہیں، کیا آپ نے بھی سوئنگ یا ریورس سوئنگ تیکنک سے استفادہ کیا؟
سکندر بخت: میں نیچرل سونئگ بالنگ کراتا تھا، بھارت کے ساتھ میچوں میں مجھے سوئنگ بالنگ کا موقع نہیں مل سکا۔
جنگ: انگلستان کے ساتھ ایک میچ کے دوران آپ کی ایک تیز گیند سے انگلش کپتان مائیک بیریئرلی کا بازو ٹوٹ گیا تھا، اس کی پاداش میں آپ کو کسی قسم کی تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا؟
سکندر بخت: اس قسم کے واقعات کھیل کا حصہ ہیں،سر پر باؤنسرزلگنےسے کئی کرکٹرز کی اموات ہوچکی ہیں، شعیب اختر کی تیز گیندوں سے 19بلے باززخمی ہوئے جو ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ مائیک بیریئرلی کا واقعہ انگلش کرکٹ ٹیم کےپاکستان کے دورے کے موقع پرایک ٹور میچ کے دوران پیش آیا تھا۔ اس کے دورے کا آغاز، سندھ کی ٹیم کے ساتھآفیشل ٹور میچ سے ہوا، جو کراچی جیم خانہ میں کھیلا گیا، ہماری ٹیم کے کپتان اسلم سنجرانی تھے۔ مائیک بیٹنگ کررہے تھے، میری ایک تیز گیند، ان کے بازو پر لگی لیکن مجھے ان کے زخمی ہونے کا پتہ بھی نہیں چلااور وہ آؤٹ ہوکر پویلین چلے گئے۔ رات کو پی ٹی وی پر خبروں کے بلیٹن میں معلوم ہوا کہ گیند لگنے سے ان کے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی ،جس کی انجری کی وجہ سے انہیںوطن واپس بھیجا جارہا ہے۔
جنگ: دسمبر 2015میں آپ نے آسٹریلیا کے سابق ٹیسٹ کرکٹر ، ڈین جونز کو پاکستان سپر لیگ کی ایک فرنچائز ٹیم کا کوچ مقرر کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے ان پرکرکٹ کیریئر کے دور ان میچ اور اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے تھے، کیا یہ الزامات ثابت ہوسکے؟
سکندر بخت: میں نے ہمیشہ کرکٹ میں شفافیت پر زور دیا ہے، اسپاٹ فکسنگ، میچ فکسنگ کے الزامات میں سزایافتہ کرکٹرز کی قومی ٹیم میں شمولیت کی مخالفت بھی سب سے زیادہ میں نے کی ۔ ڈین جونزکے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ وہ انتہائی خفیہ انداز میں میچ فکسنگ کیا کرتے تھے، آسٹریلین کرکٹ بورڈ کو جب کسی ذریعے سے اس کا علم ہوا تو اس نے ٹیم کو بدنامی سے بچانے کے لیے ، انہیں خاموشی کے ساتھ ریٹائر کردیا۔
اس کا تذکرہ نومبر 2001میں بھارتی تحقیقاتی ادارے،سی بی آئی کی ایک رپورٹ میں’’ دنیا کی کرکٹ ٹیموں کے نو میچ فکسرکپتانوں ‘‘کے ساتھ کیا گیا تھا۔ یہ رپورٹ بھارتی کھیلوں کے وزیر سکھ دیو سنگھ ڈنشا نےایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سامنے پیش کی تھی۔ انہی، ڈین جونز نے ہاشم آملہ کو ’’آن ایئر ‘‘ دہشت گرد قرار دیا تھا۔کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ڈین جونز ایک اسپورٹس چینل پر کمنٹیٹر کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے ۔2006میںکولمبو ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے میچ میں ہاشم آملہ سلپ میں کھڑے فیلڈنگ کر رہے تھے کہ اس دوران انہوں نے کمار سنگاکارا کا کیچ پکڑاجس پر ٹی وی چینل پر ڈین جونزنے کمنٹری کرتے ہوئے کہا کہ ”دہشت گرد نےایک اورشکار کرلیا۔“ ان کے اس جملے کی بازگشت ساری دنیا میںسنی گئی۔ اس واقعے کے فوری بعد جنوبی افریقن ٹیم اورمذکورہ چینل کوغصے میں بپھرے لوگوں کی اتنی فون کالز موصول ہوئیں کہ ان کے ’’سوئچ بورڈز ‘ ‘ہی جام ہو گئے۔ جونز کو فوری طور سے نوکری سے برخاست کرکے وطن واپس بھیج دیا گیا تھا۔ ایسے متنازع شخص کو پاکستان کی لیگ کرکٹ میں کوچنگ کی ذمہ داری دینا مناسب نہیں تھا، جس کی میں نے مخالفت کی۔
جنگ: دسمبر 2017میں آپ نے پاکستان کرکٹ بورڈ پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے کرکٹرز کو غیرملکی لیگز کھیلنے کی اجازت دے کر ڈومیسٹک کرکٹ کی تباہی کا سامان کیا ہے؟
سکندر بخت: ساری دنیا میں ملکی سطح کی کرکٹ کوفروغ اور پروان چڑھانےکے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں کیوں کہ کرکٹرز ،گراس روٹ لیول سے کھیلتے ہوئے ، کرکٹ کے اسرار و رموز سیکھ کر نکلتے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں سے پی سی بی حکام نے قومی کرکٹرز کوبے مقصد لیگز میں حصہ لینے کی اجازت دی ہوئی ہے جس کے عوض کھلاڑی بھی پیسہ کماتے ہیں اور بی سی پی بھی اس کے عوض ’’معاوضہ ‘‘وصول کرتا ہے۔
میں وثوق سے کہتا ہوں کہ ایک غیرملکی لیگ کے میچز کے انعقاد کے موقع پر پاکستانی بورڈ حکام نے، اس لیگ سے، کھلاڑیوں کو شرکت کی اجازت دینے کے لیے چار لاکھ ڈالروصول کیےتھے۔مجھے دنیا کا کوئی ایک ملک بتادیںجو اپنے لڑکوں کو دوران سیزن ، غیرملکی لیگ کے ساتھ میچ کھیلنے کی اجازت دیتا ہو۔ ویسٹ انڈیز واحد ملک ہے، جس کے کرکٹرز اپنے ملک کی بہ نسبت غیر ملکی لیگزکھیلنے کو ترجیح دیتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اپنے بورڈ سے بہت کم معاوضہ ملتا ہے۔ سب سے زیادہ مخالفت میں نے قومی کرکٹرز کے بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کے ساتھ کھیلنے کی ہے، اس کی وجہ قومی غیرت اور حمیت بھی ہے۔ بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ ، بھارت کے ساتھ مل کر پاکستانی کرکٹ کو تباہ کرنے کے لیے کام کرتا ہے، اب اس صف میں افغانستان بھی شامل ہوگیا ہے۔میرا کہنا صرف یہ ہے کہ پی سی بی کوایسے ممالک کے ساتھ اپنےکرکٹ تعلقات پر نظر ثانی کرنا چاہیےجو پاکستان کے ساتھ کھیلنے کے مخالف ہیں، چند لاکھ ڈالر کی خاطر ملک کے عزت و وقار کا سودا نہیں کرنا چاہیے۔
جنگ: پاکستانی پچز کے بارے میں کیا خیال ہے، کیا یہ عالمی معیار کے مطابق ہیں یا ان میں بہتری کی ضرورت ہے؟
سکندر بخت: میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی صرف پچز ہی نہیں بلکہ انفرااسٹرکچر، وکٹوں اور اسٹڈیمز میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ ان کاموں پر ضرورت کے مطابق پیسہ خرچ نہیں کیا گیا۔دنیا کے تمام کرکٹ کھیلنے والے ممالک اپنی ٹیم اور موسم کے مزاج اور استعداد کار کی مناسبت سے پچز تیار کرتے ہیں۔ بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے، وہاں اپنی مرضی کی پچز تیار کرائی جاتی ہیں جو دو تین دن میں ختم ہوجاتی ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر بیٹنگ وکٹیں بنائی جاتی ہیں جن سےفاسٹ بالرز کو ایڈانٹیج بہت کم ملتا ہے، وکٹیںاور پچز تو جلد ختم ہوجاتی ہیں، اصل چیز اسٹیڈیم اور انفرااسٹرکچر ہے، ہمیں اس پر توجہ مرکوز کرنا پڑے گی۔
جنگ : آپ ایک ٹی وی چینل پرتجزیہ کار کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں ، کس حد تک مطمئن ہیں؟
سکندر بخت: میں ٹی وی پر آزادانہ ماحول میںتجزیاتی پروگرام میں، کھیل کے حوالے سے مثبت تنقید کرتا ہوں۔ اپنے پروگرامز میں جو تجزیئے پیش کرتا ہوں وہ حقائق پر مبنی ہوتے ہیں، شاید بعض کرکٹرز اور بورڈپر میرے تبصرے گراں گزرتے ہوں، لیکن مجھے اس کی کوئی پروا نہیں، مجھے خوشی ہے کہ عوام میرے پروگراموں کو پسند کرتے ہیں اور ان کی طرف سے دن بھر مجھے لاتعداد فون اور پیغامات موصول ہوتے ہیں۔ میرے ادارے کی جانب سے مجھ پر پروگرام کے حوالے سے کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔
جنگ : اس کے علاوہ آپ کی کیا مصروفیات ہیں؟
سکندر بخت: ٹی وی انالسٹ کے طور پر میری ملازمت جزوقتی ہے،مستقل طور سے میں گزشتہ دس سال سے ایک دوست کے ساتھ کام کرتا ہوں۔ پرنٹنگ اورپیکجنگ کا کام ہے،ان کی چار فیکٹریاں ہیں اور ان چاروںکی ایڈمنسٹریشن کے معاملات کی تمام ذمہ داری مجھ پر عائد ہے۔
جنگ: آپ نے اپنے ہم عصر کرکٹرز کی طرح سیاست میں آنے کے بارے میں بھی غور کیا ؟
سکندر بخت: اللہ کا شکر ہے کہ میری زندگی نہایت پرسکون گزر رہی ہے، اگرمیں سیاست میں آگیا تو مجھے جھوٹ، فریب، اقرباء پروری اورچاپلوسی سے کام لینا پڑے گا، جس سے میں کرکٹ کیریئر اور ٹیم آفیشل کی حیثیت سےملازمت کے دوران بچتا رہا ہوں۔
جنگ: ٹیم کے موجودہ کھلاڑیوں کے لیے آپ کا کیا پیغام ہے؟
سکندر بخت: اپنے کھیل پر بھرپور توجہ دیں،بڑے قومی ٹورنامنٹس اور غیرملکی میچز کے علاوہ ملکی و علاقائی سطح کے میچز بھی کھیلیں، اس سے کھیل میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ ڈسپلن کی پابندی کریں اور تنازعات سے بچنے کی کوشش کیا کریں۔