جماعت صحابہؓ ان پاکیزہ ہستیوں پہ مشتمل قافلۂ عشق و محبت کا نام ہے جنہیں بلا حجاب، بلاواسطہ، ظاہری حیات کے ساتھ سرور کون و مکاں، ہادی انس و جاں، سرور سروراں، حضور خاتم الانبیاء و المرسلین ﷺ کے رخ زیبا کی تابانیوں سے حصہ ملا اور محبت دلنواز کا فیض میسر آیا،اسلام کی بیش بہا دولت ملی اور ایمان کی شمع فروزاں لئے سوئے حق روانہ ہوگئے۔ اس نسبت و صحبت رسول کریمؐ نے ان افراد کو ایسا بلند تر مقام دیا کہ رشک ثریا کر دیا۔اصحاب رسول کریمؐ کی عظمتیںخود رب ذوالجلال نے جابجا ارشاد فرمائیں، انہیں اپنی رضا کا تاج عطا فرمایا، اشداء علی الکفار (کافروں پہ سختی کرنے والا) رحماء بینھم (آپس میں رحم کرنے والے) کے ساتھ ان کے پرخلوص رکوع و سجود اور عبادات عالیہ کا تذکرہ مخصوص پیرائے میں فرما کرخالق کائنات نے اصحاب خیرالانامؐ کی عظمتوں کو دوام بخش دیا، ان کی محبت و شفتگی اور جذبہ ایمانی کی حسین تصویر کشی کی کہ قاری قرآن کا سینہ جذبات محبت سے مملو ہو جاتا ہے، رب تعالیٰ نے اس قافلۂ رشد و ہدایت کی ادائوں پہ قرآنی آیات کا نزول فرما کر رضوان اکبر کے تمغے عطا فرمائے۔میرے آقا و مولیٰ حضور سرور کونینﷺ نے اپنے ان غلاموں کے مناقب، آنے والی نسلوں کو بطور درس،اس طرح صراحت کے ساتھ بیان کئے کہ رہتی دنیا تک کی انسانیت ان کے وجود مسعود پہ فخر کرتی رہے گی۔الحمدللہ! اہل سنت و جماعت، عقیدے کی شفافیت، نظریاتی طہارت اور فکری صلابت کے حوالے سے وہ ’’سلسلۂ نور‘‘ ہے جس کا ایک سرا صاحب گنبد خضریٰؐ کے دامن رحمت سے وابستہ ہے اور دوسری طرف قیامت تک کے لئے، اپنے دامن میں نور و ہدایت کا سامان لئے، جادۂ حق، صراط مستقیم کی تابانیاں تقسیم کر رہا ہے، اہلسنت و جماعت جہاں افضل البشر بعداز انبیاء و رسل، حضرت ابو بکر صدیقؓ کو خلیفہ رسول اکرمؐبلافصل مانتے ہیں وہیں یہ صاحب جلالت و حشمت حضرت عمر فاروقؓ، پیکر جود و سخا حضرت عثمان غنیؓ فاتح خیبر، حیدر کرار حضرت علی المرتضیٰ ؓسمیت کاتب وحی حضرت امیر معاویہؓ اور دیگر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے حضور ادب و عقیدت اور محبت و احترام کے تحائف پیش کرتے ہیں یہ جماعت جہاں تنقیص و توہین سے بری الذمہ ہے وہیں پہ غلو اور مبالغہ آرائی سے بھی کوسوں دور ہے،آنحضرتﷺ نے اپنے غلاموں کو جن جن مقامات، خاص سے نوازا، اہل السنۃ ہر صحابیؓ کے لئے اس کی فضیلت و عظمت کا نہ صرف اقرار کرنے واےل ہیں بلکہ عطا کی گئی ’’ترتیب فضیلت‘‘ اور حیثیت کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔مقام صحابیت درجات کی تقسیم کے مطابق ہے مگر ’’وصف صحابیت‘‘میں مساوات ہے۔ہمیں بزرگوں سے ہدایت خاص ملی کہ جہاں صحابہؓ کا ذکر ہو وہاں اہل بیت اطہارؓ کا ذکر بھی کیا جائے اور جہاں خاندان نبوت کا ذکر ہو وہاں صحابہ کرامؓ کی عظمت بھی بیان کی جائے تاکہ کوئی بدگمان الزام نہ لگا سکے اور اس بات کا اظہار بالیقین ہو کہ ہم روشن راستوں کے مسافر اہل سنت و جماعت ہیں جن کے سینوں میں محبت اہل بیت کا دریا بھی موجزہ ہے اور عظمت صحابہؓ کے جذبات بھی ٹھاٹھیں مار رہے ہیں۔ مختصراً سارے عقیدے کا خلاصہ سیدیٰ اعلیٰ حضرت الشاہ احمد رضا خان بریلویؒ کا یہ شعر ہےجوکہ حقیقت میں حدیث پاک کا ترجمہ ہے۔
اہل سنت کا ہے بیڑا پار، اصحابہ رسولؐ
نجم ہیں اور نائو ہے عترت رسول اللہؐ کی
تاجدار ختم نبوتؐ نے اپنے ان غلاموں کو ’’ہدایت کے ستارے‘‘ قرار دیا اور اپنے اہل بیت کو کشتی نوحؑ سے تشبیہ دی، یعنی جو ظلمات دنیا سے کامیابی کے ساتھ جنت تک پہنچنا چاہتا ہو، اس کے لئے لازم ہے کہ صحابہ کرامؓ اور اہل بیت اطہار دونوں سےگہری محبت و الفت اور نسبت احترام و عزت مضبوط رکھے۔ جہاں آنحضرتﷺ نے اپنے صحابہؓ کو ’’نجوم ہدایت‘‘ قرار دیا، وہیں یہ ان کی طرف سب و شتم (گندی، گالی گلوچ والی زبان) اور خرافات کی نسبت کرنے سے روکا۔ ارشاد نبوت ہوا’’جس نے میرے صحابہؓ کو گالی دی اس پہ اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے‘‘۔اخلاص کی زیادتی، نسبت خاص کا استحکام اور کمال درجہ کی تہذیب نفس کی بنیاد پہ، محبوب کریمؐ نے ان اصحابؓ کے قلیل عمل خیر کو ’’غیر صحابی‘‘ کے پہاڑ جتنا سونا خیرات کر دینے سے بھی افضل قرار دیا اور اس سے بھی بڑھ کر صحابیؓ کے شرف و کمال پہ زبان صدق و صفا نے یہ ارشاد فرما کر سند دوام عطا فرمائی کہ جس نے ان صحابہؓ سے محبت کی، اس نے میری محبت کے سبب ان سے محبت کی اور جس نے ان (اصحاب رسولؐ) سے بغض رکھا اس نے مجھ (رسول اللہؐ) کے سبب سے بغض رکھا۔ سادہ زبان میں یوں سمجھئے کہ آنحضرتﷺ نے وضاحت فرمائی کہ جس نے صحابیؓ سے محبت کی، اس کے دل میں رسول خداؐ کی محبت تھی جو غلام رسول کریمؐ کے ساتھ محبت کا سبب بنی اور جس نے ان روشن ستاروں سے عداوت کی اور بغض ظاہر کیا، حقیقت میں اس کابغض رسول کریمؐ کے لئے تھا (نعوذ باللہ) جس کی وجہ سے اصحاب رسولؐ سے عداوت رکھی۔گویا صحابہؓکی محبت جس دل میں جاگزیں ہوتی ہے، وہاں محبت رسول کریمؐ پہلے سے موجود ہوتی ہے جو محبت صحابہؓ کا باعث بنتی ہے اور یہی حال بغض صحابہ رکھنے والوں کا ہے۔ آج اس خلفشاری کے دور میں عجیب و غریب فتنے ’’محبتوں کی تقسیم‘‘ کی بنیاد پہ ظاہر ہو رہے ہیں اور امت مسلمہ کا رہا سہا استحکام بھی پارہ پارہ کیا جا رہا ہے،اہل سنت کسی طرح کی بھی پراگندی اور کثافت کو ’’عقیدۂ خالص اہل سنتہ و جماعہ‘‘ کے حلقۂ نور میں داخل کرنے کی اجازت دیتے ہیں بلکہ ہم محافظ عقیدہ بن کر، کسی بھی طرز پہ قائم اعتقادی خرابی، کا قلع قمع کرنے اور عقائد صحیحہ کی ترویج کرنے کا عہد کرتے ہیں اور اس عمل خیر میں کسی رکاوٹ کو حائل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ بطور خاتمہ مضمون، ضروری ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ کی عظمت و شرف صحابیت کو اخلاص کے ساتھ تسلیم کیا جائے، ان کے عالی قدر کارنامے جوکہ اسلام کی خاطر سرانجام دیئے، ان پر انہیں خراج تحسین پیش کیا جائے اور ان کے حق میں کی جانے والے دعائے رسول اکرمؐ ذہن میں رہے تاکہ آپؓ کا مرتبہ و مقام اجاگر ہو۔ آنحضرتؐ نے فرمایا’’اے اللہ! اس (معاویہؓ) کو کتاب کا علم عطا فرما اور شہروں پہ قوت عطا فرما (حکومت) اور اس کو عذاب سے محفوظ فرما، ایک اور مقام پہ فرمایا’’اے اللہ! اس (معاویہؓ) کو ہدایت دینے والا، ہدایت یافتہ بنا، اس کو ہدایت دے اور اس کے ساتھ (سبب سے) دوسروں کو ہدیت دے‘‘قارئین! محبت اصحاب رسولؐ ہو یا محبت آل رسولؐ، سب کا مرکز صاحب گنبد خضراء، شافع یوم حشر، حضرت محمد رسول اللہﷺ ہیں، اہل سنت کے ہاں صحیح العقیدہ مسلمان وہی ہے جو دونوں سے نسبت ادب و احترام رکھے اور دونوں فریق میں سے کسی فرد کی تنقیص نہ کرے۔ بحیثیت مسلمان نظریاتی وابستگی کا شفاف اور طاہر ہونا ہی تمام اعمال خیر کی قبولیت کی دلیل ہے اور اسی پہ دوام و ثبات کی دعا کے ساتھ اس معروضہ کا اختتام ہے۔