• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صاف پانی میں ہے صحت مند زندگی

پانی کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ اگر پانی کی شکل میں اللہ تعالی کا یہ عظیم احسان نہ ہوتا تو دنیا بےرونق ہوتی۔ سرسبز و شاداب ہرے بھرےکھیت ہوں یا رنگ و نکہت اور روغ ورونق، پانی کے بغیر ان کا وجود نہ ہوتا۔ ایک انسان کو کتنا پانی پینا چاہیے؟ اس کا دارومدار غذا، جسمانی سرگرمی، موسم، نمی، صحت اورجسم سے خارج ہونے والے پانی کی مقدار پر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر انسان کو جسمانی نظام کی بحالی کے لیے کم از کم اتنا پانی ضرور پینا چاہیے، جو اس کےجسم سے نکلنے والے پانی کو لوٹا سکے۔ پانی کے کئی طبی فوائد ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق، پانی میں متعدد بیماریوں کا علاج ہے۔ پانی غذا ہضم کرنے کے لئے ضروری ہے، پانی جسم کے ٹیمپریچر کو ترتیب دینے اور گردش خون کو رواں رکھنے کے لئے ضروری ہے، پانی گردوں کو صاف رکھتا ہے، بڑھتی عمر کے اثرات کم کرتا ہے۔

صاف پانی میں ہے صحت مند زندگی

پانی اور ہماری صحت

تحقیق کے مطابق، پاکستان کے دو تہائی گھرانے پینے کے لیے آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں، جو کئی بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔ پانی سے لگنے والی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیشہ ابلا ہوا پانی استعمال کریں، پانی کے برتنوں کو ٹھیک طرح سے صاف کرکے اور ڈھانپ کر رکھاکریں وغیرہ وغیرہ۔ جاپان کے لوگ ہر صبح نہار منہ، برش کرنے سے بھی پہلے چار گلاس پانی (تقریباً122اونس) پینے کو صحت کی علامت قرار دیتے ہیں، یہاں تک کہ برش بھی بعد میں کرتے ہیں اور پانی پینے کےکم از کم 45منٹ بعد ناشتہ کرتے ہیں۔

پانی محدود ہے

معاشیات کا بنیادی اصول ہے کہ وسائل محدود ہوتے ہیں اور ہر محدود چیز چاہے کتنی ہی وافر مقدار میں کیوں نہ ہو، ایک دن ختم ہوجائے گی۔ پانی کی دستیابی بھی محدود ہے۔ اب تو اس کے اثرات بھی نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نیشن ڈیویلپ منٹ پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں ایک ارب دس کروڑ افراد کی پانی تک رسائی نہیں، جب کہ تین کروڑ سے زائد افراد ہر سال پانی کے بحران کی وجہ سے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق2050 تک دنیا کی ایک تہائی آبادی کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ 

دنیا میں بڑھتی آبادی اور ماحولیاتی عوامل کی وجہ سے فی کس پانی کی دستیابی میں50 سال کے دوران 60%کمی آئی ہے۔

اس وقت دنیا کی آبادی 7.63ارب ہے۔ 2050ء تک یہ آبادی 9 ارب سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔ ان سب انسانوں کو پینے، فصلیں اُگانے اور توانائی پیدا کرنے کے لیے پانی کی ضرورت ہوگی۔

ماحولیاتی تبدیلی کے باعث بارشیں نہ ہونے کے نتیجے میں دنیا کے کچھ حصے بنجر اور بے آباد ہوچکے ہیں۔ جبکہ پچھلے چالیس برسوں کے دوران دنیا کے خشک سالی سے متاثرہ حصوں میں دوگنا اضافہ ہوچکا ہے۔ ایسے میں پانی کی بڑھتی ہوئی طلب دنیا کو ایک سنگین بحران کی طرف دھکیل رہی ہے اور اس بات کاا ندیشہ ہے کہ پانی کے لیے تیسری جنگ عظیم ہوسکتی ہے۔

پانی کی خصوصیات

پانی دوگیسوں ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے بنتا ہے۔ پانی کے اس مرکب کاکیمیائی فارمولا H2O ہے۔ اس فارمولے کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ہائڈروجن گیس کےدو اور آکسیجن گیس کا ایک ایٹم مل کر پانی کا ایک مالیکیول بناتے ہیں۔اپنی مخصوص خصوصیات کے باعث،پانی دیگر مائعات (Liquids)سے مختلف ہے۔ 

بہت کم درجہ حرارت پر ٹھوس حالت سے بھاپ کی حالت میں تبدیل ہوجاتا ہے اور جب پانی کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے،سکڑنے کے بجائے پھیلنے لگتا ہے۔پانی مختلف درجہ حرارت پر مائع، ٹھوس اور بھاپ کی حالت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ کیمیائی لحاظ سے پانی کا کوئی رنگ، ذائقہ اور خوشبو نہیں ہوتی۔

پاکستان کی صورت حال

بین الاقوامی مالیاتی ادارے(IMF) کے مطابق، دنیا میں قلت آب کے شکار ممالک میں پاکستان کا نمبر تیسرا ہے ۔ اس وقت پاکستان میں فی کس استعمال کے لیےدستیاب پانی کی مقدار 908مکعب میٹر ہے جو کہ پانی کی کمی کے معیار 1000 مکعب میٹر سے کم ہے۔

صرف ایک دہائی قبل2009 میں پاکستان میں فی کس 1500مکعب میٹر پانی دستیاب تھا۔ خدشہ یہ ہے کہ پاکستان 2025میں پانی کی شدید قلت سے دوچار ہوجائے گا، فی کس صرف 500مکعب میٹر پانی دستیاب ہوگا۔ ہماری حالت صومالیہ سے بھی بدتر ہوجائے گی۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یواین ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں پانی کے استعمال کرنے کی اوسط دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے پانی کے استعمال کا اشاریہ (جی ڈی پی کے ایک یونٹ میں پانی کا مکعب میٹروں میں استعمال) دنیا بھر میں سب سے بلند شرح پر ہے۔

پانی کا عالمی دن

اقوام متحدہ کے تحت ہر سال 22مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی سطح پریہ دن منانےکامقصد، پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور سائنسی اپروچ اختیار کرتے ہوئےپانی کا کم سے کم استعمال کرکے اس کے فوائد سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے۔

اس سال اقوام متحدہ کی جانب سے اس دن کی تھیم Nature For Waterرکھی گئی ہے کہ ہم کس طرح فطرت کو استعمال میں لاتے ہوئےپانی کے 21ویں صدی کے چیلنجز پر قابو پاسکتے ہیں۔

پانی کی کمی۔ احتیاط واحد حل

جب دستیاب وسائل کم ہوں توعقل عام کا تقاضہ ہے کہ ان کا استعمال احتیاط سے کیا جائے۔ ہمارے ملک میں معاملہ اس کے الٹ ہے۔ ہم پانی کا بے دریغ ضیاع کررہے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت ہمارے ملک میں اوسطاً پانچ ہزار چھ سو مکعب میٹر پانی دستیاب تھا جو بتدریج کم ہوتے ہوتےایک ہزار کیوبک میٹر فی شہری سے بھی کم ہوگیا ہے۔ ہمارے دریا تقریباً سوکھ چکے ہیں، بلکہ ستلج تو سوکھ ہی چکا ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، پاکستان کا 90%پانی زراعت اور آبپاشی کے مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے، تاہم کوئی نہیں جانتا کہ ہمارے ملک کا کئی دہائیاں پرانا آبپاشی کا نظام کتنا پانی ضائع کردیتا ہے۔ زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے پانی کے استعمال میں خاطرخواہ کمی کی جاسکتی ہے۔1960کی دہائی کے بعد ہم نے کوئی بڑا قابل ذکر ڈیم نہیں بنایا۔ ہم بارشوں کا پانی سمندر میں بہادیتے ہیں۔

گلی،محلے اور سڑکوں پر مٹی کو بھگانے کے لیے پانی وہاں پانی چھڑکنے کے بجائے آئیے وہاں کچرا ، کوڑا کرکٹ اور چھوٹی چھوٹی چیزیں پھینکنا ترک کریں۔

اپنی گاڑیاں اور گھروں کے کار پورچ کو دھوتے وقت اپنے گھر کے باہر گلیوں کونالے میں تبدیل نہ ہونے دیں۔

ہاتھ،منہ دھوتے وقت یا وضو کرتے وقت ، وضو سے پہلے مسواک کرتے وقت یا نہاتے وقت پانی کا نل (ٹوٹی)مسلسل کھلا نہ رکھیں۔ بوقت ضرورت نل کھولیں اور پھر بند کردیں اور اس طرح ضرورت کے مطابق یہ عمل دہرائیں۔

برتن اور کپڑے دھوتے وقت اور گھر کی دھلائی کرتے وقت پانی کے نل کا منہ کھول کر بھول نہ جایا کریں۔ اس سلسلے میں سب سے اچھا لائحہ عمل یہ ہے کہ پانی کو کسی پتیلی یا بالٹی میں بھر لیں اور پھر وہاں سے پانی نکال کر حسب ضرورت خرچ کریں۔

گھر میں پانی کی لائنوں اور ٹوٹیوں کا معائنہ کریں کہ کہیں ان سے پانی لیک تو نہیں ہورہا۔ کیا آپ کوپتہ ہے کہ اگر آپ کے گھر میں پانی کی ایک ٹوٹی لیک ہوجائے اور اس سے ایک سیکنڈ میں ایک قطرہ گرنے لگے تو ایک دن میں پانچ گیلن اور ایک سال میں دو ہزار بیاسی گیلن پانی ضایع ہوجاتا ہے۔

تازہ ترین