• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سندھ مدرستہ الاسلام کے وائس چانسلر، ڈاکٹر محمد شیخ سے گفتگو

سندھ مدرستہ الاسلام کے وائس چانسلر، ڈاکٹر محمد شیخ سے گفتگو

عکاسی: محمد اسرائیل انصاری

’’سندھ مدرستہ الاسلام ‘‘کا شمار جنوبی ایشیا کے قدیم ترین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے، یہ اس حوالے سے بھی ہمارے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں بانیٔ پاکستان محمد علی جناح نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ وقت گزرتا گیا اور جس تعلیمی ادارے کی بنیاد بہ طور اسکول رکھی گئی تھی، اسے1943 میں کالج اور2012میں یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ 

کہنے کے لیے یہ ایک سرکاری ادارہ ہے، لیکن یہاں کا ماحول ، معیار تعلیم ، نظم و ضبط دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ، اس میں زیر تعلیم طلباء دیگر نجی تعلیمی اداروں کے طلباء سے کسی طور کم نہیں ہیں۔جس طرح ایک گھر کو چلانے میں سربراہ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، بالکل اسی طرح جامعہ میں یہ کردار وائس چانسلر کا ہوتا ہے، اگر وہ ذرا بھی بے پروائی برتیں، تو ا س کا اثر ادارے اور طلباء کی پڑھائی پر پڑتا ہے۔ ویسے بھی معلّمین، کسی بھی انسان کی زندگی بنانے، شخصیت نکھارنے، پوشیدہ صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے اور منزل سے آشنا کرانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ جب ہمیں ایک اچھا استاد مل جاتا ہے، تو پھر کسی رہنما کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ کبھی مشفق دوست بن کر ،صلاح دیتا ہے، تو کبھی والد کی طرح سختی سے اصلاح کرتاہے۔گزشتہ دنوں ہم نے سندھ مدرستہ الاسلام کے وائس چانسلر ،ڈاکٹر محمد علی شیخ سے ملاقات کی، جس میں ان سے، ان کے زمانۂ طالب علمی ، موجودہ نصاب تعلیم ، نظام تعلیم اور طلبا کے رویّوں وغیرہ کے بارے میں مختصراً جاننے کی کوشش کی۔آئیے آپ بھی ان سے ہونے والی گفتگو میں شامل ہو جائیے۔

جنگ: اپنی ذاتی زندگی کے بارے میںکچھ بتائیے۔

ڈاکٹر محمد علی شیخ: میرا تعلق ایک چھوٹے سے شہر خیر پور میرس سے ہے،جوکراچی سے تقریباً تین سو میل کے فاصلے پر قائم ہے۔میرے والد ڈپٹی کمشنر تھے، سرکاری نوکری ہونے کی وجہ سے ان کے تبادلے ہوتے رہتے تھے۔ ابھی چنددن پہلے ہی میںسوچ رہا تھا کہ پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک میرے دس اسکول تبدیل ہوئے ہیں۔ جیسے جیسے ابّا کا تبادلہ ہوتا جاتا تھا، میرے اسکول بھی بدلتے رہتے تھے۔ اس بات کا مجھے یہ فائدہ ہوا کہ میں خاصا ملن سار ہوگیا، خوش مزاجی میری طبیعت میں سرایت کر گئی، کیوں کہ ہر اسکول میں نئے نئےساتھیوں سے ملتا ، دوست بناتا ، اس سے مجھ میں خود اعتمادی بھی آئی،اسی لیے آج بھی مجھے دوست بنانے میں دقت نہیں ہوتی ہے۔ ہم آٹھ بہن ، بھائی ہیں،چار بہنیں اور چار بھائی،بہنیں ساری ہم بھائیوں سے کافی بڑی ہیں،بھائیوں میں، میںدوسرے نمبر پر ہوں، دونوں چھوٹے بھائی اور میں بالکل دوستوں کی طرح رہتے تھے، خوب کھیل کود، مذاق ، ساتھ پڑھنا، لڑائی بھی ہوتی تھی، مگرایک دوسرے کے بغیر رہتے بھی نہیں تھے، بہنوں کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزارا کیوں کہ ان کی شادی جلدی ہوگئی تھی ، اس لیے جب سے ہوش سنبھالا بھائیوں کے ساتھ ہی وقت گزرا، ہم ایک ساتھ فلمیں دیکھنے بھی جاتے تھے، کرکٹ بھی کھیلتے تھے، غرض کہ ہر کام ساتھ میں کرتے تھے۔ ہم حیدر آباد میں بھی چند سال رہے، جب میں نویں جماعت میں تھا، تو میری فیملی کراچی منتقل ہوگئی تھی، تب سے آج تک ہم کراچی میں ہیں۔ میں نے انٹر میڈیٹ اسلامیہ کالج ، کراچی سے کیا، بعد ازاں مہران انجینئرنگ کالج ، جامشورو میں داخلہ لیا، جہاں سے میں نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد پاکستان اسٹیل ملز میں میری ملازمت ہوگئی، مگر نوکری کے چند عرصے بعد احساس ہوا کہ مجھے درس و تدریس کے شعبے میں جانا چاہیے ، اس لیے میں نے مہران یونیورسٹی میں ہی بہ طورلیکچرر نوکری کر لی، وہاں تقریباً آٹھ ، نو سال پڑھایا، اس دوران میں نے شاہ لطیف یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹرز بھی کیا۔ مجھے بچپن ہی صحافی بننے کا شوق تھا، بلکہ جب میں اسلامیہ کالج میں زیر تعلیم تھا ، تو تب میں کراچی کے ایک روزنامے سے منسلک ہو گیا تھا، اس کا ایک سندھ ، بلوچستا ن ایڈیشن نکلتا تھا، میں اس کا انچارج تھا، اس کے علاوہ میرا ہفتے وار ایک کالم ’’ٹیلی وژ ن پروگرام پہ تبصرہ‘‘ کے نام سے آتا تھا۔ نوّے کے اوائل میں میں نے بہ طور اینکر ٹیلی وژن پر پروگرامز کرنےبھی شروع کر دئیے تھے۔ میرا پروگرام پاکستان ٹیلی وژن پر ’’روشن راہی‘‘ کے نام سے آتا تھا، جو نوجوانوں سے متعلق تھا، جب میں مہران یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر تھا، اس دوران میں نے تقریباً تین ، ساڑھے تین سال مختلف ٹی وی پروگرامز بھی کیے۔ علاوہ ازیں سائنس میگزین میں بھی لکھتا تھا، مجھے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں شروع ہی سےدل چسپی تھی۔

جنگ: جب آپ کی دل چسپی صحافت میں تھی، تو آپ نے انجینئرنگ کیوں کی؟

ڈاکٹر محمد علی شیخ: میں بچپن ہی سے صحافی بننا چاہتا تھا، والد کے کہنے پر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی،کیوں کہ اس زمانے میں صحافیوں کی معاشی حالت بہت خراب تھی، جو سہولتیں آج کے صحافی کومیسر ہیں، وہ اس دور میں نہیں تھیں۔ والدین کی سوچ بھی آج کے والدین کی طرح زیادہ وسیع نہیں ہوتی تھی،روایتی سوچ کے تحت میرے والد نے مجھے کہا کہ میں سرکاری ملازم ہوں،اگرتمہیںزندگی میں کچھ کرنا ہے، آگے بڑھنا ہے تو میڈیکل یا انجینئرنگ میں سے کسی شعبے کا انتخاب کرو، اس لیے میں نے ان کی بات کا مان رکھتے ہوئے انجینئرنگ کے شعبے کا انتخاب کیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں نے اپنے شوق کو بھی جاری رکھا، بلکہ جب مہران یونیورسٹی ، جام شورو میں زیر تعلیم تھا، تب ایک اخبار کے لیے بہ طور نامہ نگار ، ’’کیمپس ڈائری ‘‘ لکھتا تھا، ،جس میں جام شورو میں تین بڑے تعلیمی ادارے تھے، جن میں لیا قت میڈیکل کالج(موجودہ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی)، سندھ یونیورسٹی اور مہران یونیورسٹی ، ان تینوں تعلیمی اداروں میں ہونے والی سرگرمیوں کی تفصیلی اور جامع رپورٹ ہوتی تھی۔ اُس وقت روزنامہ جنگ کے مڈویک میگزین میں مہران کے دو صفحات آتے تھے، میں اس میں بھی لکھتا تھا۔

جنگ: سندھ مدرستہ الاسلام سے کب وابستہ ہوئے؟

ڈاکٹر محمد علی شیخ: یہ غالباً 1994کی بات ہے، یہاں پرنسپل کی آسامی خالی ہوئی تھی، میں مہران یونیورسٹی میںتو پڑھا ہی رہاتھا، میں نےبھی دیگر امیدواروں کی طرح درخواست جمع کروائی اور میرا انتخاب ہوگیا۔ جب یہاں آیا ، تو میں نے صحافت سےمکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کرلی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی، کہ پرنسپل ایک ادارے کا سربراہ ہوتا ہے، اس پر کئی ذمے داریاں ہوتی ہیں، مجھ پر یہاں بہت ذمے داریاںتھیں، جنہیں خوش اسلوبی سے پورا کرنے کے لیے میں نے اپنی دیگر تمام مصروفیات ترک کردیں۔ میں چاہتا تھا کہ اپنی تمام تر توجہ صرف اور صرف سندھ مدرستہ الاسلام پر دوں۔

جنگ: بچپن کی کسی ایسی شرارت کے بارے میں بتائیے ، جسے سوچ کر آج بھی ہنسی آتی ہے؟

ڈاکٹر محمد علی شیخ: میں بچپن میں بہت شرارتی تھا۔مجھےناول پڑھنے کا بہت شوق تھا، بالخصوص جاسوسی ناول، ایک دن میںپانچ، پانچ ناول بآسانی ختم کر لیتا تھا۔ جاسوسی ناول پڑھنے کی وجہ سے آس پاس کیا ہورہا ہے، اس کی جستجو رہتی تھی، اسی وجہ سے کبھی کسی کے گھر میں کود جاتا تھا، تو کبھی کسی کے، پھر ابّا سے خوب ڈانٹ بھی پڑتی تھی ۔

جنگ: کیسے طالب علم تھے؟

ڈاکٹر محمد علی شیخ: میں ذہین تو بہت تھا، لیکن امتحان سے چند دن قبل ہی پڑھائی کرتا تھااور سیکنڈ ڈویژن میں کام یاب ہوتا تھا، یہی وجہ تھی کہ گھر والوں سے ڈانٹ بھی سننا پڑتی تھی کہ اگر تم پڑھائی میں دل لگاؤ، خوب دھیان سے پڑھو، تو کتنے اچھے نمبرز لاسکتے ہو، لیکن میرا تو سارا دھیان ادب میں ہوتا تھا، دوسرا مجھے آؤٹنگ کا بہت شوق تھا، گھومنے پھرنے، سیر وتفریح میں مجھے بہت مزا آتا تھا۔ یعنی یا تو میں کتابی کیڑا بن کر گھر میں بیٹھا رہتا تھا، یا سارا سارا دن باہر رہتا تھا۔ مجھے فلمیں دیکھنے کا بے حد شوق تھا، جب انٹر میں تھا، اس زمانے میں یہاں پرنس سنیما بہت مشہور تھا، جس میں صبح کے شوز ہوتھے تھے، گھر والوں سے یہ کہہ کر کہ کالج جا رہا ہوں، فلم دیکھنے چلاجاتا تھا، ایک دن ابّا کو معلوم ہوگیا، تو ان سے خوب ڈانٹ پڑی،انہوں نےپیار سے سمجھایا کہ یہ دور تمہاری زندگی کا سنہری دور ہے، میں اسے انجوائے کرنے کے لیے منع نہیں کر رہا، لیکن اگر ابھی اپنے مستقبل کے بارے میں نہیں سوچو گے، تو زندگی بھر صرف افسوس ہی کرتے رہوگے۔ان کی بات میری ایسے سمجھ میں آئی کہ ا س دن کے بعد سے میں نے کبھی کالج کا ناغہ یا گھر والوں سے جھوٹ نہیں بولا۔

جنگ: بہ طور والد کیسےہیں، سخت مزاج یا دوستوں کی طرح رہتے ہیں؟

ڈاکٹر محمد علی شیخ: میں روایتی والدین کی طرح بالکل بھی سخت نہیں ہوں، اپنے بچوں کو ہر طرح کی آزادی دی ہے، وہ جس شعبے میں جانا چاہیں، جا سکتے ہیں، میں نے یا میری اہلیہ نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا ہے۔ ہر نوجوان کو اتنا تعلیم یافتہ اور قابل ہونا چاہیے کہ کسی کی محتاجی نہ ہو۔

جنگ: جس طرح آپ نے زمانہ ٔ طالب علمی بھر پور انجوائے کیا، چھپ کر فلمیں دیکھنے گئے ، اب اگر آپ کے بچے یا طلباء وہی کام کریں، تو آپ کا کیا رد عمل ہوتا ہے؟

ڈاکٹر محمد علی شیخ: (قہقہہ لگاتے ہوئے) میں پڑھائی کے معاملے میں کافی سخت ہوں، اپنے بچوں یا طلباء کی ایسی کوئی بھی حرکت برداشت نہیں کرتا ، جس سے ان کی پڑھائی کا حرج ہو۔ ہم نے ، جو کچھ بھی کیا وہ نادانی میں کیا، اگر میری رہنمائی کرنے والے مشفق اساتذہ اور میرے والد نہ ہوتے تو میرا مستقبل تاریک ہو سکتا تھا۔ نوجوانی زندگی کے سنہرے ترین ادوار میں سے ایک ہوتی ہے، جسے بھر پور انجوائے کرناچاہیے لیکن، یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب مستقبل کی تیاری ، منصوبہ بندی اور اسے روشن بنانے کے لیے انتھک محنت کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے، اگر اسے صرف کھیل، کود، سیر سپاٹوں میں گزار دیا جائے ، تو اس کا اثر مستقبل پر پڑتا ہے۔ میں اپنے طلباء اور بچوں کے ساتھ دوستوں کی طرح پیش آتا ہوں، انہیں اتنی آزادی دی ہوئی کہ وہ اپنا کوئی بھی مسئلہ مجھ سے بلا جھجک شیئر کرتےہیں، میں انہیں سیر وتفریح کرنے سے منع نہیں کرتا ، بس پڑھائی کے معاملے میں کسی قسم کی بے پروائی برداشت نہیں کرتا۔ ہم سندھ مدرستہ الاسلام کی جانب سے طلباء کو تعلیمی دوروں پر بھی لے کر جاتے ہیں، ہمارے بچے مقابلوںمیں بھی حصہ لیتے ہیں، میں ہر جگہ ان کے ساتھ جاتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جو غلطیاں میں نے کی ہیں، وہ میرے طلباءنہ کریں۔ میں انہیں یہ کہتا ہوں کہ ہم آپ کو تفریح اور آگے بڑھنے کے بہتر مواقع فراہم کر رہے ہیں ،ہمیں یہ مواقع میسر نہیں تھے۔ ہم طلباء کو لے کر ملائیشیا، برطانیہ، ترکی، امریکا وغیرہ گیا، ہم جس ملک بھی گئے میں انہیں فلم دکھانے بھی لے کر گیا ،حالاں کہ بچے حیران ہوتے ہیں کہ وی سی صاحب کے ساتھ سنیما کیسے جائیں، لیکن میں ان کے ساتھ بالکل دوستوں کی طرح برتاؤکرتا ہوں، تاکہ وہ کسی غلط راہ پر نہ چلیں۔ انہیں ہمیشہ یہی سمجھاتا ہوں کہ ہمارے زمانے اور آج کے دور میں بہت فرق ہے، اس نسل کا مقابلہ بین الاقوامی طلباء سے ہے، دنیا برق رفتاری سے ترقی کر رہی ہے، اگر نسل نو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہر میدان میں آگے نہیں ہو گی ، تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔

جنگ: کس مضمون میں کمزور تھے؟

ڈاکٹر محمد علی شیخ: میں حساب کے مضمون میں انتہائی کمزور تھا، اسی وجہ سے میں نے انٹر میں میڈیکل لیا تھا، مگر میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں مل سکا،اس وجہ سے میں نےاپنا مضمون تبدیل کیا، انجینئرنگ کا مضمون لیا، جس میں مجھے میتھس کے ایڈیشنل دو پیپرز دینے پڑے تھے۔ اس ایک سال میں نے اپنی تمام تر توجہ صرف اور صر ف پڑھائی پر مرکوز رکھی، دن رات میتھس کی مشق کرتا رہتا تھا، ٹھا ن لی تھی کہ اب تو عزت کا معاملہ ہے، کیوں کہ ڈاکٹر میں بن نہیں سکتا، صحافی والدین نہیں بننے دیں گے، اب انجینئرنگ کا شعبہ ہی رہتا ہے، اس میں تو ضرور اچھےنمبرز سے کام یاب ہوکردکھاؤں گا۔اس محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ حساب کے مضمون میںتیس فی صد نمبر لینے والا طالب علم 84فی صد نمبروں سے کام یاب ہوا۔اس کام یابی میں میرے ایک استاد خورشید صاحب کا بڑاہاتھ تھا، وہ خیر پور میں ہوتے تھے، میں میتھس سیکھنے کے لیے کراچی میں اپنا گھر چھوڑ کر، تین ماہ ان کے پاس رہا۔ 

میں اپنے شاگردوں کو بھی اکثر اپنے تجربات کی روشنی میں یہ بتاتا ہوں کہ ناممکن کچھ نہیں ہوتا، بس ہم اپنی کوتاہیوں ، کمزوریوں اور ڈر کو چھپانےکے لیےراہ فرار اختیار کرتے رہتے ہیں، حالاں کہ اگر محنت اور کوشش کی جائے، تو دنیا کا ہر امتحان بآسانی پاس کیا جا سکتا ہے، جو انسان کوشش کرتا ہے، اسے اللہ تعالیٰ انعام سے ضرور نوازتا ہے، بعض اوقات ایسا ضرور ہوتا ہے کہ ہم کسی ایک چیز کو حاصل کرنے کے لیے محنت کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ہمیں وہ حاصل نہیں ہوتی،لیکن بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر مقام ہمیں عطا کر دیا ہے، اس لیے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین کامل رکھنا چاہیے۔ میں نے اپنے زندگی کے ہر چیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے، ہر مشکل میں سے اپنے لیے آسانی تلاش کی اور آگے بڑھا ، میں یہی چاہتا ہوں کہ میرا ہرشاگرد بھی ایسا ہی ہو، جو مشکلات سےگھبرائے نہیں۔ 

جنگ: آپ نے 1985میں انجینئرنگ کی ، اس دور میں اور آج کے دور میںنظام تعلیم اور طلباء کے رویوں میں کیا فرق دیکھتے ہیں؟

ڈاکٹر محمد علی شیخ: ہر دور کا اپنا ایک ماحول ہوتا ہے، چوں کہ میرا تعلق درس و تدریس کے شعبے سے ہی رہا ہے، اس لیے مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ آج کا طالب علم زیادہ عقل مند، با اعتماد اور ذہین ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ آج کاتعلیم یافتہ نوجوان چھوٹی موٹی نوکری کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، وہ چاہتا ہے، کہ اسے اس کی قابلیت کے عین مطابق ہی ملازمت ملے، ورنہ وہ کام نہیں کرتا، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس ساری سہولتیں ہوں،مگر وہ یہ نہیں سوچتا کہ کام یابیاں حاصل کرنے کے لیے انتھک محنت اور وقت درکار ہوتا ہے، آج کا نوجوان ہاتھوں پہ سرسوں جمانا چاہتا ہے، جو ممکن نہیں۔ جہاں تک بات ہے نظام تعلیم کی، تو وہ بھی اب پہلے سے زیادہ بہتر ہے، اساتذہ بھی زیادہ ذہین ہیں، مگر وہ بھی اب مادہ پرستی کاشکار ہوگئے ہیں، مثلاً ہمارے زمانے میں اساتذہ ، اپنے شاگردوں کو خود سے زیادہ ترقی کرتا ہوا دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے، مگر میں نے مشاہدہ کیا، کہ آج کے چند اساتذہ یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے شاگرد تو آگے بڑھ گئے، ترقی یافتہ ہوگئے، لیکن ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔

جنگ: اکثر والدین کو یہ شکایت رہتی ہے کہ طلباء کو فرسودہ نصاب پڑھایا جا تا ہے، جو جدید دور سے ہم آہنگ نہیں، آپ سندھ ٹیکسٹ بُک بورڈ کے سربراہ بھی رہے ہیں، آپ نے اسے بہتر بنانے کے لیے کیا کیا؟

ڈاکٹر محمد علی شیخ: یہ بات درست ہے کہ نصاب میں تبدیلی ہونی چاہیے، جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے ، لیکن یہ تبدیلیاں سائنسی مضامین میں ہوں، جن میں آئے دن جدت آتی جا رہی ہے،ٹیکسٹ بُک میں کچھ مضامین ایسے ہوتے ہیں، جنہیں بدلا نہیں جا سکتا ، جیسے انگریزی ادب سے ہم شیکسپیئر کے ڈرامے نہیں نکال سکتے، سندھی میں شاہ لطیف کو پڑھانا ضروری ہے، پھر ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں طالب علموں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے، جو غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے، نئی کتابیں خریدنا ان کی قوت خرید میں نہیں ، وہ استعمال شدہ کتابیں خریدتے ہیں، اب اگر ہر سال یا دو سال میں ہم نصاب تبدیل کر دیں گے، تو غریب طلباء کا کیا ہوگا۔ویسے بھی دنیا بھر میں نصاب میںبہت زیادہ تبدیلیاں نہیں کی جاتیں۔ جب میں ٹیکسٹ بُک بورڈ کا سربراہ تھا، اس وقت حمیدہ کھوڑو وزیر تعلیم تھیں، ہم نے امینہ سید کے ساتھ مل کر ایک پروجیکٹ شروع کیا تھا، امینہ سید نے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کتابیں چھپوائیں، لیکن جب تک وہ کتابیں شائع ہوئیں، تب تک نہ حمیدہ کھوڑو وزیر رہیں، نہ میں سربراہ رہا، تو وہ پروجیکٹ ہی ادھورا رہ گیا۔

جنگ: کوچنگ سینٹر کلچر کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ڈاکٹر محمد علی شیخ: کوچنگ سینٹر جانے میں کوئی برائی نہیں ہے، اگر کوئی بچہ کسی مضمون میں کمزور ہے اور وہ ایکسٹرا کلاس یا ٹیوشن کی صورت میں پڑھائی کر رہا ہے، تو ا س میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کے لیے نہ کھیل کے میدان آباد ہیں اور نہ ہی ایسی جگہیں ہیں، جہاں وہ مثبت سرگرمیوں میں مصروف رہ سکیں، اگر شام کے اوقات میں وہ کوچنگ سینٹر جاکر، وہاں کچھ سیکھ رہا ہے، تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟وہ پڑھ ہی رہا ہے ناں، تو پڑھنے دو، کیوں روک رہے ہو۔

جنگ: ہر سال لاکھوں نوجوان فارغ التحصیل ہوتے ہیں، مگر انہیں بے روزگاری کاسامنا کرنا پڑتا ہے، اس بحران سے نکلنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر محمد علی شیخ: میں نے قومی اور بین الاقوامی دونوں سیکٹرز میں کام کیا ہے، میرا تجربہ ہے کہ ، نوکری حاصل کرنے میںعموماً ان لوگوں کو دقت ہوتی ہے، جن میں قابلیت کی کمی ہو، ابھی تک میں نے ایسا کوئی نوجوان نہیں دیکھا، جو قابلیت و صلاحیت سے بھرپور ہواور وہ بے روزگاری کی زندگی گزار رہا ہو۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین