• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’میں مصور بننا چاہتا ہوں‘‘

تسمینہ ادریس،کراچی

ہمارےنظام تعلیم کی فرسودگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ، جہاں طلباء و طالبات کو اچھا انسان بننے کے بجائے زیادہ سے زیادہ نمبر لینے کی اور اعلیٰ جاب حاصل کرنے کی دُھن سوار ہوتی ہے۔ اس فرسودہ نظام تعلیم کی بہ دولت بہت سے قابل ، نوجوان پیچھے رہ جاتے ہیں ، تعلیم سے منہ موڑ کر دوسری راہیں اختیار کر لیتے ہیں۔شعبہ زندگی کا انتخاب ایک ایسا فیصلہ ہے، جس کا اثر انسان کی زندگی کے تمام تر پہلوؤں پر براہ راست ہوتا ہے۔ 

اگر کوئی شخص میڈیکل کا شعبہ اختیار کرتا ہے ،تو اس کی زندگی کی تمام تر ترجیحات ایک میڈیکل پروفیشنل کی ترجیحات بن جاتی ہیں، وہی شخص اگر تعلیم کے شعبے کو اپناتا ہے تو، اس کا طرز زندگی ایک میڈیکل پروفیشنل سے یکسر مختلف ہوگا۔

ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ہاں شعبہ زندگی کے انتخاب کا کوئی مناسب اور واضح طرز عمل نہیں ہے۔ کوئی طالب علم کسی کے کہنے پر، کسی سے سن کر یا کسی کو دیکھ کر شعبہ زندگی چن لیتا ہے اور آدھی زندگی گزارنے کے بعد اسے ادراک ہوتا ہے کہ میں کوئی اور کام اس سے بہتر کرسکتا ہوں،جو شخص ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، اکاؤنٹنٹ وغیرہ بننے جارہا ہے، اسے خود معلوم نہیں ہوتاکہ وہ انجینئر کیوں بن رہا ہے، معاشی اور معاشرتی کام یابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک انسان کو اسی شعبے کا انتخاب کرنے دیا جائے،جس کی اس کے دل میں لگن ہو اور اس کی خصوصیات اسی شعبے کے ساتھ مطابقت رکھتی ہوں۔

بنیادی طور پر ہمارے معاشرے میں تعلیم کا مقصد بہترین اور اعلیٰ قسم کی نوکری کا حصول ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے ، نوجوان وہ شعبہ منتخب کرتے ہیں ، جس کا اسکوپ زیادہ ہو۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت حال کا ذمے دار کون ہے؟ بہت سے عناصر میں سے سب سے زیادہ ذمے دار ہماری معاشرتی سوچ ہے۔ معاشرہ ہمارے طالب علموں کو بتاتا ہے کہ اچھا پڑھو گے تو اچھی نوکری ملے گی۔ 

کوئی یہ نہیں کہتا کہ اچھا پڑھو گے ،تو اچھا انسان بنو گے، جب علم کو پیسے سے تولا جائے تو قابلیت کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ ان کے ذہنوں میں علم سے زیادہ پیسہ حاصل کرنے کا مقصد ہوتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کیئریئر کونسلنگ کے فقدان کے باعث اپنی قابلیت ، صلاحیت اور پسند کے شعبے کا انتخاب کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

کیئریئر کونسلنگ کیا ہے؟ایک ایسا عمل جس کے ذریعے آپ اپنے آپ کو اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیت کو جاننا سیکھتے ہیں اور پھر اس کے تحت تعلیم کرتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کہیں زیادہ یہ ہے کہ آپ کا دل و دماغ جو کام کرنا چاہتا ہے آپ اس عمل کے ذریعے اسے منتخب کر لیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بچّوں کی کونسلنگ کا انداز قدرے مختلف ہے۔ ہمارے یہاں بچپن سے ہی دماغ میں ڈال دیا جاتا ہے کہ بڑے ہو کر وہ ہی بننا ہے، جو ہم چاہتے ہیں۔ 

والدین یا گھر کے بڑے بچپن ہی سےدماغ میں ڈال دیتے ہیں کہ بڑا ہو کر ڈاکٹر، انجینئر یا پائلٹ بننا پڑے گا ، ان شعبوں کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے، جیسے اس کے علاوہ کچھ اور کوئی شعبہ اہمیت کے لائق ہی نہیں ہے، ہمارے ہاں کیریئر پلاننگ اول تو ہوتی ہی نہیں اور اگر ہوتی بھی ہے تو انتہائی سطحی بنیادوں پر۔ 

عام طور پر کیریئر پلاننگ کے نام پر مارکیٹ کی ضرورت، تعلیمی قابلیت، والدین کا دباؤ، دوستوں کی رائے، ہوا کا رخ اور ذاتی رجحان کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ہمارے ہاں عام طور پر نوجوان یونیورسٹی کی سطح پر کیریئر پلاننگ کے بارے میں سوچتے ہیں، حالانکہ اس کا تعین اسکول لائف سے ہی ہونا چاہیے۔ 

اسکول اور کالج کی سطح پر طلبہ کی دلچسپیوں ،صلاحیتوں اوررجحانات کا جائزہ لیے بغیروالدین کی طرف سے کیریئر کا انتخاب نسل نوکے مستقبل کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ اسکول کی سطح پر کیریئر پلاننگ کا شعبہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسکول کی سطح پر کیریئر پلاننگ شعبے کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ انفرادی طور پر وقتا فوقتا طلبہ کی شخصیتوں کا جائزہ لیتا رہے۔ 

ثانوی تعلیم مکمل ہونے سے پہلے اسکول کے کیریئر پلاننگ شعبے کو انفرادی طور پر ہر طالب علم کی دلچسپیوں کا مشاہدہ اور تجزیہ کرنے کے بعد ان کے فطری رجحان کے مطابق موزوں پیشے تجویز کر دینے چاہیں۔ہمارے ہاں طلبہ کو عمومی طور پر تین اقسام یا درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

ایک وہ جو بہت محنتی اور ذہین ہوتے ہیں،انکی دلچسپی اور رجحان جانے بغیر انہیں زبردستی سائنس مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔دوسرے درجے میں ایسے طلبہ آتے ہیں جو قدرے متوسط ذہنی استعداد کے حامل ہوتے ہیں ۔ انہیں کامرس یا کیمپوٹر سائنس مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔

تیسرے درجے میں ایسے تمام طلبہ آتے ہیں ،جوپڑھائی میں کم دلچسپی رکھتے ہیں،ایسے طلبہ کو سوچے سمجھے بغیر آرٹس مضامین پڑھنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔یہ ممکن ہے کہ ایک غیرمعمولی ذہین بچہ وکالت کے شعبے کے لیے فطری رجحان اور دلچسپی رکھتا ہو لیکن اس کے والدین اسے زبردستی ڈاکٹر یا انجینئر بنا دیتے ہیں۔ 

نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کامیاب ترین وکیل یا بیرسٹر بننے کی بجائے ایک اوسط قسم کا ڈاکٹر یا انجینئر بن جاتا ہے۔ بعض حالتوں میں ایک اچھے ڈیزائنر کی صلاحیتیں رکھنے والے طالب علم کو بزنس مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے ۔ہو سکتا ہے اسی بچّے کے اندر صادقین جیسا آرٹسٹ چھپا ہوا ہو، شیکسپئر جیسا ادیب چھپا ہوا ہو، محض معاشرے کی چھوٹی سوچ کی بہ دولت اس کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔ 

بنیادی طور پر ہمارے معاشرے کی سوچ بہت محدود ہے، جو صدیوں سے ایک ہی نقطہ انجماد پر لگی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر بننا ہے، انجینئر بننا ہے،جب کہ ہر پیشے کی اپنی اہمیت ہے، کسی بھی پیشے کو حقارت کی نظر سے دیکھنا آپ کی محدود سوچ کا ثبوت ہے۔ہمارے وطن عزیز میں کیریئر کونسلنگ کے نہ تو ادارے ہیں نہ تعلیمی اداروں میں اس چیز پر توجّہ دی جاتی ہے، اسی وجہ سے جب شعبے منتخب کرنے کا وقت آتا ہے ،تو نوجوانوں کو مشکل پیش آتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں کیریئر کونسلنگ کے رجحان کو بڑھایا جائے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا تعین بہتر طور سے کر سکیں۔

تازہ ترین