• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

واثق نعیم، سی ای او اسٹار مارکیٹنگ سے خصوصی گفتگو

واثق نعیم، سی ای او اسٹار مارکیٹنگ سے خصوصی گفتگو

پینل انٹرویو: نجم الحسن ، فاروق انصاری،لیاقت جتوئی

سوال: اسٹارمارکیٹنگ، تعمیرات کے شعبے میں سیلزاور مارکیٹنگ کی خدمات سرانجام دینے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کسی بھی پروجیکٹ کی مارکیٹنگ کے لیے آپ جو ایڈورٹائزنگ Campaignبناتے ہیں، اس میں کن عوامل کومدنظر رکھتے ہیں؟

واثق نعیم: جس نوعیت کا پروجیکٹ ہوتا ہے، ایڈورٹائزنگCampaign بھی اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی جاتی ہے اور پھر اسی طرح کے کلائنٹس کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ ہر پروجیکٹ اپنی نوعیت کا ہوتا ہے اور اسی کے مزاج کے مطابق ہی عوام کو پیغام پہنچاتے ہیں ۔

سوال: آپ ملک گیر سطح پر تعمیراتی پروجیکٹ کرتے ہیں یا صرف کراچی پر توجہ مرکوز رکھی ہوئی ہے؟

واثق نعیم: میرا خیال ہے پاکستان کا شاید ہی کوئی بڑا شہر ہوگا، جو ہم سے رہ گیا ہو۔کراچی، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد،پشاور، مردان، نوشہرہ، سرگودھا، سیالکوٹ، حیدرآباد، سکھر، ایبٹ آباد، کالام وغیرہ وغیرہ۔ ۔ بونیرمیں بھی ہمارا ایک پروجیکٹ ہے اور وہ بہت ہی کامیاب پروجیکٹ ہے۔

سوال: یہ تو بڑی زبردست بات ہے۔ بونیر میں اپنے پروجیکٹ کے بارے میں بتائیں کیوں کہ وہاں تو سیکیورٹی کا مسئلہ بھی رہتا ہوگا؟

واثق نعیم: نہیں اللہ کا شکر ہے کہ بونیر بالکل پرامن ہے، وہاں لا اینڈ آرڈر اور سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں۔ جب تعمیرات کے شعبے میں مارکیٹنگ کمپنیوں کی بات کی جاتی ہے تو اسٹار مارکیٹنگ کا نام سرفہرست آتا ہے، کیوں کہ ہم نے بیک وقت جتنے پروجیکٹس کی مارکیٹنگ کی ہے اور بیک وقت جتنے شہروں میں پروجیکٹس کررہے ہیں، کوئی اور مارکیٹنگ کمپنی ایسا نہیں کرپائی۔

سوال: پاکستان میں زمینوں کے معاملات میں بہت قانونی پیچیدگیاںہیں اور لوگوں کو پریشانی بھی ہوتی ہیں، عوام کے سرمایے کو محفوظ کرنے کے لیے اسٹار مارکیٹنگ کی اسٹریٹجی کیا رہتی ہے؟

واثق نعیم: ہمارا کام NOCکے بعد شروع ہوتا ہے۔این او سی جس ڈیپارٹمنٹ سے ملتا ہے، وہ بلڈر سے ساری ضروری اور مطلوبہ قانونی دستاویزات مکمل کرواتا ہے۔تو جب تک این او سی جاری نہیں ہوتا، ہم کسی پروجیکٹ میں ہاتھ نہیں ڈالتے۔ این او سی کے بعد ہم اپنا کام شروع کرتے ہیں، کیوں کہ این اوسی کا مطلب ہوتا ہے کہ سارے قانونی تقاضے پورے کرلئے گئے ہیں۔ جو بھی متعلقہ اتھارٹیز ہوتی ہیں۔ کہیں ایم ڈی اے ہے، کہیں ایل ڈی اے تو کہیں سی ڈی اے۔۔ ان متعلقہ اتھارٹیز کی اجازت کے بغیر ہم کوئی پروجیکٹ نہیں کرتے۔

سوال: اکثر پروجیکٹس میں مختلف نوعیت کی سرمایہ کاری کے آپشنز ہوتے ہیں۔ جیسے اپارٹمنٹ، دکان، مکان، پلاٹ وغیرہ۔۔ سب سے زیادہ کس چیز کی ڈیمانڈ ہوتی ہے؟

واثق نعیم: پلاٹ سب سے مقبول آپشن ہوتا ہے۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سب سے سستا ہوتا ہے۔ جیسے مثال کے طور پر لاہور جیسے شہر میں پانچ مرلے کے مکان کی قیمت ایک کروڑ سے زائد ہے۔ تو غریب طبقہ پہلے پانچ مرلے کا پلاٹ بیس، پچیس، تیس لاکھ میں بکنگ کروا کے قسطیں ادا کرتا ہے۔ اس کے بعد اپنی آسانی کے مطابق، اس کو بنواتا ہے۔

سوال: ایک تاثر یہ بن رہا ہے کہ پاکستان میں غریبوں کے لیے سستے مکانوں کی تعمیر اب ناممکن بن گئی ہے۔ اس سلسلے میں بطور مارکیٹنگ کمپنی آپ نے کبھی بلڈرز اور حکومت سے بات کرنے کی کوشش کی کہ عوام کو رہائش کی سستی سہولیات میسر آسکیں؟

واثق نعیم: جی ہاں، یہ بالکل درست بات ہے۔ ایسا ہی ہے۔بلڈرز کی ہماری اپنی ایسوسی ایشن بنی ہوئی ہے آباد، وہ اس سلسلے میں کام کررہی ہے لیکن ابھی تک اس پر کوئی خاطرخواہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔ جہاں تک حکومت کی بات ہے ، حکومت کی طرف سے ایسی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔

سوال: کیا یہ ہوسکتا ہے کہ حکومت آباد کو مفت زمینیں فراہم کرے اور کہے کہ اسے عوام کے لیے سستا بناؤ؟

واثق نعیم: جی بالکل، درحقیقت آباد کی تجویز بھی یہی تھی کہ حکومت مفت زمین فراہم کرے تو ہم بلڈرز گیارہ سے بارہ لاکھ روپے میں چھوٹا گھرتیار کرکے بناکے دیں گے۔ لیکن آپ کو پتہ ہے کہ حکومتیں وعد ہ کرتی ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ہم نے اسٹار مارکیٹنگ کی طرف سے fabricated Pre-یعنی بنے بنائے گھروں کا آئیڈیا بھی دیا ہوا ہے۔ ایسا گھر جو سلیبس، میٹل وغیرہ کے ذریعے پہلے سے تیار ہو اور وہ جاکر لگادیا جائے لیکن ملک کا نظام ایسابن گیا ہے کہ کوئی بھی فلاحی کام کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

سوال: آپ نے لاتعداد شہر گنوادیے جہاں اسٹار مارکیٹنگ موجود ہے۔نمبرون آپ کی پوزیشن ہے۔ اس پوزیشن تک پہنچنے اور اسے برقرار رکھنے کا جو سفر ہے، اس متعلق کچھ بتائیں؟

واثق نعیم: پاکستان میں تعمیرات کے شعبے میںسائینٹفک مارکیٹنگ کے تصور کی بنیاد میں نے ہی رکھی۔ میں نے ہی پروجیکٹ بیچنے کا ایک ماڈرن انداز متعارف کروایا کہ کس طرح بلڈر کو بھی فائدہ ہو، خریدنے والا بھی مطمئن رہے اور مارکیٹنگ کمپنی بھی اپنے اخراجات نکال لے۔ ورنہ اس سے قبل آپ کو یاد ہوگا کہ کراچی میں پروجیکٹ کے باہر ٹینٹ لگا کرکرسیاں رکھ کرفلیٹ بیچے جاتے تھے۔یہ پرانی بات ہے۔ پھر نوے کی دہائی میں، میں نے پراپرٹی مارکیٹنگ شروع کی۔ پروجیکٹ بیچنے کے اصول بنائے کہ یہ کام کیسے کرنا ہے۔

واثق نعیم، سی ای او اسٹار مارکیٹنگ سے خصوصی گفتگو

ایک ایک چیز برسوں کے تجربے کے نتیجے میں بنائی گئی۔ مثلاًایپلی کیشن فارم تک تجربے سے سیکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا۔ ایگری منٹ بنانا تجربے سے سیکھا۔ ڈیویلپرز کو باور کرایا کہ وہ وقت پر پروجیکٹ مکمل کرکے قبضہ دینے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ خریداروں کو قانونی سیکیورٹی فراہم کرنا، بلڈرز کو تعمیرات کے لیے بروقت مناسب کیش فلو فراہم کرنا۔ یہ سارے سسٹمز اسٹار مارکیٹنگ نے ڈیویلپ کیے۔

اس کے علاوہ اسٹار مارکیٹنگ میں کام کرنے والی افرادی قوت کو ایک فیملی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ ہم پروجیکٹ کی بنیاد پرعارضی ملازمین نہیں رکھتے۔ ہر شہر میں ہمارے باقاعدہ اور مستقل دفاتر ہیں، جہاں چاہے ہمارا پروجیکٹ ایک مخصوص وقت میں چل رہا ہو یا نہیں، ہمارے ملازمین مستقل ہوتے ہیں اور انھیں تمام سہولیات اور تنخواہیں ہر ماہ دی جاتی ہیں۔ یہ سارا تصور اسٹارمارکیٹنگ نے دیا ہے۔

ہم کلائنٹس کو ایک اور Suretyبھی دیتے ہیں،جو کوئی اور مارکیٹنگ کمپنی نہیں دیتی۔ اگر کسی پروجیکٹ کا بلڈر خدانخواستہ بھاگ جاتا ہے، تو اس کے بکنگ دہندگان کو ہم یہ سہولت فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنی اس ڈوبی ہوئی رقم کے بدلے پاکستان میں موجود ہمارے کسی اور پروجیکٹ میں بکنگ کرالیں۔ ہم کلائنٹس کے سرمایے کو اون کرتے ہیں۔ یہ کوئی اور نہیں کرتا۔

سوال: ایک بنیادی سوال ہے ہمارے ذہن میں واثق صاحب کہ آپ کو یہ خیال کب، کیوں اور کیسے آیا کہ پراپرٹی کو باقاعدہ طور پرسائنسی بنیادوں پر بیچنے کی ضرورت ہے؟

واثق نعیم: یہ سب حادثاتی طور پر ہوگیا۔ ہواکچھ یوں کہ دوستوں نے ایک پروجیکٹ خریدا جو ویران پڑا ہوا تھا۔ یہ اپارٹمنٹس کا پروجیکٹ تھا۔ صرف دو منزلیں بنی ہوئی تھیں اور میرے دوستوں نے جب اس پروجیکٹ کو خریدا تو اس سے پہلے سابق پارٹیاں اسے دو بار لانچ کرچکی تھیں۔ پھر میرے دوستوں نے خریدا اور انھوں نے لانچ کیا، مطلب تین بار لانچ ہوگیا۔ 180اپارٹمنٹس کا پروجیکٹ تھا، جس میں تین دفعہ کے لانچ کے بعد صورت حال یہ تھی کہ صرف اٹھارہ فلیٹ فروخت ہوسکے تھے۔ پروجیکٹ گلشن اقبال میں تھا اور یہ 1997کی بات ہے۔ میرے دوستوں نے کہا کہ یہ پروجیکٹ لے لیا ہے، اب فلیٹ بیچنے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کس ٹائپ کے فلیٹ ہیں تو بتایا گیا کہ دو ٹائپ کے فلیٹ ہیں، ایک ٹائپ کی قیمت 14لاکھ اور دوسرے ٹائپ کی قیمت 12لاکھ ہے۔ میں نے انھیں جواب دیا کہ ٹھیک ہے ہم ایگری منٹ کرتے ہیں، 14لاکھ والے فلیٹ کے میں ان کو 12لاکھ اور 12لاکھ والے کے 10لاکھ دوں گا، اوپر کے پیسے میرے۔ایگری منٹ کے بعد میں نے سائٹ کو وزٹ کیا، مارکیٹ سروے کیا۔ میں نے سائٹ پر بنے آفس کوتین گنا بڑا بنوایا، انھیں کہہ کر ایک خوبصورت ماڈل اپارٹمنٹ بنوایا۔ اس کے بعد تین دن کی ہائی ٹی کے پانچ ہزار دعوت نامے بنوائے کہ جمعہ، ہفتہ، اتوار ہماری سائٹ پر آئیں اور ہمارا پروجیکٹ دیکھیں، بس اللہ کا کرم ہوا کہ ایڈورٹائزنگ مہم کامیاب رہی، سائٹ پر رش لگ گیا، دوہفتے میں تمام فلیٹ فروخت ہوگئے۔ تو اس طرح سے میں نے ریئل اسٹیٹ میں باقاعدہ مارکیٹنگ کا رجحان متعارف کرایا۔

سوال: کراچی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد آپ نے دیگر شہروں میں جانے کا کیوں سوچا؟

واثق نعیم: میں ہمیشہ قومی سوچ کا حامل رہا ہوں اور کبھی بھی خود کو کوزے میں قید نہیں رکھا۔میں نے تو اسٹارمارکیٹنگ کو بین الاقوامی سطح پر بھی لے جانے پر کام کیا تھا کہ دبئی میں ہیڈ آفس بنا کر پوری دنیا میں کام کیا جائے۔

سوال: ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کی موجودہ صورت حال کیا ہے؟

واثق نعیم: ریئل اسٹیٹ مارکیٹ بالکل ڈیڈ نہیں ہوسکتی۔ اس وقت تھوڑا ٹھہراؤ ضرورآیا ہے مگر حالات جیسے ہی سازگار ہوں گے، ریئل اسٹیٹ مارکیٹ پھر بوم کرے گی۔ کیوں کہ لوگوں کو رہنے کے لیے گھر چاہئے، اپارٹمنٹ چاہئے، لوگوں کے پاس پیسہ بھی ہے، بس حالات میں جو بے یقینی ہے اسے ختم ہونے دیں۔

سوال: کچھ اپنے آ نے والے پروجیکٹس کے بارے میں بتائیں؟

واثق نعیم: چار۔پانچ پروجیکٹ لانچ ہونے کے قریب ہیں، جب کہ کچھ بہت بڑے پروجیکٹس بھی آنے والے ہیں۔ جب میں ان بڑے پروجیکٹس کی بات کررہاہوں تو وہ ہر لحاظ سے بہت بڑے پروجیکٹس ہیں، جن کے بارے میںآپ کوآنے والے چند مہینوں میں پتا چل جائے گا۔

سوال: کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

واثق نعیم: جو کام شروع کریں، اسے پایہ تکمیل تک ضرور پہنچائیں، ادھورا نہ چھوڑ دیں۔ شخصیت میں مستقل مزاجی کامیابی کی کنجی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین