رپورٹ:طلعت عمران
رواں برس مئی کے آخر میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی مدت ختم ہو جائے گی، لیکن اگرچہ گزشتہ پانچ برس کے دوران امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے، لیکن ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال کو تسلّی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ درآمدات میں اضافے اور برآمدات میں کمی کی وجہ سے تجارتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے اور زرِ مبادلہ کے ذخائر گھٹنے کی وجہ سے ایک بار پھر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ پھر پاکستان کے سر پر ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل ہونے کا خطرہ بھی لٹک رہا ہے، جس کے نتیجے میں عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی مدد سے ہاتھ کھینچ سکتے ہیں۔
نیز، اس وقت پاکستان اسٹیل ملز اور پی آئی اے سمیت ملک کے کئی دیگر سرکاری اداروں کو خسارے کا سامنا ہے اور یہ ملکی معیشت پر بوجھ بن چکے ہیں اوردعووں کے باوجود بھی حکومت ملک سے مکمل طور پر لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ نہیں کر سکی۔ گزشتہ دنوں ہم نے ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال اور آیندہ بجٹ کے حوالے سے سابق وفاقی وزیرِ خزانہ، اسحٰق ڈار کی جگہ ملکی معیشت کی باگ ڈور سنبھالنے والے وفاقی مشیر برائے مالیات، ریونیو اور اقتصادی امور، ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل سے تفصیلی گفتگو کی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔
جنگ :ان دنوں آپ کا یہ بیان زیرِ گردش ہے کہ پی آئی اے خریدنے والے کو پاکستان اسٹیل ملز فری دی جائے گی۔ اس بیان کی کیا حقیقت ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :یہ بات میں نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کے دوران ازراہِ مذاق کہی تھی۔ پھر جب میں تقریر کر کے نیچے اترا، تو صحافیوں نے یہی بات دہرائی، تو میں نے انہیں جواب دیا کہ میں نے یہ بات مذاقاً کہی اور جب میں یہ بات کر رہا تھا، تو سب ہنس رہے تھے۔ تقریب میں موجود حاضرین نے بھی میرے انداز سے محسوس کیا کہ یہ بات میں نے مذاقاً کہی تھی، لیکن پھر ایک چینل نے اس کا ٹکر چلایا، تو سب نے چلانا شروع کر دیے اور یہ خبر بن گئی۔ اسٹیل ملز جیسے بڑے ادارے کو کسی کو مفت میں نہیں دیا جا سکتا۔
پی آئی اے اور اسٹیل ملز سمیت بعض ادارے اس وقت سفید ہاتھی بن چکے ہیں اور ان کی نجکاری وقت کی ضرورت ہے۔ جب ہم نے پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش کی تھی، تو تب پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ہماری شدید مخالفت کی تھی۔ اس کے نتیجے میں مظاہرے بھی ہوئے اور دو افراد جاں بحق بھی ہوئے۔ اس کے بعد بھی پی آئی اے کی نج کاری نہیں ہو سکی کہ قوانین بھی کچھ ایسے تھے اور اس وقت ان کی سینیٹ میں اکثریت بھی تھی۔ ان قوانین کے مطابق، اگر کوئی سرمایہ کار پی آئی اے میں 49فیصد سرمایہ بھی لگائے گا، تو اسے مینجمنٹ کنٹرول نہیں ملے گا، تو ایسی صورت میں کون اپنا پیسہ ضائع کرنا چاہے گا۔
اس کی وجہ سے ملک کا بے حد نقصان ہو رہا ہے۔ پی آئی اے کی وجہ سے سالانہ 40ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے، جبکہ اربوں روپے کا ہی نقصان دوسرے اداروں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ درحقیقت، پیٹرول پمپ اور ایئر لائنز چلانا حکومت کا کام نہیں۔ حکومت کا کام انتظامی مشینری چلانا، لوگوں کو عدل و انصاف فراہم کرنا اور اچھی حکمرانی کرنا ہے۔
جب ہم بہتر طریقے سے گورنینس ہی نہیں کر پا رہے، تو دوسرے کام کیوں کریں۔ اب اگر حکومت ہی پیٹرول پمپ، پی آئی اے اور اسٹیل ملز چلائے گی، تو پھر راشن کی دکانیں بھی حکومت کو سونپ دیں اور اگر سارے کام حکومت کرنے لگے، تو پھر اسے سوشلسٹ کہا جاتا ہے۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے اور وہ ان نقصانات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
جنگ :یہ اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں کہ وزیر اعظم، شاہد خاقان عباس کی ایئر لائن ایک منافع بخش ایئر لائن ہے۔ اسی طرح شریف برادران کی اسٹیل مل بھی روز بہ روز ترقی کر رہی ہے۔ اگر حکمرانوں کے نجی ادارے ترقی کر رہے ہیں، تو پھر سرکاری ادارے روبہ زوال کیوں ہیں؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:پی آئی اے اور اسٹیل ملز کی ناکامی کا سبب یہ نہیں ہے کہ اس کی مینجمنٹ نا اہل ہے۔ میں پی آئی اے کے بورڈ میں شامل رہا ہوں اور اسٹیل ملز کی مینجمنٹ کو بھی نہایت قریب سے دیکھا ہے، تو یہ سارے لوگ بہت اچھے ہیں، لیکن یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے تحت ادارے بہتر چلتے ہیں اور پبلک سیکٹر کے تحت بہتر نہیں چلتے۔ اب پبلک سیکٹر کے تحت چلنے والے اداروں میں کسی کو کام سے نہیں نکالا جا سکتا اور نہ ہی اسے کام کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح سرکاری اداروں میں فوری طور پر فیصلے بھی نہیں ہوتے۔ اس وقت دنیا بھر میں پرائیویٹ سیکٹر کے تحت چلنے والے ادارے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس کی مثال کوریائی ممالک کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ 1952ء میں کوریا دو لخت ہوا۔ آج شمالی کوریا پسماندہ اور جنوبی کوریا ترقی یافتہ ملک ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر ہمیشہ ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
جنگ:ایک جانب آپ یہ کہتے ہیں کہ پی آئی اے اور اسٹیل ملز جیسے ادارے چلانا حکومت کا کام نہیں، لیکن دوسری جانب پنجاب حکومت بسیں چلا رہی ہے اور سبسڈی بھی دے رہی ہے، تو کیا یہ تضاد نہیں؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:پنجاب حکومت بسیں نہیں چلا رہی، بلکہ اس نے پرائیویٹ سیکٹر کو بسیں چلانے کا ٹھیکہ دے رکھا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی پنجاب حکومت نے پرائیویٹ سیکٹر کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ کرایہ کم سے کم رکھا جائے۔ مثال کے طور پر اگر 26کلو میٹر کا سفر ہے، تو اس کے عوض 20روپے کرایہ وصول کیا جاتا ہے، جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کا کہنا ہے کہ اس پر 40روپے خرچ ہوتے ہیں، تو یہ فرق پنجاب حکومت پورا کرتی ہے۔
پوری دنیا میں اربن ماس ٹرانزٹ میں سبسڈی دی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر ہم نے گوادر سے پسنی کی پی آئی اے کی فلائٹ چلانی ہے، تو اس میں ہم سبسڈی دے سکتے ہیں، لیکن یہ کراچی سے لاہور اور اسلام آباد تک فلائٹس میں نقصان کر رہی ہے۔
جنگ:پی آئی اے اور اسٹیل ملز سمیت خسارے میں چلنے والے دوسرے اداروں کی وجہ سے حکومت کو غالباً بجٹ میں 10کھرب سے زائد کے خسارے کا سامنا ہو گا۔ دو ماہ بعد حکومت کی مدت ختم ہو جائے گی، تو حکومت نے ان اداروں کے حوالے سے کیا پالیسی تشکیل دی ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :نقصانات دو قسم کے ہوتے ہیں، کچھ فنڈڈ اور کچھ نان فنڈڈ۔اگر ہماری ضمانتوں پرانہیں قرضہ مل جاتا ہے اور یہ ری سائیکل ہوتا رہتا ہے،تو اس وقت ہمیں یہ پیسہ نہیں دینا پڑتا، لیکن جب یہ ادارے نقصان میں جا رہے ہیں، تو اس کی وجہ سے پاکستانی عوام کے پیسوں کا نقصان ہو رہا ہے۔
گزشتہ تین برس سے اسٹیل ملز بند پڑی ہے اور ہم ورکرز کو گھر بیٹھے تنخواہ دے رہے ہیں۔ چھ ماہ کی تنخواہ روک دی گئی تھی اور حال ہی میں وفاقی کابینہ نے دسمبر تک کی تنخواہ ریلیز کر دی ہے۔ ہم ماہانہ 38کروڑ روپے اسٹیل ملز کو تنخواہ کی مد میں دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے۔
جنگ:تو کیا یہ نقصان ایسے ہی چلتا رہے گا، اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ اسٹیل ملز کی نجکاری کی جائے، لیکن جب ہم نجکاری کی کوشش کرتے ہیں، تو سندھ حکومت کہتی ہے کہ زمین سرکاری ہے اور اس کی نجکاری نہیں کی جا سکتی۔ اب ایک پلانٹ پر سو سے سوا سو ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ ہم نے اس کا ایک حل یہ نکالا تھا کہ حکومتِ سندھ کو کہا تھا کہ وہ اسے مفت میں لے لے۔
اس روز بھی میں نے اسی سیاق و سباق میں ازراہِ مذاق یہ بات کہی تھی، مگر سندھ حکومت نے انکار کر دیا۔ اگر ہم کسی دوسری پارٹی کو دیں گے، تو کہا جائے گا کہ ہم نے بے ایمانی کی ہے اور اب کوئی اسے مفت میں لینے پر بھی آمادہ نہیں۔
جنگ: بیرون ملک اثاثوں کے لیے نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لائی جا رہی ہے۔ اس کے خدوخال کیا ہوں گے؟ نیز، کچھ عرصہ قبل بھی ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لائی گئی تھی۔ اس کے کیا نتائج برآمد ہوئے؟
مفتاح اسمٰعیل :اسے ایمسنٹی اسکیم بھی کہا جا سکتا ہے اور ایمنسٹی ختم کرنا بھی۔ ایمنسٹی اسکیم کے تحت جو بھی فرد ملک میں ڈالرز لے کر آتا ہے، تو اس سے کوئی سوال نہیں پوچھا جاتا۔ ایف بی آر بھی اس سے کوئی سوال نہیں پوچھ سکتا کہ پیسہ کہاں سے آیا اور کون لایا اور یہ ٹیکس ایبل بھی نہیں ہوتا۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اب اگر کوئی شخص آپ کو سال میں ایک لاکھ ڈالرز سے زاید رقم بھیجتا ہے، تو ہمارے پاس یہ پوچھنے کا یہ اختیار ہونا چاہیے کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا اور اگر آپ کا کوئی رشتے دار آپ پر مہربان ہو گیا ہے، تو اس کے پاس یہ پیسہ کہاں سے آیا۔
ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ لوگ ٹیکس سے بچنے کے لیے اپنا پیسہ بیرون ملک بھیج دیتے ہیں اور پھر حوالہ، ہنڈی کے ذریعے اسے ملک میں واپس لے آتے ہیں۔ اس مد میں انہیں مجموعی رقم کا دو سے تین فیصد ادا کرنا پڑتا ہے اور ان کا کالا دھن سفید ہو جاتا ہے۔ میں اس سلسلے پر پابندی لگانا چاہتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس مرتبہ ایمنسٹی اسکیم کامیاب ہو جائے گی، لیکن چونکہ ملک کے سیاسی حالات ڈانواں ڈول ہیں۔ آیندہ دو ماہ میں ہماری حکومت ختم ہو جائے گی اور پھر نگراں حکومت نئے انتخابات کروائے گی اور نئی حکومت آئےگی، تو ہو سکتا ہے کہ یہ اسکیم ہماری توقعات کے مطابق کامیاب نہ ہو سکے۔
جنگ:لیکن سرمایہ کار حکومتی پالیسیوں پر عدم تسلسل کی وجہ سے اعتماد بھی تو نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی پالیسیوں پر انہیں بھروسہ ہے اور ایف بی آر سے بھی خوفزدہ ہیں۔
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:حکومت کی پالیسی میں عدم تسلسل پر تو اعتراض کیا جا سکتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اگر ایک حکومت میں کسی سرمایہ کار کو ایف بی آر نے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے، تو اگلی حکومت میں اس سے باز پرس کی جائے گی۔ آخر اس ملک کے قوانین ہیں اور عدالتیں بھی موجود ہیں۔ اب تو عدالتیں فوراً ہی حکومت کے خلاف سوموٹو لے لیتی ہیں۔
جنگ:حال ہی میں آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کی معیشت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :آئی ایم ایف نے جس تشویش کا اظہار کیا ہے، وہ میں اور آپ بھی کرتے ہیں۔ اس وقت ہماری معیشت کے دو بنیادی مسائل ہیں۔ تاہم، اس وقت ہماری معیشت درست سمت میںگامزن ہے اور اس برس ہماری جی ڈی پی کی شرح نمو میں 6فیصد ہو گی۔ گزشتہ آٹھ ماہ میں افراطِ زر 8سےفیصد کم ہوا ہے۔ یعنی جی ڈی پی کی شرحِ نمو اور افراطِ زر کے اعتبار سے ہماری معیشت بہتر جا رہی ہے۔ البتہ بجٹ کے حوالے سے حکومت کو مسائل دوچار ہیں۔
پہلی مسئلہ تو بجٹ خسارہ ہے اور رواں تجارتی خسارہ۔ تجارتی خسارے میں اضافہ اس لیے ہوا کہ ہماری درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں سی پیک کی مشینری آئی ہے۔ توانائی کے منصوبوں کے لیے مشینری آئی ہے اور اس کے علاوہ دوسرے منصوبوں کے لیے بھی مشینری درآمد کی گئی ہے۔ پھر جب پیٹرول سستا ہوا، تو موٹر گیسولین کی درآمد بہت زیادہ بڑھ گئی، لیکن اس کے تناسب سے ہماری برآمدات میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ ہمیں اندازہ تھا کہ درآمدات تیزی سے بڑھیں گی، لیکن یہ اضافہ عارضی ہے اور رواں تجارتی خسارہ جی ڈی پی کے 1.5سے 2فیصد پر آجائے گا۔ پھر ملک میں ترسیلاتِ زر بھی آتی ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں زیادہ مسئلہ نہیں ہوتا۔
اکتوبر میں سابق وفاقی وزیرِخزانہ، اسحٰق ڈار کے دور میں درآمدات پر ڈیوٹیز عاید کی گئی تھیں، تو یہ سلسلہ کم ہو گیا تھا، لیکن دسمبر میں اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر کم کر دی اور اب ہم دوبارہ روپے کی قدر مستحکم کر رہے ہیں۔ فروری میں ہماری برآمدات کی شرح 16فیصد تھی اور درآمدات کی 8فیصد تھی، تو ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ برآمدات، درآمدات سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ یہ قیاس آرائیاں کہ پاکستان میں زرِ مبادلہ کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں، درست نہیں ہیں۔ اس وقت اسٹیٹ بینک کے پاس 12.5ارب موجود ہیں، جبکہ اگلے تین ماہ میں ہمیں قرضوں کی ادائیگی کے لیے صرف 3ارب ڈالرز کی ضرورت ہے اور ہم بینکوں سے بڑے آرام سے مزید قرضہ لے سکتے ہیں۔ حال ہی میں اپنے بانڈز فروخت کیے ہیں۔ مگر رواں تجارتی خسارے سے بڑا مسئلہ بجٹ خسارہ ہے۔ اسحٰق ڈار جب آئے تھے، تو تب بجٹ خسارہ 8.2فیصد تھا اور وہ اسے 4فیصد تک لے کر آئے، لیکن اس مرتبہ یہ پھر 5فیصد سے زیادہ ہے، مگر ہم اسے 5فیصد کے اندر ہی رکھنے کی کوشش کریں گے۔ اس سال ہم ایف بی آر میں 4ہزار ارب روپے ٹیکس جمع کریں گے، مگر این ایف سی ایوارڈ میں ہم 60فیصد صوبوں کو دے دیتے ہیں۔ یعنی 2400ارب اس مد میں چلے گئے۔ باقی بچنے والے 1600ارب میں سے 1400ارب قرضوں کی مد میں چلے گئے۔ اب رہ گئے 200ارب روپے۔ ان میں سے 300ارب پنشن کی مد میں چلے گئے۔
یہ سارے اخراجات تو ہمیں وراثت میں ملے ہیں۔ پھر ہم نے پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے نئے منصوبے بھی شروع کرنے ہیں اور اپنے دفاع کو بھی مضبوط بنانا ہے اور اگر یہ کام ضروری ہیں، تو پھر وفاقی حکومت کو فنڈز فراہم کرنا ہوں گے۔ یعنی ہم ایک مرتبہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرِ ثانی کرنا ہو گی۔ ورنہ بجٹ خسارہ برقرار رہے گا۔ یہ میں نہیں کہتا، بلکہ اقتصادیات کو اصول ہے کہ جب بجٹ خسارہ ہو گا، تو رواں تجارتی خسارہ بھی بڑھے گا۔
جنگ:تو کیا این ایف سی ایوارڈ پر نظرِثانی کے لیے کوئی اقدامات کیے جا رہے ہیں؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :یہ تو سیاسی رہنما ہی کر سکتے ہیں، میں تو صرف یہ مشورہ ہی دے سکتا ہوں کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرِ ثانی ضروری ہے۔ ورنہ بجٹ خسارہ برقرار رہے گا۔
جنگ:آپ کے آنے کے بعد سے ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا۔ کیا یہ سلسلہ آیندہ بھی جاری رہے گا؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :پاکستان کو اپنی درآمدات و برآمدات کا اظہار روپے کی قدر سے کرنا چاہیے۔ اگر ہماری تجارت کا تناسب ٹھیک ہے، تو پھر ہمیں روپے کی قدر کو نہیں چھیڑنا چاہیے اور اگر تناسب ٹھیک نہیں ہے، تو پھر اس میں رد و بدل کرنا چاہیے۔ میں اس بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا کہ ڈالر مزید اوپر جائے گا یا نہیں، لیکن ہمیں روپے کی اصل قدر کا پتہ لگانا چاہیے۔
جنگ:ہماری ایکسپورٹ 26ارب ڈالرز سے کم ہو کر 20ارب ڈالرز پر آ گئی ہیں۔ آپ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں اور برآمدات میں اضافے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تھی، تو برآمدات کا حجم 24ارب ڈالرز تھا، جسے ہم ایک سال میں 25ارب ڈالرز پر لے گئے۔ پھر یہ کم ہو کر 20ارب ڈالرز تک پہنچ گیا، لیکن اس برس ہمیں امید ہے کہ ہماری برآمدات کا حجم 23ارب ڈالرز تک پہنچ جائے گا اور اب ہر سال اس میں 15سے50فیصد تک اضافہ ہوتارہے گا۔
جنگ:اس کا سبب روپے کے قدر میں گراوٹ ہو گی یا ٹیکسٹائل انڈسٹری کا عروج؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:اس کا سبب یہ ہے کہ جنوری 2017ء میں میاں نواز شریف نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مراعاتی پیکیج دیا تھا اور پھر شاہد خاقان عباسی نے اس سلسلے کو مزید کار آمد بنایا۔ پھر روپے کی قدر میں گراوٹ بھی آئی، لیکن ہم نے نہ صرف ٹیکسٹائل بلکہ تمام برآمدی شعبوں ہی کو فعال کیا ہے اور اب یہ برآمدات بڑھتی رہیں گی۔ پھر سابق وزیر اعظم ، میاں نواز شریف کی کوششوں کی بہ دولت ہمیں بجلی کی لوڈ شیڈنگ جیسے عفریت سے نجات ملی اور اب صنعتوں کا پہیہ چلنے لگا ہے۔
جنگ:کیا آپ اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ موسمِ گرما میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :پاکستان میں اس وقت بجلی کی پیداوار کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی۔
جنگ:تو اپوزیشن لیڈرز ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر یہ کیوں کہتے ہیں کہ ان کے علاقوں میں یومیہ 6سے 8 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :اس لوڈ شیڈنگ کا سبب بجلی کی چوری اور بل کی عدم ادائیگی ہے، جن فیڈرز سے بجلی چوری کی جا رہی ہے، وہاں لوڈ شیڈنگ بھی ہوتی ہے۔
جنگ:آپ نے پیرس میں منعقدہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں شرکت کی۔ اس وقت وہاں پاکستان کا کیا اسٹیٹس ہے اور جون میں پاکستان کو کیا خطرات لاحق ہیں؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:اس سلسلے میں ایک ایکشن پلان تیار کیا گیا ہے، جسے جلد ہی وفاقی وزیرِ داخلہ، احسن اقبال کے سامنے رکھا جائے گا۔ اس کے بعد اسٹیک ہولڈرز کا فیڈ بیک سامنے آئے گا اور پھر اس ایکشن پلان کو حتمی شکل دی جائے گی۔
اگلے مرحلے میں اسے بین الاقوامی برادری کے سامنے پیش کیا جائے گا اور جون میں اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ اس وقت ہم رپورٹنگ یا مانیٹرنگ پروگرام میں ہیں، جسے عام طور پر گرے لسٹ کہا جاتا ہے۔
جنگ:حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کو ایک فیصد سالانہ کے تناسب سے بڑھایا جائے گا۔ اگر یہ بڑھتا رہتا، تو ہم 15سے16فیصد پر ہوتے، لیکن ایسا نہیں ہو سکا؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:موجودہ مالی سال میں ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 11.2فیصد ہے اور اگلے سال ہماری کوشش ہو گی کہ یہ بڑھ کر 11.5فیصد ہو جائے۔ 0.3فیصد سے زیادہ بڑھانا مناسب نہیں ہو گا، کیونکہ اس وقت بھی ہماری معیشت پر خاصا دبائو ہے اور میں مزید ٹیکس نہیں لگانا چاہتا۔ ہم نئے ٹیکسز نہیں لگائیں گے، بلکہ ٹیکسز میں کمی کریں گے۔
جنگ:کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک کا زراعت اور ’’پجیرو کلچر‘‘ سے تعلق رکھنے والا طبقہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:زرعی ٹیکس کا تعلق صوبوں سے ہے، وفاق سے نہیں۔ البتہ اس ضمن میں وفاقی حکومت صوبوں سے رابطے میں ہے اور اس میں بہتری آئے گی۔ ہم نادرا کی مدد سے ایسے مزید7سے8لاکھ صاحبِ ثروت افراد کی شناخت کریں گے کہ جو ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ اس وقت 12لاکھ افراد ٹیکس فائلرز ہیں اور ہم یہ تعداد 20لاکھ تک بڑھا سکتے ہیں۔
موجودہ حالات میں اس سے زیادہ بہت مشکل ہے۔ ٹیکس دہندگان کی تعداد کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایف بی آر نے بہت زیادہ ودہولڈنگ ٹیکس لگا دیا ہے۔ ہم نے ٹیکس فائلرز اور ٹیکس نان فائلرز کی الگ الگ کٹیگری بنائی ہے۔ ٹیکس وصولی بڑھانے اور ٹیکس اصلاحات ایک ساتھ کرنے میں وقت لگتا ہے، لیکن ان شاء اللہ بتدریج بہتری آئے گی۔
جنگ: سابق وفاقی وزیر خزانہ، اسحٰق نے ایک معقول تجویز دی تھی کہ این ٹی این کو این آئی سی نمبر سے تبدیل کر دیا جائے، تو اس تجویز پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:اس پر عملدرآمد کیا گیا، لیکن ٹھیک طرح نہیں۔ یعنی اسے یونیورسلائز نہیں کیا گیا۔
جنگ:فائلرز اور نان فائلز کی کیٹگری بنانے سے حکومت کو کوئی فائدہ پہنچا ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ نان فائلر کے بہ جائے کریمنل کا لفظ استعمال کیا جانا چاہیے۔ یعنی ٹیکس نہ دینا جرم ہے، مگر ہم نے انہیں عزت دینے کے لیے نان فائلرز کی کیٹگری میں ڈالا ہے، کیونکہ ہم اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو کریمنلز تو قرار نہیں دے سکتے۔ تاہم، ہم اگلے چند دنوں میں چھ سے آٹھ لاکھ نئے نام شناخت کر کے ایف بی آر کو دے دیں گے۔ یعنی ہم نئے ٹیکس لگانے کے بہ جائے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کریں گے۔
جنگ:کیا کوئی فرد ریاستی عہدے پر رہتے ہوئے اپنا کاروبار کر سکتا ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:شاہد خاقان عباسی کا ایئر بلیو میں حصہ ہے اور یہ لوگ پہلے ہی سے جانتے تھے، لیکن کیا ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ایئر بلیو کو مراعات ملنا شروع ہو گئی ہیں۔ شاہد خاقان جب سے وزیر اعظم بنے ہیں، ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ وہ ایوی ایشن میں یقیناً مہارت رکھتے ہوں گے، لیکن انہوں نے پہلے کبھی اس شعبے میں دلچسی نہیں لی۔ البتہ اب وزیر اعظم ہونے کے ناتے چیزیں ان کی ڈیسک پر جاتی ہوں گی، تو وہ دیکھتے ہوں گے۔
جنگ:سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ایئر بلیو کو فائدہ دینے کے لیے پی آئی اے کی نیویارک کے لیے پرواز بند کر دی گئی۔ ان خبروں میں کتنی صداقت ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:سوشل میڈیا پر آنے والی خبریں من گھڑت ہیں۔ سینئر صحافی، شاہین صہبائی نے بھی یہی خبر دی تھی، لیکن یہ جھوٹی ثابت ہونے کے بعد انہوں نے معذرت بھی نہیں کی۔ درحقیقت، پی آئی اے کی نیویارک کے لیے پرواز سے نقصان ہو رہا تھا اور ٹورنٹو کے لیے فلائٹ منافع میں جا رہی تھی اور اس لیے ٹورنٹو کی پروازیں بڑھا کر نیویارک کی فلائٹ بند کر دی گئی۔ پھر ایئر بلیو کے پاس تو شاید وہ طیارے ہی نہیں ہیں کہ جو نیویارک تک جاتے ہوں۔
جنگ:آیندہ بجٹ میں کوئی ایسا فیصلہ سامنے آئے گا کہ جو ملک و قوم کے لیے بہتر ہو؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :وزیر اعظم کی جانب سے مجھے جو ہدایات ملی ہیں، ان کے مطابق آیندہ بجٹ سیاسی نہیں، بلکہ ٹیکنو کریٹک ہو گا۔ اس میں پی ایس ڈی پی کے کوئی نئے پروگرام شامل نہیں کیے جائیں گے اور نئی حکومت کی مرضی ہو گی تو وہ اپنے پروگرام اس میں شامل کر لے گی۔
البتہ میں نے ایسا بجٹ بنانا ہے کہ جب تک نئی حکومت نہیں آتی، ملک کی معیشت چلتی رہی۔ پی ایس ڈی پی میں ملتان، سکھر روڈ اور دیامیر بھاشا ڈیم کو فنڈنگ کی جائے گی، لیکن کوئی نیا منصوبہ شروع نہیں کیا جائے گا۔
جنگ:آیندہ بجٹ میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ، سروسز اور ایگری کلچر میں کیا ترقی دیکھ رہے ہیں؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:پہلے سات ماہ میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ 6.33فیصد سے بڑھی ہے، جبکہ پچھلی سال اسی عرصے میں 5فیصد بڑھی تھی۔ جنوری کی گروتھ 9.44فیصد ہے۔ آٹو موبل میں 21فیصد، نان میٹالک میں 12فیصد، فارما سیوٹیکل میں 3فیصد اور پیٹرولیم 12فیصد اضافہ ہوا۔
یہ اچھی گروتھ ہے اور میں اس پر خوش ہوں۔ اب تک ایف ڈی آئی میں 15.6فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسحٰق ڈار نے بڑی آسانیاں پیدا کیں اور میں نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا اور آیندہ سال بھی اس میں 6فیصد اضافہ ہو گا۔
جنگ:سی پیک کے علاوہ ایف ڈی آئی کی کیا صورتحال ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:آیندہ دنوں یونی لیور ملک میں 12کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ یہ سرمایہ باہر سے آ رہا ہے۔ اگلے ماہ مجھے فیصل آباد میں کوک کی ایک کمپنی کا افتتاح کرنا ہے۔ وہ 30کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ پی این جی سمیت دوسری امریکی اور ملٹی نیشنل کمپنیز پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہش مند ہیں۔ سی پیک بنیادی طور پر انفرا اسٹرکچر کا منصوبہ ہے، لیکن اس کے اثرات دوسرے شعبوں پر بھی مرتب ہوں گے۔
جنگ:لوگ بالخصوص بزنس سیکٹر اس بات پر کیوں فکر مند ہے کہ سی پیک کی وجہ سے ہم پر قرضوں کا بوجھ بڑھ جائے گا؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :اس کا سبب آ گہی کا نہ ہونا ہے۔ اگرچہ ہم نے آگہی پیدا کرنے کی بڑی کوشش کی ہے، لیکن شاید اپوزیشن نے اس حوالے سے کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا۔ چند ماہ قبل ملک میں سی پیک کے تحت 23ارب ڈالرز کے منصوبے شروع ہوئے تھے، جن میں 6ارب ڈالرز قرضہ تھا۔ سو، پاکستان کا قرضہ 6ارب ڈالرز بڑھے گا، جبکہ باقی 17ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی اور اس میں حکومت کی ساورن گارنٹی شامل تھی۔
اب اگر کسی نے پاور پراجیکٹ لگایا ہے، تو حکومت نے اس سے پاور پرچیز ایگریمنٹ کیا ہے۔ اس سے قبل 1994ء میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں بھی یہی پالیسی تھی۔ پرویز مشرف کے دور آمریت میں بھی ایسا ہی ہوا اور ہم بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔
جنگ:تو یہ کہنا درست نہیں کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھ جائے گا؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :چھ ارب ڈالرز قرضہ تو ہے، لیکن جب میں قرضہ لے کر کوئی نئی فیکٹری لگاتا ہوں، تو اس کی پیداوار بھی ہو گی اور اس مقصد کے لیے قرضہ لینے میں کیا مضائقہ ہے۔ اگر حکومت اس قرضے سے ملک بھر میں توانائی کے نئے منصوبے شروع کر رہی ہے اور سڑکوں اور شاہراہوں کو جال بچھا رہی ہے، تو کیا یہ پیداوار کے زمرے میں نہیں آتا۔ اسی طرح تھر میں کول مائننگ بھی ہو رہی ہے، لیکن اگر میں قرضے لے کر وہ رقم مدارس کو تحفتاً پیش کر رہا ہوں، تو پھر وہ فائدہ مند کام نہیں ہے۔
جنگ:یہ نکتہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ قرضے 90ارب ڈالرز تک پہنچ چکے ہیں اور اپنی آئینی حد عبور کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت جو سکوک بانڈز جاری کرتی ہے، ان کا ریٹرن بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس کا بوجھ پاکستان پر پڑتا ہے۔ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:پچھلے سکوک بانڈز ہم نے 6.25فیصد پر جاری کیے۔ تب امریکن بانڈ 2.6فیصد پر تھا۔ ہم نے بہت زیادہ ٹائٹ پرائسنگ پر بانڈز فروخت کیے اور اس میں وزیراعظم، فنانس سیکریٹری، شاہد محمود اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ حالیہ سکوک بانڈ ہم نے نہایت مناسب ریٹ 5فیصد پر جاری کیے اور اس کے لیے ہم نے دن رات ایک کیا۔
یہ پانچ سال کا بانڈ تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے 10سال کا بانڈ بھی جاری کیا، جو 6.8فیصد پر جاری کیا۔ ہمیں 8ارب ڈالرز کی پیشکش کی گئی تھی اور ہم نے 2.5ارب ڈالرز لیے۔ا ب جہاں تک چینی قرضے کی بات ہے،تو یہ قرضہ مہنگا نہیں ہے۔ اس وقت چین سے جو قرضہ آ رہا ہے، وہ 2فیصد سے کم پر آ رہا ہے اور مارکیٹ کے مقابلے میں ہم نے بہت سستا قرضہ حاصل کیا۔ یہ بات درست ہے کہ قرضے بہت بڑھ گئے ہیں۔
نیٹ پبلک ڈیٹ 61فیصد سے زیادہ ہے اور گراس پبلک ڈیٹ 67فیصد ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ جب ہم آئے تھے، تو گراس پبلک ڈیٹ 65 فیصد تھا، جو اب بڑھ کر 67فیصد ہو چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ تاہم، یہاں دو باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم آئے تھے، تو اس وقت ایکسٹرنل ڈیٹ، جس میں فارن کرنسی دینی پڑتی ہے، 21.4فیصد تھا اور آج وہ 20.6فیصد ہے۔ یعنی ایکسٹرنل ڈیٹ میں 0.8فیصد کمی واقع ہوئی۔ البتہ اندرونی قرضوں میں اضافہ ہوا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان قرضوں سے ہم نے کیا کیا۔
ان کی مدد سے ہم نے پاور پلانٹس لگائے، سڑکیں بنائیں اور دیگر منصوبوں پر کام کیا۔ اب جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ہم قرضے کیوں لے رہے ہیں، تو اس کا سبب بجٹ خسارہ ہے اور یہ تب تک برقرار رہے گا کہ جب این ایف سی ایوارڈ پر نظرِ ثانی نہ کی جائے یا پھر ایف بی آر حیران کن کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔ چاہے ہم دنیا کے کسی بھی ملک کوئی وزیرِ خزانہ لے آئیں، جب تک این ایف سی ایوارڈ پر نظرِ ثانی نہیں کی جاتی، بجٹ خسارہ برقرار رہے گا۔
جنگ:کیا اگلی حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:اگر ہم وہ اقدامات کر لیتے ہیں، جو میں نے سوچ رکھے ہیں، تو ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا، لیکن اگر ہم نہیں کر پاتے، تو پھر ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں میں نے جو اقدامات سوچ رکھے ہیں، ان میں درآمدات کو کم کرنا اور برآمدات کو بڑھانا شامل ہے، تاکہ ماہانہ بنیادوں پر اسٹیٹ بینک کے زر ِمبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع نہ ہو۔ موڈی کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ عارضی ہے اور ختم ہو جائے گا۔ جب یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا اور کمرشل بینکوں سے پیسہ ملنے لگے گا، تو ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہو گی، لیکن اگر ہم ٹیکس اصلاحات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، ایف بی آر ٹیکس کی وصولی ٹھیک طرح نہیں کرتا، اسٹیٹ بینک ٹھیک طرح اپنی ذمہ داریاں انجام نہیں دیتا اور اگر ہم درآمدات کم اور برآمدات نہیں بڑھا سکتے، تو پھر ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ یہ سب ہمارے بس میں ہے اور یہ ممکن ہے۔
جنگ:ہماری ترسیلاتِ زر دن بہ دن کم ہو رہی تھیں، کیا یہ مسئلہ حل ہوا؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :اس سال سے ترسیلاتِ زر بڑھ رہی ہیں اور اب یہ مسئلہ نہیں رہا۔
جنگ: جب موجودہ حکومت آئی تھی، تو اس وقت بجلی کی پیداوار کیا تھی اور اس وقت کتنی پیداوار ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :قیام پاکستان سے لے کر 2013ء تک ملک میں بجلی کی پیداوار 21ہزار میگاواٹ تھی اور جب ہم 2013ء میں آئے تھے، تو جب تمام ڈیمز بھرے ہوئے ہوں اور کوئی مسئلہ نہ ہو، تو تب بجلی کی پیداوار 15ہزار میگاواٹ تک پہنچ جاتی تھی، ورنہ اس سسٹم میں 10سے 12ہزار سے زیادہ بجلی نہیں بنتی تھی۔ موجودہ حکومت نے اپنے پانچ سال میں 12ہزار میگاواٹ بجلی کے نئے منصوبے لگائے اور یہ تمام منصوبے مئی سے پہلے بجلی بنانا شروع کر دیں گے، جبکہ مزید 20،25ہزار میگاواٹ کی منصوبہ بندی کی گئی۔ یعنی پچھلے 67سال میں 21ہزار میگاواٹ بجلی کے منصوبے اور پانچ برس میں 12ہزار میگاواٹ بجلی۔ اس حکومت نے بجلی کی پیداوار کے حوالے سے ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔
جنگ:کیا ہم سرپلس کی طرف جا رہے ہیں؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :اس وقت ہمارے پاس فرنس آئل کے جو پلانٹس چل رہے ہیں، وہ اپنی 30فیصد کارکردگی پر چل رہے ہیں۔ یہ پلانٹس اب دنیا میں کہیں نہیں ہیں اور پاکستان میں بھی بند ہو جانے چاہئیں۔ اب جب 12ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں داخل ہو جائے گی، تو یہ پلانٹس بند کر دیے جائیں گے۔ جب یہ بند ہو جائیں گے، تو کم از کم بجلی میں سرپلس نہیں رہے گا، لیکن ہماری اوسط لاگت کم ہو جائے گی۔
جنگ: موجودہ دور حکومت میں بجلی کی قیمت بھی بڑھائی گئی؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :ہم نے صرف بڑھائی نہیں، بلکہ کم بھی کی ہے، اگر اوسط لاگت کو دیکھا جائے۔ یہ پہلے کم ہو گئی تھی، لیکن تیل کی قیمت بڑھنے سے پھر بڑھ گئی ہے۔ بجلی کی قیمت کا ایک سیٹ فارمولا ہے اور نیپرا اسی کے ذریعے نرخ کا تعین کرتا ہے۔ ہم صنعت کاروں کو 3روپے کا پیکیج دے رہے تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے نہ بجلی کی قیمت کم کی ہے اور نہ بڑھائی ہے، بلکہ ایک فارمولے کے تحت چل رہی ہے۔
جنگ: گیس کی قلت کی وجہ سے ملک میں ایل این جی کے پلانٹس لگائے گئے، تو کیا اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :آج اگر ایل این جی بند کر دی جائے، تو ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ شروع ہو جائے گی۔ اس وقت بھی ایل این جی آ رہی ہے اور مستقبل میں بھی آتی رہے گی۔ پہلے سی این جی اسٹینشنز پر لمبی قطاریں ہوتی تھیں اور گھروں میں گیس کا پریشر کم ہوتا تھا۔
اب ہم نے عوام کی سی این جی تک رسائی بھی آسان کردی ہے اور گیس کا پریشر بھی ٹھیک ہو گیا ہے۔ پنجاب میں گیس نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں چولہے نہیں جلتے تھے، لیکن ہم نے اللہ کی مہربانی سے انہیں بھی آسانی فراہم کر دی ہے۔
جنگ:گردشی قرضے کافی تشویش ناک صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ ان کی اصل صورتحال کیا ہے اور آپ نے ان کے تدارک کے لیے کیا ؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :دسمبر 2017ء میں پاور سیکٹر میں حکومتِ پاکستان کے مجموعی قرضوں کا حجم 514ارب تھا۔ ان میں سے 214ارب آئی پی پیز کے قرضے تھے اور باقی قرضہ پی ایس او اور او جی ڈی سی سمیت دیگر اداروں کا تھا۔ ان 214ارب میں سے آئی پی پیز 50ارب پی ایس او کو ادا کرتے تھے۔ یعنی کل 162ارب روپے کا قرضہ ہے اور اسے میں بے باک کر کے جائوں گا، تاکہ گردشی قرضے ختم ہوں، جبکہ اندرونی قرضے بھی ختم کردوں گا۔
اس کے علاوہ حفیظ شیخ کے دور سے پی ایس پی ایل کا جو قرض چل رہا ہے، جو 400ارب روپے کا ہے، اس کا انٹرسٹ بھی میں ادا کر کے جائوں گا۔ اگرچہ گردشی قرضے موجود ہیں، لیکن ان کی وجہ سے ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی اور ہم نے اسے اس انداز سے مینج کیا ہے کہ آج کوئی بھی پاور پلانٹ بند نہیں ہے۔ کابینہ نے قرضوں کی ادائیگی کی منظوری دے دی ہے اور ہم یہ اگلے ہفتے تک ادا کر دیں گے۔
جنگـ:آپ کو معیشت کیسی ملی تھی۔ آپ اسے کس صورتحال میں چھوڑ کر جا رہے ہیں اور اس کا مستقبل کیسا ہو گا؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :جب 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی تھی اور اسحٰق ڈار نے وزارتِ خزانہ کا قلم دان سنبھالا تھا، تو اس وقت ہماری شرحِ نمو جی ڈی پی کا 2.8فیصد تھی اور افراطِ زر 8فیصد تھا، جبکہ ہماری حکومت کے اختتام تک شرحِ نمو 6فیصد اور افراطِ زر 5فیصد سے بھی کم ہو چکا ہو گا۔ اس سے ہی عوام یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں اچھا کام ہوا یا پچھلی حکومت میں۔ پاکستان کی افرادی قوت، اس کے معدنی وسائل اور زراعت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا ملک آیندہ برسوں میں معیشت کے اعتبار سے بلند مقام پر ہو گا۔
جنگ: سی پیک کے مثبت اثرات کب سے نظر آنا شروع ہو جائیں گے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :اس وقت اگر ملک میں بجلی موجود ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سی پیک کے مثبت اثرات نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ اس وقت سی پیک منصوبے پر سب آمادہ ہیں اور اگر یہ اسی طرح جاری رہا، تو اس کے نتیجے میں ملک میں اکنامک زونز قائم ہوں گے اور نئی صنعتیں لگیں گی۔
یہ تو صرف سی پیک کا آغاز ہے۔ اب چین سے صنعتیں پاکستان منتقل ہوں گی۔ چینی سرمایہ کار یہاں صنعتیں لگائیں گے اور یہاں مصنوعات تیار کر کے انہیں برآمد کریں گے اور جب یہ کام شروع ہو گا، تو پاکستان کا ورکر، جو اب بہ مشکل ہی گرز بسر کرتا ہے، بہتر طور پر اپنے اہلِ خانہ کی کفالت کر سکے گا اور یہی ہمارا اور آنے والی حکومتوں کا نصب العین ہونا چاہیے۔
جنگ:اس وقت پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں تنائو پایا جاتا ہے۔ کیا اس کے اثرات ہماری معیشت پر مرتب ہوں گے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:امریکا کو پاکستان اور پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا ہوں گے۔ امریکا نے گزشتہ پانچ برس کے دوران پاکستان کو صرف 513ملین ڈالرز کی امداد دی اور اب اگر وہ پاکستان کی امداد روک بھی دیتا ہے، تو اس سے ہماری معیشت پر کوئی خاطر خواہ اثرات مرتب نہیں ہوں گے اور پھر ہمارے پاس دوسرے ذرایع بھی موجود ہیں۔