• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)
چند برس قبل کسی محفل میں خیبرپختونخوا کے وزیر بلدیات عنایت اللہ خان سے صوبائی حکومت کی کارکردگی سے متعلق بات ہو رہی تھی اور حسب روایت وسائل کی کم یابی کا عذر پیش کیا گیا تو میں نے عرض کیا ’’عنایت بھائی! آپ پشاور کو ایک مرتبہ پھر پھولوں کا شہر بنا دیں، پودے لگانے اور نقش و نگار بنانے کے لئے کتنا بجٹ درکار ہو گا؟‘‘یہ تجویز قابل عمل محسوس ہوئی تو وزارت بلدیات نے اربوں روپے لگا کر نہ صرف جی ٹی روڈپر خوبصورت پودے لگائے بلکہ جناح پارک سمیت تاریخی مقامات کو دلہن کی طرح سجادیا۔ لیکن تبدیلی سرکار نے بی آر ٹی منصوبے کے لئے وزارت بلدیات کی محنت ملیامیٹ کرکے پشاور کے حسن کو ایک مرتبہ پھر گہنا دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اپنی اتحادی جماعت اسلامی کے دونوں وزرا مظفر سید اور عنایت اللہ خان کو بی آر ٹی کے منصوبے کے حوالے سے ہونے والے تمام اجلاسوں سے محض اس لئے دور رکھا کہ عنایت اللہ خان نے اس منصوبے کو ناقابل عمل اور تباہ کن قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی تھی۔ بی آر ٹی منصوبے کی تعمیرات کے حوالے سے ناقص منصوبہ بندی اور بنا کر گرانے کی نشاندہی تو میں اپنے گزشتہ کالم میں کر چکا ہوں مگر پشاور کے اس عجوبے کو جب بھی کسی نئے پہلو سے دیکھنے کی کوشش کی جائے تو پر اسراریت اور تعجب کا ایک نیاجہان نمودار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اس منصوبے کی لاگت کا معاملہ بذات خود چیستاں میں لپٹی پہیلی میں چھپا ایسا معمہ ہے جسے حل کرنا نہایت دشوار ہے لیکن کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ پی ڈی اے، محکمہ ٹرانسپورٹ اور خیبر پختونخوا حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس منصوبے کے اخراجات کا تخمینہ 49ارب روپے ہے مگر ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی دستاویزات اس دعوے کو غلط قرار دیتی ہیں۔ اے ڈی بی نے فروری میں جو دوسرا پرکیورمنٹ پلان جاری کیا ہے اس کے مطابق بی آر ٹی منصوبے کی لاگت 599350000ڈالر یعنی 69ارب 33کروڑ روپے ہے۔ اگر روپے کے مقابلے میں ڈالر کے نرخ میں حالیہ اضافے کو نظر انداز کرتے ہوئے 111روپے کے حساب سے اس رقم کو پاکستانی کرنسی میں منتقل کیا جائے تو بھی یہ 66ارب 52کروڑ روپے بنتے ہیں۔ اس منصوبے کے لئے پہلے سے بنے فلائی اوور، سڑکیں اور دیگر تنصیبات توڑنے، پشاور بیوٹیفکیشن پروجیکٹ پر خرچ کئے گئے 2ارب روپے اور دیگر ذیلی نقصانات و اخراجات کو بھی لاگت میں شامل کرلیا جائے تو بات 70ارب روپے سے بھی آگے نکلتی محسوس ہوتی ہے۔اے ڈی بی کی دستاویزات کے مطابق اس منصوبے کیلئے 345000000ڈالر (تقریباً 40ارب روپے)کا قرضہ اے ڈی بی فراہم کر رہا ہے، 75000000ڈالر (تقریباً 8ارب 67کروڑ) کی مشترکہ فنانسنگ ہے جو اے ڈی بی کے زیر نگرانی ہی استعمال ہو گی جبکہ 179350000ڈالر (یعنی 20ارب 74کروڑ روپے )خیبر پختونخوا حکومت نے مہیا کرنے ہیں۔تبدیلی سرکار کی باتوں سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ منصوبہ چند ماہ میں مکمل ہونے کو ہے مگر حقیقت یہ ہےکہ اس منصوبے کی مدت اختتام 31دسمبر 2021ء ہے۔ اے ڈی بی نے پہلا پروکیورمنٹ پلان 30جون 2017کو جاری کیا، دوسرا پروکیورمنٹ پلان 13فروری 2018ء کو جاری کیا گیا ہے، اس پروکیورمنٹ پلان کی مدت 18ماہ ہے اور اس کے بعد ابھی ایک تیسرا پروکیورمنٹ پلان باقی ہے۔ اب ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی کوشش میں کیایہ جا رہا ہے کہ پارکنگ پلازے، بائیک شیئرنگ لین، بس ڈپو اور چند اہم اسٹیشن چھوڑ کر بی آر ٹی کا روٹ جلد از جلد تعمیر کرکے اس پر بسیں دوڑادی جائیں تاکہ اس منصوبے کا کریڈٹ لیا جاسکے۔ بی آر ٹی منصوبے کے دوسرے پروکیورمنٹ پلان کے مطابق ٹکٹنگ، فیئر کنٹرول اور اسٹیشن مینجمنٹ کے لئے آئی ٹی ایس یعنی انٹیلی جنس ٹرانسپورٹ سسٹم لگایا جانا ہے جس کی ابھی تک بڈنگ نہیں ہو سکی اور رابطہ کرنے پر متعلقہ ادارہ یہ بتانے سے بھی قاصر ہے کہ بڈنگ کب ہو گی۔ اب خدا جانے اس سسٹم کے بغیر تبدیلی سرکاربسیں کیسے چلائے گی ؟ کیا بی آر ٹی کے لئے کنڈیکٹر بھرتی کئے جائیں گے ؟
اس منصوبے کے لئے خیبر پختونخوا اربن موبیلٹی اتھارٹی بنائی گئی اور اس کی چھتری تلے پشاور ٹرانس نامی لمیٹڈ کمپنی بنائی گئی جو بی آر ٹی کے آپریشنل معاملات کی نگرانی کرے گی۔ پہلے یہ منصوبہ ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کے پاس تھا بعد میں یہ پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سپرد کر دیا گیا اور اب یہ سانجھے کی وہ ہنڈیا بن چکی ہے جس میں ہر ادارہ اپنی مرضی سے مسالا جات ڈالتا چلا جا رہا ہے۔ سب سے پہلا بلنڈر تو یہ ہوا کہ اس منصوبے کا تعمیراتی ٹھیکہ ایک ایسی کمپنی کو دیدیا گیا جو اورنج لائن منصوبے میں پنجاب حکومت کو چونا لگانے کے باعث بلیک لسٹ ہو چکی تھی۔ تضادات کا یہ عالم ہے کہ پشاور ٹرانس کمپنی جو اس منصوبے کے آپریشنل کنٹرول کے لئے بنائی گئی ہے اس کی ویب سائٹ پر یقین کریں تو 450ہائبرڈ بسیں چین سے منگوائی جا رہی ہیں لیکن چیف آپریٹنگ آفسر کے توسط سے ذاتی طور پر حاصل ہونے والے اعداد و شمار پر انحصار کریں تو بسوں کی تعداد گھٹ کر220رہ جاتی ہے۔جبکہ اے ڈی بی نے 12*18سائز کی 300بسوں کیلئے 107630000ڈالر (تقریبا ً 12ارب 45کروڑ روپے)مختص کئے ہیں۔ بہر حال پشاور ٹرانس کمپنی کے فراہم کردہ اعداد و شمار کو ہی درست سمجھا جائے تو چینی کمپنی گولڈن ڈریگن سے 220ہائبرڈ بسیں منگوائی جا رہی ہیں جن میں سے ہر ایک کی قیمت تقریباً 3.5کروڑ روپے بنتی ہے۔ لگے ہاتھوں ان ہائبرڈ بسوں کی حیرت انگیز داستان بھی سن لیں۔یہ انتہائی مہنگی بسیں منگوانے کا مقصد یہ بتایا جا رہا ہے ڈیزل کے دھنویں کے باعث ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ نہ ہو اور انہیں الیکٹرک چارج پر چلایا جا سکے۔ لیکن یہ بسیں چار ج کیسے ہونگی اس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی دکھائی نہیں دیتی۔ ٹرانس پشاور سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ پہلے تو بسوں کو ایک ہی جگہ پر چارج کرنے کا منصوبہ تھا مگر جب یہ قابل عمل دکھائی نہ دیا تو اب بی آر ٹی کے روٹ پر فاسٹ چارجر اور سلو چارجر نصب کئے جائیںگے۔ کمیونکیشن آفیسر نعمان منظور کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق بس کو مکمل چارج ہونے کے لئے سلو چارجر پر 2سے 3گھنٹے جبکہ فاسٹ چارجر پر 30منٹ درکار ہونگے اور بس مکمل چارج ہونے کے بعد 40سے 45کلومیٹر کا فاصلہ طے کر سکے گی یعنی بمشکل ایک چکر۔ ا ب ہو گا یہ کہ یا تو یہ مہنگی بسیں خرید کر ڈیزل پر ہی چلانی پڑیں گی یا پھر مسافروں کو گھنٹوں بسوں میں بیٹھ کر یوں انتظار کرنا پڑے گا جیسے سی این جی اسٹیشن پر گاڑیوں کی لمبی قطاروں میں بیٹھ کر کوفت ہوا کرتی تھی۔ ایک اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا پلگ اِن فاسٹ چارجر ز لگانے کے لئے نئی ٹرانسمیشن لائن بچھائی جائے گی ؟اے ڈی بی کے پروکیورمنٹ پلان میں تو ایسی کوئی تفصیل موجود نہیں گویا پہلے سے موجود ٹرانسمیشن لائن بروئے کار لائی جائے گی تو پھر ان علاقوں کے مکین ٹرپنگ، وولٹیج گھٹنے، بڑھنے سے جلنے والے برقی آلات کا حساب کس سے لیں گے ؟ان بسوں کے چارج کرنے کے لئے بجلی کہاں سے آئے گی ؟جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ہائبرڈ گاڑیوں کی بیٹریاں بہت مہنگی ہوتی ہیں اور بڑی گاڑیوں کے لئے ہر تین سال بعد یہ بیٹریاں تبدیل کروانا پڑتی ہیں تو ایسے میں ہائبرڈ گاڑیوں کا سفید ہاتھی کیسے پالا جاسکے گا ؟اے ڈی بی کا قرضہ 30سال میں واپس کرنا ہے مگر اس سے پہلے بی آر ٹی منصوبے کی لاگت سے کہیں زیادہ اخراجات ہائبرڈ بسوں کی بیٹریاں اور پھر بسیں تبدیل کرنے پر خرچ ہو نگے مگر تبدیلی سرکاری کو اس سے کیا سروکار،چند ماہ بعد نئی حکومت آجائے گی اور یہ ڈھول اس کے گلے پڑ جائے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)
kk

تازہ ترین