• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم چیف جسٹس ملاقات،چیف ایگزیکٹوکی پوزیشن کونقصان پہنچا،تجزیہ کار

کراچی(ٹی وی رپورٹ)سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ وزیراعظم چیف جسٹس ملاقات میں چیف ایگزیکٹو کی پوزیشن کو نقصان پہنچاہے،وزیر اعظم اورچیف جسٹس کی سطح کی ملاقات کا ہمیشہ آفیشل ایجنڈا ہوناچاہئے،چیف جسٹس کو وضاحت کرنی چاہئے کہ وزیراعظم کی فریادکیا تھی،وزیراعظم حقیقی شکایات لےکر چیف جسٹس کے پاس گئے ہوں گے،وزیراعظم ٹوہ لینےگئے تھے کہ چیف جسٹس کی بنیاد کتنی مضبوط ہےاورکہاں تک کھڑے رہیں گے،وزیراعظم کوچیف جسٹس سے نہ وضاحت طلب کرنی چاہئے،نہ وہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی وہ کریں گے،نوازشریف کو سمجھ جاناچاہئے کہ یہ وضاحتیں لینےکانہیں،وضاحتیں دینےکاموسم ہے،پاکستانی معاشرے کی سوچ بدل رہی ہے،لیکن بہت سی ایسی مثالیں بھی ہیں جہاں بہتری نہیں آرہی ہے۔ان خیالات کا اظہار مظہر عباس، ریماعمر، بابر ستار،شہزاد چوہدری،حفیظ اللہ نیازی اور ارشاد بھٹی نے جیو نیوز کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان عائشہ بخش سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔میزبان کے پہلے سوال چیف جسٹس وزیراعظم ملاقات، میرا کام فریادی کی فریاد سننا ہے،چیف جسٹس، وزیراعظم کی فریاد تھی کیا؟ کا جواب دیتے ہوئے بابر ستار نے کہا کہ مجھے نہیں پتا وزیراعظم کیا فریاد لے کر چیف جسٹس کے پاس گئے تھے، وزیراعظم چیف جسٹس ملاقات کےاعلامیہ سے یہی درخواست سامنے آئی کہ ریونیو سے متعلق مقدمات کا جلد سے جلد فیصلہ کرلیاجائے،عدالتوں میں فریاد کا تعلق کسی کے چھوٹے یا بڑے ہونے سے نہیں بلکہ ایک ادارے کے کام سے متعلق ہے۔مظہر عباس کا کہنا تھا کہ وزیراعظم چیف جسٹس ملاقات میں پاکستان کے چیف ایگزیکٹو کی پوزیشن کو نقصان پہنچا ہے،چیف جسٹس کو وضاحت بھی کرنی چاہئے کہ وزیراعظم کی فریاد کیا تھی، وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی سطح کی ملاقات کا آفیشل ایجنڈا ہونا چاہئے۔ارشاد بھٹی نے کہا کہ وزیراعظم چیف جسٹس ملاقات پر سپریم کورٹ کی طرح وزیراعظم ہاؤس کو بھی اعلامیہ جاری کرناچاہئےتھا،جو وزیراعظم خود کو چیف ایگزیکٹو نہ سمجھے اسے کون چیف ایگزیکٹو سمجھے گا، شاہد خاقان عباسی پہلے دن سے فریادیں کرتے آرہے ہیں، وزیراعظم نے چیف جسٹس سے شریف خاندان کے کیسوں اور دانیال و طلال کے توہین عدالت کے معاملات پر بات کی ہوگی۔حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے آج جو بات کی وہ سپریم کورٹ کے پریس نوٹ سے مطابقت نہیں رکھتی ہے،اس پریس نوٹ میں ایک عجیب بات کی گئی جو نہ وزیراعظم اور نہ ہی سپریم کورٹ کے شایان شان تھی،وہ بات کچھ اس طرح تھی کہ وزیراعظم نے انتظامی امور میں چیف جسٹس کی مداخلت کوسراہاہے،دوسری بات یہ کہ وضاحتیں تکلیف دہ حد تک پہنچ چکی ہیں، تین چار مہینے سے وضاحتیں آرہی ہیں،پاناما کیس داخل ہونے کے بعد سے وضاحتیں آرہی ہیں، وزیراعظم حقیقی شکایات لے کر چیف جسٹس کے پاس گئے ہوں گے،انہوں نے بتایا ہوگا کہ الیکشن ہورہے ہیں،چیف جسٹس کے ایسے بیانات تھے جس پر انہوں نےخود وضاحت دی ہے کہ الیکشن میں تاخیر ہوسکتی ہے،اس کے بعد باجوہ ڈاکٹرائن آگیا جس کی کل میجر جنرل آصف غفور نے وضاحت دی، یہاں کنفیوژن ہے تو وضاحتیں آرہی ہیں،وضاحتیں دیناعدلیہ کے شایان شان نہیں ہے،آدمی وضاحت جب دیتا ہےجب وہ دفاعی موڈ میں ہوتاہے،وضاحتیں دینا یا وضاحتیں طلب کرنا ملکی اداروں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے،۔شہزاد چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم کو چیف جسٹس سے ملاقات کیلئے نہیں جاناچاہئے تھا، اس سے چیف جسٹس اور عدالتیں کمپرومائز ہوتے ہیں، وزیراعظم چیف جسٹس کے پاس فریاد لے کر نہیں ٹوہ لینے گئے تھے کہ چیف جسٹس کی بنیاد کتنی مضبوط ہے اور کہاں تک کھڑے رہیں گے۔دوسرے سوال چیف جسٹس نے وزیراعظم سے ملاقات پر جو بات کہی ہے اس پر اگر وزیراعظم مناسب سمجھیں تو وضاحت طلب کرسکتے ہیں، نواز شریف کا بیان، کیا وزیراعظم چیف جسٹس سے وضاحت طلب کریں گے؟ کا جواب دیتے ہوئے حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ نواز شریف کا مطلب یہ نہیں وزیراعظم چیف جسٹس سے وضاحت طلب کرسکتے ہیں بلکہ وہ کہنا چاہتے تھے کہ وزیراعظم چیف جسٹس کی بات کا جواب دے سکتے ہیں۔
تازہ ترین