ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اے ایمان والو! تم اپنے آپ اوراپنے گھروالوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اورپتھر ہیں ،جس پر مضبوط دل فرشتے مقرر ہیں ،جنہیں اللہ تعالیٰ جو حکم دیتا ہے، وہ اس پر عمل کرتے ہیں اوروہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے، بلکہ جو حکم دیا جاتا ہے ،وہ بجا لاتے ہیں ‘‘۔(سورۂ تحریم،آیت:۶)اللہ تعالیٰ نے مسلمان پر واجب کیا ہے کہ وہ اپنے آپ اورگھروالوں کو جہنم کی آگ سے محفوظ کرے اوربچائے۔اللہ تعالیٰ نے بیوی اور اولاد کو خاوند کی رعیت میں دیا ہے اورقیامت کے روز اسے اس بارے میں جواب دہ ہونا ہوگا، کیوںکہ نبی کریم ﷺ کا یہی فرمان ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓبیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک ذمے دار ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہوگا ، لوگوں پر جوامیر ہے،اس سے اس کی رعایا کے بارے میں باز پُرس ہوگی اورمرد اپنے گھروالوں کا ذمہ دار ہے اوراسے ان کے بارے میں جواب دینا ہوگا اورعورت اپنے خاوند کے گھراوراس کی اولاد کی ذمے دار ہے، اسے ان کے بارے میں جواب دینا ہوگا ، اورغلام اپنے مالک کے مال کا ذمے دار ہے، اسے اس کے بارے میں جواب دینا ہوگا ، خبردار تم میں سے ہر ایک ذمے دار ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔(صحیح بخاری وصحیح مسلم )
دوسری طرف اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس شخص کو بہت سخت وعید سنائی ہے جو اپنی رعایا سے دھوکا کرتا ہے اورانہیں شرعی نصیحت نہیں کرتا اور ایسے شخص پر جنت حرام کردی گئی ہے ۔حضرت معقل بن یسار ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جسے بھی کسی رعایا کا ذمے دار اورحکمران بنایا اور وہ انہیں نصیحت نہیں کرتا،تو وہ جنت کی خوشبوبھی نہیں پائے گا۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم) ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: ’’ جو آدمی میری امت کاکسی بھی معاملے میں ذمہ دار ہو ا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نرمی برتی تو(اے اللہ ) تو بھی اس کے ساتھ نرمی فرمااور میری امت کا جوشخص کسی بھی معاملے میں ذمے دار ہواور اس نے لوگوں کے ساتھ سختی برتی تو(اے اللہ ) تو بھی اس پرسختی فرما‘‘۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
ولایت وحکمرانی اسلام میں شرف وفضیلت کی چیز نہیں، بلکہ یہ ایک بہت بڑی ذمے داری اور امانت کا نام ہے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا:’’ اے ابو ذر!یہ ایک امانت ہے اور قیامت کے دن ندامت وشرمندگی بھی اِلا یہ کہ کوئی اسے ایمان داری کے ساتھ قبول کرے اور اپنے اوپر عائد ذمے داریوں کو کما حقہ انجام دے‘‘۔
صحابۂ کرام ؓ ولایت وحکمرانی کا منصب امت کی دیکھ بھال اور خبر گیری کے لیے قبول کرتے تھے، نہ کہ لوگوں کے دلوں میں اپنا رعب قائم کرنے کے لیے، انہیں ہر وقت حتیٰ کہ اپنی خوراک وپوشاک اور سونے اور اٹھنے میں بھی اللہ کا خوف دامن گیررہتا ۔