خلیفۂ بغداد ’’ابو جعفر منصور عباسی‘‘ حضرت امام ابوحنیفہؒ کا انتہائی معتقد تھا اور آپ کو سلطنت بھر کے علماء پر فضیلت دیتا تھا۔امام صاحب کا یہ اعزاز دیکھ کر محمد بن اسحٰق (صاحب المغازی) کو حسد ہونے لگا۔
چناںچہ ایک دن انہوں نے دربارِ شاہی میں حضرت امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ سے سوال کیا کہ اگر کسی نے اپنی بیوی سے یہ کہہ دیا ’’تجھ پر تین طلاق‘‘ پھر تھوڑی دیر ٹھہر کر کہا کہ انشاء اللہ ،تو کیا اُس عورت پر طلاق واقع ہوجائے گی؟ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا: ہاں ضرور طلاق پڑجائے گی۔
اِس لیے کہ اُس نے انشاء اللہ کو اپنے طلاق والے جملے سے الگ کردیا۔ اِس لیے یہ استثناء مفید نہیں ہوگا،یہ سن کر محمد بن اسحاق نے کہا کہ اے امیرالمومنین! ذرا امام ابو حنیفہ کی جرأت دیکھیے کہ آپ کے دربار میں آپ کے سامنے، آپ کے جدامجد حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے مسلک کی مخالفت کررہے ہیں۔ آپ کے جدامجد کا یہ قول ہے کہ انشاء اللہ اگر کلام سے الگ کرکے کہا جائے،تب بھی یہ استثناء مفید ہوتا ہے۔
یہ سنتے ہی ابو جعفر منصور مارے غصے کے آگ بگولا ہوگیا اور کہا کہ کیوں جی؟ ابوحنیفہ! تمہاری یہ جرأت ہے کہ تم میرے دربار میں میرے جدکریم کے قول کی مخالفت کرتے ہو؟حضرت امام علیہ الرحمہ نے بڑے سکون واطمینان کے ساتھ فرمایا کہ امیر المومنین! حضرت عبداللہ بن عباس ؓکے قول کا مطلب کچھ اور ہے اور محمد بن اسحاق کا منشاء کچھ اور ہے۔
محمد بن اسحاق یہ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی بیعت کرکے باہر نکلیں اور انشاء اللہ کہہ دیں، تو آپ کی بیعت ختم ہوجائے۔یہ سنتے ہی ابو جعفر منصور مارے غصے کے سرخ ہوگیا اور محافظوں کو حکم دے دیا کہ محمد بن اسحاق کے گلے میں اُن کی چادر کا پھندا ڈال کر گھسیٹتے ہوئے لے جاؤ اور اِنہیں قید کردو۔ (رُوح البیان )
حسد کتنی بری بلا ہے کہ محمد بن اسحٰق جیسی شخصیت جو فن مغازی کے امام کہلاتے ہیں، اِسی حسد کی وجہ سے دربار شاہی کی اعزازی کرسی سے جیل خانے کی سزا میں گرفتار ہوگئے، اگر امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کی ذہانت اور دانائی بروقت اُن کا دفاع نہ کرتی تو محمد بن اسحق نے تو امام ممدوح کے قتل ہی کا سامان کردیا تھا۔