مولانا محمد رضوان سعید نعمانی
سراج الائمہ، امام اعظم ابوحنیفہؒ کا شمار تابعین میں ہوتاہے۔آپ محدث ،فقیہ ،مجتہد اور اسلامی قانون کے مدون اول کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔ امت کا ہرطبقہ آپ کے فضائل ومناقب پر متفق ہے ۔آپ خوش حال ومال دار خاندان کے چشم وچراغ تھے ۔خاندانی شرافت آپ میں بھری ہوئی تھی ،آپ رہن سہن اور لوگوں سے میل جول میں انتہائی محتاط تھے۔
متانت وسنجیدگی اور بہادری آپ کا طرہ امتیازتھا۔ابو نعیم کا بیان ہے کہ امام صاحب خوب رو تھے،اچھا لباس زیب تن کرتے ،عمدہ جوتے استعمال کرتے اور ہر ایک کے ساتھ ہمدردی وغم خواری کرتے تھے ۔
عبدا للہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ امام صاحب کی مجلس پروقار تھی ،فقہاء آپ کی مشابہت اختیار کرتے تھے۔آپ کے چہرے کے نقش ونگار خوبصورت تھے،اچھا کپڑا زیب تن کرتے ۔ایک مرتبہ ہم جامع مسجد میں تھے کہ سانپ امام صاحب کی گو د میں آگرا ۔سب لوگ ڈر کے بھاگ نکلے ،آپ نے بغیر کسی خوف کے سانپ کو اپنے دامن سے جھاڑدیااور اپنی جگہ پر متانت سے بیٹھے رہے۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ،ص : 17)
اللہ تعالیٰ تکوینی طورپر جس کے لیے جو مقام متعین کردیتا ہے، ظاہر میں اس کے وسائل بھی مہیا کردیتا ہے ۔آپ ﷺ کی زبانی اللہ تعالیٰ نے یہ پیش گوئی کردی تھی کہ اگر علم و دانش ثریا ستارے کے قریب بھی ہوگا تواہل فارس میں سے بعض لوگ اسے حاصل کرلیںگے"۔(صحیح بخاری)اہل فارس میں اس کا مصداق اللہ رب العزت نےعالم تکوین میں آپ ہی کو ٹھہرایا تھا،اس لیے آپ کے خاندان کے لیے ہجرتِ کوفہ کے اسباب پیداکرکے 80 ہجری میں جب کوفہ میں صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام کی کثرت تھی، آپ کی دنیا میں تشریف آوری مقدور کردی،تاکہ تابعیت کے اعلیٰ شرف سے مشرف ہوںاور دین کو براہ راست ان لوگوں سے سیکھ کر آگے پھیلائیں، جنہوں نے براہ راست نبی علیہ السلام سے سیکھا ہے۔
تمام تذکرہ نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ائمہ متبوعین ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ ،امام مالک ، امام شافعی ،امام احمد بن حنبل)میں سے تابعیت کا شرف صرف امام ابوحنیفہ ؒکو ہی حاصل ہوا۔
امام صاحب نہایت ذہین اور نابغہ روزگار شخصیات میں سے تھے ،جوانی کا زمانہ بڑی خوشحالی اور فارغ البالی میں گزرا۔اپنے آبائی پیشے تجارت کے ساتھ ساتھ حصول علم کا شغف بھی رکھتے تھے۔چناںچہ ابتدائی زمانے تک علم الکلام اور دیگر علوم سے وابستہ رہے۔مناظرہ ومجادلہ آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔مناظرہ کی خاطر خواہ افادیت نہ ہونے کی وجہ سے رفتہ رفتہ اس سے بےزار ہونے لگے۔
انہی دنوں آپ کا گزرعامر بن شراحیل شعبی کی درس گاہ سے ہوا ،تو انہوں نے دریافت کیا "تم کس کے ہاں آتے جاتے ہو"آپ ؒ نے جواب دیا، بازار میں فلاںشخص کے پاس جا رہاہوں ۔
انہوں نے کہا میری مراد یہ ہے کہ آپ کس کے حلقہ علم میں جاتے ہیں " ۔آپ نے فرمایا : اہل علم کے ہاں میرا زیادہ آنا جانا نہیں ہوتا۔عامر بن شراحیل نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :"تم ایسے نہ کرومیں تمہارے اندر ذہنی وفکری بیداری دیکھ رہا ہوں ،تم دین اور علمائے دین کی مجلس اختیار کرو"۔امام شعبی کی یہ بات آپ کے دل میں گھر کر گئی، اسی وقت سے بازار اور دکان میں آنا جانا بند کرکے "حماد بن ابی سلیمان "کے پاس علم دین کی تحصیل میں لگ گئے ۔
علمی دنیا میں امام صاحب ؒ انتہائی اعلیٰ مقام رکھتے تھے ۔آپ کے معاصرین اور بعدمیں آنے والے ائمہ نے آپ کے علمی تفوق کا اقرار کیا ہے ۔امام ابوحنیفہ ؒ کا فقیہ ہونا تو روزروشن کی طرح عیاں ہے ،عوام وخواص سب ہی آپ کو قانون اسلامی کے مدون اول کی حیثیت سے جانتے ہیں،آج تک اسلامی ممالک میں ٪بکثرت دیوانی وفوج داری مقدمات آپ کے اور آپ کے شاگردوں کی مرتب کردہ فقہ اسلامی کے مطابق انجام دئیے جاتے ہیں۔
تاہم آپ کی علم حدیث سے وابستگی اوراس میں رسوخ ، عوام تو کجا اکثر خواص بھی اس سے ناواقف ہیں ۔بعض نے تو اتنا بھی کہہ دیا کہ آپ ؒ کو صرف سترہ حدیثیں یاد تھیں!!!یہ سب یا تو لاعلمی کی وجہ سے ہے یا سراسر عناد ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ قرون اولیٰ میں فقیہ ہونے کے لیے علم حدیث میں رسوخ شرط اول تھی کیونکہ قرآن کے بعد یہ فقہ کا دوسرا ماخذ ہے ۔
علامہ ذہبی تراجم ِرجال پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔فرماتے ہیں :" امام صاحب ؒنے طلب حدیث کے لیے مختلف علاقوں کے اسفار کیے اورزیادہ تر حدیث کا ذخیرہ 100 ہجری کے بعد جمع کیا ۔(سیر اعلام النبلاء : 6/392) امام صاحب نے جو زمانہ پایا، اس دور میں کسی کے علمی مرتبے کو جاننے کا ایک ذریعہ کثرت اساتذہ بھی تھا۔ابوحفص الکبیر کے حکم سے جب آپؒ کے اساتذہ وشیوخ کی فہرست تیار کی گئی تو چار ہزارنکلے،اس سےآپ ؒ کے حدیثی ذوق کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
عقود الجمان میں حروف تہجی پر آپ ؒ کے شمار کیے گئے اساتذہ کی تعداد دوسو اسی سے متجاوز ہے ۔(عقود الجمان : 63 – 87)مسند امام اعظم میں آپ کے بلاواسطہ شیوخ کی تعداد تقریباً چالیس ہے ۔جن میں ایوب سختیانی ،عامر بن شراحیل الشعبی ،امام اعمش ،عطاء بن ابی رباح ،حسن بصری اور دیگر سر فہرست ہیں ۔ آپؒ فہم حدیث میں اپنے بعض اساتذہ سے بھی آگے تھے ۔
ایک مرتبہ آپ ؒ اپنے استاذِ حدیث سلیمان بن مہران الاعمش کی خدمت میں حاضر ہوئے۔استاذ نے آپ سے کچھ علمی سوالا ت کیے۔امام صاحب ؒ نے ان کے جوابات دئیے۔ہر سوال کے جواب پر امام اعمش کہتے تھے تم یہ جواب کس دلیل سے دے رہے ہو ؟آپؒ کہتے تھے آپ ہی کی بیان کردہ حدیث سے دے رہاہوں ۔آخر میں امام اعمش نے کہا "اے فقہا ء کی جماعت آپ لوگ طبیب ہیں اور ہم دوا فروش ہیں "۔
دوسرےموقع پر امام اعمشؒ نے امام صاحب ؒکے شاگر د رشید قاضی ابو یوسفؒ سے پوچھا تمہارے استاذِ فقہ ابوحنیفہ نے یہ قول کیوں ترک کردیا "باندی کی آزادی اس کے حق میں طلا ق ہے "امام ابو یوسفؒ نے جواب دیا " اس حدیث کی وجہ سے جو آپ نے ہمیں ابراہیم سے ،انہوں نے اسود سے ،انہوں نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ بریرۃ ؓکو جب آزادی حاصل ہوئی تو انہیں اختیار دیا گیا تھا۔یہ جواب سن کر امام اعمش نے کہا"ابوحنیفہ حدیث کے موقع ومحل کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں اور اس میں بڑا شعور رکھتے ہیں ۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ص : 27-26)
صرف فہم حدیث ہی امام صاحب کا طرہ امتیاز نہیں، بلکہ آپ ؒ حدیث کے مشکل ترین فن راویوں کے احوال سے بھی خوب واقفیت رکھتے تھے اور کئی راویوں پر آپ نے جرح وتعدیل بھی کی ہے ۔جسے اہل فن نے تسلیم کیا ہے ۔
امام صاحب ؒ کامطمح ِ نظر محدثین کے روایتی طرز پر محض احادیث کو جمع کرنا نہیں ،بلکہ ان احادیث سے مسائل کا استنباط کرنا آپ کی اولین ترجیح تھی ۔ظاہر ہے ہر حدیث قابل استدلا ل نہیں ہوتی، اس لیے بعض احادیث کو آپ نے کسی نہ کسی وجہ سے ترک کردیا۔وہی وجو ہ آپ کا منہج حدیث قرار پائیں ۔ان وجوہ کو بعد والوں نے آپ کی فقہی مباحث کی روشنی میں بطور استقراء جمع کیا ہے ۔
امام صاحب کے ہاں ثقہ راویوں کی مرسل احادیث مقبول ہیں ۔امام صاحب خبر واحد کا اصول مسلمہ قرآن ،احادیث متواترہ ومشہورہ اور اجماع کے ساتھ موازنہ کرتےہیں۔اگر خبر واحد ان اصولوں کے موافق ہو تو مقبول، بصورت دیگر قابل استدلال نہیں ۔
ایسے ہی خبر واحد کا کتاب اللہ کے عام اور ظاہر سے موازنہ کرتے ہیں ۔اگر خبر واحد اس کے موافق ہو تو قبول کرتے ہیں، ورنہ کتاب اللہ کو اس کی بہ نسبت قوی ہونے کی وجہ سے تر جیح دیتے ہیں ۔اگر خبر واحد راوی کے عمل کے مخالف ہوتو اس پر بھی عمل نہیں کرتے ۔اگر خبر واحد صحابہ کرام اور تابعین عظام کے متواتر عمل کے مخالف ہو تو اسے قبول نہیں کرتے ۔(شرح مسند ابی حنیفہ لملا علی القاری:)