علامہ غلام دستگیر افغانی
جن کی فقہی بصیرت اور علمی جلالت کو ہر دور کے علماء نے تسلیم کیا
سراج الائمہ،نعمان بن ثابت ابوحنیفہؒ کا شمار اسلام کی عظیم شخصیات میں ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات عالی میں زہد و تقویٰ،راست بازی،جُودو سخاوت،فہم و فراست،ذہانت و فطانت،جیسی بہت سی خوبیاں و دیعت فرمائی تھیں۔
اسلام میں آفاقیت اس لیے ہے کہ وہ فطرتِ انسانی کی عکاسی اور نمائندگی کرتا ہے۔یہ صورت کو سیرت سے آشنا کرتا اور خود پرستی سے خدا پرستی تک پہنچاتا ہے۔اس نظامِ حیات کے حقیقت پسندانہ اور عادلانہ اصول و قوانین نے نہ صرف عرب کے صحرا نشینوں کو متاثر کیا،بلکہ قیصر و کسریٰ کے اساطین کو بھی اپنا حلقہ بگوش بنا لیا، دیکھتے ہی دیکھتے کرۂ ارض پر سب سے بڑی اسلامی ریاست قائم ہو گئی،یہ ایک حقیقت ہے کہ حالات و زمانہ انسان کے فطری میلان و رجحان میں تبدیلی پیدا کرتے رہتے ہیں،اس لیے جدید مسائل کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔امام الانبیاء،حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی رحلت کے بعد صحابۂ کرمؓ نے ان مسائل کا حل کتاب و سنّت،اجماع اور قیاس سے پیش کیا۔
جن صحابۂ کرمؓ نے اس خدمت کو اپنا روز و شب کا معمول اور وظیفہ بنایا،ان میں امیر المومنین حضرت علیؓ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ سرفہرست ہیں۔عہد صحابہؓ کے بعد جن لوگوں نے بدلتے حالات اور زمانے کے تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے اسلام کے آفاقی پہلوئوں پر کام کیا،ان کے سرتاج و سرخیل امام اعظم نعمان بن ثابت ابوحنیفہؓ ہیں۔
آپ تابعین میں پہلی صدی ہجری کی وہ نابغۂ روزگار ہستی ہیں،جنہوں نے جدید پیش آنے والے مسائل کا حل اسلام کے اصول و قوانین کی روشنی میں ایسے عمدہ اور یگانہ انداز میں پیش کیا کہ آج تقریباً چودہ سو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ان سے بہتر حل ممکن نہیں۔ حضرت امام شافعیؒ،امام مالکؒ،امام احمد بن حنبلؒ اور دیگر ائمۂ کرام اپنے فضل و کمال کے باوجود امام اعظمؒ کے خوشہ چیں رہے،بلکہ امام شافعیؒ کو واضح الفاظ میں اعلان کرنا پڑا کہ ’’ہر فقہ حاصل کرنے والا امام اعظمؒ کا خوشہ چیں ہے‘‘۔ آپ کے ہم عصر ایک دوسرے شامی فقیہ امام اوزاعیؒ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ابو حنیفہؒ پیچیدہ اور مشکل مسائل کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔امام اعظمؒ کی دینی بصیرت اور علمی عظمت محدّثین اور فقہا کے نزدیک مسلّم ہے۔
حضرت ابراہیم نخعیؒ حضرت حمادؒ کے واسطے سے امام اعظمؒ کے دادا استاد ہیں۔ امام اعظمؒ نے فقہ میں ان سے استفادہ کیا،مگر اس کی کلّی طور پر پیروی نہ کی،بلکہ اس سے آگے بڑھے،کیوںکہ حضرت امام نخعیؒ نے صرف حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کے تلامذہ سے جو کہ کوفہ کے باشندے تھے روایت کی،لیکن مسند امام اعظمؒ کے راویوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام اعظمؒ نے علم کی دو بڑی درس گاہوں مکّی اور مدنی سے بھی خوب استفادہ کیا۔ امام ابوحنیفہ ؒ کی دوربین اور دور اندیش نظر و فکر اسلام کی آفاقیت پر مرکوز تھی۔
فقیہ کے لیے دوسری شرائط کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ اسے معاملاتِ دنیا اور اردگرد کے حالات سے بخوبی واقفیت ہو،اسی لیے امام ابن عابدینؒ نے روشِ زمانہ سے ناواقف کو جاہل تک کہا،یعنی جو شخص اہل زمانہ کے حالات سے آگاہ نہیں،وہ جاہل ہے ۔امام اعظمؒ چوںکہ کپڑے کے بڑے تاجر تھے،مختلف شہروں اور ملکوں میں کاروبار تھا،عام لوگوں سے میل ملاقات کے مواقع فراہم تھے،اس لیے عام لوگوں کی روش اور ضروریات سے خوب واقف تھے،مجہتدفیہ مسائل میں عوامی روش اور ضرورت کو پیش نظر رکھتے تھے۔لوگوں کے فطری مزاج کے موافق فیصلے دیتے تھے،اس طرح امام اعظمؒ کی فقہ مقبولیتِ عامہ حاصل کرتی گئی۔
امام ابوحنیفہؒ کے یہاں مسائل کے استنباط کے لیے ایک مجلس مشاورت (بورڈ) تھی۔مجلس کے سامنے مسئلہ پیش ہوتا۔بعض اوقات ہفتوں بحث ہوتی۔ اکثر اراکین آپ کے تلامذہ ہوتے۔ صدرالائمہ لکھتے ہیں کہ طویل بحث کے بعد جس قول پر سب کی رائے متفق ہوجاتی، اس کے بعد امام ابو یوسفؒ اسے اصول میں درج کر دیتے، یہاں تک کہ تمام اصول انہوں نے منضبط کر دیے۔
صدرالائمہؒ کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ امام اعظم ابوحنیفہؒ اپنے تلامذہ کی باقاعدہ فکری تربیت اور رہنمائی بھی کرتے تھے۔ان کی اس تربیت کا اثر یہ ہوا کہ فقہاء کی ایک جماعت تیار ہو گئی جو کہ مختلف اسلامی شہروں میں پھیل گئی،اس طرح فقہ حنفی کو پختہ اور آزمودہ کار دماغ مل گئے،جس سے اس کی حیثیت و منزلت کو چار چاند لگ گئے۔
امام اعظمؒ کی اس مجلس مشاورت کے اراکین یہ تھے۔ حضرت امام ابو یوسفؒ، امام زفرؒ، دائود طائیؒ،اسد بن عمروؒ، عافیہؒ، قاسمؒ، علی بن مسہرؒ،حبان بن علیؒ ان کے علاوہ کوفہ کے ہم عصر فقہا بھی شرکت کرتے تھے۔
فقہ حنفی کی مقبولیتِ عامہ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان ائمہ کے مختلف اذہان سے جب ایک مسئلہ منتج ہو کر نکلتا تو اس کی حیثیت فردِ و احد کی سوچ اورفکر سے مختلف ہوتی تھی۔اسلامی احکام میں لوگوں پر بے جا بار نہیں ڈالا گیا، بلکہ ان کی وسعت ظرف کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔
قرآن حکیم میں ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کی وسعت سے زیادہ احکام کا بار ان پر نہیں ڈالا،بلکہ اس حکیم مطلق کا تو یہ ارشاد ہے:’’ وہ انسانوں کے لیے تنگی اور عسرت کو نہیں،بلکہ آسانی کو پسند کرتا ہے۔‘‘
امام اعظم ابوحنیفہؒ کی پر مغز علمی اور فکری شخصیت نے مستقبل کے مسائل کو بھانپ کر اپنی حیات ہی میں ایک مجموعۂ قوانین مرتّب کر لیا تھا،جس میں عبادات کے علاوہ دیوانی، فوج داری،تعزیرات، لگان، مال گزاری، شہادت،معاہدات، وراثت و وصیت اور بہت سے قوانین موجود تھے۔
بعض مورخین نے لکھا ہے کہ اس مجموعے کے مسائل کی تعداد 12لاکھ سے زیادہ تھی۔عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دورِ اقتدار میں اسلامی حکومت ایشیائے کوچک سے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی اور اس میں فقہ حنفی اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ نافذ و جاری تھا۔اسی طرح خلافتِ عثمانیہ اور ہندوستان کی مغلیہ حکومت میں بھی فقہ حنفی ملکی قانون کے طورپر رائج تھا۔