• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سڑکوں پر موٹر سائیکل دوڑاتی، باہمت خاتون ’’حمیرا جبیں‘‘ کے اوراق زیست

سڑکوں پر موٹر سائیکل دوڑاتی، باہمت خاتون ’’حمیرا جبیں‘‘ کے اوراق زیست

گھنٹوں اسٹاپ پر کھڑے ہوکر بس کا انتظار کرنا،تکلیف دہ تھا

سڑکوں پر موٹر سائیکل دوڑاتی،باہمت خاتون حمیرا جبیں کے اوراق زیست

عصمت علی کامران

سنتے چلے آئے ہیں کہ ایک کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے،لیکن فی زمانہ ایسی مثالیں بھی سامنے آتی ہیں،جو اس بات کے برعکس نظر آتی ہیں،یعنی کامیاب عورت کے پیچھے مرد کا ہاتھ یا اُس کی حوصلہ افزائی کارفرماہوتی ہے،وہ مرد چاہے باپ،بھائی،شوہریا بیٹا ہی کیوں نہ ہو،اُس کی روشن اور مثبت سوچ عورت کوناصرف مضبوط کرتی ہے بلکہ اُس کی شخصیت میںاعتمادپیدا کرکے کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔

حمیرا جبیں بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ایسی باہمت خاتون ہیں جنہوں نے اپنے خاندان کوبہتر مستقبل دینے کے لیے راستے نکالے ،باعزت روزگار حاصل کرکے،شوہر کی حوصلہ افزائی اورتعاون سے دفتر تک رسائی کے لیےموٹر سائیکل چلانا سیکھی اور معاشرے کو پیغام دیا کہ بے شک عورت کے لیے مواقعے محدود ہیں، لیکن ہمت و حوصلے اور اگرساتھ میںمرد کا تعاون بھی حاصل ہوجائے تووہ بڑے سے بڑا میدان مار سکتی ہے۔

گزشہ دنوں ہونے والی ایک ملاقات میں اُن کا کہنا تھا کہ’’میں کوئلہ تھی....مجھے ہیرا میرے شوہر نے بنایا...،یہ محض الفاظ نہیں ہیں میں ان کی عملی مثال ہوں‘‘، 32سالہ حمیرا جبیں نے پر اعتماد لہجے میں کہنا شروع کیا۔ ’’ہر انسان میں صلاحیتیں موجود ہوتی ہے۔ 

انہیں کسی طرح استعمال کرنا ہے، یہ فن آنا ضروری ہے، شادی سے پہلے میں کم گو اور شرمیلی لڑکی تھی۔ مجھے سائیکل تک چلانا نہیں آتی تھی اور آج میں اپنے شوہر کی حوصلہ افزائی اور اعتماد کے باعث موٹر سائیکل چلالیتی ہوں، روزانہ صبح سرجانی ٹائون سے کلفٹن موٹر سائیکل پر ہی ملازمت کے لیے جاتی ہوں۔‘‘ حمیرا جبیں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ 

شادی کو کتنا عرصہ ہوگیا ہے، ہمارے اس سوال پر حمیرا جبیں نے بتایا، میری شادی 2006میں ہوئی تھی ماشااللہ دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے‘‘۔ شادی سے قبل ملازمت کرتی تھیں؟ حمیرا جبیں کا کہنا تھا کہ’’ شادی سے قبل انٹر کے بعد 2003سے 2005تک میں نے میڈوائفری کا کورس کیا تھا۔ اس کے بعد لیڈی ہیلتھ ورکر کا کورس بھی کیا۔ 

دراصل مجھے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا لیکن رجحان ٹیست میں کامیاب نہ ہوسکی۔ مجھے پتا چلا کہ نرسنگ اور مڈوائفری کے کورسز کرکے اپنا شوق پورا کیا جاسکتا ہے۔ مجھے بہت شوق تھا کہ لوگوں کی تکلیفیں بانٹوں، ان کے لیے کچھ کروں، لیکن نرسنگ ٹریننگ کے بعد میری شادی ہوگئی، میرے شوہر پولیس میں ہیں اور آج کل اے ایس آئی کی ٹریننگ کے لیے شہر سے باہر ہیں۔

شادی کے بعد ملازمت کی ضرورت پیش آئی،کیوں کہ دو بچوں کی پیدائش کے بعد اخراجات بڑھ گئے تھے میرے شوہر نے مجھ سے کہا کہ تم نے تعلیم حاصل کی ہے اور نرسنگ کی ٹریننگ بھی لی ہے۔ اپنی اسکلز ضائع نہ کرو، صلاحیتوں کو استعمال کرو، جھاڑو، برتن تو ہر عورت کرلیتی ہےلیکن اپنی اسکلز کواستعمال کرکے تمہیں خدمت خلق کا موقع بھی ملے گا اور پھر اس کا اگر مناسب معاوضہ بھی مل جائے تو برا نہیں ہے۔

ہم مل کر بہت اچھی طرح گھر چلائیں گے۔ شوہر کی بات دل کو لگی، لیکن میں بہت کم ہمت تھی، وسوسے اور خیالات آتے تھے کہ کس طرح گھر سے باہر نکلوں گی بچے ابھی چھوٹے ہیں۔ میں اسی ادھیڑ بن میں رہتی کہ ایک دن اخبار میں مڈوائفری کی ملازمت کا اشتہار دیکھا ۔ یہ 2009کی بات ہے ان دنوں ہم جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے تھے۔

شوہر کے ساتھ ساس سسر نے بھی مجھے حوصلہ دیا اور میں نے ملازمت کے لیے اپلائی کردیا۔ ملازمت کے لیے درخواست بھی میرے شوہر نے ہی لکھی تھی، کچھ ہی دنوں بعد اسلام آباد سے انٹرویو کی کال آگئی۔ خوشی تو بہت ہوئی لیکن میرے لیے مسئلہ تھا کہ صرف انٹرویو کے لیے اسلام آباد کس طرح جائوں؟ سفر کا کرایہ، رہائش درد سر تھا۔ میں نے اسلام آباد ہیڈ آفس فون کرے کہا کہ میں انٹرویو کے لیے اسلام آباد نہیں آسکتی کیونکہ آپ لوگوں کی طرف سے کوئی ٹی اے، ڈی اے بھی نہیں مل رہا۔ ان لوگوں نے تھوڑا اصرار کیا ۔ 

کچھ دنوں بعد وہاں سے کال آئی، ہم کراچی انٹرویو لینے آرہے ہیں۔ یہاں اور بھی امیدوارخواتین تھیں۔ جب میں انٹرویو کے لیے گئی تو وہاں دس لڑکیاں اور بھی تھیں اور ویکینسی صرف تین افراد کے لیے تھی۔ بہرحال انٹرویو دے دیا۔ وہاں اچھی بات یہ دیکھی کہ وہ صرف انٹرویو کرنے ہی نہیں آئے تھے کہ محض خانہ پوری کی جائے۔ انہوں نے یہاں سے سیکشن بھی کیا ،مجھ سمیت دو اور لڑکیوں کا سیکشن ہوگیا۔ سرکاری ملازمت حاصل کرنا آسان کام نہیں ہوتا۔ 

میں خود حیران تھی کہ کس طرح میرا انتخاب کرلیا گیا۔ بہرحال ملازمت اسلام آباد کی تھی لہٰذا مجھے وہاں رہنا تھا۔ اصل امتحان اب شروع ہوا تھا۔ میرے لیے یہ مشکل تھا کہ گھر کو چھوڑ کر ایک سال تک اسلام آباد میں رہوں۔ کیوں کہ میرا سلیکشن کراچی کے کوٹے پر ہوا تھا۔ میرے ساتھ دو لڑکیاں اور بھی تھیں۔ ان کے لیے مسئلہ نہیں تھا، لیکن میرے لیے مشکل یہ تھی کہ اسلام آباد میں میرا کوئی رشتے دار نہیں تھا کہ میں وہاں رہائش اختیار کرتی۔ 

فیملی کے ساتھ وہاں منتقل نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ شوہر کی ملازمت کراچی میں تھی۔ مجھے پہلی مرتبہ شہر سے باہر نکلنا تھا۔ گھریلو حالات ایسے نہیں تھے کہ میں یہ موقع گنواتی۔ میرے شوہر نے کہا ہمت کرو، اللہ کوئی راہ ضرور نکالے گا۔ ان دنوں میری والدہ کی ایک سہیلی اسلام آباد میں رہتی تھیں۔ ان کے شوہر کینیڈا میں تھے،آنٹی ( والدہ کی سہیلی)کی تین بیٹیاں ہیں۔ اس وقت وہ بچیاں چھوٹی تھیں۔ والدہ نے آنٹی سے بات کی لہذا وہ مجھے اپنے ساتھ رکھنے پر راضی ہوگئیں۔ 

میں اس کوشش میں تھی کہ شوہر کو بھی کچھ عرصے کے لیے اسلام آباد لے جائوں لیکن آنٹی اس بات پر راضی نہ ہوئیں کہ میں ان کے گھر شوہر کے ساتھ رہوں،اُن کے شوہر کی غیرموجودگی میں یہ مناسب نہیں تھا کہ کسی غیر مرد کو وہ گھر میں ٹھہراتیں،چناں چہ میرے شوہر بیٹی کے ساتھ کراچی میں رک گئے اور میں ڈیڑھ سال کے بیٹے کے ساتھ اسلام آباد آگئی۔

میرے لیے یہ بہت مشکل وقت تھا۔ بہر حال آنٹی بہت مہربان خاتون تھیں۔ انہوں نے مجھے اچھی طرح اپنے پاس رکھا، کچن کا ایک کیبنٹ بھی مجھے دے دیا تھا۔ ان کے ساتھ رہنے میں کوئی پریشانی نہ تھی۔ میرے اصرار کے باوجود بھی وہ مجھ سے پیسے نہیں لیتی تھیں، لہٰذا میں ان کے گھر کے چھوٹے موٹے کام کردیا کرتی تھی۔ جھاڑو پونچھا اور آٹا گوندھنا میں نے اپنے ذمے لے لیا تھا‘‘۔ جہاں آپ کی ملازمت طے ہوئی تھی وہ جگہ آپ کی رہائش کے قریب تھی؟ اس سوال کے جواب میں حمیرا نے بتایا۔ ’’بالکل نہیں، یہ سفر کی تکلیفوں کا آغازتھا، آنٹی کے گھر سے اسپتال تک کا راستہ طویل تھا۔ 

دو گاڑیاں بدلنی پڑتی تھیں اور پیدل کا سفر بھی بہت تھا کیونکہ چیمپئین کالونی سے جوڈیشنل کالونی تک کا سفر پیدل طے کرنا پڑتا تھا۔ وہاں ججز کی رہائش کی وجہ سے پروٹوکول اور سیکورٹی کا مسئلہ تھا اور لوکل ٹرانسپورٹ لے جانے کی اجازت نہیں تھی، لہٰذا ڈیڑھ سال کا بچہ گود میں اٹھا کرمیں وہ سفر پیدل طے کرتی تھی۔ میں بہت تھک جاتی تھی لیکن بچوں ، گھر اور شوہر کی مدد کے لیے ضروری تھا کہ میں کچھ بن جائوں یا اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائوں۔ 

اپنے بچوں کی خواہشات پوری کرسکوں۔ مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ میں نے جو تعلیم حاصل کی اسی کی ملازمت مجھے مل گئی۔ اپنی تو جیسے تیسے گزر ہی جاتی لیکن انسان اپنی اولاد کے لیے سوچتا ہے کہ انہیں کوئی محرومی نہ ہو۔ اچھا پڑھ لکھ جائیں۔ مستقبل اچھا بن جائے اور کیا چاہیے والدین کو۔

شوہر اور بیٹی سے دور اجنبی جگہ اور لوگوں کے درمیان رہنا،کام کرنا اور پھر ان ہی لوگوں میں اپنائیت ڈھونڈنا آسان نہ تھا۔ا س دوران میرے شوہر دو مرتبہ مجھ سے ملنے آئے لیکن آنٹی کے گھر نہ رک سکے۔ کیونکہ آنٹی نے کہہ دیا تھاکہ آپ اپنی بیگم سے فون پر بات کرلیں لیکن میں آپ کو یہاں نہیں رکھ سکتی۔ 

تاہم آنٹی نے میری ہر مرحلے پر مدد اور ہمدردی کی، میرا حوصلہ بڑھایا، اپنی بیٹیوں کی طرح مجھے رکھا، جب میں حوصلہ ہار نے لگتی تو وہ مجھے سمجھاتیں کہ جب نوکری پکی ہوجائے تو تم ٹرانسفر کروالینا یا یہیں کرائے کا گھر لے کر شوہر اور بیٹی کو بلالینا۔ مجھے ان کی باتوں سے بہت سکون ملتا تھا کہ کبھی تو ایسی گھڑی آئے گی کہ میں اپنوں میں ہوں گی‘‘۔

آپ وہاں کتنا عرصہ رہیں؟ حمیرا جبیں نے بتایا۔ ’’میں تقریباً نو ماہ وہاں رہی۔ میں نے آفس میں تبادلے کی درخواست جمع کرائی کافی کوششوں کے بعد درخواست منظور ہوگئی لیکن کراچی میں تبادلے کی صورت میں انکریمنٹ منہا کردیا گیا اور 18اسکیل پر ہی برقرار رکھا گیا۔ میرا دل اپنے شہر اپنے لوگوں کے لیے تڑپتا تھا میں نے یہ قربانی دی اور 2010میں کراچی آگئی۔ 

میری پوسٹنگ کلفٹن میں واقع ریجنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں ہوئی، میراوہاں ڈاکٹر کی معاون کے طورپرتقررہوا تھا، اب میں انسٹرکٹر بن چکی ہوں اور نرسنگ ٹریننگ دیتی ہوں۔ کراچی آکر میں نے اللہ کا شکر اداکیا کہ میں اپنوں کے درمیان آگئی۔‘‘ کراچی آنے کے بعد بھی آپ کی سفری مشکلات قائم رہیں؟ اس سوال کے جواب میں حمیرا نے بتایا ’’سرجانی ٹائون سے کلفٹن تک کا سفر آسان نہ تھا۔ 

میں بسوں سے سفر کرتی تھی تقریباً دو گھنٹے کا سفر ہوتا کیونکہ سڑکوں کی تباہ کن حالت اور ٹریفک جام یہاں کے اہم مسائل ہیں۔ کبھی کبھی تو کئی کئی گھنٹے ٹریفک جام میں گزر جاتے شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچا آسان نہ تھا۔ میں صبح چھ بجے گھر سے نکلتی تھی اور ساڑھے آٹھ بجے انسٹی ٹیوٹ پہنچتی تھی،جبکہ اوقات کار صبح آٹھ بجے کے تھے۔ مجھے کبھی کبھی گھر سے نکلنے میں بھی دیر ہوجاتی ،کبھی بچے بیمار ہوتے ،کبھی ٹرانسپورٹ دیر سے ملتی ۔ گزشتہ برسوں میں سی این جی کا مسئلہ بھی بہت ہوگیا تھا،اس لیے بس میں پائیدان پر بھی جگہ نہ ملتی تھی۔ 

اتنا طویل سفر بسوں کے پائیدان پر کھڑے ہوکر مردوں کے درمیان طے کرنا پٹرتا ،کبھی کبھی میں سوچتی کہ ہمارے معاشرے کو کیا ہوگیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ خواتین کے احترام میں لوگ بسوں میں سیٹیں خالی کردیتے تھے۔ ایک طرف یا کونے میں ہوجاتے اور خواتین کو جگہ دے دیتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

بسوں میں خواتین کی سیٹوں تک مرد حضرات برا جمان ہوتے ہیں۔ باقی مرد گیٹ پر لٹک کر سفر کرتے ہیں۔ وہ عورتوں کے لیے بس تک رکوانا گوارا نہیں کرتے۔ مجھے اسٹاپ پر کھڑے کھڑے ہی گھنٹہ گزر جاتا اور سامنے سے مردوں سے بھری ہوئی بسیں گزرتی رہتیں اور خوش قسمتی سے جگہ مل بھی جاتی تو پائیدان کے اوپر مردوں کے درمیان بہت تکلیف دہ سفر ہوتا، دیر سے پہنچنے پر انسٹی ٹیوٹ میں بھی باتیں سننے کو ملتیں۔ 

واپسی پر بھی رات کے آٹھ یا نو بج جاتے۔سفر کی صعوبتوں سے بچنے کے لیے کچھ عرصے تک ہم کلفٹن میں ایک فلیٹ میں کرائے پر بھی رہے لیکن وہاں کی گردآلودہواکی وجہ سےمیری بیٹی کو شدید دمے کا اٹیک ہوگیا،سمجھ لیں لینے کے دینے پڑ گئے،لہذا ہم واپس سرجانی آگئے۔ میرے مزاج میں چڑ چڑاپن آگیا تھا۔ بچوں پر غصہ اتار دیتی ۔ 

مجھے اس اذیت سے نکالنے میں شوہر کا بڑا کردار ہے‘‘۔ انہوں نے کس طرح آپ کی مدد کی؟ حمیرا جبیںنے بتایا ’’ایک دن مجھے سے میرے شوہر کہنے لگے کہ ’’تم موٹر سائیکل چلانا شروع کردو‘‘ مجھے ان کی بات پر ہنسی آگئی۔ میں نے کہا ایسا مشورہ دیں جس پر عمل بھی ہوسکے، کہنے لگے میں سنجیدہ ہوں میں تمہیں موٹر سائیکل چلانا سیکھا دیتا ہوں اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ میں نے کہا میں نے تو کبھی سائیکل تک نہیں چلائی، موٹر سائیکل کیسے چلائوں گی؟ کہنے لگے میں سیکھادوں گا۔ اس طرح تمہارا وقت بھی بچے گا اور بسوں کی جھنجھٹ سے بھی نجات مل جائے گی۔ 

میں نے شوہر کے اس مشورے پر سوچنا شرو ع کیا، کہ ایک عورت ہوکر میں یہ کام کس طرح کرسکوں گی، میں نے شوہر سے کہا لوگ کیا کہیں گے؟ کہنے لگے کہ اگر لوگوں کی سوچ پر چلو گی تو کبھی کام یاب نہیں ہوسکو گی، میں تمہارے ساتھ ہوں کوئی تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ان کی موٹیویشن پر میں آج اس قابل ہوئی کہموٹر سائیکل چلا سکوں اور اپنے کام خود کرسکوں۔‘‘

موٹرسائیکل چلاتے ہوئے خوف محسوس نہیں ہوا؟ ہمارے سوال پر حمیراجبیں نے کہا، ’’شروع میں تو ظاہر بہت ڈر لگا اور میں دو چار مرتبہ بری طرح موٹر سائیکل سے گری بھی لیکن یہ سوچ کر کہ ’’گرتے ہیں شہہ سوار ہی میدان جنگ میں‘‘ میں نے ہمت نہیں ہاری، میرے لیے موٹر سائیکل کو توازن کرنا بہت مشکل تھا، وزنی ہونے کی وجہ سے مجھے مشکل ہوتی تھی۔ 

میرے شوہر نے کہا کہ تمہیں وزن اٹھانے کی عادت نہیں ہے تمہیں جیم جوائن کرنا چاہیے ،اس طرح ہم دونوں نے ہی جیم میں داخلہ لے لیا۔ کچھ عرصے تک میںوزن اٹھانے کی پریکٹس کرتی رہی، موٹر سائیکل کو سنبھالنا آسان نہ تھا۔ شروع میں تو کاندھوں میں بہت تکلیف ہوتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ میں توازن قائم کرنے میں کام یاب ہوگئی۔ میرے شوہر کہتے کہ ابھی تمہیں موٹر سائیکل بھاری لگ رہی ہے، اگر روز چلائو گی تو عادی ہوجائو گی۔ انہوں نے بہت ہمت دلائی۔ میری والدہ راضی نہیں تھیں ،وہ ڈرتی تھیں کہ خدانخواستہ کوئی حادثہ نہ ہوجائے۔ وہ کہتیں کہ یہ خطرناک سواری ہے۔ 

ان کے خوف کو دیکھتے ہوئے میرے شوہر نے میری موٹر سائیکل میں دو چھوٹے ایکسٹرا وہیل، دائیں اور بائیں لگادئیے تاکہ سواری محفوظ رہے اور دوسری گاڑیوں سے فاصلہ بھی رہے۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ میں اب بچوں کو ساتھ بٹھا کر بھی سفر کرلیتی ہوں۔‘‘اس سوال کے جواب میں کہ جب آپ موٹر سائیکل لے کر سڑک پر نکلتی ہیں تو لوگوں کا رد عمل کیا ہوتا ہے، حمیرا کا کہنا تھا کہ شروع میں مجھے بہت عجیب لگا اور جھجھک بھی محسوس ہوئی میرے شوہر نے کہا اگر اتنا سوچو گی تو آگے نہیں بڑھ سکو گی یہ سوچو کہ تم نے سفر کے لیے کتنی تکلیفیں اٹھائی ہیں۔ 

ہمیشہ یہ بات دماغ میں رکھو کہ ’’آنکھیں صرف تمہاری ہیں، باقی سب اندھے ہیں‘‘ لہٰذا میں یہ سوچ کر موٹر سائیکل لے کر سڑک پر آتی ہوں کہ جب میں بسوں کے دروازے پر مردوں کے درمیان لٹک کر سفر کرتی تھی ان کے غلط جملے سنتی تھی تب کوئی کیوں اعتراض نہیں کرتا تھا یا مذاق نہیں بناتا تھا،سب نے یہی سوچ لیا کہ عورت کا یہی مقام ہے دھکے کھاتی رہے، بسوں میںلٹک کر سفر کرے، ایک بس کے لیے گھنٹوں اسٹاپ پر کھڑی ہوکر انتظار کرے ،اس لیے اب میں یہ نہیں سوچتی کہ سڑک پر لوگ میرا مزاق بنارہےہیں۔موٹر سائیکل مردانہ سواری نہیں،یہ عورتوں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی مروں کے لیے۔ 

اپنے مسائل حل کرنے کے لیے ہمیں راہ نکالنی ہی پڑتی ہے۔ اب میرا وقت بچتا ہے جلدی گھر پہنچنے سے بچوں کی دیکھ بھال میں بھی کوتاہی نہیں ہوتی ،گھر کا سودا سلف بھی میں راستے سے ہی لے جاتی ہوں، بچوں کی فرمائش بھی باآسانی پوری ہوجاتی ہیں۔ کم وسائل میں ہم اپنے لیے راہیں خود ہی نکال سکتے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین