• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
4 اپریل 1979 کو مقبول راہنما ذولفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا گیا

خصوصی رپورٹ: فاروق اقدس

قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی 39ویں برسی آج ملک بھر میں عقیدت واحترام سے منائی جارہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے زیر اہتمام مختلف تقاریب ہوں گی۔ جس میں بھٹو کی سحر انگیز شخصیت اور جمہوریت کے لیے اُن کی خدمات پر روشنی ڈالی جائے گی۔ راولپنڈی میں پھانسی گھاٹ سمیت مختلف مقامات پر قرآن خوانی کی محافل ہونگی۔ سب سے بڑی تقریب گڑھی خدا بخش میں ہوگی۔ برسی میں شرکت کیلئے ملک بھر سے جیالوں کے قافلے تقریب میں شرکت کریں گے۔

تاریخ کے اوراق میں بھٹو کا حوالہ کسی قوم یا قبیلے سے نہیں بلکہ بھارت کے ضلع حصار میں اس نام سے ایک گاؤں تھا جو اب بھی دریائے سرسوتی کے کنارے آباد ہے۔ اس دریا کے خشک ہونے کے باعث جب وہاں قحط پڑا تو برسہا برس سے آباد وہاں کے مکینوں نے نقل مکانی کی اور لاڑکانہ میں آباد ہوئے ۔ 

تاہم بھٹو گاؤں کی نسبت سے بھٹو خاندان بھٹو کہلایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیدائش پانچ جنوری 1928 کو لاڑکانہ میں ہی ہوئی جو سرشاہنواز کے تیسرے بیٹے تھے ۔ جنہیں حکومت برطانیہ نے سرکا خطاب دیاتھا۔ کیونکہ سیاست ہند میں اُنہیں ایک اہم حیثیت اور بڑا مقام حاصل تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے خاندانی پس منظر ، حسب نسب اپنی اعلیٰ تعلیم و تربیت اور پھر بعد میں عوام کی پسندیدگی ، مقبولیت اور بین الاقوامی سطح پر پذیرائی پر بھی بڑا زغم تھا جو ایک فطری سے بات تھی اور یہی وجہ تھی کہ اُن کے ناقدین اُنہیں قدرے خود سر، انا پرست اور فیصلوں میں عدم مشاورت کرنے والی شخصیت بھی قرار دیتے تھے ۔ اور اُن کی غیر فطری موت کو انہی عوامل کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں ۔ اس حوالے سے یہ واقعہ بھی بر محل ہوگا کہ جو ریکارڈ پر ہے ۔ 

جنرل ضیاء الحق کے بعض رفقا اُنہیں یہ مشورے دے رہے تھے کہ بھٹو کو پھانسی دینے کی بجائے اُن سے رحم کی اپیل کراکے اُن سے ضمانتیں حاصل کرنے کے بعد بیرون ملک جانے پر آمادہ کرلیا جائے تو یہ زیادہ مناسب فیصلہ ہوگا لیکن جواب میں جنرل ضیاء الحق بھٹو صاحب کی اس گفتگو کا حوالہ دیا کرتے تھے جس میں وہ اپنی نجی محفلوں میں جرنیلوں کو الٹالٹکانے والی باتیں کیا کرتے تھے ۔ بہر حال ایک آخری کوشش کے طور پر ایک اعلیٰ افسر کو جیل میں بھٹو صاحب کے پاس بھیجا گیا۔ اُس وقت بھٹو صاحب کی کیفیات خاصی خراب تھیں ، مذکورہ افسر نے بھٹو صاحب کے سامنے رحم کی اپیل کی دستاویزات رکھیں اور اُنہیں فوجی حکومت کی پیشکش کو ’’اشارتاً‘‘ بیان کرتے ہوئے دستاویزات پر دستخط کرنے کے لیے قائل کیا۔ مذکورہ افسر کے مطابق بھٹو صاحب نے دستاویزات پر نگاہ ڈالے بغیر مجھ سے پوچھا ۔ 

تم جانتے ہو میں کس باپ کا بیٹا ہوں ۔ تو میں نے فوراً کہا جی سر ۔ آپ سر شاہنوازکے بیٹے ہیں ۔ پھر انہوں نے کہا کہ ۔ کیا تمہیں ضیاء الحق کے باپ کا نام معلوم ہے ؟ میری خاموشی پر انہوں نے کہا کہ ضیاء الحق اور مجھ میں بہت فرق ہے ۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ سر شاہنواز کا بیٹا ایک فوجی جنرل سے رحم کی اپیل کرے گا۔ ہر گز نہیں ، ہر گز نہیں۔۔۔ اور بات ختم ہوگئی۔ 

تاہم اُس وقت کی تمام صورتحال سے آگہی رکھنے اور معاملات سے متعلق شخصیات کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو اپنی زندگی کے لئے معافی مانگ لیتے اپیل کر دیتے تو پھر بھی جنرل ضیاء الحق کسی صورت بھی انہیں معاف نہیں کرتے اور معافی مانگ کر بھٹو صاحب کو تاریخ اور ان کے مخالفین ایک بزدل سیاستدان قرار دیتے۔ 

در حقیقت جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کو ختم کرنے کا فیصلہ ایک خوف کے عالم میں کیا۔ یہ خوف کیا تھا اس کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب بھٹو صاحب کو معزولی کے بعد پہلی مرتبہ مری سے راولپنڈی لایا گیا اور پھر وہ لاہور گئے تو ان کے شاندار استقبال کے لئے وہاں جمع ہونے والے لوگوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی کئی زیادہ تھی جو انتہائی پر جوش تھے اور عینی شاہد بتاتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے کارکنوں کا جو واقعی جیالے تھے اگر بھٹو صاحب حکم کرتے کہ’’ مجھے ایک آمر سے پناہ دو تو یہ کارکن انہیں حصار میں لے لیتے اور منظر بھی بدل جاتا اور تاریخ بھی‘‘۔ ضیاء الحق نے صورتحال کو بھانپ لیا تھا اور وہ سمجھ گیا تھا کہ اگر میں نے بھٹو کو زندگی بخش دی تو میری زندگی کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی اسی خوف کے عالم میں جنرل ضیاء الحق نے ہر صورت میں بھٹو صاحب کو تختہ دار پر چڑھانے کا فیصلہ کیا۔ 

یہ بات بھی ریکارڈ سے ثابت ہوچکی ہے کہ بھٹو صاحب کو تین اور چار اپریل کی درمیانی شب لگ بھگ دو بجے پھانسی دی گئی یہ ایک غیر معمولی بات تھی کیونکہ پھانسی علی الصبح دی جاتی ہے اور یہ عمل انتہائی خاموشی اور رازداری کے انداز میں انجام دیا گیا۔اتنی رازداری سے بھٹو صاحب کو پھانسی دیئے جانے کا علم محض چند لوگوں کو ہی تھا اور ان کے بیرونی رابطے منقطع کر کے باہر جانے کے تمام راستوں پر بھی سخت پہرا تھا احکامات تھے کہ جب تک اجازت نہ دی جائے جیل میں کسی قسم کی بھی نقل و حرکت نہیں ہوگی۔ رات دو بجے پھانسی دینے کا مقصد یہ تھا کہ صبح ہونے سے پہلے یہ عمل مکمل ہوجائے اور ڈیڈ باڈی وہاں سے روانہ کر دی جائے۔ 

انتظامیہ کے اعلیٰ حکام اور جیل کے اعلیٰ افسران کو ایک دو کو چھوڑ کر جنکی اس عمل میں موجودگی لازمی تھی بھٹو صاحب کو پھانسی دیئے جانے کے بارے میں بھی اس علم ہوا جب صبح سات بجے ان کا ’’ڈیتھ وارنٹ‘‘ جاری ہوا۔ انتظامیہ اور جیل حکام اس کے باوجود اس خبر پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں تھے ان کا خیال تھا کہ یہ سب ڈرامہ ہے جو بھٹو صاحب کو خوفزدہ کرنے کے لئے رچایا جارہا ہے۔ 

انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کا خیال تھا کہ شاید بھٹو صاحب کو میانوالی جیل منتقل کیا جارہا ہے اور انہیں وہاں پھانسی دی جائے گی کیونکہ راولپنڈی میں یہ خبر پھیلنے سے ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ فوری طور پر پہنچ جائے گا اور پھر کارکنوں کی طرف سے فوری اور کسی جذباتی رد عمل کا بھی خطرہ تھا۔ 

پھر اس وقت صرف پاکستان پیپلزپارٹی میں ہی نہیں بلکہ دیگر حلقوں میں بھی ایسی باتیں ہورہی تھیں کہ یاسر عرفات اور قذافی سمیت اسلامی دنیا کے اہم لیڈر جو بھٹو صاحب سے ذاتی تعلقات رکھتے تھے وہ عین موقع پر ان کی رہائی کے لئے کوئی بڑا اقدام کر سکتے ہیں افواہیں گرم تھیں قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں جن میں یہ بھی کہا جارہا تھا کہ رات کی تاریکی میں کسی اسلامی ملک کا طیارہ جیل سے بھٹو صاحب کو لیکر پرواز کر جائے گا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا اور بھٹو صاحب کو طے شدہ منصوبے کے تحت تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔

یہ سوال بار بار ہوتا تھا کہ مختلف مسلم ممالک کے سربراہوں نے جنرل ضیاء الحق سے بار بار بھٹو صاحب کی جاں بخشی کے لئے اپیلیں کیں۔ جنرل ضیاء الحق پر اپنا ذاتی اثرو رسوخ بھی استعمال کیا۔ 

یہ یقین دھانی بھی کرائی کہ ہم بھٹو کو اپنے پاس پناہ دیتے ہیں وہ آپ کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے لیکن جنرل ضیاء کی طرف سے انکار ناقابل فہم تھا۔ اس حوالے سے بین الاقوامی شہرت یافتہ لکھاری اوربائیں بازو کی تحریکوں کے حوالے سے معروف طارق علی کا ایک انٹرویو کا حوالہ قابل ذکر ہے۔

1985 میں انہیں برطانوی نشریاتی ادارے نے بھٹو حکومت ختم کئے جانے اور انہیں پھانسی دیئے جانے کے حوالے سے تین ڈرامے لکھنے کی پیشکش کی گئی تھی، انہوں نے یہ ڈرامے تحریر کیے اور بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ کو بھٹو صاحب کا کردار اور ضیاء محی الدین کو جنرل ضیاء الحق کا کردار کرنے کے لئے منتخب بھی کر لیا گیا کہ غیر متوقع طور پر ڈرامے کے سکرپٹ انتظامیہ کے اعلیٰ حکام نے منگا لیے جس کے بعد اس منصوبے پر خاموش ہوگئی۔ طارق علی اپنے انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ میرے استفسار پر مجھے بتایا گیا کہ مارک ٹیلی (معروف برطانوی صحافی) آپ سے ملنے کے لئے آرہے ہیں آپ ان سے بات کریں۔ میری مارک ٹیلی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے گفتگو کے دوران ایک موقع پر کہا کہ طارق تم نے اپنے سکرپٹ میں ایک جگہ برہنہ لفظوں میں تحریر کیا ہے کہ واشنگٹن کی رضا مندی اور اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی اجازت کے بغیر جنرل ضیاء الحق بھٹو کو پھانسی نہیں دے سکتے تھے۔ 

مارک ٹیلی کا کہنا تھا کہ بھٹو کی پھانسی کےو قت میں بھی پاکستان میں ہی تھا لیکن میں نے ایسی بات نہیں سنی جس پر میں نے اسے کہا کہ کیا تم نے اس حوالے سے امریکی سفارتخانے کے کسی باخبر سے رابطہ کیا تھا۔ 

میرے انکار پر اس نے بحث ختم کرنے کے لئے مطلب کی بات کی اور مجھ سے پوچھا کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ تم اپنے سکرپٹ میں سے یہ حصہ حذف کر دو کیونکہ امریکنز کا خیال ہے جنرل ضیاء الحق جس طرح ان کی مدد کر رہے ہیں اور بالخصوص افغانستان میں ان کے مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں واشنگٹن انہیں کسی طرح ناراض نہیں کرسکتا۔ 

تاہم میں نے انکار کرتے ہوئے اس موضوع کو ختم کر دیا۔ اس کے بعد طارق علی نے ان سکرپٹس کو کتابی شکل دی جو The Leapord and the Fox کے نام سے شائع ہوئی اس میں ذوالفقار علی بھٹو کو لیپرڈ کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ 

اپنے ایک انٹرویو میں طارق علی نے جنرل ضیاء الحق پر امریکی آشیرآباد کے حوالے سے یہ بھی کہا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کی عسکری تربیت کا بیشتر حصہ امریکہ میں گزرا اور پھر بحیثیت بریگیڈئیر ان کی تعیناتی بطور خاص اردن میں کی گئی جہاں انہوں نے مبینہ طور پر فلسطینیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی جسے وہ آج تک نہیں بھولے۔

یہ 3 اپریل کی شب تھی جب راولپنڈی کے اڈیالہ جیل میں ہر طرف موت کا ایک سکوت طاری تھا ۔ ایک پراسرار سی خاموشی جس میں ایک نئی تاریخ لکھی جانے کی تیاری ہورہی تھی ، ایک عہد جو ایک کربناک ماضی بننے والا تھا ۔ سوائے چند لوگوں کے کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ جب 4 اپریل کی صبح کا سورج نکلے گا تو کتنا بڑا چاند ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوچکا ہوگا۔اس موقع پر موجود عینی شاہد بہت کچھ دیکھنے والے اور پھر اُسے تحریر کرنے والے لکھتے ہیں ۔ 

بتاتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ رات کی تاریکی کائنات کی ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی تو جیل حکام دوبارہ مسٹر بھٹو کے پاس پہنچے ۔ سپرنٹنڈنٹ جیل نے ان سے کہا "آج رات آپ کو پھانسی دے دی جائے گی۔"مسٹر بھٹو منہ سے کچھ نہ بولے ٗ خاموشی سے ٹکٹکی باندھے سپرنٹنڈنٹ جیل کو گھورتے رہے ۔ 

ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی گھمبیر سنجیدگی دیکھی تو انہیں پہلی بار لمحہ بھر کے لیے محسوس ہوا کہ یہ خبر درست بھی ہوسکتی ہے تاہم اب بھی ان کا ردعمل یہی تھا کہ انہیں خوف زدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ڈاکٹر نے قاعدہ کے مطابق ان کاطبی معائنہ کیا اور حکام کو بتایا کہ مجرم کی صحت بالکل ٹھیک ہے ٗ اسے پھانسی دی جاسکتی ہے ۔سپرنٹنڈنٹ جیل اور دوسرے عہدے دار واپس جانے لگے تو مسٹربھٹو نے کہا مجھے شیو کا سامان فراہم کیاجائے ۔ 

انہوں نے کئی دن سے شیو نہیں کی تھی جس سے داڑھی کافی بڑھی ہوئی تھی ۔ مسٹربھٹو نے بڑھی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انگریز ی میں کہا کہ’’ میں اس داڑھی کے ساتھ نہیں مرنا چاہتا‘‘۔ انہوں نے یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ انہیں ایک جائے نماز اور تسبیح بھی فراہم کی جائے ۔

یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے اس طرح کی خواہش ظاہر کی ۔ ورنہ اس سے پہلے ایک موقع پر جب اخباروں میں یہ خبر چھپی کہ مسٹر بھٹو نماز پڑھنے لگے ہیں تو انہوں نے جیل حکام سے نہایت سختی کے ساتھ اس خبر کی تردید کرنے کے لیے کہا ۔ان کا خیال تھا کہ اس طرح یہ تاثر پیدا ہوگا کہ ان کے اعصاب جواب دے چکے ہیں اور ان میں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کی سکت باقی نہیں رہی ۔ اس وقت انہیں قرآن پاک کا ایک نسخہ بھی فراہم کیاگیا لیکن کسی نے انہیں ایک دن بھی اس کی تلاوت کرتے نہیں دیکھا۔ بہرکیف تمام مطلوبہ چیزیں انہیں فراہم کردی گئیں ۔ 

شیو بنائی پھر آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور کسی قدر مسکراتے ہوئے آہستہ سے بولے اب ٹھیک ہے ۔ مسٹربھٹو نے تسبیح اٹھالی لیکن کچھ پڑھنے یا ورد کرنے کے بجائے انہوں نے اسے اپنے گلے میں ڈال لیا ۔

آج پہلی رات ہے جب شام کے کھانے کے بعد مسٹر بھٹو نے کافی پی نہ سگار سلگایا ۔ حالانکہ یہ دونوں چیزیں ان کی کوٹھڑی میں موجود تھیں ۔ انہوں نے کھانا بھی معمول کی نسبت کم کھایا ۔ اور کھانے کے بعد چہل قدمی بھی نہیں کی۔وہ فورا فرش پر بچھے فو م کے گدے پر لیٹ جاتے ہیں ۔جب کوئی نگران ادھر سے گزرتا ہے وہ گردن گھما کر اسے دیکھتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بالکل نارمل ہیں ۔ 

شام کو جیل حکام نے جب کہا کہ وہ اپنی وصیت تیار کرلیں تو انہوں نے کاغذ اور قلم مانگا اور لکھنا شروع کردیا۔ دوصفحے لکھ چکے تو نہ جانے کیا خیال آیا اور انہوں نے کاغذپھاڑ دیئے پھر مشقتی سے کہا انہیں جلادو۔ شاید ایک بار پھر یہ خیال غالب آگیا تھا کہ ان کے ساتھ ڈرامہ کیاجارہاہے اور اب یہ تحریر لکھواکر ان کے اعصاب کی شکستگی کااشتہار دینامقصود ہے۔ 

تاہم جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا ٗان کے دل میں ایک بے نام سا خوف اور اندیشہ پیدا ہوتاجارہا تھا ۔ رات خاموش اور قدرے خنک تھی راولپنڈی میں ایک روز قبل بارش ہوئی تھی ۔ یہ اسی کی خنکی تھی جیل کی چاردیواری سے باہر خاموشی اور ویرانی کا راج تھا لیکن جیل کے اندر خلاف معمول رات کے اس وقت بھی غیر معمولی چہل پہل تھی ۔

جیل کے احاطے میں انتظامیہ، پولیس اور محکمہ جیل کے بے شماراعلی افسر موجود تھے اور پھانسی گھر کے انتظامات کابار بار جائزہ لیا جارہاتھا ۔ زنانہ احاطے سے پھانسی گھر تک پورے راستے میں تقریبا دو سو گیس لیمپ جلا کر رکھ دیئے گئے تاکہ اگر بجلی اچانک چلی بھی جائے تو کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ایک بج کر چودہ منٹ پر جیل کا ایک ذمہ دار افسر مسٹر بھٹو کی کوٹھڑی میں پہنچا اور انہیں بتایا کہ ان کے نہانے کے لیے گرم پانی تیار ہے وہ اٹھ کر غسل کرلیں ۔

مسٹر بھٹو نیم غنودگی کے عالم میں گدے پر لیٹے ہوئے تھے ٗ سنی ان سنی کرکے چپکے سے لیٹے رہے ۔ تاہم ان کے دل کی دھڑکنیں بے اختیار تیز ہورہی تھیں اور یہ وہ لمحہ تھا جب انہیں پہلی مرتبہ مکمل طور پر یقین ہوا کہ انکی زندگی کی گھڑیاں سچ مچ ختم ہونے والی ہیں اور اگلی صبح کا سورج دیکھنا انہیں نصیب نہیں ہوگا ۔ یہ سوچ کر ان کے اعصاب جواب دے گئے۔ ان پر سکتے کی سی حالت طاری ہوگئی ۔ 

دیکھنے والے ڈر گئے کہ کہیں ان کی زندگی کو کوئی نقصان نہ پہنچ گیا ہو۔ یا انہوں نے کوئی زہریلی چیز نہ کھالی ہو ۔ چنانچہ فوری طور پر ڈاکٹر کو بلوایا گیا ۔ڈاکٹر نے انہیں چیک کیا ۔ اسٹیتھ سکوپ سے دل کی دھڑکن چیک کی، آنکھوں کی پتلیوں کا جائزہ لیا اور بتایا کہ گھبرانے والی کوئی بات نہیں مسٹربھٹو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔

رات کے ڈیڑھ بجے جیل کے بڑے دروازے کے پاس والی کوٹھڑی کادروازہ کھلا اور کسی نے تارا مسیح کو آواز دی ، تارا اٹھو تمہارا کام شروع ہونے والا ہے ۔ تارا مسیح کوٹھڑی سے نکل کر پھانسی گھر کی طرف روانہ ہوا تو اسے پھانسی گھر کے چاروں طرف بے شمار لوگ مستعد کھڑے نظر آئے ۔

4 اپریل 1979 کو مقبول راہنما ذولفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا گیا
1972،ذوالفقار علی بھٹو شملہ میں اندرا گاندھی کے ہمراہ 

ان میں کئی وردیوں والے بھی تھے اور کئی وردیوں کے بغیر سفید کپڑوں میں بھی ۔ لمحہ بھر کے لیے اس کے چہرے پر سوچ اور فکر کے گہرے سائے لہرائے۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہوگیا ۔ اس نے ڈیڑھ انچ قطر کا رسہ پول سے باندھا ، اپنی مخصوص گرہ لگائی اور انہیں کھینچ کر دیکھ لیا کہ ٹھیک طرح سے کام کرتا ہے اس کام میں ایک اور جلاد نے بھی اس کی مدد کی ۔ 

پونے دو بجے سپرنٹنڈنٹ جیل نے مسٹر بھٹو کوموت کے وارنٹ کامتن پڑھ کر سنایا اب انہیں سو فیصد یقین کرنا پڑا کہ جیل حکام ان سے کوئی ڈرامہ نہیں کررہے، معاملہ واقعی ’’سیریس‘‘ ہے ۔ اس عالم میں ان کی حالت دیدنی تھی ۔ 

دل بے اختیار بیٹھا جارہا تھا۔ چند لمحے تصویرحیرت بنے وہ سپرنٹنڈنٹ جیل کامنہ تکتے رہے۔ پھر قوت ارادی سے کام لے کر انہوں نے اپنے حوصلے کو یکجا کیا اور آہستہ سے بولے ’’مجھے وصیت لکھنی ہے کاغذ چاہیئے‘‘ انہیں بتایا گیا کہ اب وصیت لکھنے کامرحلہ گزر چکا ہے ۔ شام کو انہوں نے وصیت لکھنے سے انکار کردیاتھا ۔ اب یہ انتظام ممکن نہیں ۔ پھانسی کے لیے دو بجے کاوقت مقرر تھا اور اب دیر ہوتی جارہی تھی۔ سپرنٹنڈنٹ جیل بلیک وارنٹ کامتن سنانے کے بعد انتظامات کا آخری جائزہ لینے کے لیے پھانسی گھر کی طرف چلے گئے ۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل ٗ بعض اعلی فوجی ور سول افسر اور مسٹر بھٹوموت کی کوٹھڑی میں رہے ۔ 

پھانسی پانے والے مجرموں کو عام طور پر چست قسم کامخصوص لباس پہنایا جاتاہے لیکن مسٹر بھٹو نے یہ لباس نہیں پہنا ۔ وہ شلوار قمیض میں ہی ملبوس رہے اور پاؤں میں چپل تھی ۔ انہوں نے نہانے سے بھی انکار کردیا ۔ ان کی ٹانگیں بے جان سی ہورہی تھیں اور ان میں کھڑا ہونے کی ہمت بھی نہیں رہی ۔ دیکھنے والوں کے لیے یہ ایک مایوس کن منظر تھا۔ سب ان سے بلند حوصلے اور مضبوط اعصاب کی توقع رکھتے تھے ۔ 

ڈپٹی سپرنٹنڈ نٹ جیل نے مسٹر بھٹو سے چند قرآنی آیات کے ورد کے لیے کہا .... مسٹر بھٹو خاموش رہے۔ اب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل نے ایک ہیڈ وارڈن اور چھ وارڈرن کو طلب کیا اور ان کی مدد سے مسٹر بھٹو کے دونوں ہاتھ پشت پر لے جاکر ایک رسی سے مضبوط باندھ دیئے گئے ۔ اس کے بعد دو وارڈنوں نے مسٹر بھٹو کو دائیں اور بائیں بازووں سے پکڑا اور انہیں تختہ دار کی طرف لے چلے ۔ مسٹر بھٹو میں چلنے کی ہمت نہیں تھی ٗ چند قدم کے بعد ہی ان کا سانس بری طر ح پھول گیا اور ٹانگیں جواب دے گئیں ۔ قریب تھا کہ وہ بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑتے ۔ 

اردگرد کھڑے وارڈنوں نے لپک کر تھام لیا ...... پتہ چلا مسٹر بھٹو صدمے سے نڈھال ہوگئے ہیں ۔ متعلقہ عملے نے انہیں سہارادے کر کھڑا رکھنے کی کوشش کی مگر بے سود ۔ ان کی ٹانگیں بالکل ہی بے جان ہوچکی تھیں ۔ایک سٹریچر منگوا کر انہیں اس پر ڈالا گیا اور دو آدمیوں نے سٹریچر اٹھالیا۔ مشکل یہ تھی کہ وہ کبھی دائیں طرف لڑھک جاتے تو کبھی بائیں طرف ۔ چنانچہ سٹریچر کو چاروں طرف سے پکڑا گیا اور یوں مسٹر بھٹو کو پھانسی کے تختے کی طرف لے جایاگیا ۔ سٹریچر اٹھا کر چلنے والوں کے ہونٹوں پر کلام اﷲ کے مقدس الفاظ تھے ۔

ساری جیل تلاوت قرآن پاک کی آواز سے گونج رہی تھی ۔تلاوت کلام الہی کرنے والے موت کے چبوترے کے گرد بھی کھڑے تھے کہ یہی جیل کادستور ہے ۔ پھانسی کے چبوترے کے پاس پہنچ کر (جہاں مسٹر بھٹو کو پھانسی دی جانی تھی)سٹریچر رکھ دیاگیا اور انہیں اٹھنے کے لیے کہاگیا ۔ مسٹر بھٹو بڑی مشکل سے اٹھ کر اپنے قدموں پر کھڑے ہوئے ۔

مسٹر بھٹو کو تختوں پر کھڑا کیا جاچکا تھا کہ انہوں نے خود کلامی کے انداز میں دھیرے سے کہا یہ تکلیف دیتا ہے ان کا اشارہ رسی کی طرف تھا جس سے ان کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے ۔تارہ مسیح لپک کر آگے بڑھا اور اس نے رسی ڈھیلی کردی ۔ گھڑی کی سوئی دو بجے سے آگے بڑھ چکی تھی۔ تارا مسیح نے ان کے چہرے پر سیاہ نقاب چڑھانے کے بعد پھندا ان کے گلے میں ڈال دیا ٗ دونوں پیروں کو ملا کر ستلی بھی باندھی جاچکی ٗ تارا مسیح تختوں سے اتر آیااور اب اس لمحے کا منتظر تھا کب سپرنٹنڈنٹ جیل ہاتھ کے اشارے سے اسے لیور کھینچنے کاحکم دیں گے ۔تختہ کھینچنے میں صرف چند ساعتیں باقی تھیں کہ مسٹر بھٹو نے انتہائی کمزور آواز میں کہا Finish it سپرنٹنڈنٹ جیل کی نظریں اپنی ریڈیم ڈائل گھڑی پر جمی تھیں ۔ یکایک انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور اٹھا ہوا ہاتھ تیزی سے نیچے گرالیا ۔ 

یہ اشارہ تھا لیور دبانے کا ۔ تارا مسیح کے مشاق ہاتھوں نے بڑی پھرتی سے لیور کھینچ دیا ۔ دونوں تختے ایک آواز کے ساتھ اپنی جگہ چھوڑ چکے تھے اور بارہ فٹ گہرے کنویں میں اندر کی جانب کھل چکے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی ایک ذہین و فطین انسان جس نے اپنی طرز کے ایک نئے عہد کی بنیاد رکھی ...... اپنے پورے عہد اور اپنی افتاد طبع کے ساتھ خاموشی سے موت کے اس اندھے کنویں میں جاگرا ۔اﷲ اکبر۔

بھٹو صاحب کو معزول کیے جانے کے بعد

جب جنرل ضیاء الحق نے مجھے آرمی ہاؤس طلب کیا اور انکی موجودگی میں کہا

بھٹو صاحب آئندہ بھی وزیراعظم ہونگے، تمہیں معلوم ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بعدیہ سٹارز لگانے کا اعزاز مجھے بھٹو صاحب نے دیا ہے

اور تم بھٹو صاحب کیلئے مشکلات پیدا کررہے ہو، پھر جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کو اپنا پرائیویٹ نمبر دیا

راولپنڈی کے سابق ڈپٹی کمشنر اور معروف بیوروکریٹ سعید مہدی کے انٹرویو سے ایک اقتباس

چار اپریل کی صبح نو بجے جنرل ضیاء الحق نے وزارت خارجہ میں ایک کانفرنس میں شریک ہونا تھا بھٹو صاحب کو پھانسی دیئے جانے کی خبریں ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیل چکی تھیں اس لئے منتظمین کو یقین تھا کہ جنرل ضیاء الحق اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے لیکن یہ منظر سب کیلئے حیران کن تھا کہ ٹھیک 9 بجے جنرل ضیاء الحق وزارت خارجہ میں اپنی گاڑی سے اتر رہے تھے۔ 

گاڑی سے اتر کر کانفرنس روم کی طرف جاتے ہوئے انہوں نے اپنے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر ظفر سے انتہائی سرسری اور غیر اہم انداز سے پوچھا۔ بھٹو صاحب کو تو غالباً رات کو پھانسی دے دی گئی ہے؟ جس پر بریگیڈیئر ظفر نے کہا یس سر۔ اور جنرل ضیاء الحق کانفرنس روم میں چلے گئے۔ یہ بات معروف بیوروکریٹ سعید مہدی نے جیو ٹی وی کے مقبول پروگرام ’’جوابدہ‘‘ کے میزبان افتخار احمد سے انٹرویوکے دوران بتائی۔ 

یہ پروگرام سات نومبر 2010 کو پیش کیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب کو 4 اپریل کو جب پھانسی دی گئی اس وقت سعید مہدی راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر تھے اور راولپنڈی کی سینٹرل جیل جہاں بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی انتظامی طور پر سعید مہدی صاحب کے ہی کنٹرول میں تھی۔ وہ 1977 سے 1979 تک راولپنڈی اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر رہے جڑواں شہر اس وقت ایک ہی ضلع تھے۔

سعید مہدی بتاتے ہیں حکومت ختم کئے جانے کے بعد بھٹو صاحب کو مری منتقل کردیا گیا تھا ہمیں اطلاع ملی کہ بھٹو صاحب اسلام آباد آرہے ہیں۔ ہمیں احکامات ملے کہ وہ جہاں جانا چاہتے ہیں جانے دیں لیکن ان کا استقبال کہیں نہیں ہونا چاہئے کوئی اجتماع کا منظر ہرگز نہیں ہوگا اور دوسرے لفظوں میں کہا گیا کہ ان کی آمدورفت کرفیو کے سے ماحول میں ہونی چاہئے اس ہدایت کے پس منظر میں یہ خدشات تھے کہ ہوسکتا ہے کہ بھٹو صاحب راولپنڈی کے کسی گنجان آباد علاقے راجہ بازار، لیاقت روڈ یا ایسی کسی اور جگہ پر لوگوں میں گھل مل جائیں اور وہاں اجتماع اور تقریر کا ماحول نہ بن جائے۔ بھٹو صاحب اسلام آباد میں پیر آف مکھڈ کے گھر ٹھہرے تھے۔ 

ہمیں اطلاع ملی کہ وہ اسلام آباد سے راولپنڈی آرہے ہیں تو حسب حکم تمام انتظامات کئے گئے لیکن بھٹو صاحب کی گاڑی راولپنڈی میں آرمی ہائوس کے باہر رک گئی وہ جنرل ضیاء الحق سے ملاقات چاہتے تھے ہنگامی طور پر جنرل ضیاء الحق کو اطلاع کی گئی تو اس وقت GHQ میں تھے تو پیغام ملا کہ انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھائیں جنرل صاحب پہنچ رہے ہیں۔ سعید مہدی صاحب بتاتے ہیں کہ کچھ دیر بعد جنرل صاحب کی طرف سے مجھے آرمی ہائوس میں طلب کیا گیا۔ میں فوری طور پر پہنچا تو ڈرائنگ روم میں جنرل صاحب اور بھٹو صاحب محو گفتگو تھے۔ مجھے دیکھتے ہی جنرل صاحب نے انتہائی برہمی سے بولے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب آپ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔ آپ ضلع کے ہلاکو خان ہیں یا چنگیز خان۔ 

یا حکومت کے سربراہ ہیں۔ میں نے کہا۔ سر میں تو گورنمنٹ سرونٹ ہوں اور جو میری ذمہ داریاں ہیں وہ انجام دے رہا ہوں۔ پھر جنرل صاحب نے بھٹو صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ آپ بھٹو صاحب کو جانتے ہیں ناں؟ میں نے کہا جی سر۔ یہ ہمارے وزیراعظم تھے۔ تو جنرل صاحب نے زیادہ زور دیتے ہوئے قدرے بلند میں کہا کہ تھے۔ اور آئندہ بھی ہوں گے۔ جنرل صاحب جو یونیفارم میں تھے انہوں نے اپنی یونیفارم پر آویزاں سٹارز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ۔ تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد یہ سٹارز لگانے کا اعزاز مجھے بھٹو صاحب نے دیا ہے اور آپ ان کیلئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ یہ عوامی لیڈر ہیں۔ عوام میں جائیں گے اور آپ نے ان محدود کردیا ہے۔ بھٹو صاحب جہاں جانا چاہتے ہیں ان کو جانے دیا جائے ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے اگر اب بھٹو صاحب کو اس حوالے سے کوئی شکایت ہوئی تو ایسا نہیں ہوگا۔ 

پھر بھٹو صاحب سے مخاطب ہوئے۔ بھٹو صاحب میں آپ کو ایک فون نمبر دے رہا ہوں (اس زمانے میں موبائل فون نہیں تھے اور بھٹو صاحب کو بغیر لائن کا نمبر دیا گیا) آپ جب چاہیں مجھے فون کرسکتے ہیں میں جہاں بھی ہوں گا ملک میں یا ملک سے باہر آپ سے رابطہ ہوجائے گا۔ پھر مجھے کہا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب آپ جاسکتے ہیں اور میں یہ سوچتا ہوا باہر آگیا کہ۔ پنجاب حکومت کی جانب سے ہمیں کچھ اور احکامات دیئے گئے ہیں اور جنرل صاحب کچھ اور حکم دے رہے ہیں میں اسی شش وپنج اور پریشانی کے عالم میں باہر پورچ میں اپنی گاڑی کا انتظار کر رہا تھا کہ جنرل ضیاء الحق بھٹو صاحب کو الوداع کہنے کیلئے باہر آگئے۔ 

انہوں نے بھٹو صاحب کی گاڑی کا دروازہ کھولا۔ انہیں سیلوٹ کیا اور گاڑی روانہ ہوگئے معاً ان کی ان کی نظر مجھ پر پڑی تو کہنے لگے۔ ڈپٹی صاحب آپ کی گاڑی نہیں آئی ابھی۔ میں نے کہا جی گاڑی آرہی ہے میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے پوچھ لیا۔ سر میرے لئے کیا حکم ہے؟ تو جنرل صاحب نے جواب دیا۔ یعنی جس طرح آپ کام کر رہے ہیں کرتے رہیں۔ آپ پنجاب گورنمنٹ کے ماتحت ہیں۔ ان کے احکامات پر عمل کریں یہ کہتے ہوئے وہ واپس ڈرائنگ روم میں چلے گئے۔

بھٹو کی شہادت، اُن کا عدالتی قتل تھا، پیپلزپارٹی کا مؤقف

فیصلے کیلئے مجھ پر دباؤ تھا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ (مرحوم)

4 اپریل 1979 کو مقبول راہنما ذولفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا گیا

پاکستان پیپلزپارٹی کے راہنما اور پارٹی سے وابستگی رکھنے والے قانون دان ابتدا سے ہی یہ مؤقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ ’’بھٹو کی شہادت اُن کا عدالتی قتل تھا‘‘ پھر ایسا ہی مؤقف اُس وقت بین الاقوامی میڈیا میں بھی دیکھنے، سننے اور پڑھنے میں آیا۔ تاہم اس حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے والے سپریم کورٹ بینچ کے سب سے جونیئر رکن ڈاکٹر نسیم حسن شاہ جنہیں بھٹو صاحب نے اپنی حکومت کے خاتمے سے تقریباً دو ماہ قبل 18 مئی 1974 کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا تھا انہوں نے بھٹو صاحب کی سزا کے خلاف کی جانے والی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے سزا کو برقرار رکھا۔ 

یاد رہے کہ اس کیس میں سپریم کورٹ کے سات ججز تھے جن میں سے تین نے بھٹو صاحب کو سزا دینے کے فیصلے سے اختلاف کیا اور چار نے سزا برقرار رکھنے کی حمایت کی جن میں نسیم حسن شاہ بھی شامل تھے۔ تاہم بعد میں نسیم حسن شاہ نے اپنے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں اُن پر دباؤ تھا۔ نسیم حسن شاہ طویل علالت کے بعد 86 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کرگئے تھے اور اُن کے انتقال کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کی سزا دینے والے تمام ججز دینا سے رخصت ہوگئے۔


تازہ ترین
تازہ ترین