اسلام آباد(عثمان منظور) قومی صحت خدمات‘ قواعد اور رابطہ کی وزارت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے پرزور سفارش کی ہے کہ وہ کروڑوں پاکستانیوں کی قیمت پر تمباکو مصنوعات پر ٹیکسوں میں کمی کی پالیسی پر عمل نہ کرے‘ وزارت نے ایف بی آر سے درخواست کی ہے کہ وہ گزشتہ سال تمباکو مصنوعات پر ٹیکسوں کے حوالے سے متعارف کرائی گئی عجیب اور پیچیدہ پالیسی سے دور رہے‘ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے حوالے سے اس پالیسی کے تحت ٹیکسوں کی تیسری قسم متعارف کرائی گئی جس کے نتیجے میں ٹیکسوں میں کمی سے سگریٹوں کی قیمتیں غیر معمولی طور پر کم ہوئیں اور اس کے استعمال میں اضافہ دیکھا گیا ہے ۔ وزارت نے ایف بی آر کو بھیجے گئے مراسلے میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق جولائی سے اکتوبر2017ء کے درمیان سگریٹ کی پیداوارمیں 71 فیصد شرح نمو دیکھی گئی اور اسے مقامی طور پر کھپنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اڑھائی کروڑ سے زائد تمباکو کے صارفین ہیں جن میں ایک کروڑ سگریٹ نوش ہیں جس کے نتیجے میں تمباکو کے استعمال سے ہر سال ایک لاکھ سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور تقریباً 1200 نوجوان روزانہ سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں ۔خاص طور پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سگریٹوں پر ٹیکسوں میں کمی سے سگریٹوں کا استعمال غیر معمولی حد تک بڑھا ہے۔ پاکستان عالمی تنظیم صحت (ڈبلیو ایچ او) کے فریم ورک کنونشن پر دستخط کر چکا ہے جہاں درجنوں ملک یہ عزم کرتے ہیں کہ وہ نان سموکرز کیلئے سگریٹ نوشی کی طرف آنا مشکل بنا دیں گے اور خاص طور پر لوگوں کی سگریٹ تک رسائی روکنے کے لئے ٹیکسوں میں بہت زیادہ اضافہ کر دیں گے مگر پاکستان میں رواں مالی سال کے دوران اس کے الٹ کیا گیا ہے۔سیکرٹری صحت خدمات کی طرف سے چیئرمین ایف بی آر کو لکھے گئے مراسلے میں وزارت نے بتایا ہے کہ قومی صحت خدمات کے بارے میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے 5 دسمبر 2017ء کو منعقدہ اجلاس میں سگریٹوں کی قیمتوں میں کمی کا سخت نوٹس لیا ہے اور سختی سے سفارش کی ہے کہ ایف بی آر اس پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ کمیٹی نے ایف بی آر کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ وہ تمباکو کمپنیوں کا تین سالہ آڈٹ کرے تاکہ جائزہ لیا جا سکے کہ کمپنیاں کسی قسم کی ٹیکس چوری میں تو ملوث نہیں اور یہ بھی سفارش کی ہے کہ تمباکو کمپنیوں کی ٹیکس چوری روکنے کیلئے ٹریکنگ اور ٹریسنگ کا نظام متعارف کرایا جائے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ تمباکو پر ٹیکسوں کا مقصد قیمتوں میں اضافے کو روکنا ہے جو تمباکو نوشی پر قابو پانے کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ محصولات میں اضافے کا بھی بڑا ذریعہ ہے‘ تمباکو پر ٹیکسوں میں اضافے سے ہیلتھ کیئر اخراجات میں کمی سے خطیر رقم بھی بچائی جا سکتی ہے ۔ ڈبلیو ایچ او کے ایک جائزے کے مطابق تمباکو کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافے سے کم اور متوسط آمدنی والے ملکوں میں اس کی کھپت میں 8 فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی ہے۔ وزارت صحت کی طرف سے ایف بی آر کو بتایا گیا ہے کہ 2017-18کے بجٹ سے قبل وزارت نے تجویز دی تھی کہ 20 سگریٹوں کی ڈبی پر 44 روپے ٹیکس لگایا جائے اور یہ تجویز پاکستان میں تمباکو مصنوعات ٹیکسوں کے حوالے سے ایف بی آر‘ عالمی بینک ‘ یونیورسٹی آف ٹورنٹو‘ جان ہاپکنز یونیورسٹی‘ شکاگو کی الینائس یونیورسٹی اور بیکن ہائوس نیشنل یونیورسٹی کے مشترکہ تحقیقاتی جائزے کی بنیاد پر دی گئی تھی۔ اس جائزے کے مطابق تمام سگریٹوں کی 20 سگریٹ والی ڈبی پر 44 روپے ٹیکس عائد کرنے سے سگریٹ نوشوں کی تعداد میں 13.2 فیصد کمی‘ محصولات میں 39.5 ارب روپے اضافے اور موجودہ سگریٹ نوشوں میں سگریٹ نوشی کے باعث قبل ازوقت ہلاکتوں میں ساڑھے 6 لاکھ کی کمی ہو سکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ساڑھے 25 لاکھ نوجوانوں کو سگریٹ نوشی کی طرف آنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ دریں اثناء اس وزارت نے ایف بی آر اور وزارت خزانہ سے یہ بھی درخواست کی ہے کہ تمباکو مصنوعات کی ناجائز تجارت پر قابو پانے کے لئے قانون پر عملدرآمد کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ سیکرٹری وزارت صحت نے واضح کہا کہ فنانس ایکٹ2017ء میں ایف ای ڈی میں 16 روپے کی شرح سے کمی کے ساتھ نئے سلیب کا اضافہ کیا گیا تھا‘ ایف بی آر کے مطابق ٹیکسوں کی تیسری قسم متعارف کرانے کا مقصد نان ڈیوٹی سگریٹ پر قابو پانا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ محصولات میں غیر معمولی اضافے کی بھی توقع تھی۔ ایف بی آر کی طرف سے کمیٹی کو بتایا گیا ہے تیسری قسم متعارف کرانے سے مجموعی سیلز ٹیکس اور قانونی سگریٹ انڈسٹری سے وفاقی ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں جولائی سے نومبر 2017ء کے درمیان 11 فیصد اضافہ ہوا اور محصولات 20,202 ملین سے بڑھ کر 22,623 ملین روپے ہوگئیں۔ خط میں مزید کہا گیا کہ وزارت نے جاری ٹیکس ڈھانچے سے ریونیو میں اضافے اور سگریٹوں کی پیداوار میں بڑھوتی کا جائزہ لیا ہے۔ ایف بی آر کے مطابق مالیاتی سال 2017-18ء کے پہلے 5 ماہ کے دوران سگریٹوں پر ٹیکس محصولات میں تقریباً 11 فیصد اضافہ ہوا جو 20,404 ملین سے بڑھ کر 22623 ملین روپے ہوگئے۔ اس کے مقابلے میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق جولائی سے اکتوبر 2017ء کے درمیان سگریٹ کی پیداوار 11.48 ارب سے بڑھ کر 19.66 ارب سگریٹ ہوگئی۔ یہ مقامی سگریٹ کی صنعت کی پیداوار میں تقریباً 71 فیصد کا اضافہ ہے۔اگر ہم یہ خیال کریں کہ سگریٹ کی پیداوار میں اضافے سے غیر قانونی ، نان پیڈ سگریٹوں کی مارکیٹ اور تمباکو مصنوعات کی غیر قانونی تجارت کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے تو پھر بھی مقامی سگریٹ کی صنعت میں شرح نمو 49 فیصد رہی ہے۔ یہ پیداوار مقامی طور پر ہوئی جس سے یقیناً ملک میں سگریٹ کی کھپت میں اضافہ ہوا کیونکہ یہ سگریٹ مقامی طور پر ہی فروخت ہوئے۔ اس کے نتیجے میں ناصرف ملک میں تمباکو نوشی سے اموات کی شرح میں اضافہ ہو گا بلکہ تمباکو سے متعلقہ ہیلتھ کیئر کے اخراجات بڑھ جائیں گے۔ اس تناظر میں سگریٹ کی قیمتوں میں کمی کی پالیسی پر نظر ثانی اور فنانس ایکٹ 2017ء سے تیسرا سلیب ختم کرنے کی درخواست کی گئی ہے تاکہ پاکستانی لوگوں کی زندگیاں بچائی جاسکیں ۔آخر میں کہا گیا ہے کہ تمبا کو مصنو عا ت کی غیر قانونی تجارت پر قابو پانے اور تمبا کوکمپنیوں کے لئے ٹریکنگ اور ٹریسنگ کے نظام پر بھی ترجیحی بنیادوں پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔