ڈاکٹر سعید احمدصدیقی
اسلام دنیا کے تمام مذاہب میں وہ واحد مذہب ہے،جس نے کسب حلال کے لیے محنت کو نہ صرف عظمت بخشی،بلکہ محنت کشوں کے حقوق متعین کیے۔اسلامی نظریۂ محنت کے تحت ہر فرد معاشی جدوجہد میں حصہ لینے کا ذمے دار ہے‘ اور ہر شخص ہر حلال اور جائز پیشہ اپناسکتا ہے۔
پیشوں کے انتخاب میں کوئی پابندی نہیں، سوائے ان کے جو شرعی طور پر ممنوع ہوں، ہر وہ شخص جو شرعی حدود میں رہ کر محنت کرتا ہے اسلام اسے عظمت عطا کرتا ہے۔
اسلام محنت اور محنت کشی کو سراہتے ہوئے محنت کشوں اور مزدوروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ محنت کا مقام اور محنت کرنے کی ترغیب کے حوالے سے ارشادات ربانی ملاحظہ ہوں۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا، جس کی اس نے کوشش کی ہو۔( سورۃ النجم)ایک مقام پر فرمایاگیا:’’ اور دنیا سے اپنا حصہ لینا نہ بھول۔ ( سورۃ القصص) نیز فرمایا گیا! ’’اور پھر جب نماز (جمعہ) ختم ہوجائے تو زمین میں پھیل جائو اور پھر اﷲ کا فضل یعنی رزق تلاش کرنے لگو‘‘۔(سورۃ الجمعہ) اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا۔‘‘(سورۃ النساء) ’’پس تم اﷲ کی بارگاہ سے رزق طلب کیا کرو اور اسی کی عبادت کیا کرو اور اسی کا شکر بجایا لایا کرو‘‘۔(سورۃ العنکبوت)
ہادی عالم ‘ نبی رحمت‘ سرکار دو عالمﷺ نے محنت کرنے والوں کو جو جاں فشانی سے رزق حلال کماتے ہیں،اﷲ کا دوست و محبوب قرار دیا ہے اور خود آپ ﷺ نے محنت کرنے والے ہاتھوں کو چوم کر تاقیامت انہیں عظمت عطا فرمائی اور محنت کشوں کے حقوق کو ان الفاظ سے سند عطا فرمائی’’مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو‘‘۔( بیہقی‘ شعب الایمان)
محنت کی عظمت سے متعلق آپ ﷺ کے چند ارشادات گرامی ملاحظہ ہوں۔٭’’رزق حلال کی تلاش فرض عبادت کے بعد سب سے بڑا فریضہ ہے‘‘۔ (طبرانی)٭’’رزق زمین کے پوشیدہ خزانوں میں تلاش کرو‘‘۔ ( طبرانی‘المعجم الاوسط)٭ ’’کسی شخص نے کوئی کھانا اس سے بہتر نہیں کھایا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے کماکر کھائے‘ اﷲ کے نبی حضرت دائودؑ اپنے ہاتھوں سے کما کر کھایا کرتے تھے‘‘ (الجامع الصحیح)٭ ’’بعض گناہ ایسے ہیں جنہیں سوائے رزق حلال اورطلب معیشت کے اور کوئی چیز نہیں دور کرتی‘‘۔(طبرانی)٭ ’’بے شک اﷲ محنت کرنے والے مومن کو محبوب رکھتا ہے‘‘۔(طبرانی)٭’’بہترین کمائی مزدور کی کمائی ہے بشرط یہ کہ کام خلوص اور خیرخواہی سے کرے‘‘۔ (دیلمی‘ الفردوس)٭’’فجر کی نماز سے لے کر طلوع شمس تک رزق کی جدوجہد کیے بغیر نیند نہ کرو‘‘۔(عسقلانی‘القول المسدود)
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ جاں فشانی‘ محنت و مشقت‘ سعی و کوشش کے بغیر کوئی بھی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی‘ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے محنت وسعی لازم ہے۔ اگر ہم اپنے ماضی پر روشنی ڈالیں، یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ آپﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں عرب کے بادیہ نشینوں نے محنت و جدوجہد کو اپنایا تو وہ صحرائے عرب سے اٹھ کر ایک عالم پر چھاگئے اور دنیا کے ہر شعبے میں چاہے وہ عبادات ہوں‘ معاملات ہوں‘ معیشت ہو یا معاشرت‘ سائنس ہو یا شعر وادب ،غرض اپنی محنت و جاںفشانی سے بحروبر مسخر کرلیے اور پوری دنیا میں ہدایت و علم کی روشنی پھیلانے کا ذریعہ بنے۔
آپ ﷺ کے فرامین اور عملی زندگی سے ہمیں عمل پیہم‘محنت و مشقت اور جان فشانی کی تلقین ملتی ہے۔آپ ﷺ نے بچپن میں بکریاں چرائیں‘ بعثت سے پہلے باقاعدہ تجارت کی اور تجارت کی غرض سے طویل اسفار بھی کیے۔
بیت اﷲ کی تعمیر میں حصہ لیا‘ رسول اکرم ﷺ نے ہجرت کے بعد مسجد قبا اور مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر میں حصہ لیا اور صحابہ ؓ کے ساتھ مزدوروں کی طرح کام کیا‘ غزوۂ احزاب کے موقع پر خندق کھودنے میں بہ نفس نفیس شریک ہوئے۔آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کا یہ پہلو تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہے کہ آپ ﷺ اپنے ہاتھوں سے کپڑوں میں پیوند لگا لیتے تھے۔آپ ﷺ اپنی جوتیوں کی خود مرمت فرمالیتے اور سیتے تھے۔
انبیائے کرام ؑ جہاں اﷲ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کی ذمے داریاں مکمل طور سے ادا فرماتے اور رسالت کی تبلیغ فرماتے وہاں دنیوی اعتبار سے بھی ان کی محنت‘ سعی اور کوشش کی واضح مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ چناںچہ سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کھیتی باڑی کرتے تھے۔
سیدنا نوح ؑ بڑھئی کا کام کرتے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کشتی بنائی۔سیدنا دائود ؑ لوہے کا کام کرتے تھے۔آپ ؑ لوہے سے زرہیں اور دیگر سامان جنگ بناتے تھے۔ سیدنا موسیٰؑ نے اجرت پر دس سال حضرت شعیب ؑ کے ہاں خدمت گزاری کی۔
حضرت ادریس ؑ کپڑے بنتے تھے۔ سیدنا حضرت زکریا ؑ کپڑے سیتے تھے۔ سیدنا حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام راج گیری کاکام جانتے تھے۔ باپ بیٹے نے مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی۔ سیدنا یعقوبؑ نے دس سال تک بکریاں چرائیں۔سرکار دو عالم ﷺ کے ساتھیوں نے بھی کبھی محنت سے جی نہیں چرایا اور کوئی بھی حلال پیشہ اپنانے میں عار نہ سمجھا، بلکہ اپنے عمل سے امت پر یہ ثابت کردیا کہ عزت و عظمت معاشی جدوجہد میں مضمر ہے۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے زمام اقتدارسنبھالنے کے بعد بھی کپڑوں کی گٹھری اپنی پیٹھ پر لادکر مدینے کے گرد ونواح میں کپڑا بیچا اور ضرورت مندوں کا کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیا۔ سیدنا حضرت عمر ؓ و حضرت عثمان ؓ تجارت کرتے تھے۔ حضرت سعد ؓ مدینے میں لوہار کا کام کرتے تھے‘ہتھوڑا چلاتے چلاتے حضرت سعد ؓ کے ہاتھ سیاہ اور کھردرے ہوگئے تھے۔
ایک دن جب نبی پاک ﷺ سے ہاتھ ملایا تو آپ ﷺ نے ہاتھوں کی سختی کی وجہ دریافت فرمائی تو حضرت سعد ؓ نے عرض کیا،اپنے اہل وعیال کے لیے روزی کماتا ہوں‘ اس لیے ہاتھوں کا یہ حال ہوا ہے تو رسول اﷲ ﷺ نے اپنے مبارک لبوں سے حضرت سعد ؓ کے ہاتھوں کو چوم لیا اور فرمایا: ’’یہی وہ ہاتھ ہیں جنہیں جہنم کی آگ کبھی نہیں چھوئے گی‘‘۔ (ابن اثیر)
اسلام نے سب سے پہلے محنت کشوں کے حقوق مقررفرمائے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ ان پر اتنا کام نہ لادو جو انہیں مغلوب کردے اور اگر ان پر بار ڈالو تو ان کی مدد و اعانت کرو‘‘۔ (امام بخاری‘ الجامع الصحیح)٭آپ ﷺ نے مزدوروں کے حقوق سے متعلق یہ مشہور عالم ہدایت فرمائی: ’’مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردیا کرو‘‘۔ (ابن ماجہ‘ السنن)٭آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ اور کام لینے میں اسے اتنی تکلیف نہ دی جائے جو کہ وہ برداشت نہ کرسکے‘‘۔ (مسلم‘ الصحیح)محنت کی عظمت اور محنت کشوں کے حقوق سے متعلق اسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔
اسلام نے محنت کی عظمت ہی کو دنیا اور آخرت کی ترقی اور کامیابی کا ذریعہ قرار دیا اور سب سے زیادہ محنت کشوں کے حقوق کی اسلام نے پاس داری کی ہے۔ آئیے ہم سب مل کر وطن عزیز کی تعمیر کریں‘ محنت سے جی نہ چرائیں،ایک دوسری کے حقوق کی پاس داری کریں اور پھر سے اسلامی تعلیمات اور اسلامی روایات کو زندہ کریں۔