کراچی (اعظم علی/بابر علی اعوان) والدین اور بھائی کے قتل کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے حکم پر بری ہونے والی اسماء نواب کا رہائی کے بعد کہنا ہے کہ میرے والدین کا قتل اور مجھ پر 20سال ظلم معاشرے اور موجودہ نظام نے کیا ہے۔ میں ایک غریب اور تنہا عورت ہوں میں پورے پولیس کے محکمے سے دشمنی نہیں لے سکتی۔مجسٹریٹ مقبول احمد میمن اور تفتیشی افسر ممریز خان درانی نے متعدد بار کہا کہ قتل تسلیم کر لو تمہیں جیل سے نکا ل لیں گے ۔ان دونوں افرادکی بد دیانتی اور ناانصافی کی وجہ سے میں نے اپنی زندگی کے20 قیمتی سال جیل میں گزارے، جیل میں غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندے ودیگر لوگ آتے تھے اور قیدی خواتین کا مذاق اڑاتے۔ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے اسماء نواب کا کہناتھا کہ کم عمری میں جیل گئی باہر نکلی تو ایسا لگا کہ میں پھر پیدا ہوئی ہوں پولیس نے تو مجھے والدین کا قاتل قرار دے دیا مگر جب تک زندہ ہوں قاتلوں کو تلاش کروں گی۔ تعلیم حاصل کروں گی اور کام کرکے اپنی زندگی گزاروں گی ۔ ایک سوال کے جواب میں اسماء کا کہنا تھا کہ دنیا مجھ سے کیا نفرت کرے گی کاش بتا سکتی کہ مجھے معاشرے سے کتنی نفرت ہے، میں نے 20سال جیل میں رہ کر زندہ رہنا سیکھ لیا ہے۔ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئےایسا لگ رہاتھا جیسے وہ ایک عمر رسیدہ خاتون ہیں گہری سوچ اسماء کے چہرے پر عیاں تھی ان کا کہنا تھا کہ ایسالگ رہا ہے جیسے ہر شے ، عمارت، سڑک اورانسان کو پہلی مرتبہ دیکھ رہی ہوں جیل جانے سے قبل کی زندگی تقریباً بھول چکی ہوں والدین کے قتل پر مجھ سے سوال کرنے والا ہر شخص مجھے قاتل لگتا ہے یہ معاشرے اور ملک کے نظام کا کام تھا کہ وہ میرے والدین اور بھائی کے قاتلوں کو ڈھونڈتی مگر مجھے ہی قاتل بنا کر جان چھڑائی ایک سوال کے جواب میں اسماء کا کہنا تھا جیل جانے کے بعد کچھ ہی عرصے میں مجھے ایسالگتا تھا کہ یہی زندگی ہے جیل میں رہ کر سب کچھ سیکھ لیا اچھے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں ایک طرف پولیس کا رویہ ہے تو دوسری طرف جاویدچھتاری جیسے انسان شادی کے بارے میں کئے گئے سوال پر اسماء کا کہنا تھا ان کے زہن کے کسی جگہ بھی یہ بات نہیں اور نہ ہی سوچنا چاہتی ہوں مجھے تو پڑھنا اچھا لگتا ہے علم انسانی طاقت بڑھاتا ہے جبکہ معاشرہ اپنے رویئے سے اور سوالات سے ذہنی تشدد کرتا ہے اسماء نواب کا کہنا تھا ان کے لئے نئ زندگی شروع ہوئی ہے ماضی کو دفن کرنا چاہتی ہوں۔ والدین اور بھائی کے قتل کے الزام میں 20برس قید کاٹنے کے بعد بری ہونے والی اسماء نواب نے کہا ہے کہ مجھ پر جو الزام لگایا گیا اسے میں نے کبھی تسلیم نہیں کیا حالانکہ مجسٹریٹ مقبول احمد میمن اور تفتیشی افسر ممریز خان درانی نے متعدد بار کہا کہ قتل تسلیم کر لو تمہیں جیل سے نکا ل لیں گے ۔ان دونوں افرادکی بد دیانتی اور ناانصافی کی وجہ سے میں نے اپنی زندگی کے20 قیمتی سال جیل میں گزارے ۔ میں ایک غریب اور تنہا عورت ہوں میں پورے پولیس کے محکمے سے دشمنی نہیں لے سکتی لیکن اگر وسائل،حالات اور واقعات اجازت دیں تو میں پولیس کے خلاف میلیشئس پروسیکیوشن کا کیس کروں گی ۔اسماء نواب نے کہا کہ میرے کیس میں حقائق و واقعات سے ہٹ کر رپورٹنگ کی گئی۔اس دن میں جب کالج سے واپس آئی تو دروازہ کھلا ہوا تھا اندر گئی تو ڈیڈ باڈیز موجود تھیں جس پر میری خالہ نے مجھ پر الزام عائد کر دیا جبکہ تھانے والوں نے فوراً ایف آئی آر درج کر کے مجھے گرفتار کر لیا ۔ اس پر مجسٹریٹ مقبول احمد میمن نے مجھ پر دباؤ ڈالا اور کہا کہ تم نے ہی جرم کیا ہے اب جیل جانا پڑے گا۔مجسٹریٹ نے ایک ایف آئی آر پر پکڑے گئے مشکوک لوگوں پر جرم عائد کر دی اور تحقیقات نہیں کیں ۔انہوں نے کہا کہ جیل میں غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندے ودیگر لوگ آتے تھے اور قیدی خواتین کا مذاق اڑاتے ان کے نزدیک جیل ایک چڑیا گھر تھا جہاں وہ ہمیں ہمدردی دکھا کر قصے سنتے پھر آخر میں مذاق اڑاتے اور کہتے کہ تم نے کچھ کیا ہوگا تب ہی یہاں ہو اب بس اللہ سے دعا کرو ۔جس سے ہماری مذید دل آزاری ہوتی ۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے جیل میں 50فیصد خواتین ایسی دیکھیں جو بے قصور تھیں لیکن انہیں بند کیا گیا تھا۔ ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ۔ میں ایک تنظیم بنا کر ان خواتین کی مدد کروں گی ،ان کی آواز ان کے گھروالوں تک پہنچاؤں گی اورانصاف دلاؤں گی۔ انہوں نے کہا کہ میرا اپنے گھر واپس جانے کا ارادہ ہے اور میں اپنی تعلیم جاری رکھوں گی ۔میں چاہتی ہوں کہ جو میرے ساتھ ہوا ایسا کسی اور کے ساتھ نہ ہو ۔ انہوں نے حکومت سے درخواست کی کہ ان کی مدد کی جائے۔