• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نوجوان نسل میں بے چینی کیوں؟؟

 پاکستان کی آبادی کا تقریباََ ساٹھ فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جہاں یہ اعدادو شمار کسی نعمت سے کم نہیں وہیں کسی بھی ریاست یا حکومت کے لیے چیلنج سے کم نہیں۔۔۔ آج جس موضوع پر تحریر کے لیے قلم اٹھایا ہے وہ ہے نوجوانوں میں پھیلتی انگزائٹی یا بے چینی ۔۔یہ بیماری کیوں پھیل رہی ہے؟اسے کیسے دور کیا جائے؟؟ اور اس کا شکار بڑی تعداد میں نوجوان ہی کیوں؟ 

اس حوالے سے جب تحریر کے لیے مواد کی تلاش شروع کی تو اس ریسرچ پر اطمینان اور مسرت محسوس کی کہ ہم اپنے ملک کا دیگر ممالک سے موازنہ کرنے میں لگے رہتے ہیں جبکہ جہاں مختلف مسائل پر ہم روشنی ڈالتے ہیں ۔

ان کے لئے اگر درست زاویہ سے کام کیا جائے تو نہ صرف ہمارا ملک قرضوں سے نجات حاصل کرسکتا ہے بلکہ نئی نسل کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آنے والے دور میں پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک کی آبادی کا تقریباََ 60 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جو کہ کسی بھی ملک کے مستقبل کے لیے نعمت سے کم نہیں۔ 

کسی بھی ملک کی ترقی میں نوجوان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ہمارے اس سرمایے میں ان دنوں بے چینی اور ڈپریشن کی شرح میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ، ماہرین نفسیات کی حالیہ تحقیق کے مطابق نوجوان لڑکیوں لڑکوں میں بے چینی اور ڈپریشن میں اضافہ دیکھا جارہا ہے عمر کا پندرہ سے پچیس سال کا عرصہ انسانی زندگی کا مشکل اور حساس ترین دور تصور کیا جاتاہے۔ اس عرصے میں بہت سے نوجوان ایسے رویے اور عادات اپنالیتے ہیں جو عمر بھر ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اب بات کرلیتے ہیں سائنسی اعتبار سے بے چینی یا انگزائٹی کیوں ہوتی ہے ؟

بے چینی یا انگزائٹی کیوں؟؟؟

انگریزی کے لفظ انزائیر کے لیے اردو میں بے چینی، پریشانی یا گھبراہٹ جیسی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہے۔ جبکہ غیر یقینی ، فکرمندی کی کیفیت یا کچھ ناخوشگوار واقعہ ہونے کی تشویش کو انزائیز یا بے چینی کہا جاتا ہے۔ اب ذرا نوجوانوں میں بے چینی میں اضافے کی وجہ پر روشنی ڈالی جائے تو پاکستان میں اب تک نوجوانوں کے لیے کوئی ٹھوس پالیسی بنائی ہی نہیں جاسکی اور نہ کوئی پروگرام متعارف کروایا جاسکا ہے جبکہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو نوجوان نسل کو درپیش مسائل کے حل پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ، حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں جوان لڑکوں میں تعلیم کی شرح تقریباََ 50 فیصد اور لڑکیوں میں 40فیصد ہے، آج کل کے دور میں جہاں اے لیول ، او لیول اور کیمبرج سسٹم کے چرچے عام ہیں اور بڑے بڑے نامور اسکول، کالجزاور یونیورسٹیز کی بھاری بھرکم فیسیں ادا کرنا ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل کابڑاحصہ کم عمری سے ہی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور مسائل سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہوجاتا ہے۔

حکومتی غیر سنجیدہ پالیسیوں کی وجہ سے غربت کے باعث چائلڈ لیبر ملک کی تاریخ کا ہمیشہ سے ہی سیاہ پہلو رہا ہے اور آج بھی موجود ہے۔ معاشی مسائل اور دیگر ذمہ داریاں نوجوان نسل میں بچپن سے ہی بے چینی کا باعث بنتی ہیں، غربت کے جلدخاتمے اور معاشرے میں بہتر مقام حاصل کرنے کی خواہش روزگار تلاش کرنے پر مجبور کردیتی ہے اور یوں نوجوانوں کوتعلیم سے دوری اختیار کرنا پڑتی ہے۔اسی وجہ سے نوجوان اکثر بے چینی ، ذہنی الجھنوں اور گھبراہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں اور مسلسل اسکیفیت کے باعث ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ایسے کیسز میں اکثر نوجوانوں میں تبدیلی، ضدی چڑچڑاپن، عدم توجہی کا شکار والدین کی بچوں کے مسائل سے عدم آگہی بچوں اور نوجوانوں کو خودسر اور باغی بنا رہی ہے اور منفی رجحان بڑھنے جیسی علامات ان کی ذہنی کیفیات کو ظاہر کرتی ہیں۔

اگر اب بھی نوجوانوں کے مسائل کے حل کو سنجیدگی سے نہ لیاگیا تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں مزید بگاڑ ، بیروزگاری ،بے چینی ، غربت جیسے مسائل جنم لے سکتے ہیں اورمستقبل کے معمار نوجوان تاریک راہوں میں کھوسکتے ہیں، اس لئے ریاست اور حکومت کو چاہئے کہ نوجوانوں کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے فوری طورپر قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانے کے لیے حکمت عملی تیار کرے اور صرف اعلانات اور چند یوتھ اسکیموں تک اس سلسلے کو محدود نہ رکھے بلکہ بہترین مستقبل اور ملکی ترقی کے لیے اپنی نوجوان نسل کو صحیح سمت فراہم کرے اس سلسلے میں میڈیا کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی صرورت ہے اور تعلیم ، روزگارو دیگر سہولیات فراہم کرنے میں حکومت اپنا کردار ادا کرے تاکہ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی میں حقیقی معنوں میں کمی واقع ہو اور ہم اپنے ملک کے مستقبل کوروشن تا ب ناک بناسکیں۔ 

تازہ ترین