• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈگریاں پاتھ میں لیے جائیں کہاں

حمیرا مختار

یہ ایک حقیقت اور ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہماری نسل نو اعلیٰ تعلیم یافتہ ، باصلاحیت، قابل اور متحرک ہونے کے باوجود اچھی اور پر وقار نوکری حاصل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے ، مشاہدے میں آیا ہے کہ والدین ابتدا ہی سے اولاد کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اپنی استطاعت سے بڑھ کر، بچوں کو اعلیٰ تعلیم ،سہولیات ِ زندگی فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ وہ بڑے ہوکر، زندگی میں ایک اچھا مقام حاصل کر سکیں، ان کا مستقبل روشن ہو۔

اولاد کو پُر سکون زندگی فراہم کرنے کے لیے جہاں والدین بے شمار مصائب ، پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، وہیں نوجوانوں کی اکثریت کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ دن ، رات محنت کرکے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، ان خوابوں کو پورا کریں، جن کی تکمیل کے لیے ان کے والدین دعائیں اور کوششیں کرتے ہیں ،مگر بدقسمتی سے جب نسل نو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی میدان میں قدم رکھتی ہے، توملک میں نوکریوں کا فقدان ، ناکامیوں ، مایوسیوں اور تاریکیوں کی صورت میں ان کا خیر مقدم کرتا ہے۔ جس کی اہم وجوہ میں سے ایک وجہ رشوت خوری اور اقربا پروری ہے، دیکھا گیا ہے کہ جب ایک با صلاحیت، تعلیم یافتہ نوجوان نوکری کی تلاش میں نکلتا ہے، تو اسے ہر جگہ رشوت کا بازار گرم نظر آتا ہے۔ 

اس کی قابلیت اور صلاحیت کاغذ کے ٹکڑوں کی مرہون منت سمجھی جاتی ہے اور بالفرض وہ رشوت دے کرملازمت حاصل کرنے میںکام یاب ہوبھی جائے ،تو من پسند بھرتیاں اس کے مستقبل پر سوالیہ نشان بن جاتی ہیں دور حاضر رشوت میںہمارے تمام اداروں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ہر جگہ لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ ہر ادارے اورلوگوں کی اکثریت پر صرف پیسہ کمانے اور کسی بھی ذرائع سے پیسے کودُگنا ،تگنا کرنے کی حوس سوار ہے، مال ودولت کو ہی اولین ترجیح کادرجہ حاصل ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے زمانے میں قابلیت ، اچھے اخلاق کی بنیاد پر نہیں بلکہ رتبے اور مالو دولت کی بنیاد پر لوگوں کو عزت دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نسل نو بھی حصول تعلیم کا مقصد صرف نوکری حاصل کرنے کو سمجھتے ہیں، سمجھ کر نہیں پڑھتی، بس رٹے لگا کر یا امتحان میں نقل کرکے کے پاس ہونے میں بھی عار محسوس نہیں کرتی۔

معاشرہ دوقسم کے گروہوں میں منقسم ہوگیا ہے ایک طرف امراہیں ، جواپنی ایک الگ ہی دنیا بسائے بیٹھے ہیں اور دوسری طرف غربا جن کی دنیا وسائل کے فقدان کے باعث تہہ وبالا ہوچکی ہے، امیر امیر تر اور غریب غریب ترین ہوتا جارہا ہے، اس بدترین صورت حال میں سب سے زیادہ نوجوان متاثر ہورہے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہمارے ملک کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، جس ملک میں نوجوان اتنی بڑی تعداد میں موجود ہوں وہ ملک ترقی، خوش حالی ، تعلیم و تربیت کے لحاظ سے آگے ہونا ہوناچاہیے ،لیکن بدقسمتی سے افرادی قوت کا یہ نایاب خزانہ بد عنوانی ، اقرباپروری،رشوت، اجارہ داری، جیسے مسائل کا شکار ہوکر بیرون ملک جانے پر مجبور ہے۔ نتیجتاً اغیار ان کی صلاحیتوں، قابلیتوں اور مہارتوں سے فائدہ اٹھاکر صف اول میں جگہ بنارہے ہیں اور وطن عزیز روز بہ روز ان سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ 

مشاہدے میں آیا ہے کہ بعض اوقات ایسے لوگ اعلیٰ عہدوں پر محض اقرباء پروری یا رشوت کی وجہ سے فائز ہوجاتے ہیں ،جن کے پاس نہ تو قابلیت ہوتی ہے اور نہ مہارت، بس دولت کے بل بوتے پر وہ اس مقام تک پہنچے، اس کے برعکس وہ نوجوان جو خداداد صلاحیتوں اور مہارتوں سے مالا مال ہیں وہ اعلیٰ عہدے تو درکنار معمولی نوکری حاصل کرنے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ 

عہدوں اور نوکریوں کی یہ غیر منصفانہ تقسیم جہاں ایک طرف بے روزگاری کو فروغ دے رہی ہے ،وہیں دوسری طرف نوجوانوں کے مسائل میں بھی اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔ رشوت لینانہ صرف ایک معاشرتی جرم ہے بلکہ گناہ بھی ہے۔لیکن بدقسمتی سےیہ ہمارے معاشرے میں تیزی سے سرائیت کر رہا ہے۔ 

ان تمام تر معمولات سے تنگ آکر اکثر نوجوان غیر قانونی کاموں میں ملوث ہوجاتے ہیں، جس کا انجام تاریکی کے سوا کچھ نہیں ہوتا، حالاں کہ حالات سے تنگ آکر غلط کاموں کا ارتکاب کرنا انتہائی بزدلانہ فعل ہے۔ اپنے ارد گردہمیں ایسے بہت نوجوان نظر آتے ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود رکشہ، ٹیکسی چلانے ،دکانوں پرکام کرنے پر مجبور ہیں بلکہ بہت سے نوجوان برگر، چھولے، چاٹ وغیرہ بیچتے دکھائی دیتے ہیں ۔ 

نوجوان اپنی صلاحیتوں کا خود گلا گھونٹنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ انہیں اپنی پسند، دل چسپی اور شوق کے منافی کام سر انجام دینے پڑتے ہیں اور یہ ہی امر ان میں میں نفسیاتی مسائل کوجنم دینے میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔نسل نو ہمارا قیمتی سرمایہ اور ملکی ترقی اور دفاع میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے،اگر تربیت یافتہ نوجوانوں کو مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ اپنی صلاحیتوں ، قابلیتوں، دیانت ، مہارت، خلوص اور لگن سے ملک کوترقی کی راہوں پر گامزن کردیں۔

مقتدر حلقوں کو چاہیے کہ بد عنوانی ، رشوت جیسے افعال کا جڑ سے خاتمہ کریں، من پسند، ذاتی بھرتیوں کی روک تھام کے لیے سخت قوانین مرتب کیے جائیں تاکہ نوجوانوں کے ہنر اور مہارت سے بھرپور استفادہ کرکےملکی ترقی اور خوش حالی کو یقینی بنایا جاسکے۔

تازہ ترین