• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ منہ اور مسور کی دال

نورالحسن

پانی آگیا مسور کی دال کا نام سن کر، اب تو مسور کی دال بھی بہت مہنگی مل رہی ہے ۔ پہلے تو بیگم کہہ دیتی تھیں، چلو مسور کی دال ہی لے آؤ، مگر اب دال،بس خیال ہو کر رہ گئی ہے۔ پہلے لوگ دال سے بہت ناراض تھے میاں بیوی ہوں۔دوست ہو یاکسان ،شہری بابو ، امیر ہو یا غریب سب کی زبان سے بے چاری دال کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ میاں جلدی گھر آکر فورا باہر جانے لگے تو بیگم فورا کہے گی ، ہوں کدھرجی، ضرور دال میں کچھ کالالگتا ہے۔

ویسے بھی تو پو چھا جا سکتا ہے، جناب کہاں جارہے ہو ۔ اب تو بھائی دال میں کالا کہاں رہا ، مہنگائی نے لوگوں کی کمر تو ڑ دی، اسی لیے تو کہا جا تا ہے کہ اب تو ساری دال ہی کالی ہے ۔

قوال بار بار ایک ہی شعر پڑھ رہا تھا،صدر مجلس نے کان میں سر گوشی کرتے ہوے کہا،جناب شعر بدل لو۔ قوال نے صدر کے کان میں کہا ،دو دن سے دال کھلا رہے ہیں ،میزبان،یہ دال نہیں بدلتے ہم شعر نہیں بدلیں گے ۔ بس میں بیٹھ جائیں تو وہاں بھی ایک دال والا یہ آواز لگاتا ملے گا، حضرات ذرا متوجہ ہو ں، میں آپ کے لئے گرما گرم دال لایا ہوں ،اگر دال میں مرغی کا مزا نہ آئے تو دال بس سے باہر پھینک دینا،یہ بارامسالےوالی ہے، کھائیں اور گھر لے جائیں، ساس کھائے گی غصہ تھوک دے گی ۔

راجہ رنجیت سنگھ لاہور پہ قابض ہواتو دہلی کے در بار سے وابستہ کئی ماہرین فن نے اپنی قسمت آز مانے کے لئےدر بار کا رخ کیا، ان ہی اہل فن میں ایک باورچی بھی تھا، جس کے کھانوں کی لذت دور دور تک مشہور تھی ۔اُس کے ہاتھ کی بنی مسور کی دال جو ایک بار کھالیتا ہمیشہ یاد رکھتا ۔

یہ بھی لاہور قسمت آزمانے پہنچا ،رنجیت کے در بار میں رسائی حاصل کی اور تجربے کے طور پر مسور کی دال بارہ مسالوں کے ساتھ پکائی ۔ملکہ معظمہ کی طرف سے رنجیت کو پیغام پہنچا، اسے شاہی باورچی مقرر کیا جائے اور تا حکم ثانی مسور کی دال ہی پکے گی ۔ 

مہینہ بھر دال کے چٹخارے رنجیت سنگھ نے لئے ۔،جب مہینے بعد باورچی خانے کا بل راجہ کو پیش کیا گیا تو وہ غصے سے لال پیلا ہو گیا راجہ نے باورچی کو بلا کر کہا ،اتنا خرچ تو گوشت پہ نہیں آتا جتنا تو نے دال پکانے میں لگا دیا ۔باورچی نے کہا ،جناب دال میں بارہ مسالے ڈالے جاتے ہیں خرچہ تو آئے گا ۔راجہ نے باورچی کو برطرف کر دیا ۔ 

باورچی کہیں اور قسمت آزمائی کے لئےچل دیا۔ ملکہ کے سامنے وہی گھسے پٹے قسم کے کھانے آے تو سخت احتجاج کیا اور کہا، باورچی کی واپسی تک ہم بھوک ہڑتال کرتے ہیں ،راجہ نے سپاہی دوڑائے ،باورچی کی گرفتاری کے لئے۔ سیالکوٹ کے قریب باورچی کو سپاہیوں نے گھیر لیا ۔ 

اور در بار میں حاضری کا حکم شاہی سنایا۔باورچی نے جب راجہ کا نام سنا تو اس نے طنزیہ کہا ،یہ منہ اور مسور کی دال​۔ یہ کہہ کرباورچی نے واپس جانے سے انکار کر دیا ۔کہتے ہیں ا س نے اپنے پیشے کی خاطر جان کی بازی ہاردی ،مگر در بار واپس نہیں گیا،اپنے پیشے سے غداری نہیں کی بے قدروں کے پاس نہیں گیا،اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا اور ہمارا طرز عمل یہ ہے ڈالروں کی چمک کے سامنے ہم اپنے ضمیر کا سودا کر لیتے ہیں ۔

تازہ ترین