• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر، سینیٹر سراج الحق سے خصوصی گفتگو

جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر، سینیٹر سراج الحق سے خصوصی گفتگو

بات چیت:طلعت عمران

 عکّاسی:اسرائیل انصاری

56سالہ سینیٹر سراج الحق، جماعتِ اسلامی، پاکستان کے پانچویں امیر ہیں۔ انہوں نے صوبہ خیبر پختون خوا کے ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ مڈل کے بعد اسلامی جمعیت طلبا میں شمولیت اختیار کی اور مختلف مدارج طے کرتے ہوئے ناظمِ اعلیٰ کے عُہدے تک پہنچے۔ جامعہ پنجاب سے ایم ایڈ کرنے کے بعد 1993ء میں جماعتِ اسلامی میں شامل ہوئے۔ 2002ء میں ایم ایم اے( متّحدہ مجلسِ عمل) کے ٹکٹ پر رُکنِ صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اوروزیرِ اعلیٰ، اکرم خان دُرّانی کی کابینہ میں سینئر وزیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 

2013ء میں ایک مرتبہ پھر خیبر پختون خوا اسمبلی میں پہنچنے میں کام یاب ہوئے اوروزیرِ اعلیٰ، پرویز خٹک کی قیادت میں بننے والی پاکستان تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی سمیت دیگرجماعتوں کی مخلوط حکومت میں دوبارہ سینئر وزیر منتخب ہوئے۔تاہم، 2014ء میں امیرِ جماعتِ اسلامی منتخب ہونے کے بعد اسمبلی کی رُکنیت اور وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور 2015ء میں ایوانِ بالا کے رُکن منتخب ہوئے۔ 

گزشتہ دِنوں متّحدہ مجلسِ عمل کے اجلاس میں، جس میں5دینی سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد نے ایک انتخابی نشان، ایک جھنڈے اور ایک منشور پر آیندہ عام انتخابات میں حصّہ لینے کا فیصلہ کیا،شرکت کے لیے کراچی آئے، تو ہماری ان سے ایک تفصیلی نشست ہوئی۔ اس موقعے پر ہم نے سینیٹر سراج الحق سے ان کی زندگی کے ابتدائی مہ و سال، جماعتِ اسلامی کے ماضی، حال و مستقبل، مُلکی سیاست میں ایم ایم اے کے کردار اور پاکستان سمیت دوسرے اسلامی ممالک میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سمیت ذاتی زندگی سے متعلق سوالات کیے۔ گفتگو کی تفصیل نذرِ قارئین ہے۔

جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر، سینیٹر سراج الحق سے خصوصی گفتگو
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س:اپنے خاندانی، تعلیمی اور سیاسی پس منظر کے بارے میں مختصراً بتائیں؟

ج :میرا تعلق پاک، افغان سرحد پر واقع، ضلع دِیر زیریں کے دُور افتادہ علاقے، کاکس کے مشوانی قبیلے سے ہے۔ اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد بارڈر کے دونوں اطراف مقیم ہیں۔ میرے والد، مولانا احسن الحق، دارالعلوم دیوبند سے فارغ التّحصیل تھے ۔ وہ جس دَور میں تحصیلِ علم کے لیے دیو بند گئے تھے، تب اُس علاقے کاکوئی فرد اتنی دُور جانے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا تھا اور میرے دادا نے یہ سوچ کر اُنہیں خود سے جُدا کیا تھا کہ اب چاہے انہیں دوبارہ بیٹے کا دیدار نصیب نہ ہو، لیکن وہ عالمِ دین ضرور بن جائے۔ میری پیدائش ضلع، چارسدّہ میں 5نومبر1962ء کو ہوئی، جہاں میرے والد ایک مدرسے میں بہ طور معلّم فرائض انجام دے رہے تھے۔آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ دِنوں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اگر آئین کے آرٹیکلز، 62،63پر عمل درآمد ہو جائے، تو ایوان میں صرف ایک ہی آدمی بچے گا اور وہ سراج الحق ہوگا،تودراصل اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مَیں 1962ء میں پیدا ہوا(ہنستے ہوئے)۔ خیر، مَیں نے ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول شب قدر، میرزو میں حاصل کی۔ گزشتہ دِنوں مَیں اپنی اس درس گاہ کے دورے پر گیا، تو دیکھا کہ باقی پورے اسکول کی صُورت بدل چُکی ہے، لیکن جن دو کلاس رُومز میں بیٹھ کر مَیں نے تعلیم حاصل کی تھی، وہ دہائیوں بعد بھی جُوں کے تُوں ہیں۔ اذانِ فجر ہوتے ہی والدہ بستر سے اُٹھادیتیں اورناشتے کے بعد بستے میں ایک روٹی رکھ کر اسکول بھیج دیتیں۔ مَیں روزانہ 4سے 5کلو میٹر پیدل چل کر اسکول جاتا۔ بچپن عُسرت میں گزرا۔ چُوں کہ مُجھے اپنے والد کی مالی حیثیت کا اندازہ تھا، اس لیے اپنے پورے دَورِ طالبِ علمی میں اُن سے کبھی کوئی فرمائش نہیں کی۔ حتیٰ کہ عید،بقرعید پر اُن سے نئے کپڑوں تک کا مطالبہ نہیں کیا۔ مَیں نے اُن سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ اگر وہ مجھ پر گھریلو ذمّے داریوں کا بوجھ ڈالنے کی بہ جائے مُجھے اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کی اجازت دیںگے، تو مَیں اپنے تمام اخراجات خود اُٹھائوں گا اورپھر ایسا ہی ہوا۔ پرائمری اسکول شب قدر، میرزو کے بعد مَیں نے پرائمری ہائی اسکول، مسکینی، پرائمری اسکول، مایار، لوئر مڈل اسکول، دِیر، ہائی اسکول، حاجی آباد، ہائی اسکول، تھانہ مالاکنڈ ایجینسی، ہائی اسکول، تیمر گرہ، ہائی اسکول، خال اور ہائی اسکول، لال قلعہ میں تعلیم حاصل کی۔ آٹھویں جماعت تک تو والد کے تبادلوں کی وجہ سے میرے اسکول تبدیل ہوتے رہے اور پھر اسلامی جمعیت طلبا کی ذمّے داریوں سے عُہدہ برآ ہونے کے لیے پانچ اسکولز تبدیل کیے۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ ڈگری کالج، تیمر گرہ، گورنمنٹ ڈگری کالج، مردان، گورنمنٹ ڈگری کالج، پشاور میں تعلیم حاصل کی اور پھر گورنمنٹ ڈگری کالج، تیمر گرہ ہی سے انٹرکیا۔ بعدازاں، جامعہ پشاور سے بی ایڈ اور1988ء میں جامعہ پنجاب سے ایم ایڈ کیا۔ اسلامی جمعیت طلبا سے فراغت کے بعد مجھے دِیر زیریں کی ایک تحصیل کا امیرِجماعتِ اسلامی مقرّر کیا گیا۔ پھر مَیں جماعتِ اسلامی، دِیر زیریں کا نائب قیّم یا ڈپٹی سیکریٹری جنرل بنا۔ اگلے مرحلے میں صوبائی سیکریٹری جنرل منتخب ہوا۔ پھر صوبائی امیر بنا اور گزشتہ4برس سے جماعتِ اسلامی، پاکستان کا امیر ہوں۔ اسلامی جمعیت طلبا میں رہتے ہوئے پہلے اسکول کا ناظم بنا اور پھر ضلع دِیر، مالاکنڈ ڈویژن، پشاور ڈویژن اور صوبۂ خیبر پختون خوا کا ناظم رہا اور 3برس تک اسلامی جمعیت طلباکےناظمِ اعلیٰ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔

س:والد کے دارالعلوم دیوبند سے فارغ التّحصیل ہونے کے ناتے فطری طور پر آپ کا جُھکائو جمعیت علمائے اسلام کی جانب ہونا چاہیے تھا، لیکن آپ نے جماعتِ اسلامی سے وابستگی اختیار کی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

ج:درحقیقت، میرے والد سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تعلیمات اور جماعتِ اسلامی سے خاصے متاثر تھے، لیکن انہوں نے کبھی بھی مجھ پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش نہیں کی ۔ مَیں نے بہ رضا و رغبت مولانا مودودیؒ کی تعلیمات کا مطالعہ شروع کیا اورپھر اُن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، البتہ اسلامی جمعیت طلبا سے وابستہ ہونے کا ایک پس منظر ہے۔ چُوں کہ اُس زمانے میں روزگار کے ذرایع مفقود ہونے کی وجہ سے ہمارے گائوں کے زیادہ تر نوجوان سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کے لیے جاتے تھے، لہٰذا جب مَیں نے مڈل کا امتحان پاس کیا، تو والد نے مُجھے بھی ملازمت کے لیے بیرونِ مُلک بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا اور اس کے ساتھ ہی میرے مستقبل کے حوالے سے گائوں کے جہاں دِیدہ افراد سے مشاورت بھی شروع کر دی۔ بیش تر کا یہی کہنا تھا کہ مُجھے کام سیکھنے کے لیے کسی مستری کے پاس بھیج دیا جائے، لیکن اس موقعے پر اسلامی جمعیت طلبا سے وابستہ بعض اسٹوڈینٹس نے والد صاحب کو مُجھے مزید تعلیم دِلوانے کا مشورہ دیا، جسے انہوں نے تسلیم کر لیا ۔ پھر مَیں نے اسلامی جمعیت طلبامیں رہتے ہوئے نہ صرف اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا، بلکہ تحریک کو بھی سمجھا ۔ جب مَیں نے 1993ء میں جماعتِ اسلامی میں شمولیت اختیار کی، تو جے یو آئی کے بعض رہنما پریشان ہو گئے اور انہوں نے مُجھے اپنی جماعت میں شامل کروانے کے لیے میرے گھر ایک جرگہ بھی بھیجا، لیکن وہ کام یاب نہ ہو سکے۔

س:عملی زندگی کا آغاز کس شعبے سے کیا؟

ج:ایم ایڈ کرنے کے بعد مَیں دِیر بالا کے ایک سرکاری اسکول میں ہیڈ ماسٹر تعیّنات ہواتھا، لیکن جب مُجھے اندازہ ہوا کہ اس ملازمت پر رہتے ہوئے مَیں جماعت کے لیے خدمات انجام نہیں دے سکتا، تو مَیں نے استعفیٰ دے دیا اور پھر اپنے گائوں ہی میں ایک نجی اسکول کی بنیاد رکھی۔

س:آپ کا ذریعۂ آمدن یہ اسکول ہی ہے؟

ج: جی نہیں۔اسکول کے علاوہ زرعی اراضی سے بھی کچھ آمدنی ہو جاتی ہے۔

س:آپ تنظیمی و سیاسی سرگرمیوں میں بے حد مصروف رہتے ہیں۔ اہلِ خانہ وقت نہ دینے کا شکوہ تو کرتے ہوں گے؟

ج:پہلے شکایت کرتے تھے، لیکن اب نہیں، کیوں کہ انہیں میری ذمّے داریوں کا احساس ہے۔ البتہ جب مَیں منصورہ، لاہور میں ہوتا ہوں، تو پوری کوشش ہوتی ہے کہ فیملی کو زیادہ سے زیادہ وقت دوں۔

س:مطالعے کے شوقین ہیں ؟

ج:جماعتِ اسلامی کا امیر اور ایوانِ بالا کا رُکن بننے سے پہلے باقاعدگی سے کُتب کا مطالعہ کیا کرتا تھا۔ معروف مصری عالمِ دین، ڈاکٹر یوسف القرضاوی، سیّد مودودیؒ، امام حسن البنّا شہید اور علاّمہ اقبال کو کافی پڑھا ۔ نیز، معاشرے سےغُربت کے خاتمے کے لیے سوشلزم اور کمیونزم کا بھی مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ قابلِ عمل نظام نہیں اور صرف اسلام ہی انسانوں کی جسمانی و روحانی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم، اب مصروفیات اتنی بڑھ گئی ہیں کہ کتابیں پڑھنے کا وقت ہی نہیں ملتا، البتہ قرآنِ کریم سے اپنا ناتا نہیں توڑا اور روزانہ نصف گھنٹا قرآنِ پاک کی تلاوت اور ترجمےو تفسیر کے مطالعے کے لیے ضرور نکالتا ہوں۔

س:خوش خوراک ہیں؟

ج: جو مل جائے، کھا لیتا ہوں اور اللہ کا شُکر ادا کرتا ہوں۔البتہ چائے شوق سے پیتا ہوں۔

س:کوئی ایسا واقعہ، جس پر ندامت محسوس ہوتی ہو؟

ج: ایک انسان ہونے کے ناتے مُجھ سے بھی لغزشیں ہوتی رہتی ہیں اور ان پر ندامت بھی ہوتی ہے۔ مَیں ہر رات سونے سے قبل اپنا محاسبہ کرتا ہوں اور دِن بَھر ہونے والی غلطیوں کو گنتا اور قلم بند بھی کرتا ہوں۔ البتہ کسی کا دِل دُکھانے پر مُجھے بے حد تاسف ہوتا ہے، دِلی رنج پہنچتا ہے ،تو حتی الامکان اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔

س:آپ کی سابق امیرِ جماعتِ اسلامی، قاضی حسین احمد مرحوم سے گہری وابستگی رہی۔ انہیں کیسا پایا؟

ج: مَیں نے قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ خاصا وقت گزارا۔ وہ ایک اولو العزم شخصیت تھے۔ انہوں نے کبھی کسی کام کو ناممکن نہیں سمجھا۔ اُن میں پتّھر کی مانند سختی بھی تھی اور پُھولوں کی طرح نرمی بھی۔

س:مُلکی سیاست میں جماعتِ اسلامی کے موجودہ کردار سے مطمئن ہیں؟

ج:جی ہاں۔ مَیں اس بات پر یقینِ کامل رکھتا ہوں کہ پاکستان کا مستقبل اسلامی نظام سے وابستہ ہے اورپوری انسانیت کے مسائل کا حل بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔جماعتِ اسلامی ایک نظریاتی تحریک ہے، جو کسی فرد، خاندان یا قبیلے کے گرد نہیں گھومتی۔ گرچہ اس وقت ہماری ثقافت پر دجّالی تہذیب حملہ آور ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارا نوجوان اسلام کے قریب آ رہا ہے۔ مساجد میں نمازیوں کی تعداد بہ تدریج بڑھتی جا رہی ہے، اللہ اور اُس کے رسول ﷺسے عشق میں اضافہ ہو رہا ہے اور خواتین پہلے سے زیادہ پردے کا اہتمام کرنے لگی ہیں، تو ان ساری علامات سے پتا چلتا ہے کہ جماعتِ اسلامی کا مستقبل روشن ہے۔

س:ماضی میں بانیٔ جماعتِ اسلامی، مولانا مودودیؒ اور بعدازاں میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد جیسی عبقری اور مدبّرانہ قیادت جماعت کو میسّر رہی اور اس وقت یہ بھاری ذمّے داری آپ کے کاندھوں پر ہے۔ ان شخصیات کے ساتھ اپنا موازنہ کیسے کرتے ہیں؟

ج:یہ تمام ہی بہت بڑی شخصیات تھیں ۔ مَیں انہیں خود پر فوقیت دیتا ہوں اور ان کے سامنے خود کو طالبِ علم سمجھتا ہوں۔ مَیں جب بھی ان کے ساتھ اپنا موازنہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، مُجھے اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ جماعتِ اسلامی کسی فرد کا نام نہیں، بلکہ اس کا اپنا ایک شورائی نظام ہے، جہاں اجتماعی دانش کے تحت فیصلے کیے جاتے ہیں ۔

س:برسوں پہلے ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں کئی اہم شخصیات نے اس اختلاف کے باعث جماعتِ اسلامی کو خیرباد کہہ دیا تھا کہ نفاذِ اسلام کے لیے سیاست اور جمہوریت کا راستہ سود مند نہیں۔ آج اس واقعے کے طویل عرصے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ جماعتِ اسلامی کے اُس طبقے کی بات میں وزن تھا، کیوں کہ جماعت سیاست کے ذریعے یہ کام نہیں کر سکی۔ اس کا ووٹ بینک اور اسمبلی میں نشستیں بڑھنے کی بہ جائے کم ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ کیا بعض حلقوں کا یہ مٔوقف دُرست ہے؟ نیز، اس کے اسباب و وجوہ کیا ہیں؟

ج: یہ مٔوقف ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا تھا اور اس پر قائم رہتے ہوئے انہوں نے اپنی ایک تنظیم بھی قائم کی ، لیکن اس کی اہمیت و افادیت سب کے سامنے ہے اور پھر مولانا مودودیؒ نے بھی انہیں اس بات کی اجازت دی تھی کہ اگر وہ ان کے طریقۂ کارسے مطمئن نہیں ہیں، تو الگ ہو کر کام کریں۔نیز، اگر جماعتِ اسلامی کی مقبولیت کی پیمائش اس کی اسمبلی میں نمایندگی سے کی جاتی ہے، تو یہ ایک غلط پیمانہ ہے، کیوں کہ یہ ایک نظریاتی جماعت ہے ۔ ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیے کہ جماعت اپنی نظریاتی جنگ جیت رہی ہے یا نہیں؟ میرے خیال میں ہم یہ جنگ جیت رہے ہیں۔ گزشتہ صدی میں ہمارا مقابلہ سوشلزم اور کمیونزم سے تھا، جنہیں مولانا مودودیؒ نے اپنے ٹھوس دلائل سے شکست دی اور اب اُن ممالک میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے کہ جہاں پہلے سوشلزم اور کمیونزم کا راج تھا۔ سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد مغرب نے اسلامی تحاریک کو نشانے پر رکھ لیا ، وگرنہ نیٹو کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ یعنی آج مغرب اور اسلام کے درمیان نظریاتی جنگ جاری ہے اور جماعتِ اسلامی کام یابی کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے۔

س:کہا جاتا ہے کہ جماعتِ اسلامی کبھی بھی عوامی جماعت نہیں رہی۔ قاضی حسین احمد نے شبابِ ملّی کے ذریعے اسے عوامی بنانے کی کوشش کی، تو اس کے منفی نتائج برآمد ہوئے اور خود جماعت پر بہت تنقید ہوئی اور اس اختلاف پر بعض افراد جماعت چھوڑ گئے۔ کیا آپ بھی ایسی کوئی کوشش کریں گے؟

ج:شبابِ ملّی کی وجہ سے کسی نے جماعتِ اسلامی کو نہیں چھوڑا اور یہ ہمیشہ ایک عوامی جماعت ہی رہی ہے۔ سابق امیر، میاں طفیل محمد ایک وکیل تھے اور عام لوگوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کا پس منظر جاگیردارانہ تھا نہ سرمایہ دارانہ۔ قاضی حسین احمد ایک پروفیسر تھے، کوئی خان یا نواب نہیں۔ سیّد منور حسن بھی ایک فقیر مَنش انسان ہیں، جو آج بھی 5مرلے کے گھر میں مقیم ہیں۔ اسی طرح مَیں بھی ایک عام آدمی ہوں۔ درحقیقت، جماعتِ اسلامی ہی حقیقی عوامی جماعت ہے، جب کہ باقی سیاسی جماعتوں پر وڈیروں، سرداروں، خوانین، زرداروں، نواب زادوں اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے وفاداروں کا قبضہ ہے۔

س:لیکن یہ کیسی عوامی جماعت ہے کہ صرف صالح و متّقی فرد ہی اس کا رُکن بن سکتا ہے اور ارکانِ جماعت بھٹکے ہوئے یا بے راہ روی کے شکار افراد سے میل جول سے گریز کرتے ہیں؟

ج:جماعتِ اسلامی کے دروازے ہر فرد کے لیے کُھلے ہیں۔ اس کی قیادت گلی کُوچوں سے نکلی ہے اور یہ ہرقسم کے تعصّبات سے بالاتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعتِ اسلامی سندھ کے گوٹھوں، بلوچستان کے صحرائوں، خیبر پختون خوا کے پہاڑوں اور پنجاب کے میدانوں میں دکھائی دیتی ہے۔ جماعتِ اسلامی کی مرکزی شوریٰ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد سے لے کر اَن پڑھ تک سب شامل ہیں۔

س:جماعتِ اسلامی کے مخالفین کا ایک الزام یہ بھی ہے کہ جب یہ جمہوری حکومتوں کے خلاف دھرنے دیتی اور تحریکیں چلاتی ہے، تو یہ بہت مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہیں، لیکن اس نے بدعنوانی کے خلاف کوئی نتیجہ خیز تحریک نہیں چلائی۔ کیا یہ الزام دُرست ہے؟

ج:یہ الزام بھی سراسر غلط ہے۔ ہم نے 1996ء میں جمہوریت کے خلاف نہیں، بلکہ کرپشن کے خلاف دھرنا دیا تھا اور بد عنوانی کے خلاف ہماری تحریک آج بھی جاری ہے۔ بی بی کے دوسرے دَورِ حکومت میں دیے گئے اس دھرنے میں قاضی حسین احمد مرحوم پر لاٹھیاں برسائی گئیں اور ہمارے 2کارکن شہید بھی ہوئے۔ ہم آج بھی بدعنوانی کے خلاف برسرِپیکار ہیں۔ موجودہ دَورِ حکومت میں پی ٹی آئی نے ایک طویل دھرنا دیا، لیکن ہم کے پی کے کی مخلوط حکومت کا حصّہ ہونے کے باوجود صرف اس وجہ سے دھرنے کا حصّہ نہیں بنے کہ اس کے نتیجے میں رہی سہی جمہوریت کو خطرات لاحق ہو سکتے تھے اورجب لوگوں نے قبریں کھودنا اور کفن تقسیم کرنا شروع کیے تھے، تو ہم نے صلح کروانے کی کوشش کی ۔ اس مقصد کے لیے ہم نے ایک جرگہ تشکیل دیا تھا اور اس کے نتیجے میں مُلک کو دلدل سے نکالنے میں کام یاب ہو ئے۔

س:اس وقت یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جماعتِ اسلامی فکری دوراہے پر ہے۔ وہ شاید یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ جمہوریت کو مُلک میں مستحکم کرے یا نفاذِ اسلام کی جدوجہد تیز کرے۔ ایک جانب وہ لبرل پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ ہے اور دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں متّحدہ مجلسِ عمل کے پلیٹ فارم سے آیندہ انتخابات میں حصّہ لینا چاہتی ہے؟

ج:جماعتِ اسلامی ایک انقلابی جماعت ہے۔ یہ انسان کے اخلاق و کردار میں تبدیلی لا کر ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتی ہے، جس میں نیکی کرنا آسان اور بُرائی کرنا مشکل ہو، جس میں حلال کمانا آسان ہو اور حرام کے راستے مسدود ہو جائیں ، جس میں نکاح کرنا آسان ہو اور بدکاری کے راستے بند ہو جائیں۔ ہم کسی فکری دوراہے پر نہیں ہیں، بلکہ یک سُو ہیں۔ 1967ء میں مولانا مودودیؒ نے جیل سے رہائی کے بعد یہ فرمایا تھا کہ اس مُلک کے عوام کو جس طرح پانی و روشنی کی ضرورت ہے، اسی طرح جمہوریت کے ذریعے اسلامی نظام کے نفاذ کی بھی ضرورت ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ایّوب خان جیسے آمر کے مقابلے میں جمہوریت پسند، فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی اور آج بھی ہماری کام یابی جمہوریت ہی میں مضمر ہے۔ جہاں تک ایم ایم اے کی بحالی کی بات ہے، تو ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی نظام کے نفاذ اور دو قومی نظریے پر یقین رکھنے والوں کا ووٹ بینک تقسیم نہ ہو اور نہ ہی ان کی توانائیاں ایک دوسرے سے مقابلے میں خرچ ہوں، کیوں کہ جب یہ تقسیم ہو جاتے ہیں، تو اس کا فائدہ ظالم جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو ہوتا ہے۔ جماعتِ اسلامی عوام کا پلیٹ فارم ہے اور ہم اسے مزید وُسعت دینا چاہتے ہیں۔

س:جماعت کا ایک طبقہ پی ٹی آئی کے نظریات پر شدید تحفّظات رکھتا ہے۔ کیا آپ آیندہ انتخابات میں اس سے اتحاد کریں گے یا کوئی نیا منظر نامہ سامنے آئے گا؟

ج:آیندہ انتخابات تو ہم ایم ایم اے کے پلیٹ فارم ہی سے لڑیں گے اور گزشتہ الیکشن میں بھی ہم نے پی ٹی آئی سے اتحاد نہیں کیا تھا۔

س:کیا انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے پی ٹی آئی سے اتحاد کریں گے؟

ج:اس بات کا فیصلہ تو انتخابات کے بعد ہی ہو گا۔ البتہ ہماری کوشش یہ ہے کہ ایم ایم اے کو اتنی اکثریت مل جائے کہ وہ تنہا ہی حکومت بنا سکے۔

س:سیّد منوّر حسن کو اپنے دَورِ امارت میں مولانا فضل الرحمٰن پر تحفّظات تھے، جس کی وجہ سے مولانا کی کوششوں کے باوجود بھی ایم ایم اے بحال نہ ہو سکی، تو کیا اب وہ تحفّظات دُور ہو گئے ہیں؟

ج:ہمیں پلٹ کردیکھنے کی بہ جائے آگے بڑھنا ہے اور ویسے بھی ہر سیاسی جماعت ایسی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرتی ہے کہ جس سے انتخابات میں اُس کی کام یابی کے امکانات بڑھ جائیں۔ آج دینی جماعتوں کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے اور یہی مُلک کو ایک صاف، شفّاف اور دیانت دار قیادت فراہم کر سکتی ہیں۔ پھر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں دینی سیاسی جماعتوں کا ایک بہت بڑا ووٹ بینک ہے، جو ان جماعتوں کے تقسیم ہونے کی وجہ سے ضایع ہو جاتا ہے اور اس کا فائدہ طاغوتی طاقتیں اُٹھاتی ہیں۔ ہمارے مُلک کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جب دینی جماعتیں اتحاد نہیں کرتیں، تو کہا جاتا ہے کہ یہ اسلامی نظام کے نفاذ کی بات تو کرتی ہیں، لیکن ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوتیں اور جب ہم متّحد ہو جاتے ہیں، تو مخالفین یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ یہ اتحاد اسلام کی بہ جائے اسلام آباد کے لیے ہے۔

س:کیا آیندہ عام انتخابات میں ایم ایم اے ماضی کے مقابلے میں زیادہ نشستیں حاصل کرنےمیں کام یاب ہو جائے گی؟

ج: امید تو یہی ہے، کیوں کہ اس مرتبہ ہمیں مُلک بَھر میں اپنی انتخابی مُہم چلانے کا موقع ملے گا اور ہم گھر گھر تک اپنا پیغام پہنچائیں گے۔

س:جماعتِ اسلامی اور پاکستان تحریکِ انصاف کے اتحاد سے آپ نے کیا نتائج اخذ کیے؟

ج :جماعتِ اسلامی نے تعلیم و صحت سمیت دیگر شعبوں میں اصلاحات کی نیّت سے کے پی کے حکومت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اگر 5سالہ دَورِ حکومت کا تجزیہ کیا جائے، تو مَیں اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ مخلوط حکومت کی کارکردگی میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔

س:تحریکِ لبّیک پاکستان کی آمد سے جو تبدیلی نظر آ رہی ہے، اُس کے مستقبل میں قومی سیاست ،بالخصوص دینی سیاسی جماعتوں اور انتخابات میں ووٹرز پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے؟

ج:اس کے اثرات تو آیندہ انتخابات کے نتائج ہی میں نظر آئیں گے، البتہ ہماری خواہش ہے کہ تمام عاشقانِ مصطفیٰ ﷺ اور اسلامی نظام کے نفاذ کی خواہش مند تمام جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں، جو متّحدہ مجلسِ عمل کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

س:کیا آپ تحریکِ لبّیک پاکستان سمیت دیگر دینی جماعتوں کو ایم ایم اے میں شمولیت کی دعوت دیں گے؟

ج:جی ضرور۔ ہم نہ صرف انہیں دعوت دیں گے، بلکہ ان کے ساتھ خوش گوار تعلقات بھی قائم رکھیں گے۔

س:کیا دینی جماعتوں کے اتحاد سے انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہے؟

ج:سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ انتہا پسندی درآمد کی گئی ہے اور حکومت کو مُلک میں جتنی انتہا پسندی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اتنی درآمد کر لیتی ہے۔ دینی سیاسی جماعتوں کا انتہا پسندی و شدّت پسندی سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں۔ انتہا پسندی کو دینی جماعتوں کے ساتھ جوڑنا ظلم ہے۔ یہ خالصتاً مغربی پروپیگنڈا ہے۔ بیلٹ باکس پر یقین رکھنے والے تشدّد پر انحصار نہیں کرتے، کیوں کہ تشدّد سے ہمارے راستے بند ہو جاتے ہیں۔

س:کیا آپ اس بات سے متّفق ہیں کہ دھرنوں کے پسِ پُشت نادیدہ قوّتوں کا ہاتھ تھا اور کیا آپ اس طرزِ سیاست سے اتّفاق کرتے ہیں؟

ج:ہمیشہ حکومت کے غلط فیصلے ہی دھرنوں کا سبب بنتے ہیں ۔ اگر انتخابات شفّاف ہوں اور عوام کو یہ یقین ہو کہ اقتدار جمہوری انداز سے منتقل ہوا ہے، تو کوئی دھرنا نہ دے۔ حالیہ سینیٹ انتخابات میں جو کچھ ہوا، اگر یہی عمل عام انتخابات میں بھی دُہرایا گیا، تو پھر کوئی بھی نتائج تسلیم نہیں کرے گا اور دھرنوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اب جہاں تک دھرنوں کے پیچھے نادیدہ قوّتوں کے ہاتھ کی بات ہے، تو مَیں فی الوقت اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ البتہ جس روز مجھے یہ ’’ہاتھ‘‘ نظر آگیا، تو مَیں ضرور بتائوں گا۔ تاہم، احتجاج اور دھرنے جمہوری روایات کا حصّہ ہیں۔

س:انتخابی امیدواروں کے کاغذاتِ نام زدگی میں ختمِ نبوّت سے متعلق ہونے والی ترمیم کا ذمّے دار کون ہے اور اس کے ذمّے داروں کو کیا سزا ملنی چاہیے؟

ج:اس مُلک میں ایک ایسی لابی موجود ہے کہ جو آئین کے آرٹیکل ،295سی میں ترمیم چاہتی ہے اور اس سلسلے میں پاکستان پر عالمی طاقتوں کا دبائو بھی ہے۔ نیز، ہمارے بیرونِ مُلک جانے والے حُکم رانوں کو ورغلایا بھی جاتا ہے اور انہیں ترغیبات دے کر آئین میں ترمیم پر آمادہ کیا جاتا ہے، لیکن پاکستانی عوام ایسی ہر کوشش ناکام بنا دیتے ہیں۔ گرچہ سابق وفاقی وزیرِ قانون، زاہد حامد کو عوام کے دبائو پر مستعفی ہونا پڑا، لیکن یہ کافی نہیں، بلکہ عقیدۂ ختمِ نبوّتؐ کے خلاف سازش کرنے والوں کو بے نقاب کیا جائے اور انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ ایسے عناصر کو چُھپانا بھی حکومت کا جُرم ہے۔

س: ’’پاناما ہنگامہ‘‘ کیا رنگ لائے گا؟ کیا یہ واقعی احتساب اور عدل کی بالادستی کا ایجنڈا ہے یا ذاتی عناد اور انتقام کی سیاست؟

ج:پاناما پیپرز منظرِ عام پر آنے کے بعد سب سے پہلے ہم عدالت میں گئے۔ ان میں 436پاکستانیوں کے نام سامنے آئے اورہم نے اپنی پٹیشن میں ان تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی درخواست کی ، لیکن فی الوقت عدالتِ عظمیٰ نے صرف ایک ہی فرد کو سزا دی ہے۔ عدلیہ کو سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے۔ ہمارا ماننا ہے کہ میاں نواز شریف اور اُن کی جماعت کو عدالت کا فیصلہ تسلیم کر لینا چاہیے اور عدلیہ پر تنقید نہیں کرنی چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ہی عدالت کو بھی پاناما پیپرز میں موجود تمام افراد کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے۔

س:آیندہ مُلکی سیاست میں نواز شریف کا کیا کردار دیکھ رہے ہیں؟ نیز، کیا جماعتِ اسلامی، مسلم لیگ (نون) سے انتخابی اتحاد کر سکتی ہے؟

ج:جب تک مسلم لیگ (نون) کی حکومت قائم ہے، تب تک مُلکی سیاست میں نواز شریف کا کرداربرقرار رہے گا اور حکومت ختم ہونے کے بعد ہی ان کی صلاحیتوں کا اصل امتحان شروع ہو گا۔ جب تک میاں نواز شریف مسلم لیگ (نون) کی صدر تھے، تو تمام اختیارات اُن کے پاس تھے، لیکن اب انہوں نے شہباز شریف کو یہ عُہدہ سونپ دیا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ’’اسٹیئرنگ‘‘ دو ہاتھوں میں ہے اور جب ایسا ہو، تو پھر گاڑی آگے نہیں بڑھتی۔ جہاں تک حُکم راں جماعت سے انتخابی اتحاد کی بات ہے، تو ہم نے ایم ایم اے کی صُورت دینی سیاسی جماعتوں ہی سے اتحاد کا فیصلہ کیا ہے۔

س:گزشتہ طویل عرصے سے مُلک پر مسلم لیگ (نون) یا پیپلز پارٹی کی شکل میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری، جب کہ سندھ بالخصوص کراچی میں ایم کیو ایم کا کنٹرول رہا ہے۔ ان جماعتوں کے قائدین نے مُلکی خزانہ لوٹ کر بیرونِ مُلک جائیدادیں بنائیں، مگر اس حوالے سے جماعتِ اسلامی ، امیرِ جماعت یا اس کے دیگر قائدین کی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی، لیکن اس کے باوجود عام ووٹر انتخابات میں انہی جماعتوں کو ووٹ دیتا ہے۔ آخر عوام کا ذہن کیسے تبدیل ہو گا؟

ج:اس وقت یہ مُلک لُوٹ مار، دہشت گردی اور قتل و غارت گَری سمیت جتنے بھی مسائل کا شکار ہے، ان کا سبب یہی سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین ہیں۔ اس مملکتِ خداداد کو اللہ تعالیٰ نے بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے، لیکن اس کے باوجود اگر اس مُلک پر غُربت اور جہالت کے سائے منڈلا رہے ہیں، تو اس کا سبب بھی یہی لوگ ہیں۔ یہ ہماری سیاست پر مسلّط ہیں اور جب تک ہماری قوم ان سیاسی برہمنوں کے خلاف بغاوت نہیں کرتی اور ظالم جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں کی بہ جائے اپنے روشن مستقبل کے حق میں ووٹ نہیں دیتی، تو اس کا یہی حال رہے گا۔ تاہم، میرا یقین ہے کہ اب تبدیلی ضرور آئے گی۔ یہ کہنابالکل غلط ہے کہ عوام ان سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ دراصل، یہ جماعتیں اور ان کے قائدین بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے مُہرے ہیں اور یہ اپنی اُس دولت کے بَل پر ووٹ حاصل کرتے ہیں، جو انہوں نے مُلک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر حاصل کی ہے ۔ اگر ان کے پاس وسائل نہ ہوں، تو یہ کبھی بھی انتخابات نہیں جیت سکتے، کیوں کہ ان میں اتنی سیاسی بصیرت ہی نہیں ہے۔ ان کے پاس زراعت، تعلیم، صحت اور صنعت سمیت دیگر شعبوں کےلیے کوئی پالیسی نہیں اور نہ ہی یہ اس بارے میں بات کر سکتے ہیں۔ یہ خدا بننے کی کوشش میں ہیں، جو یہ نہیں بن سکتے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ؎ طولِ شبِ فراق سے گھبرا نہ اے جگر…ایسی بھی کوئی شام ہے ،جس کی سحر نہ ہو۔ ظلم کی یہ رات خاصی طویل ہو چُکی ہے اور اب سحر ہونے کو ہے۔ وہ دِن قریب ہے کہ جب فُٹ پاتھ پر کوئی نہیں سوئے گا، غریب کے بچّے کے ہاتھ میں کتاب ہو گی اور دہقان کے چہرے پہ مسکراہٹ۔ جماعتِ اسلامی ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست قائم کرنا چاہتی ہے، جس میں وی آئی پی کلچر نہ ہو اور لوگ غُربت کی وجہ سے اپنے بچّوں کو فروخت کرنے پر مجبور نہ ہوں۔

س:جماعتِ اسلامی سے ہم دردی رکھنے والے ایک طبقے کا خیال ہے کہ یہ اپنے بنیادی ڈھانچے، نظریات اور خیالات کی وجہ سے موجودہ مُلکی سیاست کی متحمّل نہیں ہو سکتی اور اسے اپنے ماضی کی طرف لوٹ کر دعوتی، تبلیغی اور سماجی سرگرمیوں کی طرف توجّہ دینی چاہیے۔ اس بارے میں کیا فرمائیں گے؟

ج:جماعتِ اسلامی کے باصلاحیت کارکن تعلیم اور صحت سمیت دیگر سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لے رہے ہیں۔ ہمارے تعلیمی نیٹ ورک میں اس وقت 10لاکھ سے زاید طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ ہم ہر سال 24ہزار ذہین ترین طلبہ کو اسکالرشپس دیتے ہیں۔ 8ہزار یتیم بچّوں کی کفالت کر رہے ہیں اور گزشتہ ایک برس میں الخدمت فائونڈیشن نے 67لاکھ سے زاید افرا د کو صحت کی سہولتیں فراہم کیں۔ پھر ہمارے کارکن دیانت دار بھی ہیں اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حالیہ سینیٹ انتخابات میں کئی سیاسی جماعتوں کے ارکانِ اسمبلی نے اپنا ووٹ فروخت کیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمارے ارکانِ اسمبلی کا بھرم قائم رکھا۔ جماعتِ اسلامی ہی ایک جمہوری اور دیانت دار سیاسی جماعت ہے۔ ہمیں جو بھی یہ نصیحت کرتا ہے، ہم اسے خوش آمدید کہتے ہیں، لیکن ہم نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور اسی میں ہماری کام یابی ہے۔

س: میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کا موازنہ کس طرح کریں گے؟

ج :ان دونوں بھائیوں میں یہ قدرِمشترک ہے کہ دونوں ہی اپنی ذات سے باہر نہیں نکلتے۔

س:جماعتِ اسلامی، کراچی کی کارکردگی کس طرح دیکھتے ہیں؟

ج:ہمارے کراچی کے کارکنوں نے سخت ترین حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ گزشتہ برسوں میں جماعتِ اسلامی، کراچی کے اَن گنت کارکن شہید، زخمی اور معذور ہوئے، لیکن جماعت نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہ کراچی کے گلی کُوچوں میں موجود ہے۔

س:سیاست میں موجودہ ہنگامہ خیزی، گالی گفتار، جذباتیت اور اشتعال انگیزی کے بارے میں کیا کہیں گے؟

ج:درحقیقت، سیاست دان عوام کے لیے ایک مربّی، مرشد اور معلّم کی حیثیت رکھتا ہے اور جس مُلک کو اچّھے سیاست دان میسّر آ جائیں، وہ فلاح پاتا ہے۔ آپ ملائیشیا اور تُرکی ہی کی مثال لے لیجیے کہ جہاں مہاتیر محمد اور رجب طیّب اردوان نے عوام کی کایا پلٹ دی۔ گالی گفتار اور اشتعال انگیزی شیطانی سیاست کا حصّہ تو ہو سکتی ہے، رحمانی سیاست کا نہیں اور ہم صرف سیاستِ نبویﷺ کے قائل ہیں۔

جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر، سینیٹر سراج الحق سے خصوصی گفتگو

س:ان دنوں سیاست میں سرمائے کا کردار بہت بڑھتا جا رہا ہے ۔ قومی اسمبلی کا ایک امیدوار اپنی انتخابی مُہم پر کروڑوں روپے خرچ کر دیتا ہے اور اسے ہی کام یابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ کیا جماعتِ اسلامی کے پاس اپنی انتخابی مُہم چلانے کے لیے اتنے وسائل موجود ہیں؟

ج:بے شک ہمارے پاس وسائل نہیں اور ہم ہیلی کاپٹر اور جدید و پُرتعیّش گاڑیوں پر سفر کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ہم موٹر سائیکلز اور سائیکلز ہی پر اپنی انتخابی مُہم چلائیں گے، لیکن میدان خالی نہیں چھوڑیں گے اور ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ ہم ایک ’’آپشن‘‘ کے طور پر میدانِ سیاست میں موجود رہیں گے، کیوں کہ ہمارے پاس ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا پورا ڈھانچا موجود ہے۔

س:حالیہ سینیٹ انتخابات، بالخصوص چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد مُلکی سیاست میں ایک بھونچال سا آ گیا۔ سینیٹ انتخابات میں آپ کی روایتی حریف، عوامی نیشنل پارٹی کے ارکانِ صوبائی اسمبلی نے آپ کے امیدوار کو ووٹ دیے۔ یہ تبدیلی کیسے ممکن ہوئی اور کیا مستقبل میں جماعتِ اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ بھی اتحاد کر سکتی ہے؟

ج:مَیںجماعتِ اسلامی کے امیدوار کو ووٹ دینے پر عوامی نیشنل پارٹی کے ارکانِ صوبائی اسمبلی کا شُکر گزار ہوں اور ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ہمارا ایک وفد بھی اُن کے پاس گیا تھا۔ دراصل، عوامی نیشنل پارٹی کے پاس ہمارے امیدوار کو ووٹ دینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ خیبرپختون خوا میں ہمارے وزرا کی کارکردگی دیگر اتحادی جماعتوں کے مقابلے میں بہتر رہی۔ اب جہاں تک اتحاد کی بات ہے، تو انتخابات کے بعد بہت کچھ ہو سکتا ہے۔

س:آپ 2015ء پی ٹی آئی کے ارکانِ صوبائی اسمبلی کے ووٹوں سے سینیٹر بنے تھے ، لیکن اس کے باوجود جماعتِ اسلامی نے ان کے حمایت یافتہ چیئرمین سینیٹ کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیا؟

ج: دیکھیں بھئی! تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ اگر گزشتہ سینیٹ انتخابات میں انہوں نے ہمیں 8ووٹ دیے، تو ہم نے انہیں 24ووٹ دیےتھے۔

س: 8ارکانِ صوبائی اسمبلی کے 24ووٹ کیسے ہوگئے؟

ج :وہ اس طرح کہ 8ووٹ ہم نے ٹیکنو کریٹ سیٹ پر امیدوار کو، 8خواتین کی مخصوص نشستوں پر اور اتنے ہی ووٹ پی ٹی آئی کے اقلیتی امیدوار کو دیے۔

س:کیا اس مرتبہ پی ٹی آئی کے ارکانِ صوبائی اسمبلی نے آپ کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیے؟

ج:جی نہیں۔ دراصل، پی ٹی آئی کی خواہش تھی کہ جماعتِ اسلامی اپنا کوئی امیدوار سامنے نہ لائے، جب کہ ہمارے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ اسمبلی میں 8ارکان ہوتے ہوئے بھی ہمارا ایک سینیٹر بھی منتخب نہ ہو۔

س :چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد سے جماعتِ اسلامی اور پی ٹی آئی میں خلیج کافی بڑھ گئی ہے۔ کہیں اس کا سبب پی ٹی آئی اور پی پی کی قُربت تو نہیں؟

ج:یہ بات دُرست ہے کہ پی ٹی آئی اور پی پی کے درمیان قُربتیں بڑھ گئی ہیں، لیکن اپنی اتحادی جماعت سے ہمارے روابط اب بھی برقرار ہیں ۔

س:کیا صادق سنجرانی اور سلیم مانڈوی والا کو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب کرنے کا فیصلہ دُرست ہے؟

ج:صحیح اور غلط فیصلے سے قطعِ نظریہ زمینی حقیقت اور امرِواقعہ ہے اور ہمیں اسے تسلیم کرتے ہوئے انہیں یہ نصیحت کرنی چاہیے کہ وہ جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کے لیے خدمات انجام دیں اور سابق چیئرمین سینیٹ، میاں رضا ربّانی کی طرح ایوانِ بالا کا وقار قائم رکھیں۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد مَیں نے اپنی پہلی تقریر میں انہیں مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ آئین پر عمل درآمد کریں گے، تو مَیں ہر قدم پر ان کا ساتھ دُوں گا، لیکن اگر انہوں نے اس کے برعکس کوئی کام کیا ، تو سب سے پہلے مخالفت مَیں ہی کروں گا۔ (باقی صفحہ 23پر)

س:کیا کوئی ایک ہی طاقت پی پی اور پی ٹی آئی کو قریب لائی ہے؟

ج:لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے اور پھر وہ دونوں بھی انکار نہیں کرتے۔

س:کیا آیندہ انتخابات کے بعد ایم کیو ایم (پاکستان) سے بھی اتحاد کریں گے؟

ج: الیکشن کے بعد تو ایم کیو ایم نامی جماعت کا وجود ہی باقی نہیں رہے گا، تو پھر ہم اتحاد کس سے کریں گے اور مَیں یہ بات بڑے وثوق سے کہہ رہا ہوں۔ اب ایم کیو ایم کا باب بند ہو چُکا۔ اگر یہ جماعت گزشتہ 30برس میں کچھ ڈیلیور کرتی، تو آج مَیں یہ بات نہ کرتا۔

س:نئی حلقہ بندیوں سے مطمئن ہیں؟

ج:لگتا ہے کہ نئی حلقہ بندیاں جنّات نے کی ہیں۔ جماعتِ اسلامی سمیت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کو ان پر شدید تحفّظات ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سےمیرا اپنا حلقہ بہت زیادہ متاثر ہوا ہے ۔اس کی3یونین کائونسلز کو ایک دُور دراز حلقے سے جوڑ دیا گیاہے ، جہاں کبھی ہماری آمدورفت ہی نہیں رہی۔ لہٰذا، حلقہ بندیوں پر سیاسی جماعتوں کے اعتراضات سُننے اور ان پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔

س:کیا سابق صدر، جنرل (ر) پرویز مشرّف کا ٹرائل ہونا چاہیے؟

ج : جی بالکل۔ عام افراد کی طرح انہیں بھی عدالت کے سامنے جواب دہ ہونا چاہیے۔

س:دہشت گردی کے خلاف فوج کارروائیوں سے مطمئن ہیں؟

ج: جی ہاں۔ فوجی آپریشنز ہی کے نتیجے میں فاٹا اور خیبر پختون خوا سمیت پورے مُلک میں امن و امان قائم ہو رہا ہے اور یہ صورتِ حال تسلّی بخش ہے۔

س:پاک، افغان تعلقات ، افغانستان میں حزبِ اسلامی کے کردار ، لبنان و شام سمیت مشرقِ وسطیٰ میں حزبُ اللہ کے بڑھتے اثر و رسوخ اور مصر میں اخوان المسلمین اور فلسطین میں حماس کے کردار کے بارے میں کیا کہیں گے؟ کیا جماعتِ اسلامی، پاکستان کے ان جماعتوں کے قائدین سے روابط برقرار ہیں؟ نیز، شام کی صورتِ حال کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ج:افغانستان کے آیندہ انتخابات میں حزبِ اسلامی کی خاصی اہمیت ہو گی، کیوں کہ صرف یہی افغانستان کی حقیقی اور منظّم جماعت ہے، جس کی قیادت انجینئر گلبدین حکمت یار کے پاس ہے اور یہ مستقبل میں ایک بڑی سیاسی قوّت کے طور پر سامنے آئے گی۔ ہمارے روابط حزبِ اسلامی سمیت تمام افغانوں سے برقرار ہیں اور ہم نے حکومتِ پاکستان کو بھی یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ افغانستان کے کسی مخصوص گروہ سے تعلق رکھنے کی بہ جائے افغان اولس (افغان عوام) سے تعلقات قائم کرے۔ جہاں تک مشرقِ وسطیٰ میں حزبُ اللہ کے بڑھتے کردار کی بات ہے، تو یہ خطّہ ایک آتش فشاں کی حیثیت اختیار کر چُکا ہے اور اگر یہ پَھٹتا ہے، تو اس سے ارد گرد کے ممالک اور حزبُ اللہ بھی متاثر ہو گی۔ حزبُ اللہ، ایرانِ کے زیرِ اثر ایک منظّم و مسلّح جماعت ہے ، اگر یہ فلسطین کی آزادی کے لیے جدوجہد کرے، تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ اب جہاں تک اخوان المسلمون اور حماس سے روابط کی بات ہے، تو یہ سلسلہ تقریباً منقطع ہو چُکا ہے، لیکن ہم ان کی جدوجہد اور مقاصد کی حمایت کرتے ہیں۔

س:گزشتہ دِنوں یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ افغان صدر، اشرف غنی نے پاکستان کے ذریعے افغان طالبان سے مذاکرات کی خواہش ظاہر کی ہے۔ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

ج:پاکستان کو افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کے لیے اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہیے۔ چوں کہ مستقبل میں اس خطّے میں چین کا کردار بڑھے گا اور امریکا کا کم ہو گا۔ سو، پاکستان، چین اور ایران کو مل کر افغانستان میں قیامِ امن کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔

س: امریکا اور افغان حکومت ، پاکستان پر حقّانی نیٹ ورک کی معاونت کا الزام عاید کرتےہیں اور اس کے خلاف آپریشن کے لیےدبائو بھی ڈال رہے ہیں۔ کیا ان کا یہ طرزِ عمل دُرست ہے؟

ج: امریکا کی خواہش ہے کہ پاکستان حقّانی نیٹ ورک کا صفایا کر کے افغانستان میں اسے فتح دلوائے۔ یعنی وہ پاکستان کو استعمال کرنا چاہتا ہے، لیکن حقّانی نیٹ ورک امریکا کا دردِ سر ہے اور اسے خود ہی اس مسئلے سے نجات حاصل کرنی چاہیے، کیوں کہ اگر پاکستان نے اس کے خلاف کارروائی کی، تو اس کے نتیجے میں ہمارے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔

س:سعودی عرب میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور سعودی عرب، ایران کشیدگی کے بارے میں کیا کہیں گے؟

ج:مَیں نہیں سمجھتا کہ سعودی عرب میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ وہاں پہلے بھی آلِ سعود کی بادشاہت تھی اور آج بھی اُن ہی کی حُکم رانی ہے۔ البتہ سعودی عرب اور ایران میں پائی جانے والی کشیدگی سے عالمِ اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے۔ پھر سعودی عرب میں اس وقت کم و بیش 30لاکھ پاکستانی تارکینِ وطن روزگار کے سلسلے میں مُقیم ہیں اور سعودی عرب اور ایران کی باہمی چپقلش کے اثرات ان تارکینِ وطن پر براہِ راست مرتّب ہوتے ہیں۔ سو، ایک خوش حال سعودی عرب ہماری معاشی و روحانی ضرورت ہے۔

س:گزشتہ دِنوں سعودی ولی عہد، محمد بن سلمان کی جانب سے ایران اور تُرکی کے خلاف کافی سخت بیانات دیے گئے۔ کیا اس سے اُمّتِ مسلمہ کو نقصان نہیں پہنچے گا؟

ج:یاد رہے کہ اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات کو مغرب ہوا دے رہا ہے کہ ان سے اس کے مفادات وابستہ ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ سعودی عرب، ایران اور تُرکی مل کر عالمِ اسلام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔

ایک بھائی کلرک، دوسرا معلّم…

جماعتِ اسلامی کا ماضی اور حال خدمتِ انسانیت سے عبارت ہے اور جماعت کی اس خوبی کے اس کے مخالفین بھی معترف ہیں۔ نیز، جماعتِ اسلامی ہی مُلک کی وہ واحد جماعت ہے، جس کے قائدین خویش و اقربا پروری اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر یقین نہیں رکھتے ۔ سینیٹر سراج الحق نے بھی اپنے اکابرین کی اس درخشاں و تابندہ روایت کو قائم رکھا اور دو مرتبہ سینئر وزیر رہنے اور خیبر پختون خوا کی مخلوط حکومت میں شامل جماعت کے قائد ہونے کے باوجود اپنے خاندان کے کسی فرد کو نہیں نوازا۔ اس کا اندازہ اُن کے اس جواب سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’ہم کُل 6بہن، بھائی ہیں۔ 2بہنیں اور 4بھائی۔ میرے والد زندگی بَھر درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ 

سو، مجھ سے چھوٹا بھائی، اظہار الحق بھی اُن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پہلے عالمِ دین بنا اور اس وقت اسکول ٹیچر ہے۔ دوسرا بھائی، نصیر الدّین ایک دفتر میں کلرک ہے، جب کہ سب سے چھوٹا بھائی،ڈاکٹر ذکی الدّین ڈینٹسٹ ہے۔‘‘ جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا زوجہ اور بچّے بھی سیاست سے لگائو رکھتے ہیں؟تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’میری اہلیہ ایک مکمل گھریلو خاتون ہیں ۔ انہوں نے خود کو میرے اور بچّوں کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ میرے 7بچّے ہیں۔ 3بیٹے اور4بیٹیاں۔ سب سے بڑا بیٹا پشاور میڈیکل کالج کا طالبِ علم ہے اور باقی سب بھی زیرِ تعلیم ہیں۔‘‘

تڑپتی ممتا کو چند لوتھڑوں پر قرار آگیا

گزشتہ 17برس سے پاکستان بالخصوص صوبہ خیبر پختون خوا اور قبائلی علاقہ جات خود کُش اور ڈرون حملوں کی زد میں ہیں۔ہر چند کہ دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں خوں ریزی کے واقعات میں واضح کمی واقع ہوئی ہے، لیکن گزشتہ برسوں کے دوران کے پی کے اور فاٹا میں جس تواتر کے ساتھ آتش و آہن کی برسات ہوئی، اس کے اثرات تا حال باقی ہیں اور شاید ان سے نجات حاصل کرتے کرتے دہائیاں بیِت جائیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ جب ہم نے امیرِ جماعتِ اسلامی سے اُن سے اپنی زندگی کے ناقابلِ فراموش واقعے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے پہلے ایک سَرد آہ بھری اور پھر بھیگی پلکوں کے ساتھ بتایا کہ ’’ ایسے بے شمار واقعات ہیں، جو دِل و دماغ پر نقش ہو کر رہ گئے، جنہیں مَیں چاہتے ہوئے بھی نہیں مٹا سکتا، لیکن ایک اَلم ناک واقعہ، جو ذہن سے چمٹ کر رہ گیا ہے، وہ 2006ءکا ہے، جب مَیں سینئر صوبائی وزیر تھا، تو عید کے پانچویں روز مَیں نے ایک زور دار دھماکے کی آواز سُنی۔ دِیر زیریں سے متّصل باجوڑ ایجینسی میں واقع ایک مسجد و مدرسے پرڈرون حملہ ہوا تھا۔ 

مَیں فوراًجائے وقوعہ پر پہنچا،تو منبر سمیت پوری مسجد و مدرسے میں80سے زاید بچّوں کے اعضا بکھرے دیکھے۔ مَیں نے دیگر افراد کی مدد سے تھیلیوں میں یہ اعضا جمع کرنا شروع کردیے۔ وہاں والدین روتے پیٹتے اپنے جگر گوشوں کے لاشے تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ ایک خاتون اپنے بچّے کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے میرے پاس پہنچی، تو مَیں نے اُس کی تشفّی کے لیے ایک چادر میں مختلف انسانی اعضا ڈال کر کہا کہ ’’یہ تمہارا بچّہ ہے۔‘‘ اس حالت میں وہ بے چاری اپنی بچّے کو شناخت تو نہیں کر سکتی تھی،سو، اسی پر صبر کر لیا اور چادر لے کر گھرروانہ ہو گئی۔ یہ واقعہ یاد کرتا ہوں ، تو آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔‘‘

سیّد منوّرحسن خود امارت چھوڑنے پر مُصر تھے، آج بھی میرے ’’امیر‘‘ ہیں

تفصیلی گفتگو کے دوران جب ہم نے یہ سوال کیا کہ ’’جماعتِ اسلامی کی پوری تاریخ میں کوئی امیر صرف ایک مدّت کے لیے منتخب نہیں ہوا، لیکن سیّد منوّر حسن کے معاملے میں ایسا ہوا، حالاں کہ ان کی عُمر بہت زیادہ نہیں تھی ۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ انہیں شہید فوجیوں کو’’ شہیدِ وطن‘‘ تسلیم نہ کرنے کے مٔوقف پر اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کی وجہ سے منظر سے ہٹایا گیا، کیوں کہ ماضی میں جماعت کا کوئی سابق امیر صحت مند اور فعال ہونےکے باوجود اس طرح جماعت کے اُفق سے غائب نہیں ہوا۔‘‘تو سراج الحق نے جواب دیا کہ’’جب سیّد منوّر حسن کو امیر منتخب کیا گیا، تو تب اُن کی عُمرتقریباً 69برس تھی اور انہوں نے امارت کا حلف اُٹھانے سے قبل شوریٰ کے اجلاس میں کہا تھا کہ ’’یہ ذمّے داری کسی اور کو سونپی جائے، کیوں کہ میری عُمر اور صحت اس سے عُہدہ برآ ہونے کی اجازت نہیں دیتی اور اگر مُجھے امیر منتخب کرنا ہی تھا، تو پہلے کیا جاتا، تاکہ مَیں توانا جسم کے ساتھ بھرپور انداز سے یہ ذمّے داری انجام دیتا۔‘‘ 

گرچہ انہوں نے 5برس تک بہ حُسن و خوبی اپنے فرائض انجام دیے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس بات پر مُصررہے کہ اب جسم اُن کا ساتھ نہیں دے رہا اور اُن پر سے کام کا بوجھ کم کرنے اور اُنہیں آسانیاں فراہم کرنے کے لیے ہی دوبارہ امیر منتخب نہیں کیا گیا۔ تاہم، وہ اب بھی ہمارے مربّی و روحانی پیشوا ہیں اور ہمارے لیے ایک مرشد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 

ہم آج بھی اُن کی فہم و فراست کی روشنی میں فیصلے کرتے ہیں اور ان کی آرا کو اہمیت دیتے ہیں۔ گرچہ اب وہ جماعتِ اسلامی کے امیر نہیں ہیں، لیکن مَیں انہیں اب بھی اپنا امیر سمجھتا ہوں۔ جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی یا ڈر کی بات ہے، تو یہ تاثر سراسر غلط ہے اور ایسی بے سر و پا باتیں وہی لوگ کرتے ہیں کہ جو جماعت کے اندرونی میکینزم سے واقفیت نہیں رکھتے۔‘‘

اسٹیبلشمنٹ کی اَشیرباد حاصل ہوتی، تو جماعت کئی بار اقتدار میں آ چُکی ہوتی

اس سوال پر کہ ’’جماعتِ اسلامی جمہوریت کی بات کرتی ہے، لیکن بعض حلقے الزام لگاتے ہیں کہ یہ فوجی آمریتوں میں پَھلی پُھولی۔ اس نے ایّوب خان کے مارشل لا میں بی ڈی ایس سے، ضیاء الحق کے مارشل لا میں بلدیاتی نظام اور شوریٰ سے فائدہ اُٹھایا اور مشرّف کے دَور میں بلدیاتی نظام اور ایم ایم اے کے ذریعے فواید حاصل کیے اور اسی طرح آئی ایس آئی کی چھتری تلے بنی آئی جے آئی میں بھی شامل رہی۔ 

جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر، سینیٹر سراج الحق سے خصوصی گفتگو

اس الزام کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟‘‘جماعتِ اسلامی کے امیرکا کہنا تھا کہ ’’یہ الزام سو فی صد غلط ہے ۔اگر جماعتِ اسلامی اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ جماعت ہوتی، تو اب تک کئی مرتبہ ہماری حکومت قائم ہو چُکی ہوتی، کیوں کہ پاکستان میں وہی جماعتیں برسرِ اقتدار آتی ہیں، جنہیں اسٹیبلشمنٹ کی اَشیربادحاصل ہوتی ہے اور انہی کو وہ نوازتی ہے۔ مثال کے طور پر ضیاء الحق نے اپنی باقی عُمر میاں نواز شریف کو لگنے کی دُعا دی ،تووہ تین مرتبہ وزیرِ اعظم بنے۔ جماعتِ اسلامی پر کوئی اپنی مرضی مسلّط کرنے کا تصّور بھی نہیں کر سکتا۔ 

اس کا شورائی نظام اس قدر طاقت وَر ہے کہ بعض اوقات اس کے سامنے امیر بھی بے بس ہو جاتا ہے اور ویسے بھی کسی فرد کو تو اپنا ہم نوا بنایا جا سکتا ہے، لیکن ایک منتخب ادارے کونہیں۔ امریکا اور اس کے مغربی حلیف بھی پاکستان میں جمہوریت پر آمریت کو فوقیت دیتے ہیں، کیوں کہ آمریت میں صرف ایک ڈکٹیٹر ہی کو اپنا حامی بنانا پڑتا ہے، جب کہ منتخب اسمبلی پر اپنی مرضی مسلّط کرنا مشکل ہوتی ہے ، جماعتِ اسلامی بھی ایک منتخب شوریٰ کے تحت ہی کام کرتی ہے اور یہ ہمیشہ اپنے فیصلوں میں آزاد رہی ہے۔

بِلاشُبہ جماعتِ اسلامی بلدیاتی حکومتوں میں شامل رہی ہے، لیکن اس کے علاوہ دیگر جماعتیں بھی تو اُن کا حصّہ رہیں اور پھر اُن حکومتوں میں جماعتِ اسلامی کا حصّہ تھا کتنا؟ پھر ضیاء الحق کی شوریٰ میں جماعت کے کتنے ارکان شامل تھے؟ مجھے تو یاد نہیں پڑتا کہ جماعت کا کوئی اہم رُکن اس کا حصّہ بنا ہو۔ یہ تمام الزامات بے بنیاد اور مخالفین کا ہمارے خلاف پروپیگنڈا ہیں۔‘‘

اپنے وزرا کی کارکردگی سے مطمئن ہوں

خیبر پختون خوا کی مخلوط حکومت میں شامل اپنے وزرا کی کارکردگی سے متعلق کیے گئے سوال کے جواب میں سینیٹر سراج الحق کا کچھ یوں کہنا تھا کہ’’مَیں اپنے وزرا کی کارکردگی سے مطمئن ہوں۔ 

ہمارے پاس3وزارتیں ہیں۔ بلدیات، عُشر و زکوٰۃ اور خزانہ۔ ہمارے تینوں وزرا نے شب و روز محنت کی اور ڈیلیور کر کے دِکھایا۔ ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں اور عالمی اداروں نے کے پی کے میں جس وزارت کی کارکردگی کو سراہا، وہ بلدیات ہے، جس کا قلم دان ہماری جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر، عنایت اللہ خان کے پاس ہے۔‘‘ جب اُن سے پوچھا گیا کہ ’’کچھ عرصہ قبل صوبائی وزیرِ خزانہ کا اسکینڈل سامنے آیا تھا،تو کیا اس سے جماعتِ اسلامی کے وزرا کی ساکھ متاثر نہیں ہوئی؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’وہ معاملہ کچھ یوں ہے کہ بینک آف خیبر کے منیجنگ ڈائریکٹر نے اخبار میں اشتہار دیا تھا کہ صوبائی وزیرِ خزانہ، مظفّر سید اقتصادی اُمور کا تجربہ نہیں رکھتے۔ 

انہوں نے خلافِ ضابطہ تقرّریاں کیں اور وہ جب بھی کسی منصوبے کا افتتاح کرتے ہیں، تو وہ سیاسی جلسے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ بعد ازاں، حقائق جاننے کے لیے وزیرِ اعلیٰ، پرویز خٹک نے اپنی کابینہ کے ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی، جس نے تحقیق کے بعد ان الزامات کو مسترد کر دیا۔‘‘ 

چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے پی ٹی آئی نے ہم سے مشاورت تک کی زحمت گوارا نہیں کی

جب ہم نے امیرِ جماعتِ اسلامی سے یہ استفسار کیا کہ’’چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما، نعیم الحق کا یہ بیان سامنے آیا کہ جماعتِ اسلامی نے ان کی پیٹھ میں چُھرا گھونپا۔ آخروہ یہ کہنے پر کیوں مجبور ہوئے؟‘‘تو انہوں نے جواب دیا کہ’’ ہم نے کسی کی پیٹھ میں چُھرا نہیں گھونپا۔ 

صادق سنجرانی کے چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے پر مبارک باد تو آصف علی زرداری کو پیش کی گئی اور ایوان میں ’’جیے بُھٹّو‘‘ اور ’’ایک زرداری، سب پہ بھاری‘‘ کے نعرے لگے۔ پی ٹی آئی کو کیا ملا؟ یہ بلوچستان سے محبّت کی بات کرتے ہیں، تو سینیٹر عثمان کاکڑ کا تعلق بھی تو اسی صوبے سے تھا اور ہم نے انہیں ووٹ دیا ۔ مَیں نے اُن کے ساتھ سینیٹ میں ایک عرصہ گزارا ہے، جب کہ صادق سنجرانی کا تونام ہی ہم نے پہلی مرتبہ سُنا تھا۔ وہ تو’’ گوگل‘‘ میں بھی تلاش کرنے پر نہیں ملتے اور نہ ہی اُن کا کوئی سیاسی پس منظر ہے۔پھر وہ نہ پی ٹی آئی کے امیدوار تھے اور نہ ہی ہم سے انہیں ووٹ دینے کی درخواست کی گئی تھی، تو ہم انہیں ووٹ کیوں دیتے، جب کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے قبل ہماری حمایت حاصل کرنے کے لیے چیئرمین سینیٹ کے لیے مسلم لیگ (نون) کے امیدوار، راجہ ظفر الحق،وزیرِ اعظم،شاہد خاقان عبّاسی، گورنر خیبر پختون خوا، اقبال ظفر جھگڑا اور امیر مقام خود چل کر میرے پاس آئے تھے اور ووٹ دینے سے قبل ہم نے حُکم راں جماعت سےان 6نکات پر دست خط کروائے کہ آئین کے آرٹیکلز،62،63کو کسی صُورت نہیں چھیڑا جائے گا، اسلامی نظریاتی کائونسل کی سفارشات پر عمل درآمد کروایا جائے گا، ناموسِ رسالتﷺ کے قانون میں کوئی ترمیم نہیں کی جائے گی، فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم اور قبائلی علاقہ جات کے لیے ایک پیکیج دیا جائے گا اور آئین کا اسلامی تشخّص قائم رکھا جائے گا۔ 

ہم نے مسلم لیگ (نون) کی غیر مشروط حمایت نہیں کی، جب کہ پی ٹی آئی کی جانب سے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا، پرویز خٹک نے مُجھے فون پر صرف اتنا کہا کہ’’ آپ نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔‘‘ مَیں نے نام پوچھا، تو کہنے لگے کہ’’ ابھی تک تو مُجھے بھی اس کا نام نہیں معلوم۔‘‘ تو مَیں نے جواب دیا کہ’’ آپ نام معلوم کر کے بتائیں، تو ہم پھر سوچ کر جواب دیں گے۔‘‘ 

تازہ ترین
تازہ ترین