راولپنڈی ،کوئٹہ (نمائندہ جنگ، مانیٹرنگ ڈیسک ،صباح نیوز) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے لیگل ریفارمز کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے رضاکار، دماغ اور نیٹ ورک چاہیے جو لیگل ریفارمز کے مشن میں میرا ساتھ دیں، میں کام شروع کر رہا ہوں، میرے دور میں مکمل نہیں ہوگا لیکن جاری رہے گا،ہمارے قوانین بہت بوسیدہ ہوچکے ہیں، جدید تقاضوں کے مطابق بنانے والوں کے پاس وقت نہیں، ججوں کی کمی مقدمات کا التواء اور ہڑتالیں تاخیرکی وجہ ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں ضلع کچہری بار روم میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمدنور مسکانزئی ،جسٹس محمدہاشم خان کاکڑ ،چیف سیکرٹری بلوچستان اورنگزیب حق، کوئٹہ ڈسٹرکٹ بار کے صدر قاری رحمت اللہ کاکڑ سمیت وکلاء رہنماء بھی موجود تھے۔ چیف جسٹس نے کہاہے کہ ہمارے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں جسکے پاس قانون سازی کا اختیار ہے وہ قانون سازی نہیں کرتے سالہا سال تک کیسز چلنے پر بہت دکھ ہوتا ہے ،کورٹس میں مقدمات زیادہ ہیں وکلا ہڑتال نہ کریں بلکہ ہمارا ساتھ دیں۔ انہوں نے کہا کہ کہ8اگست 2016ء کو وکلاء پر خودکش بم حملہ ہوا تو وہ 9اگست کو یہاں پہنچے میں نے ملک میں اس طرح کے بہادر عوام کو کہیں نہیں دیکھا ہمیں مل جل کر کوشش کرنی ہے جولوگ اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہیں کرتے انکی حالت نہیں بدل سکتی، ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر دکھ اور افسوس ہے ۔ چیف جسٹس نے ملک میں لیگل ریفارمز شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں جسکے پاس قانون سازی کا اختیار ہے وہ قانون سازی نہیں کرتے نہ ہی ان کے پاس قانون سازی کیلئے وقت ہے ۔ ہمارے قوانین بوسیدہ ہوچکے ہیں، سول پروسیجر کوڈ 1908 میں مرتب کیا گیا،جو جدید دور کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے ہم موجودہ قوانین ہی سے سستا اورفوری انصاف فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔بہت سی اصلاحات پر کام شروع کررکھا ہے، خدا کرے کامیاب ہو جاؤں، مجھے رضاکار چاہئیں جو لیگل ریفارمز کے مشن میں ساتھ دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نظام عدل میں خامیاں ہیں اسے دور کرنے کیلئے میرا ساتھ دو حکومت کا بنیادی مقصد بنیادی حقوق کے ساتھ سہولت دے، انتظامیہ کا کام ہے کہ عدلیہ کیلئے سہولتیں پیدا کرے، انتظامیہ ناکام ہوئی تو عدلیہ کے دروازے وکلا پر بند نہیں ہونگے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات بہت زیادہ ہیں، 30،30سال سے کیس عدالتوں میں پڑے ہیں، عدالتوں میں پیش ہونے والا سائل ہر تاریخ پر جیتا مرتا ہے، ساتھ وکلاء پر بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تعاون کریں اور جس حد تک ممکن ہو سکے وکلاء تاریخ اور ہڑتال کا کلچر ختم کریں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ میں بلوچستان کی شہریوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے بھرپور کردار اداکرتا رہوں گا۔ انہوں نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ وہ 20دن کے اندر وکلاء کے جائز مطالبات پرعملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات اٹھائیں۔ اس موقع پرچیف جسٹس نے وکلاء سے ملاقات بھی کی خواتین وکلاء بار رروم کا بھی دورہ کیا۔ بعدازاں چیف جسٹس کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا ۔