ایک خوشگوار حیرت ہوئی، بری فوج کے سربراہ ایک مظلوم کے گھر گئے۔ نقیب اللہ محسود ایک حسین، متاثر کن نوجوان تھا۔ پولیس کو دی گئی مادر پدر آزادی کا شکار ہو گیا۔ تین اور ساتھی اس کے ساتھ ہلاک کردئیے گئے۔ کہا گیا وہ دہشت گرد تھے۔ دہشت گردی کا معیار پولیس کے ان اہلکاروں نے خود بنایا ہوا ہے، کافی عرصے سے۔ جسے چاہیں پکڑلیں، غائب کردیں، تشدد کریں، ماریں پیٹیں۔ کچھ ہاتھ نہ آئے -- اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے -- تواُنہیں پولیس مقابلہ کہہ کر موت کے گھاٹ اتاردیں۔ یہ سلسلہ بہت عرصے سے جاری ہے۔ کبھی کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ان مقابلوں کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے، ان کے خلاف آواز اٹھاتے۔ یہ پولیس مقابلے بہت پہلے سے ہو رہے ہیں۔ 1992 کے بعد ان میں بہت زیادہ تیزی آئی۔ ہم اپنا فریضہ انجام دیتے رہے۔ حقیقت تلاش کرتے اور بیان بھی۔ ایک پیشہ ورانہ ذمہ داری تھی، ادا کی جاتی رہی۔ جب بھی حقیقت سامنے آئی، ہمیشہ ہی نشان دہی کی کہ پولیس مقابلہ جعلی ہے۔ جسے دہشت گرد یا جرائم پیشہ کہہ کر گولی کا نشانہ بنایا گیا وہ تو کافی عرصے سے پولیس کے پاس تھا، یا اس واردات سے چند دن پہلے اٹھایا گیا تھا۔ہماری کوئی سنتا نہیں تھا۔ کسی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی۔ مرنے والے عام طور پر سیاسی مخالفین تھے، ان سے کس کو ہمدردی ہوتی۔ بات بہت آگے بڑھ گئی۔ بے نظیر بھٹو کے بھائی، مرتضیٰ بھٹو کو ان کے گھر کے قریب ایسے ہی ایک مقابلے میں کچھ اور ساتھیوں کے ساتھ ہلاک کردیا گیا۔ بی بی اس ملک کی وزیر اعظم تھیں کچھ نہیں کر سکیں۔ ’’مقابلے‘‘ میں شریک تما م ہی پولیس افسروں کو بعد میںخوب نوازا گیا۔ یہ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے،یاد دہانی کے لئے پھر تذکرہ کردیا۔
بی بی کی حکومت ماورائے عدالت ہلاکتوں کے الزام میںبرطرف کی گئی۔ بی بی چلی گئی۔ ماورائے عدالت قتل ختم نہیں ہوئے۔ ہونے بھی نہیں تھے۔ مرنے والوں کا والی وارث کون تھا؟ کون احتجاج کرتا۔ مگر یہ بھی نہیں ہوا کہ معاملے کا نوٹس نہیں لیا گیا۔ جتنے لوگ اٹھائے گئے،تھانوں میں ان کے بیشتر لواحقین نے رپورٹیں درج کرائیں۔ کچھ مقدمات تو اعلیٰ عدالتوں تک میں گئے ۔سنوائی نہیں ہوئی۔ پولیس والوں کی رسّی دراز ہوتی رہی۔ امن و امان کی بحالی کے لئے آپریشن کیا گیا۔ انہیں مزید موقع مل گیا۔ امن و امان کی بحالی صرف بہانہ تھا۔ اصل میں مال بنایا جاتا تھا۔ لوگ پکڑے جاتے اور پیسے لے کر چھوڑ دئیے جاتے۔ نہ ملتے تو ہلاک کردئیے جاتے۔ جب بھی پولیس مقابلے کی اطلاع آتی ایک ہی مطالبہ رہتا : عدالتی تحقیقات کرائی جائے۔ شاید ہی کبھی کرائی گئی۔ اگر اس فتنے کا سر ابتدا ہی میں کچل دیا جاتا تو معاملہ اتنا خراب نہیں ہوتا جتنا اب خدشہ بڑھ گیا ہے۔
نقیب اور اس کے ساتھیوں کی ہلاکت نے معاملے کو ایک دوسرے رخ پر ڈالنے کا خطرہ کھڑا کردیا ہے۔ آگ اپنے گھر کو لگائی گئی ہے ، دشمن کو ہاتھ تا پنے کا موقع مل رہا ہے۔ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ بھڑکے ہوئے جذبات، اپنے عزیزوں کا دکھ اور غم و غصّہ سوچ سمجھ پہ پردہ ڈا ل د یتا ہے۔
نقیب اور اس کے ساتھیوں کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کا صحیح ادراک نہیں کیا گیا۔ پہلے اسے ایک معمولی پولیس مقابلہ سمجھا گیا۔ ایسے مقابلے کراچی اور دوسرے علاقوں میں ایک معمول بن چکے تھے۔ زیادتی کا نشانہ بننے والوں میں ہر رنگ و نسل کے لوگ تھے۔ لیاری کے رہنے والے، طالبان (پشتون پڑھیں)، ایم کیو ایم کے کارکن اور، بلوچ۔ یہ سب دہشت گرد قرار دئیے گئے۔ ایک بہت طویل فہرست ہے مارے جانے والوں کی۔ ان میں ہر نسلی گروہ کے لوگ تھے، سیاسی بھی۔ جمعیت علمائے اسلام کے ایک عہدیدار بھی حال ہی میںایسے ہی ایک نام نہاد پولیس مقابلے کا نشانہ بنائے گئے۔ ان میں سے کسی کی دادرسی نہیں ہوئی، کسی کا بھی معاملہ اس طرح اٹھایا نہیںگیا جس طرح اٹھایا جانا چاہئے تھا، یا جس طرح نقیب کی ہلاکت پر احتجاج کیا گیا۔لیاری کے لوگ اور ایم کیو ایم والے زبانی کلامی احتجاج کرتے رہے، نام نہاد طالبان تو یہ بھی نہیں کر سکے ۔یوں بھی بیان بازی سے کہیں اس طرح کے سنگین مسائل حل ہوتے ہیں؟ عدالتوں میں بھی کسی کی شنوائی نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس بہت سے دوسرے اداروں کے کام دیکھ رہے ہیں۔ ان سے دست بستہ عرض ہے کہ تھوڑا سا وقت نکال کر ان لوگوں کے معاملات بھی دیکھ لیں جن کے مقدمات عدالتوں میںسنے نہیں جا سکے۔ لانڈھی کے کچھ لوگ کافی عرصے سے غائب تھے، ان کے مقدمات درج بھی کرائے گئے۔ ایک دن جے آئی ٹی میں ان کے والدین کو طلب کیا گیا۔ جس دن ان کی پیشی تھی اسی دن کے اخبارات میں ان کے لواحقین کی ’’پولیس مقابلے‘‘ میں ہلاکت کی خبر اور تصویریں شائع ہوئیں۔یہ آئے دن کا قصہ تھا۔ ان سب معاملات کا اب جائزہ لیا جائے۔ اُس وقت ممکن نہیں تھا۔ رائو انوار خدا بنے ہوئے تھے۔ پتہ نہیں کس کس کی پشت پناہی انہیں حاصل تھی۔ پولیس کے اعلیٰ حکام بھی ان کے خلاف کارروائی سے گریز اںتھے۔
بری فوج کے سربراہ کو ایک مظلوم کے گھر جاتے دیکھ کر خوشگوار حیرت ہو نے کی وجہ ہے۔اندازہ ہوا کہ ان کو ان معاملات سے دلچسپی ہے۔ وہ اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو نقیب کی ہلاکت کی سنگینی کا احساس ہے۔ ان کے پاس اختیارات بھی ہیں۔ معلومات بھی بہت ہوں گی۔ وہ اس مسئلہ کو حل کر سکتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کیوں اس مسئلہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ بلاشبہ اس معاملے پر کارروائی میں تاخیر ہوئی ہے۔ رائو انوارواردات کے بہت دن بعد گرفتار کئے جاسکے۔ یہ تاخیر بلا وجہ نہیں ہے۔اس کا بھی پتہ چلنا چاہیے۔قانون کا ایک نام نہاد پاسدار قانون سے بھاگتا رہا، پولیس کچھ نہیں کرسکی۔ اس نے جب چاہا گرفتاری دی۔ اس کے کئی ملزم ساتھی تو اب بھی آزاد ہیں۔ اس کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔ وہ نقیب کے والد سے ملنے گئے کہ انہیں یقین دلائیں کہ ان کے ساتھ انصاف ہوگا۔ نقیب کے ساتھ انصاف ضرور ہونا چاہیے۔ اور ان سب کے ساتھ بھی جو اس سے پہلے پولیس کی زیادتی کا نشانہ بنے۔ان معصوموں کے سر پر بھی ہاتھ رکھا جائے جن کے باپوں کو ہلاک کردیا گیا، جن کے شوہروں کو قتل کردیا گیا۔ انہیں بھی انصاف فراہم کیا جائے ۔انصاف سب کو ملنا چاہیے، اور تب ہی یہ انصاف کہلائے گا۔یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ رائو انوار انصاف کی گرفت سے بچ نہ پائیں۔ (ویسے وہ ریمانڈ پر ہیں، مگر آج کل رہتے کہاں ہیں؟)
اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے کہ پختون تحفّظ تحریک کے غم و غصے کی اصل وجہ کیا ہے؟ نقیب کی ہلاکت نے اسے تحرّ ک دیا ہے۔ اور اس کی وجوہات ہیں۔ ورنہ پہلے بھی پختون سمیت سب ہی لسانی گروہوں کے لوگ مارے جاتے رہے ہیں۔ کبھی اس پر احتجاج نہیں ہوا، اس طرح کا۔ فاٹا کا مسئلہ تو کافی عرصے سے چلا آرہا ہے۔ اسے بھی حل ہونا چاہیے۔ پختون تحفّظ تحریک کی سرگرمیوں کی اطلاعات غیر ذمہ دارانہ ذرائع سے مل رہی ہیں۔ ان میں سچ کتنا ہے اور مبالغہ کتنا اس کا اندازہ صرف اسی صورت میں لگایا جا سکتا ہے جب حقائق عوام کے سامنے آنے دئیے جائیں۔ ذرائع ابلاغ کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ ہمارے کچھ کرتا دھرتاحضرات بھی جذبات میں بہہ جاتے ہیں۔ درست کہ فاٹا کے گمشدہ افراد کا معاملہ اعلیٰ عدالتوں میں نہیں اٹھ سکا۔ مگر اس کی وجہ لسّانی بنیاد نہیں ۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا ہر لسّانی گروہ کے لوگ زیادتی کا نشانہ بنے، اور کسی کی سنوائی نہیں ہوئی۔ کراچی ہو یا لاہور، سب جگہ لوگ اٹھائے جاتے رہے، اور پولس مقابلوں میں مارے جاتے رہے۔ کس نے پوچھا؟ معاملہ قانون کی پاسداری اور انصاف کا ہے۔ اسی کے لئے آواز اٹھانی چاہیے۔ نقیب کا معاملہ اس لئے نہیں اٹھا کہ وہ واقعہ کراچی میں ہوا تھا۔ کراچی میں تو یہ واقعات کافی عرصے سے ہورہے ہیں، کسی نے کبھی کان نہیں دھرا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ قانون کی عملداری نہیں تھی، اور انصاف نہیں تھا۔
سوچنے سمجھنے والے، اور دانشور اس ملک کے عوام کے حالات بہتر کرنے کی بات کریں۔ انصاف چاہیے سب کو، قانون پر عمل ہونا چاہیے سب کے لئے، ظلم کسی کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی لسّانی گروہ سے ہو۔ اگر اس کو یا کسی بھی معاملہ کو محدود پیمانے پر اٹھایا گیا توحالات سدھریں گے نہیں۔ اس سے غصّہ بڑھے گا، بے اعتدالی میں اضافہ ہوگا اور مزید باغیانہ نعرے لگیں گے۔ اس کا فائدہ دشمن کو ہوگا، نقصان تو، خدا نہ کرے، اس ملک کا ہی ہے۔ پختون تحفّظ تحریک کے روح رواں بھی احتیاط سے کام لیں۔ جذبات پر قابو رکھیں۔اور معاملات بھی اپنے ہاتھ میں رکھیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)