بات خواتین کی ذہانت و اختراع کی ہو اور ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ میں فعال کردار ادا کرنے والی وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام انوشہ رحمان کا نام نہ آئے تو زیادتی ہوگی جنہوں نے گزشتہ روزیو این (ویمن)کے 3رکنی وفد سے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ملاقات کی،جس نے وزیر مملکت سے ملک کے دوردراز علاقوں کی خواتین کو جدید ٹیکنیکل ذرائع کے استعمال سے معاشی طورپر بااختیار بنانے بارے تبادلہ خیال کیا۔
اس موقع پرانوشہ رحمان نے کہا کہ یو این ویمن نے دُنیا بھرمیں خواتین کو بااختیار بنانے کے سلسلہ میں بڑا کردار ادا کیاہے ۔ یو این ویمن اور انٹر نیشنل ٹیلی کمیونیکشن یونین (آئی ٹی یو)دونوں نے لڑکیوں کے لیے آئی سی ٹی کے ہمارے پراجیکٹ کی کامیابی کا اعتراف کیا اور 2015ء کے اس پراجیکٹ کو بڑی کامیابی قرار دیا۔
ہم نے بیت المال وغیرہ کے خواتین کی بااختیاری کے مراکز میں اپنی نوعیت کی شاہکار 150لیبارٹریاں قائم کیں جہاں پر پسماندہ اور پسے ہوئے طبقوں کی ہزاروں لڑکیاں مائیکروسافٹ کے ذریعے کمپیوٹنگ اور کوڈنگ کی جدید ترین تکنیکس سیکھ رہی ہیں اور سیکھ کر اپنے گھروں میں بیٹھی باوقار روزی کمارہی ہیں۔
اسی لیے پاکستان کو فری لانسنگ میں چوتھے نمبرپر قراردیا گیا ہے ۔ ہم نے ڈیجی اسکل پروگرام کے ذریعے اس رینکنگ کو مزید بہتر بنانے کا عزم کیا ہے۔ جہاں آن لائن فری لانسنگ میں 10لاکھ افراد کو تربیت دی جائے گی اور ہم نے اس کا باضابطہ طورپر اگلے ماہ کا افتتاح کرنے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی نے وفد کے اراکین کو بتایا کہ ہم آن لائن ’’میڈ ان پاکستان پورٹل تشکیل دے رہے ہیں جس میں فرنیچر ، قالین، چمڑا اور ایسی دیگر صنعتی اشیاء شامل ہیں اور ہم ان کے ذریعے ای کامرس کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
خواتین اورلڑکیوں کو گزشتہ چند دہائیوں میں جتنی پزیرائی ملی ہے اتنی پہلے کبھی نہیں ملی ۔ دور حاضر میں دنیا کے ہرشعبہ میں خواتین اور نوجوان لڑکیاں مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں۔ گو ان کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کہیں کم ہے لیکن اس میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے مشرق ہو یا مغرب، خواتین کو ان کے حقوق دلوانے اور برابری کی بات ہر وقت زیر بحث رہتی ہے اورعوام کی بڑی تعداد اس بات کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ خواتین ہر شعبہ میں مردوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھیں۔ اسی حوصلہ افزائی کی وجہ سے خواتین تمام شعبوں میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔ مسلح افواج کی سخت ڈیوٹی ہو یا خلائی سفر ہرجگہ پر صنف نازک کی خدمات نمایاں ہیں۔
سائنسی میدان میں ابھی خواتین کی تعداد کم ہے اسی لئے اقوام متحدہ نے گذشتہ سال دسمبر میں ہر سال 11 فروری کو ’’انٹرنیشنل ڈے آف وومن اینڈ گرلز ان سائنس ‘‘منانے کا فیصلہ کیا تا کہ خواتین اور لڑکیاں اپنی صلاحیتوں کا لوہا سائنسی ترقی میں بھی منوا سکیں۔انیس سو بہترمیں مردوں اور خواتین کے مابین سائنسی خدمات میں تعداد کا فرق بالترتیب 97 فیصد کے مقابلے میں 3 فیصد تھا۔ 1998 میں یہ فرق 90 کے مقابلے میں 10 فیصد رہ گیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کی سائنس میں دلچسپی بڑھی تو اس میدان میں مردوں اور خواتین کی شمولیت میں فرق بھِی یکم ہو گیا۔ 2013 میں امریکی خواتین کی سائنس کے میدان میں نمائندگی 21 فیصد ، پاکستان میں 18 فیصد تھی جبکہ بولیویا 63 فیصد خواتین سائنسدانوں کے ساتھ سرفہرست تھا۔ مجموعی طور پر دنیا بھر میں 28 فیصد خواتین سائنسدان تھیں۔
یہ امر قابل ستائش ہے کہ پاکستان کی کل خواتین سائنسدانوں کی 25.6 فیصد تعداد نیچرل سائنس سے منسلک ہے۔ اقوام متحدہ اس شرح کو مردوں کے برابر لانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے اور ان کی امیدوں کے مطابق 2030 میں یہ فرق ختم ہو جائے گا۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ 2030 میں سائنس کی دنیا میں خواتین مردوں کی برابری کریں گی۔
سائنس میں قابل قدر خدمات سر انجام دینے پر 15 خواتین کو نوبل انعامات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس تعداد میں مستقبل قریب میں خاطرخواہ اضافہ ہوگا۔
دنیا بھر کی طرح پاکستانی خواتین بھی سائنسی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ پاکستانی خاتون سائنسدانوں کی بات کی جائے تو کئی نام قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹربینا شاہین جنہوں نے 250 سے زائد ریسرچ آرٹیکل لکھے اور 12 پیٹنٹ ان کے نام پر موجود ہیں۔ انہیں کئی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ ڈاکٹر رابعہ حسین نے برسن ییلو ایوارڈ کے علاوہ اور کئی ایوارڈ بھی حاصل کیے اور ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے یونیورسٹی آف لندن کا فیلو بھی بنایا گیا۔
سابق وفاقی وزیربرائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بھی ملک کا نام خوب روشن کیا اور ایوارڈز کے علاوہ انہیں رائل کالج آف فزیشن کا فیلو بھی بنایا گیا۔ ڈاکٹرحناچوہدری نے بھی کئی ایوارڈز اپنے نام کیے جن میں سے کلینشین سائنٹسٹ ایوارڈ سرفہرست ہے۔ صرف یہی نہیں ان کے علاوہ بھی کئی پاکستانی لڑکیاں سائنسی ترقی میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔
پاکستانی خواتین سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے متعارف کردہ ’’انٹرنیشنل ڈے آف وومن اینڈ گرلز ان سائنس ‘‘پاکستان میں بھی حکومتی سطح پر منایا جائے تاکہ نوجوان خواتین روایتی تعلیم کے بجائے سائنسی علوم میں زیادہ دلچسپی لیں اور ملک و قوم کا نام روشن کریں۔جہاں آرا پاکستان سافٹ وئیر ہاؤسز ایسوسی ایشن فار انفارمیشن ٹیکنالوجی( پاشا) کی صدر کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔ پاکستان کی سافٹ وئیر انڈسٹری کو بین الاقوامی رسائی دلوانے میں یہ اہم کردار ادا کر چکی ہیں۔
29 سالہ تجربہ رکھنے والی یہ خاتون ایک انٹرپرینئر، مقررہ اور سماجی کارکن ہیں۔ یہ معلومات کے تبادلے اور ٹیکنالوجی کے ذریعے کمیونٹیز کو خودمختار بنانے کے لیے بھی کام کر رہی ہیں،جب کہ فریحہ عزیز ان چند خواتین میں سے ایک ہیں، جنہوں نے کھل کر ڈیجیٹل رائٹس کی بات کی ہے۔ وہ ’بولو بھی‘ ادارے کی ڈائریکٹر ہیں۔ پاکستان میں یو ٹیوب کی بحالی کے لیے انہوں نے فعال کردار ادا کیا ہے۔
حال ہی میں انہوں نے سائبر کرائم بل کے خلاف ایک مہم کی قیادت کی ہے اور حکومت کو اس بل کی موجودہ شقوں کے ساتھ منظور کرنے سے روکنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔اسی طرح ناسا میں کام کرنے والی حبا رحمانی ،مریم سلطانہ (پی ایچ ڈی ایسٹروفزکس) ، اور ان جیسی کئی خواتین اپنے اپنے شعبوں میں ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں اور یہ ثابت کر رہی ہیں کہ پاکستان کی خواتین کو اگر مواقع میسر ہوں تو وہ کامیابیوں اور نئی جہتوں کی اعلیٰ مثالیں قائم کر سکتی ہیں۔