سپریم کورٹ کی جانب سے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف، تحریک انصاف کے سابق رہنما جہانگیر ترین اور دیگر نااہل افراد کو تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت یہ نااہلی تاحیات رہے گی۔
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 5رکنی بنچ نے جس میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل ہیں ،کیس کا فیصلہ 14 فروری 2018ء کو محفوظ کیا تھا۔
آج جسٹس عمر عطا بندیال نے محفوظ کیا گیا فیصلہ پڑھ کر سنایا، فیصلے کے وقت لارجر بنچ میں شامل 4 ججز عدالت کے کمرہ نمبر 1میں تھے جبکہ جسٹس سجاد علی شاہ اسلام آباد میں نہ ہونے کے باعث شرکت نہیں کرسکے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جو صادق اور امین نہ ہو اسے آئین تاحیات نااہل قرار دیتا ہے،جب تک عدالتی ڈیکلریشن موجود ہے نااہلی رہے گی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ تحریر کیا جبکہ جسٹس عظمت سعید نے اضافی نوٹ تحریر کیا۔
اس سے قبل سپریم کورٹ کے اسی 5رکنی لارجربنچ نے 14فروری کو مختلف اپیلوں پر سماعت کے بعد یہ فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
پانچ رکنی لارجر بنچ نے رواں سال جنوری میں 15مختلف درخواستیں یکجا کر کے سماعت کی تھی۔
سپریم کورٹ نے اس حوالے سے سابق وزیراعظم نوازشریف کو نوٹس بھی جاری کیا تھا۔
نوازشریف کی طرف سے داخل جواب میں کہا گیا کہ انہوں نےکوئی درخواست داخل نہیں کی۔
نواز شریف نے جواب میں کہا کہ نااہلی صرف اس مدت کے لیے ہوگی جس مدت کے لیے امیدوار منتخب ہو۔
جہانگیر ترین کے وکیل اور نااہل ہونے والے دیگر اپیل کنندگان نے تاحیات نااہلی کے خلاف دلائل دیے تھے۔
پاناما کیس میں نوازشریف کو 62ون ایف کے تحت نااہل قرار دینے والے بنچ میں جسٹس عظمت سعید شامل تھے۔
پاناما کیس میں نوازشریف کو 62ون ایف کے تحت نااہل قرار دینے والے بنچ میں جسٹس اعجازالحسن شامل تھے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس عمر عطا بندیال نے جہانگیر ترین کی نااہلی کا فیصلہ دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے نوازشریف اورجہانگیر ترین کے خلاف فیصلوں میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا تھا۔
سپریم کورٹ عبدالغفور لہڑی کیس میں 62ون ایف کے تحت نا اہلی کو تاحیات قراردے چکی ہے۔