عکاسی:اسرائیل انصاری
’’1998 میں سعودآباد کے علاقے میں تہرے قتل کی واردات نے تہلکہ مچا دیا تھا اور جب قتل کا الزام ایک نوجوان طالبہ اسماء نواب کے سر آیا کہ اُس نےاپنے ماں ،باپ اور بھائی کو قتل کیایا اپنے محبوب سے کرایا تو سننے والوں پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ گئے۔اسماء گرفتار ہوگئی۔چند ہفتوں تک اخبارات میں اس کی خبریں آتی رہیں اور پھر خاموشی چھا گئی،لیکن اس واردات کو لوگ بھولے نہیں۔اس کا اندازہ اُس وقت ہوا جب 3اپریل 2018کو20سال بعد اسماء نواب کی رہائی کی خبرمختلف چینلز پر بریکنگ نیوز بنی۔اخبارات نے اُس کی تصاویر شائع کیں۔جوانی میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے والی اسماء ڈھلتی جوانی میں جیل سے باہر آزاد فضا میں آئی تواُسےدنیا ہی عجیب لگی،صرف آسمان و زمین کا رنگ اُس کا جانا پہچانا تھا،اردگرد پھیلے زندگی کے رنگ اُسے ایک نئی دنیا لگے۔رہائی کے بعد اب وہ کیا کرے گی،یہ تو اسماء ہی بتائے گی۔گزشتہ دنوں ہم نے اُس کے وکیل جاوید چھتاری کے توسط سے ملاقات کی،جو کچھ اُس نے ہمیں اپنی بپتا سنائی،وہ آپ بھی پڑھیے اور سوچیے کہ ایک لڑکی کی زندگی کے 20 برس کھو جائیں تو وہ اب کیا کرے گی:‘‘
آشیاں جل گیا، گلستاں لٹ گیا،
ہم قفّس سے نِکل کر کِدھر جائیں گے
اتنے مانوس صیّاد سے ہو گئے،
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے
کسے پتا تھا کہ رازؔ الٰہ آبادی کے مذکورہ بالا اشعار تہرے قتل کی واردات میں ملوث ہونے کے الزام میں جیل میں نوجوانی کے قیمتی 20برس بتانے والی37سالہ اسماء نواب کی زندگی کا عکاس ہوں گے،جوہمارے عدالتی و پولیس کے نظام میں موجود سقم اورمعاشرے کی بے حسی و نا انصافی کی بھینٹ چڑھ گئی۔آج بیس برس بعد اس کی رہائی سے اٹھنے والا سوال اس نظام سے پوچھ رہا ہے کہ اُن تین معصوم جانوں کا قاتل کون ہے اوروہ آزاد کیوں ہے،اگر اسماء بے گناہ ہے توجیل میں بیس برس اس نے کس جرم کی پاداش میں کاٹے؟ گناہ گار کون اور معصوم کون ہے؟
گزشتہ دنوں اسماء نواب سے ہونے والی ایک ملاقات میں ان کے ماضی،جیل کی زندگی اور مستقبل کے حوالے سے بات چیت کی ،اپنی گفت گو میں وہ نظام اور معاشرے سے شاکی نظرآئیں،گفت گو کا آغاز کرتے ہوئے جب ہم نے اُن سے پوچھا کی رہائی کے بعد آپ کیسا محسوس کر رہی ہیں، تو اسماء نواب نے ایک پھیکی سی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا،’’ایسا لگ رہا ہے دوسرا جنم ہوا ہے،بہت اچھا لگ رہا ہے، حیرانی اور پریشانی بھی ہے کہ جو دنیا میں چھوڑ کر گئی تھی،وہ بہت تبدیل ہوگئی ہے، ہر چیز اور ہر جگہ بالکل نئی نئی لگ رہی ہے۔ راستے ہی سمجھ نہیں آ رہے، کون سے علاقے سے گزر کر کہاں آئی ہوں، جس دن میں جیل کے دروازے سے باہر آئی سب سے پہلے میں نے آسمان دیکھ کر پروردگار کا شکر ادا کیا‘‘۔
آپ نے کبھی سوچا تھا کہ آپ آزاد ہو جائیں گی؟اس سوال کے جواب میں اسماء نواب نے کہا،’’مجھے اس بات کا یقین تھا اور امید بھی تھی کہ میں ایک دن ضرور رہاہو جائوں گی، میں بے گناہ ہوں، آج آزاد ہوں، ٹی وی دیکھ سکتی ہوں، ٹیلی فون استعمال کر سکتی ہوں۔ مجھے جیل میں بھی ان باتوں کا علم ہو گیا تھا کہ لوگ موبائل فون استعمال کرتے ہیں، مجھ سے کیس کے حوالے سے لوگ ملنے آتے تھے، این جی اوز کی خواتین ملنے آتی تھیں، ان لوگوں کو دیکھ کر، ان کی باتیں سن کر اندازہ ہوتا تھا کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، مجھے موبائل استعمال کرنا نہیں آتا کیونکہ میں جب جیل آئی تھی تو اس وقت پی ٹی سی ایل فون کا ہی استعمال تھا‘‘۔رہائی کے بعد آپ کہاں کہاں گئیں؟’’پہلے دن مجھے میرے وکیل جاویدچھتاری اور ان کی بیگم سی ویو لے کر گئے۔ میں نے25سال بعد سمندر دیکھا۔ بہت عجیب لگ رہا تھا، گھوڑے پر بھی بیٹھی، وہاں ’’شوارما‘‘ کھایا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ ’’شوارما‘‘ کیا ہے، کچھ عرصے پہلے میں نے جیل میں ’’زنگر برگر‘‘ کا نام سنا تھا، میرے لئے تو برگر وہی تھا جو ہم ٹھیلے پر کھایا کرتے تھے، جس میں انڈا یا کباب ہوتا تھا، مجھے نہیں یاد کہ میں نے1998ء سے پہلے کبھی زنگر برگر کھایا ہو، شاید اس وقت یہ برگر نہیں تھا یا ہماری پہنچ میں ہی نہیں تھا۔جب میں نے جیل میں دیکھا تو حیرت ہوئی، جیل میں جب کوئی ایونٹ ہوتا تھا تو خواتین قیدی کھانے پینے کی چیزیں باہر سے بھی منگواتی تھیں تو اکثر خواتین ’’زنگر برگر‘‘ بھی منگوا لیتی تھیں لیکن ’’شوارما‘‘ میں نے سی ویو پر پہلی بار کھایا۔ کھانوں کے انداز بھی تبدیل ہو گئے ہیں، کافی حیرت ہوتی ہے‘‘۔اس سوال کے جواب میں کہ جیل کی زندگی کے بارے میں بتائیں،اسماء نے بتایا’’شروع میں مجھے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ کیس کی وجہ سے لوگ بہت آتے تھے، پوچھتے تھے کہ وہ کون لڑکی ہے جس نے یہ ’’کام‘‘ کیا ہے،ماں باپ کو مار ڈالا.....اس قسم کی باتوں سے بہت روتی اور جلد غصے میں آجاتی، اس وقت جیل کی سپرنٹنڈنٹ نجمہ پروین تھیں،بہت مہربان خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے اسٹاف کو منع کیا تھا کہ مجھ سے کوئی زیادہ سوال جواب نہ کرے۔ طرح طرح کے لوگ آتے، عجیب سوالات کرتے، میں کسی بات کا جواب نہیں دیتی تھی، کہتی ’’خدا کے لئے مجھ سے بات نہ کرو‘‘ آہستہ آہستہ ایسے لوگوں کو سمجھنے میں مجھے وقت لگا‘‘۔
جیل میں خاندان کے لوگ کبھی ملنے آئے؟’’شروع میںایک خالو کے علاوہ کبھی کوئی ملنے نہیں آیا،رہائی کے بعد ابھی تک کسی نے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے، پتہ نہیں سب کہاں ہیں، خالہ، ماموں، تایا، چچا، پھوپھیاں، نہ جانے ان کے گھر اب کہاں ہیں، کسی نے مجھے نہیںپوچھا۔جب مجھے ’’سزائے موت‘‘ سنائی گئی تھی تو ایک الگ کمرے میں بند رکھا گیاتھا، جیل کے لوگ کہتے کہ یہ ہمارا قانون ہے کہ سزائے موت والے قیدیوں کو دوسرے قیدیوں سے الگ رکھا جاتا ہے۔ میںاُس ’’کال کوٹھری‘‘ میں نو ماہ تک رہی،اس وقت میں یہی سوچتی رہتی کہ انہیں مجھ پر رحم نہیں آتا، انہوں نے مجھے غلط سزا دی ہے، میں بے قصور ہوں، مجھ سے لوگ پوچھتے تھے، میں سب سے یہی کہتی میں بے قصور ہوں، میرے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، میرا کسی بھی معاملے میں کوئی ہاتھ نہیں ہے، کوئی ثبوت بھی نہیں ہے اور جب ہائی کورٹ نے میری موت کی سزا ختم کی تو یہی کہا تھا کہ کوئی شواہد اور ثبوت نہیں ہیں کہ مجھےاس کیس میں ملوث کیا جائے۔ جب اتنے بڑے بڑے کیس عام عدالتوں میں چل رہے ہیں تو یہ کیس کیوں ’’انسداددہشت گردی عدالت‘‘ میں گیا۔میڈیا اورغیر سرکاری تنظیموں کے لوگ آتے، طرح طرح کے سوالات کرتے تھے، میں چپ رہتی کیونکہ ایک جملہ بولنے کو بھی غلط ہی رنگ دیا جاتا، باتیں اچھالی جاتی تھیں، لوگوں نے ڈرامے بھی بنا دیئے مجھ پر جب کہ مجھ سے کچھ پوچھا ہی نہیں گیا۔ این جی اوز کی خواتین بھی آتی تھیں،پوچھتی تھیں، بجائے حوصلہ و تسلی دینے کے کہتیں کہ آپ نے کچھ کیا ضرور ہے، اب آپ اللہ سے دعا کریں، وہ ہی کچھ کرے گا۔ ایک دفعہ مجھے بہت غصہ آ گیا تھا، میں نے کہا جب آپ کچھ کر نہیں سکتیں تو پوچھتی کیوں ہیں۔ میں کیا جانور ہوں، چڑیاگھر میں بیٹھی ہوں،آپ نہ آیا کریں، میرا خدا میرے ساتھ ہے،وہ ہی بڑا منصف ہے۔ روز ہی تماشا لگتا تھا، میں بہت چڑچڑی ہو گئی تھی‘‘۔اس سوال کے جواب میں کہ جیل کی کال کوٹھری میں گزراوقت کیسا تھا؟اسماء نواب کا کہنا تھا کہ مجھے بہت ڈر لگتا تھا، بہت گھبراہٹ ہوتی تھی۔ اکثر لائٹ بھی نہیں ہوتی تھی تو بہت ڈر لگتا تھا۔ جب میں روتی تھی توخواتین اسٹاف مجھے بہت محبت سے سمجھاتی تھیں۔ کبھی غصہ بھی کرتی تھیں لیکن اچھی طرح شفقت سے سمجھاتی تھیں کہ بیٹا پریشان نہ ہو، جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے، اللہ سے دعا کرو۔ میں ان دنوں بہت صدمے میں تھی، ماں باپ، بھائی کی شکل آنکھوں کے سامنے آتی تھی، بیتا ہوا وقت فلم کی طرح میرے سامنے گھومتا تھا، مجھے اس بات کا بہت دکھ ہوتا تھا کہ مجھے سزا بہت غلط دی گئی۔ وہ جو میرے اپنے تھے، جن کی موت نے مجھے اذیت میں مبتلا کر دیا تھا ان ہی کے قتل کا الزام مجھ پر لگا دیا گیا تھا۔ جب یہ واقعہ ہوا تھا ،تو تفتیشی افسر ممریز خان درانی نے میرا بیان لیا تھا، وہ مجھے دھوکے سے بلا کر لے گیا تھا کہ بیان لینے کے لئے لے کر جا رہے ہیں، تمہیں چھوڑ دیں گے لیکن انہوں نے مجھے نہیں چھوڑا اور گرفتار کر لیا، میں نے کہا آپ مجھ پر الزام کیوں لگا رہے ہیں، کہنے لگے کہ جرم کا اقرار کرو، ہم تمہیں باہر نکال لیں گے، پریشان نہ ہو۔ میں ان کے بہت پریشر میں آگئی تھی،لیکن میرے ساتھ بہت غلط ہوا۔ مجسٹریٹ نے بھی یہی کہا کہ تم قبول کر لو، تمہیں نکال لیں گے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں تھی اور نہ ہی کوئی بتانے والا تھا، عمر بھی کم تھی۔ اس بات کا مجھے شروع سے ہی دکھ ہے اور اب جب سپریم کورٹ نے مجھے بری کیا ہے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ نے کچھ نہیں کیا تو سزا کیوں ملی؟ تو میں کہتی ہوں میں نے کچھ نہیں کیا، غلط سزا ملی ہے اسی لئے بڑی عدالت نے مجھے بری کیا ہے۔جب یہ واردات ہوئی تو میری خالہ مجھے بہت ٹارچر کرتی تھیں کہ ہم تمہارے گھر جائیں گے، سامان وغیرہ اٹھا لیں گے۔ میرے پاس سادہ کاغذ لے کر آئیں کہ یہ تمہارے وکیل کا وکالت نامہ ہے،دستخط کرو۔ میں کہتی آپ وکالت نامہ اور وکیل دونوں کو لے کر آئیں، میں دستخط کرنے کو تیار ہوں۔ خالہ کی مدعیت میں کیس درج ہوا تھا ،نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی تھی بعد میں انہوں نے مجھےملوث کیا۔ خالہ مجھ سے کہتیں یہ گھر تمہاری ماں کے نام پر ہے، اگر تم چلی جائو گی تو یہ گھر ہمیں مل جائے گا، میرے والدین کا کچھ پیسہ تھا،پرائز بانڈ تھے، وہ یہ سب لینا چاہتی تھیں۔بس ان کا اس بات پر اصرار تھا کہ سادہ پیپر پر دستخط کر دو۔ میں نے انکار کر دیا تھا۔
میری امی کی سات بہنیں تھیں اور ایک بھائی، سب کا انتقال ہو گیاہے۔ میرے ایک خالو مجھ سے جیل میں ملنے آتے تھے۔ میری خالہ نے بہت کوشش کی تھی کہ میرے خالو جو میری دوسری خالہ کے شوہر تھے، انہیں میرے خلاف کرنے کی لیکن وہ ہی کبھی کبھی میری خبر گیری کے لئے مجھ سے ملنے جیل آتے تھے۔ ان کی بیوی جو میری خالہ تھیں، ان کا اس واردات سے پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا، وہ بہت اچھی خالہ تھیں میری۔ ان کے شوہر مجھ سے ملنے پانچ چھ مرتبہ آئے تھے۔ میری خالہ نے جنہوں نے مجھ پر الزامات لگائے تھے، انہوں نے میرے خالو اور ان کے خاندان پر بھی الزامات لگائے کہ یہ اپنے بیٹے کی شادی مجھ سے کرانا چاہتے ہیں تاکہ گھر اور پیسہ ان کو مل جائے جب کہ ان کے بچے میرے دودھ شریک بھائی تھے۔ میری خالہ نے مجھے بہت ٹارچر کیا تھا۔ انہوں نے مجھے اس حد تک پھنسا دیا تھا کہ مجھے ختم کرنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، میں نے پھر بھی ان کے لئے کچھ نہ کہا لیکن اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ انہوں نے جو میرے ساتھ کیا انہیں خمیازہ بھی بھگتنا پڑا، ان کی بیٹی کا بائی پاس ہوا، اسے ہوش نہیں آیا، وہ چل بسی۔ پھر ان کے بیٹے کا بھی انتقال ہو گیا۔ خود میری خالہ کا رکشے سے ایکسیڈنٹ ہو گیا، ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور چند ہفتوں میں وہ بھی چل بسیں۔ اگر آج وہ زندہ ہوتیں تو میں ان کے پاس ضرور جاتی اور انہیں بتاتی کہ میں بے قصور تھی اور آپ کی وجہ سے آج اس مقام پر ہوں۔ ان کے انتقال کی خبر مجھے خالو نے ہی دی تھی۔ خالو کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ اب ہمارے خاندان میں بڑا کوئی بھی نہیں ہے، سب کی اولادیں یا ان کی بھی اولادیں ہوں گی۔ میرا کسی سے رابطہ نہیں ہے‘‘۔ اسماء نے ذرا توقف دیا اورمزید کہناشروع کیا،’’میں اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی،ایک بھائی مجھ سے چھوٹاتھا، پندرہ سال کا تھا، وہ فرسٹ ایئر میں تھا، میں نے انٹر کیا تھا، ہم نے بہت جلدی پڑھنا شروع کیا تھا، کے جی، نرسری کی بجائے، براہ راست پہلی جماعت میں داخلہ لیا تھا، ابو ایک گورنمنٹ فیکٹری میں ملازمت کرتے تھے، میری امی میڈیسن کمپنی میں ملازمت کرتی تھیں، واردات والےدن میں کالج گئی تھی گریجویشن کا فارم لینے، امی ابو گھر پر تھے، میری غیرموجودگی میں یہ واردات ہوئی تھی‘‘۔والدین کو یاد کرتی ہیں؟ہمارے اس سوال پراسماء سسک اٹھی اور سنبھلتے ہوئے بولی،’’پل پل یاد کرتی ہوں امی،ابو کو، بھائی کو۔ جیل میں جب کوئی اپنے والدین کی بات کرتا تھایاعید کا موقع ہوتا، بہت زیادہ امی ابو یاد آتے تھے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے، دماغ مفلوج ہو جاتا تھا، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بالکل ختم ہوتی جا رہی تھی، ایک کے بعد ایک مشکلات کا سامنا کرنا آسان نہ تھا، بند کمرے میں اکیلے سوچ سوچ کر میرا دماغ پھٹنے لگا تھا، میں چیخ چیخ کر رونے لگتی تھی، وہ وقت گزارنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ جب مجھے سزا ہوئی تو میری میڈم (جیل سپرنٹنڈنٹ) اسلام آباد میں تھیں، جب وہ مجھ سے ملنے آئیں اور مجھے دیکھا کیونکہ میں کال کوٹھری میں تھی، باہر نہیں آ سکتی تھی، وہ جب مجھ سے ملنے آئیں اور میری حالت دیکھی تو انہوں نے مجھے اخبارات اورمیگزینز دیئے، کاپی اور پین بھی دیا کہ میں کچھ لکھوں تاکہ میرا دماغ کچھ بہتر ہو۔ انہوں نے مجھے کال کوٹھری سے باہر نکالا۔ اس طرح مجھے وقفے وقفے سے باہر آنے کی اجازت مل گئی تھی۔ وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے آفس لے کرجاتیں، وہاں بٹھاتیں، سمجھاتیں، تسلی دیتیں، بہت خلوص اورمحبت سے پیش آتیں۔جیل سپرنٹنڈنٹ نجمہ پروین کے مثبت رویئے سے مجھ میں تھوڑا اعتماد پیدا ہوا تھا۔نماز اور قرآن پڑھنا میں نے کال کوٹھری میں بھی نہیں چھوڑا تھا، ہم دونوں بہن بھائی کو بچپن سے ہی نماز اور قرآن پڑھنے کی عادت تھی۔ وہاں ایسی کوئی مصروفیت بھی نہیں تھی کہ وقت گزرتا۔ مجھ سے جیل سپرنٹنڈنٹ کہتیں کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا یا جو کچھ تم سوچتی ہو اسے دن اور تاریخ کے ساتھ لکھو۔وہ جیل سپرنٹنڈنٹ (نجمہ پروین) اب ٹریفک پولیس میں ڈی آئی جی ہیں۔ ان کے بعد جیل سپرنٹنڈنٹ کے طور پر میڈم شیبا شاہ آئیں،وہ بھی بہت مہربان خاتون ہیں۔
جیل میں دیگر خواتین قیدیوں کی حالت کیسی دیکھی ؟اس سوال کے جواب میںاسماء نواب کا کہنا تھا کہ ’’ جیل کا عملہ بہت اچھا ہے،جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ جیل کا عملہ قیدیوں کو مارتا پیٹتا ہے ایسا نہیں ہے، اگر قیدی خواتین کا آپس میں لڑائی جھگڑا ہو جاتا تواسٹاف خواتین ہمیں سمجھاتی تھیں یا کسی معمر یا پرانی قیدی خاتون سے کہتیں کہ آپ انہیں سمجھائیں یا کوئی قیدی خاتون اپنے کیس کے حوالے سے پریشان ہے، اسٹریس میں ہے، اس کے ساتھ بہتر سلوک کریں‘‘۔ جیل میں کام سیکھنے اور مصروفیت کے حوالے سےاسماء کا کہنا تھا کہ’’میں نے کمپیوٹر کورسز کئے ہیں اور وہاں ٹیچنگ بھی کرتی تھی۔ قیدی خواتین کے بچوں کو پڑھاتی تھی۔ 2003ء سے میں نے پڑھانا شروع کر دیا تھا، ماؤں کے ساتھ چھوٹے بچےبھی قید ہو جاتے تھے، انہیںلکھنا بھی سکھاتی تھی، وہ بہت تیز آواز میں بچوں کی نظمیں بھی پڑھتے تھے، مجھے ان کے درمیان بہت سکون ملتا، وقت بہت اچھا گزر جاتا تھا، وہاں خواتین کو ووکیشنل کورسز کروائے جاتے ہیں، پارلر کا کورس بھی کراتے ہیں، قرآن کلاسز بھی ہوتی ہیں، میں قرآن کی کلاسز لیتی تھی، وہاں یوگا ٹیچر بھی آتی تھیں، کلینک بھی ہے، دوا بھی مل جاتی تھی، جب ڈاکٹر کے پاس نرسز کی کمی ہو جاتی تو وہ ہم تھوڑی تعلیم یافتہ قیدی خواتین کومدد کے لیے بلا لیتی تھیں دوا دینے یا بلڈ پریشر چیک کرنے کے لئے‘‘۔جیل میں کسی سےدوستی ہوئی،باتیں کس سے شئیر کرتی تھیں؟اسماء نے کہا،’’جب میں کال کوٹھری میں تھی تو دیواروں سے باتیں کرتی تھی،وہ ہی میری ہم راز تھیں،میں بہت روتی ماں،باپ اور بھائی کو یاد کرتی،میں اپنی ساری باتیں ماں سے شئیر کرتی تھی،لیکن کال کوٹھری میں کوئی نہیں تھا جو میری سنتا،سوائے دیواروں کے.....نو ماہ بعدجب میں دیگر قیدی خواتین کے ساتھ رہنے لگی تو میری حالت معمول پر آئی جیل میں بہت ساری دوستیں بنیں ، ان میں سے کچھ بری بھی ہو گئیں، وہاں آنا جانا تو لگا ہی رہتا ہے، کوئی دیر میں جاتا ہے تو کوئی جلدی چلا جاتا ہے، جب وہ چلی جاتیں تو میں روتی تھی، ظاہر ہے ہم سب آپس میں ساتھ رہتے تو انسیت، اپنائیت ہو جاتی تھی۔ میری چھ دوست بنیں اور وقت کے ساتھ سب بری ہوتی چلی گئیں صرف میں ہی رہ گئی تھی۔ وہ لوگ جانے کے بعد رابطہ کرتی تھیں، سب کی خیر خیریت ملتی رہتی تھی، سب کے اپنے اپنے مسائل تھے، جیل میں پی سی او بھی تھا تو فون پر بھی بات ہو جاتی تھی لیکن جیل میں کچھ عرصے قبل سیکورٹی بڑھا دی گئی تھی تو پھر لوگ بھی کم ہی آتے تھے۔ اکثر قیدی خواتین کے گھر والے کھانے پینے کی چیزیں، بچوں کے لئے تحائف یا ضرورت کا سامان لاتے تھے لیکن سیکورٹی بڑھ جانے کے بعدیہ سلسلہ ختم ہو گیا تھا‘۔جیل میں آپ کو کوئی ذمہ داری ملی تھی؟اس سوال کے جواب میںاسماء نے کہا’’میں ’’جیل میں منشی‘‘ تھی، ملاقاتوں کے لئے رہنمائی دیتی تھی، آفس کے چھوٹے موٹے کام کرتی تھی، سٹی کورٹ سے اگر ججز رائونڈ پر آتے تو خواتین کو اکٹھا کرنا، عدالتوں کے لئے درخواستیں لکھنا، کسی خاتون کو اپنا بچہ لینا ہو یا کسی کے لئے ضمانت کی درخواست لکھنی ہو تو میں ہی یہ سارے کام کیا کرتی تھی۔ سب خواتین قیدی مجھ سے ہی کام کراتی تھیں۔ اسٹاف بھی بہت حیران ہوتا تھا۔جیسے اگرعید کا موقع آ رہا ہو تو فلاحی تنظیموں کے طرف سے کپڑے ،جوتے آتے تھے تو ان کے لیے لسٹیں میں بناتی تھی کہ کتنی لڑکیاں،بچے ہیں،کیا عمریں ہیں، مائوں کے کیا نام ہیں، ان کے لیے کپڑوں ،جوتوں کا سائز لکھ کر دیتی۔ یہ سارے کام ہم رمضان میں کرتے، رمضان میں زیادہ تر یہی مصروفیت ہوتی تھی، تھکن بہت ہو جاتی تھی، میں ہر وقت مصروف رہتی تھی‘‘۔جیل کے کھانوں کے بارے میں بہت اچھا سننے میں نہیں آتا، آپ کیا کہیں گی؟اسما ء نے بتایا کہ،’’کھانے صحیح ہوتے ہیں، خواتین خود ہی کھانا پکاتی ہیں۔ جیسے میرے ساتھ میری چار یا پانچ دوستیں تھیں تو کبھی ہم مل کر کھانا بنا لیتے تھے، کبھی ان کی کوئی ملاقات آتی تو وہ باہر سے کچھ کھانے کو منگوا لیتی تھیں، کبھی میں بھی کوئی اچھی چیز منگوا لیتی تھی، سبزی، گوشت لے آتے تھے تو ہم مل کر بنا لیتے تھے۔ چائے بھی اکثر ہم خود بنا کر پیتے تھے۔ سونے کے لئے انہوں نے چارپائیاں دی ہیں، اچھا بستر تھا، کال کوٹھری میں بہت زیادہ مچھر نہیںتھے ، صفائی کا انتظام مناسب تھا لیکن کال کوٹھری سے باہر بہتر انتظام تھا۔ جیل انتظامیہ مچھر مار دوائوں کا اسپرے بھی کرتی تھی‘‘۔
جب آپ جیل سے رہا ہوئیں تو آپ کو امید تھی کہ کوئی گھر سے یاخاندان سےلینے کے لئے آئے گا؟اسماء نواب نے بتایا،’’جب کوئی پہلے ہی ملنے نہیں آیا، بیس برس میں جیل میں رہی، کسی نے نہیں پوچھا تو رہائی کے وقت کوئی کیوں آتا‘‘۔اس سوال کے جواب میں کہ اب کیا سوچا ہے، زندگی کو کس طرح گزاریں گی ؟اسماء نواب کا کہنا تھا کہ،’’سب سے پہلے اپنی تعلیم مکمل کروں گی پھر ملازمت کروں گی اور میں ان عورتوں کی مدد کرنا چاہوں گی جن کی زندگیاں مشکل میںہیں، جو جیل میں ہیں، جن کی کیس کے حوالے سے سنوائی نہیں ہوتی، انہیں گھر والے چھوڑ جاتے ہیں۔ کچھ خواتین ہیں جو سزا کاٹ رہی ہیں اور انہوں نے جرم کیا ہے لیکن کچھ ایسی بھی ہیں جو ناکردہ گناہ کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ پھر کسی عورت کے قیمتی سال برباد ہو جائیں، وہ معاشرے کی ناانصافیوں کا شکار ہو جائے، میں ایسی ہر عورت کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔ ان کے ساتھ ان کے معصوم بچے بھی شامل ہیں، وہ بے گناہ، معصوم ہیں، انہیں پتہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ظلم ہو گیا ہے پھر ایسی قیدی عورتیں غصے اور چڑچڑاہٹ کا شکار ہو جاتی ہیں اور اپنا غصہ بچوں پر اتارتی ہیں۔ مجھے بھی غصہ آ جاتا تھا، لوگوں سے کبھی کبھی لڑ بھی لیتی تھی بعد میں سوچتی تھی کہ میں نے غلط کیا۔ میری زندگی، میرے مسائل کے ذمے دار یہ لوگ نہیں ہیں۔ اب امید ہے کہ آگے ماحول کی بہتری کے لئے کام کروں‘‘۔معاشرے سے کیا شکوہ ہے آپ کو؟اسماء نے قدرے تلخ لہجے میں کہا،’’میری زندگی کے قیمتی20برس ضائع ہو گئے،انہیں کون لوٹائے گا، مجھ پر الزام نہ لگتا تو آج میں بھی معاشرے کے دیگر افراد کی طرح زندگی بسر کررہی ہوتی، شاید معاشرے کا کوئی اہم کردار ادا کر رہی ہوتی، لیکن معاشرے کے ہی بے حس کرداروں نے نہ میری کوئی بات سنی نہ مجھ سے کچھ پوچھا اور میری زندگی تباہ کر دی۔ اس بات کا قصوروار ہمارا معاشرہ ہے۔ کبھی کسی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے، کبھی غلط بیانی سے کام نہیں لینا چاہئے، کسی سے امید یا توقع بھی نہیں رکھنی چاہئے۔ لوگوں کو اتنی کم عمری میں سمجھ بوجھ نہیں ہوتی، میں نے پھر بھی سمجھ بوجھ سے کام لیا جیسا کہ میں نے اس سادہ کاغذ پر دستخط نہیں کئے تھے، کوئی اور ہوتا تو کر دیتا تو کیا ہوتا پھر، جیل میں تعلیم دینے کا تصور اسی لئے ہے کہ لوگ قیدیوں کو بے وقوف نہ بنائیں تاکہ انہیں شعور ہو کہ ان کے ساتھ کون اچھا اور کون بے وقوف بنانا چاہتا ہے‘‘۔رہائی کے بعدجب آپ پہلی مرتبہ گھر گئیں تو کیا محسوس کیا؟اس سوال کے جواب میں اسماء کا کہنا تھا کہ،’’بے حد دکھ ہوا ویران گھر دیکھ کر، میں بھرا پرا گھر چھوڑ کر گئی تھی، وہاں میرے اپنوں کی کوئی یادگار چیز نہیں بچی جسے میں وہاں سے لے سکتی، میرے کاغذات، تصویریں، فیملی کی تصویریں، وہاں کچھ نہیں بچا تاکہ انہیں دیکھ کر مجھے تسلی ہوتی۔ پتہ نہیں کہاں گیا سب۔ گھر تو سیل تھا، پولیس والوں نے گھر سیل کیا تھا، وہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ میرے گھر کا سامان کہاں گیا؟
کالج، اسکول کے کاغذات، گھر کے کاغذات، ٹی وی، ٹیلی فون سیٹ، باورچی خانے کا سامان کچھ نہیں ہے وہاں۔ خراب فریج گرا پڑا تھا، پنکھے کھول کر لے گئے، کپڑے تک لے گئے، اب میں گھر جائوں گی اسے دوبارہ سے آباد کروں گی۔ میں اپنے ویلفیئر کے کام کا آغاز اسی گھر سے کروں گی۔ ابھی بہت کام کرنا ہے، نئے سرے سے زندگی شروع کرنی ہے، گھر کی دیواریں تک ٹوٹی ہوئی ہیں۔ بس ایک1998ء کا کلینڈر ابھی تک دیوار پر لٹکا ہے اور گھڑی بھی ہے جو خراب ہو چکی ہے،وہ گھڑی امی کو آفس کی طرف سے ملی تھی۔ بس دیوار پراُس وقت کی یہ دو چیزیں ہیں اور کچھ نہیں ہے‘‘۔اس سوال کے جواب میں کہ آپ کاشادی کرنے کا ارادہ ہے؟اسماء نے کہا،’’میں نے اس بارے میں کچھ نہیں سوچا، ابھی مجھے اپنا مستقبل بنانا ہے، زندگی کو مقصد دینا ہے۔میری کوئی نیکی تھی کہ پہلے دن سے آج تک میرے وکیل جاوید چھتاری نے میری مدد کی۔ ان کی بیگم فرح نے بھی میرے لیےبہت کام کیا ۔ انہیں میں اپنا سمجھتی ہوں۔ اب سوچنا ہے آگے کیا کرنا ہے‘‘۔
اپنی گفتگو میں اسماء نواب نے کیس میں رہائی پانے والے دیگر افراد کے حوالے سے بات کرنے سے انکار کردیا۔
’’انیس سال‘‘ کیس کی اپیلوں میں لگے،مقدمات میں طوالت دور کرنے کے لیے نظام بدلنا ہوگا،وکیل جاوید چھتاری کا اظہار خیال
اسماء نواب کے وکیل جاوید چھتاری سے کیس حوالے سے گفت گو کا موقع ملا،بیس برس تک مستقل مزاجی سےبغیر فیس مقدمہ لڑنے اور کام یابی سے ہمکنار ہونے کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ’’ اس زمانے میں، میں نیا نیا وکیل بنا تھا،مجھے کام ڈھونڈنا پڑتا تھا،ان دنوں شام کے اخبارات زیادہ تر کرئم کی خبریں لگاتے تھے، میں ان خبروں کو باقاعدگی سے پڑھتا تھا۔ایک دن سعود آباد میں تہرے قتل کی واردات کی خبر پڑھی اور کیس کے بارے میں معلوم کرنے کورٹ پہنچ گیا،وہاں اسماءپولیس کی حراست میں تھی۔میں نے اس سے پوچھا تمہاراوکیل کون ہے؟ اس نے کہا کوئی نہیں، میں نے اسے آفر کی کیا میں تمہارا مقدمہ لڑلوں، اس نے کہا کہ میرے تو آگے پیچھے کوئی نہیں، نہ میرے پاس پیسے ہیں،میں نے کہا کہ میں مقدمے کی فیس نہیں لو ں گا۔اس دن کے بعد سے رہائی تک جب تک میں اس کے ساتھ ہوں۔اسماءکا ہلکا پھلکا خرچہ بھی میں اور میری اہلیہ جو کہ وہ بھی وکیل ہیں اور اس کیس سے منسلک رہیں،ہم ہی اٹھاتے تھے۔
اس کیس میں کئی نشیب و فراز آئے، یہ کیس مجسٹریٹ کے کورٹ سے انسداد دہشت گردی کورٹ،وہاں سےہائی کورٹ، پھر سیشن کورٹ چلا گیا تھا، بعدازاں سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ آیا جہاںیہ کیس دو مرتبہ چلا۔ ایک مرتبہ جب اپیل دائر کی تو اس میں جسٹس رانا شمیم نے ہمارے خلاف فیصلہ دیا۔ ہم نے سزا پر اپیل کی تو جسٹس علی سائیں ڈنو میتھلو نے اسماء کوبری کردیا تھا، یہ تو طے تھا کہ کیس میں کہیں نہ کہیں تنازعہ ہے، پہلی اسٹیج پر ہی کیس متنازعہ ہوگیا تھا۔ لیکن جب جسٹس مقبول باقرکوریفری جج مقرر کیا گیا تو انہوں نے کچھ دن کیس چلایا پھر وہ سپریم کورٹ کے وکیل بن گئے۔ اس کے بعد جج عبدالرسول میمن اورریفری جج نے خلاف فیصلہ دیا۔ تو دو ججوں کے ہمارے خلاف اور ایک جج کا ہمارے حق میں فیصلہ آیا۔ اسی آبزرویشن کو لیکر ہم سپریم کورٹ آئے‘‘۔ہمارے نظام میں مقدمات طوالت کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟اس سوال کے جواب میں جاوید چھتاری نے کہا’’ قانون میں ایک اصطلاح ہے Miscarriage of Justice اگر ہم اسےعملی معنوں میں لیں تو ہمارے ہاں اس کی بہت کمی ہے۔
’’انسداد دہشت گردی عدالت‘‘ میں ہمارا کیس (اسماء نواب کیس) بارہ دن میں چل کر ختم بھی ہوگیا تھا، اس کے بعد سارا وقت ہمارا اپیلوں میں لگا ’’انیس سال ہمارے اپیلوں میں لگے‘‘۔سپریم کورٹ میں 2015 میں اپیل دائرکی تھی، اندازہ لگائیں کہ ڈھائی تین سال تو ہمارا کیس سپریم کورٹ میں Pending میں رہا۔ اس سے پہلےسولہ سال ہائی کورٹ میں رہا‘‘۔اس حوالے سے آپ کیا تجاویز دیں گے؟جاوید چھتاری نے کہا،’’دیکھیں، کیس تو جلدی نمٹ جاتا ہے جیسے اس کیس کا بارہ دن میں انسداد دہشت گردی عدالت میں فیصلہ ہوگیا تھا۔ ہمیں ایک دن کیا ایک گھنٹے کی بھی adjournment نہیں ملتی تھی۔ ہم بغیر ناشتے، کھانے کے کیس چلاتے تھے۔ سلطان آباد میںجو کورٹ ہے وہاں چائے یا کھانے کا رواج ہی نہیں ہے، ٹنکیوں میں بھرا ہوا پانی پی لیا کرتے تھے۔ لیکن بات یہ تھی کہ جب بارہ دن میں کیس کا فیصلہ آگیا، سارا وقت ہمارا اپیلوں میں کیوں لگا ہے جو وجہ مجھے سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر کیس کی تقریباً ایک ماہ بعد Sitting تبدیل ہوجاتی ہے۔ پھر نئے سرے سے دوسرے جج کو کیس سنانا پڑتا ہے،اس طرح کورٹ کا وقت ضائع ہوتا ہے، یہی اپیلوں میں طوالت کی وجہ بنتی ہے اور کیسز delayہوتے ہیں ،اسی طرح پولیس سسٹم ہے، گواہوں کو لانا، گواہ نہیں پہنچ پائے، پیشی پر جج ، سرکاری وکیل، انوسٹی گیشن افسر ، ڈیفنس کونسل کا ہونا اور ملزم وغیرہ کا ہونا ضروری ہوتا ہے، اتنی ساری چیزیں کیس چلنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں اس میں دیر ہونا پھر بھی سمجھ میں آتا ہے، لیکن اپیل میں تو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، ایک ڈیفنس کائونسل، ایک جج اور ایک پراسیکیوٹر کا ہونا ضروری ہوتا ہے، اپیلیں جو پندرہ ،سولہ، بیس سال تک ہوتی ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں جوڈیشل سسٹم نہیں، جوڈیشل پالیسی درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی جوڈیشل سسٹم کیا ہے، لوئر کورٹ اور جوڈیشل پالیسی کیا ہے، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ۔ ہمیں جوڈیشل پالیسی کو Reviveکرنا پڑے گا، ججوں کے تقررکے طریقہ کار کو بدلنا پڑے گا، اگر ہم چاہتے ہیںکہ کرمنل سائیڈ کے کیسز جلد از جلد حل ہوں تو کرمنل سائیڈ کے ماہر وکلاء کو ہائی کورٹ میں جج مقرر کرنا پڑے گا۔ تب کہیں جاکر کچھ بہتری آئے گی۔