انٹرویو :ارشد عزیز ملک، سلطان صدیقی ،پشاور
تصاویر :فیاض عزیز
’’پروفیسر ڈاکٹر امتیاز علی کا تعلق صوبہ خیبرپختون خوا کے ضلع، نوشہرہ کے علاقے، مانکی سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کی، جب کہ مڈل اور میٹرک اسلامیہ کالجیٹ اسکول، پشاور، انٹر میڈیٹ جہاں زیب کالج، سوات اور بی ایس سی اور ایم ایس سی (آنرز) زرعی یونیورسٹی پشاور سے کیا۔ بعد ازاں، امریکا کی Purdue یونی ورسٹی سے ایم ایس، جرمنی کی یونی ورسٹی آف بون سے پی ایچ ڈی اور چینی یونی ورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ شعبۂ انٹرو مالوجی سے وابستہ ہیں۔ فروری 1989ء میں ایگری کلچر ریسرچ سسٹم، ترناب سے ملازمت کا آغاز کیا۔ اگست 1990ء میں زرعی یونی ورسٹی، پشاور میں لیکچرار کی حیثیت سے تعیّنات ہوئے اور ترقّی کی منازل طے کرتے ہوئے آج سے 10ماہ قبل صوابی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر مقرّر ہوئے۔ انہیں سرچ کمیٹی نے اس منصب کے لیے منتخب کیا۔ گزشتہ دِنوں ہماری پروفیسر ڈاکٹر امتیاز علی سے ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔‘‘
س :جب آپ نے وائس چانسلر کی حیثیت سے صوابی یونی ورسٹی کی ذمّے داری سنبھالی، تو جامعہ کی کیا صورتِ حال تھی؟
ج :تب یونی ورسٹی میں کُل12شعبہ جات تھے۔ فیکلٹی ممبرز سمیت پورے اسٹاف کی تعداد 220تھی اور قریباً1.5ہزار طلبہ زیرِ تعلیم تھے۔یوں کہیے، 10ماہ قبل تک یونی ورسٹی کی حالتِ زار ناگفتہ بہ تھی۔ اساتذہ کی حاضری برائے نام تھی اور دیگر عملے کی صورتِ حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھی۔
درس و تدریس کا سلسلہ تقریباً ختم ہو چُکا تھا ۔ امتحانات بھی وقت پر نہیں ہو رہے تھے۔ مَیں نے گزشتہ برس جُون میں یونی ورسٹی کا چارج سنبھالا ،جس سے ایک ماہ قبل امتحانات ہونے تھے، مگر نہ ہو سکے۔ مَیں نے پہلی فرصت میں امتحانات کروائے۔ میری آمد سے قبل جامعہ میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ معمول بن چُکی تھی اور اسٹینڈ بائی جنریٹرز بے کار پڑے تھے۔ وی سی آفس تک کا ایئر کنڈیشنر بند تھا۔ انٹرنیٹ کی سہولت دست یاب نہیں تھی اور موبائل فون کے سگنلز بھی نہیں آتے تھے۔
بوائز اور گرلز ہاسٹلز کی حالت دگرگوں تھی۔ جامعہ میں دست یاب اشیائے خور و نوش کا معیار انتہائی ناقص تھا۔ گرچہ مالی موجود تھے، لیکن دوسرے اسٹاف کی طرح وہ بھی صرف حاضری لگانے ہی آتے تھے اور ہر جا خود رَو جھاڑیاں سَراُٹھائے کھڑی تھیں۔نیز، 6برس قبل قائم ہونے والے فارمیسی ڈیپارٹمنٹ کا ایک بَیج فارغ ہو چُکا تھا اور دوسرا چل رہا تھا، لیکن فارمیسی کائونسل سے اس کی تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے فارغ التّحصیل طلبہ کو ملازمت نہیں مل رہی تھی۔
س :تو آپ نے بہتری کے لیے کیا اقدامات کیے؟
ج :مَیں نے چارج سنبھالتے ہی امتحانات منعقد کروائے۔ گرچہ طلبہ و اساتذہ اس پر آمادہ نہیں تھے، لیکن تعلیمی سال کو ریگولرائز کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ پھر فارمیسی کائونسل سے فارمیسی ڈیپارٹمنٹ کی تصدیق کروائی، جس کے نتیجے میں مذکورہ شعبے میں زیرِ تعلیم طلبہ کا اعتماد بحال ہوا اور یونی ورسٹی کے فارغ التّحصیل طلبہ کو بھی ملازمتیں ملنا شروع ہو گئیں۔ میرے چارج سنبھالنے سے قبل یونی ورسٹی کے اپنے ماڈل اسٹیچوٹس (آئین، قوانین) نہ ہونے کی وجہ سے پشاور یونی ورسٹی سمیت دیگر جامعات کے ماڈل اسٹیچوٹس کو سامنے رکھ کر کام کروائے جاتے تھے، لیکن مَیں نے 3ماہ کے دوران یونی ورسٹی کے ماڈل اسٹیچوٹس کو حتمی شکل دے کر متعلقہ فورمز سے ان کی منظوری لی اور ان کے تحت یونی ورسٹی کے معاملات چلانا شروع کیے۔
نیز، گزشتہ 7برس سے فیکلٹی ممبرز سمیت پورے اسٹاف کی ترقّی ، میڈیکل الائونس اوراُن کی بچّوں کی فیس کے حل طلب مسائل حل کیے، کیوں کہ مَیں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اسٹاف کے مسائل حل ہوں، انہیں سہولتیں فراہم کی جائیں اور ان سے بھرپور کام لیا جائے۔ یہی وجہ ہے، اب سارا اسٹاف وقت پر آتا ہے۔ ایمان داری سے اپنی ڈیوٹی انجام دیتا ہے اور مقرّرہ وقت ہی پر چُھٹی کرتا ہے۔
س :آپ نے اسٹاف کے لیے کن مراعات کا اعلان کیا؟
ج :مَیں نے اُن کا اسکیل اپ گریڈکیا اور پی او ایل کی حد دیگر جامعات کے مساوی کر دی۔ اسٹاف کے بچّوں کی فیس میں معافی و رعایت دی۔ ایمونریشن اور فیکلٹی ڈیولپمنٹ پوسٹ ڈاٹ کے لیے 20لاکھ مختص کیے، ریسرچ کی مَد میں بیچلرز اور ماسٹرز کے طلبہ کو 30ہزار اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کے لیے ایک لاکھ روپے کی گرانٹ دی۔ کمپیوٹر آپریٹرز کو گریڈ 16میں ترقّی دی۔ اسٹاف کو کلاس فور کے الائونسز دیے اور ماسٹرز اور پی ایچ ڈیز کے الائونس دینے کے علاوہ اوور ٹائم میں اضافہ کیا۔ نیز، خصوصی الائونس کا اجرا کیا۔ معذور بچّوں کو سہولتیں دیں اور 2نئے ٹرانسفارمرز نصب کروائے۔
س :آپ پر الزام ہے کہ آپ نے یونی ورسٹی میں گنجائش نہ ہونے کے باوجود نئے ڈیپارٹمنٹس قائم کیے۔ حتیٰ کہ تمباکو ڈِپو میں بھی ایک ڈیپارٹمنٹ قائم کردیا اور نئے لوگوں کو بھرتی کیا۔ کیا یہ دُرست ہے؟
ج :مَیں نے اپنے پہلے 3ماہ کے دوران یونی ورسٹی کے ماڈل اسٹیچوٹس پر کام کیا اور متعلقہ فورمز سے ان کی منظوری لے کر ان کے مطابق کام کروائے۔ میرے چارج سنبھالنے سے قبل جامعہ میں صرف 12شعبے تھے اور نئے ڈیپارٹمنٹس قائم کرنے کی منظوری میرے آنے سے قبل ہی متعلقہ فورمز کی جانب سے دی جا چُکی تھی، مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا۔ مَیں جب وائس چانسلر بنا، تو بعض طلبہ اور والدین نے مُجھ سے رابطہ کر کے بتایا کہ صوابی میں یونی ورسٹی تو موجود ہے، مگر مطلوبہ شعبے نہ ہونے کی وجہ سے مقامی طلبہ کو پشاور، مانسہرہ اور اسلام آباد جانا پڑتا ہے اور وہاں ہاسٹل میں رہائش اختیار کرنا پڑتی ہے۔ سو، اس مشکل کے حل کے لیے مُجھے یونی ورسٹی میں 16نئے ڈیپارٹمنٹس قائم کرنا پڑے اور اس وقت صوابی یونی ورسٹی میں مجموعی طور پر 28شعبہ جات ہیں۔ اب جہاں تک نئی بھرتیوں کی بات ہے، تو ہم نے 28وزیٹنگ لیکچررز کے لیے اخبارات میں باقاعدہ اشتہارات دیے تھے، جس کے نتیجے میں پورے صوبے اور اسلام آباد وغیرہ سے 2ہزار سے زاید درخواستیں موصول ہوئیں۔
واضح رہے کہ ہم نے پہلی بار وزیٹنگ فیکلٹی کے لیے باقاعدہ اشتہار دیا تھا۔ پھر ہم نے شارٹ لسٹنگ کی اور متعلقہ کمیٹی نے کسی سفارش کے بغیر میرٹ پر28لیکچررز کا چُنائو کیا۔ کلاس فور اور سپورٹنگ اسٹاف، بہ شمول وزیٹنگ لیکچررز کُل 43افراد بھرتی کیے گئے ہیں۔ چُوں کہ اس وقت موٹر وے سائٹ پر یونی ورسٹی کا نیا کیمپس زیرِ تعمیر ہے، اس لیے ہم نے تمباکو کا گودام کرائے پر لے کر وہاں نئے ڈیپارٹمنٹس اور کلاس رومز قائم کیے اور گودام کو اکیڈمک بلاک میں تبدیل کرنے، سائونڈ پروف بنانے اور یہاں کمپیوٹرز، انٹرنیٹ اور وائی فائی کی سہولت فراہم کرنے پر لگ بھگ 13لاکھ روپے خرچ کیے، جب کہ پہلے سیمسٹر کے داخلوں کی صورت ہمیں 2کروڑ 20لاکھ کا ریونیو ملا اور اگلے سمسٹر میں بھی بھرپور ریونیو ملنے کا امکان ہے۔
اگر ایک ٹیکنیکل ٹریننگ اسکول میں یونی ورسٹی کا آغاز کیا گیا تھا اور مَیں نے اکیڈمک بلاک کے لیے تمباکو کا گودام کرائے پر لیا، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور اگر مستقبل میں ہمیں مزید جگہ کی ضرورت پڑی، تو ہم مزید عمارات بھی کرائے پر لینے سے دریغ نہیں کریں گے۔ ہمیں تعلیمی اعتبار سے یونی ورسٹی کو آگے لے کر جانا ہے اور یہاں ریسرچ کو فروغ دینا ہے۔ لہٰذا، اپنے اسٹرٹیجک پلان کے مطابق ہم ہر مناسب قدم اُٹھائیں گے اور ہمارے اقدامات سے جن افراد کو تکلیف پہنچے گی یا جن کے آرام میں خلل پڑے گا، وہ کوئی نہ کوئی جواز گھڑ کر اعتراض بھی کریں گے اور الزامات بھی لگائیں گے۔ البتہ مَیں نیک نیّتی کے ساتھ یونی ورسٹی اور مُلک و قوم کے مفاد میں کام کرتا رہوں گا۔ ہمارے منظور شُدہ اسٹرٹیجک پلان کے تحت مزید 7شعبے قائم کیے جائیں گے اور ہمیں توقّع ہے کہ ضلع صوابی اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے طلبہ ہماری جامعہ کی جانب ضرور متوجّہ ہوں گے، کیوں کہ صوبے کی دیگر جامعات کی نسبت ہماری فیس بھی کم ہے اور تعلیم کا معیار بھی نسبتاً بہتر ہے۔
س :یونی ورسٹی میں ریسرچ کی کیا صورتِ حال ہے؟
ج :مُجھے امید ہے کہ ہمیں بہت جلد ایچ ای سی اور سائنس فائونڈیشن کی جانب سے 23ریسرچ پراجیکٹس مل جائیں گے۔ اس کے علاوہ ہم اپنے طلبہ کو ریسرچ کی مَد میں گرانٹ بھی دے رہے ہیں اور تحقیقی کاموں ہی سے کوئی یونی ورسٹی آگے بڑھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر اُمور پر ریسرچ کو فوقیت دی جا رہی ہے۔
س :نصابی سرگرمیوں کے علاوہ ہم نصابی سرگرمیوں پر بھی توجّہ دی جا رہی ہے؟
ج :یونی ورسٹی کا چارج سنبھالنے کے بعد مَیں نے جہاں تدریسی و انتظامی اُمور کو ٹریک پر لانے کے لیے اقدامات کیے، وہیں ہم نصابی سرگرمیوں کے لیے اسٹوڈنٹس سوسائٹیز بھی تشکیل دیں، جن میں کلچر سوسائٹی، اسپورٹس سوسائٹی اور ڈیبیٹ سوسائٹی وغیرہ شامل ہیں، تاکہ طلبہ کو ہم نصابی سرگرمیوں کے لیے پلیٹ فارم میسّر آ سکے اور ان کی تفریحِ طبع کا بندوبست بھی ہو۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے طلبہ کو اسٹڈی ٹورز بھی کروائے، جو اُن کا حق ہے اور اس مقصد کے لیے ان کے فنڈز بھی موجود ہیں۔
س :آپ نے بتایا کہ یونی ورسٹی میں جا بہ جا خود رَو جھاڑیاں موجود تھیں، تو کیا ان کا بھی صفایا کر دیا گیا؟
ج :جی ہاں۔ خود رَو جھاڑیوں کا صفایا کر دیا گیا ہے اور اب باغات لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے 20لاکھ کی لاگت سے ایک نرسری بھی قائم کی ہے، جس کے لیے گجرات، پشاور اور کراچی سے پودے منگوائے گئے۔
س :یونی ورسٹی کی مین کیمپس میں منتقلی کب تک عمل میں آئے گی؟
ج :موٹر وے کے قریب مین کیمپس کی تعمیر تیزی سے جاری ہے۔ مئی میں اکیڈمک بلاکس کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد ہماری یونی ورسٹی وہاں منتقل ہو جائے گی اور رواں سال ہی وہاں مزید7شعبے قائم کیے جائیں گے۔
س :صوابی یونی ورسٹی کی رینکنگ کیا ہے؟
ج :اس وقت یہ 136ویں نمبر پر ہے، لیکن اس کی رینکنگ میں بھی جلد بہتری آئے گی۔
س :یونی ورسٹی میں ایڈیشنل چارج دے کر اہم عُہدوں پر غیر متعلقہ افراد کی تعیّناتی کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ کیا یہ دُرست ہیں؟
ج :ہم نے کسی کو ایڈیشنل چارج دے کر تعیّنات نہیں کیا۔ البتہ سابق وی سی، میڈم نور جہاں نے چار برس قبل ایک ٹریژرار (خزانچی) کا تقرّر کیا تھا، جو فنانس میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک پروفیسر نے ڈائریکٹر اور رجسٹرار کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ میرے دَور میں نہ حکومت نے یونی ورسٹی کے معاملات میں مداخلت کی اور نہ ہی ہم نے کبھی کوئی خلافِ ضابطہ کام کیا۔ ہم نے یونی ورسٹی کے منظور شُدہ آئین کے مطابق، اسٹرٹیجک پلان کے تحت اور ذمّے دار اداروں کی اجتماعی دانش کی روشنی میں جرأت مندانہ اقدامات کیے اور کر رہے ہیں۔ اللہ کا کرم ہے کہ ان اقدامات کے نتیجے میں انرولمنٹ کا تناسب 4گُنا بڑھ گیا ہے۔ ہم نے مالی وسائل نہ ہونے کے باوجود شعبہ جات کی تعداد میں اضافہ کیا اور فیس میں اضافہ کیے بغیر نئے طلبہ کو داخلے دیے، جس کے نتیجے میں ہمارے ریونیو میں توقّع سے زیادہ اضافہ ہوا۔
س :آپ کی یونی ورسٹی کی جعلی اسناد کا ذکر بھی کیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
ج :بد قسمتی سے ماضی میں صوابی یونی ورسٹی سے جعلی اسناد اور ڈیٹیلڈ مارکس سرٹیفکیٹس (ڈی ایم سیز) جاری ہوتے رہے ہیں۔ تاہم، مَیں نے جون 2017ء کو چارج سنبھالنے کے بعد اس معاملے پر خصوصی توجّہ دی اور فوری طور پر انکوائری کا حُکم دیا، جس کے تحت اسسٹنٹ کنٹرولر ایگزامینیشن، سکریسی اسسٹنٹ، آفس اسسٹنٹ اور جونیئر کلرک کو فوری طورپر معطّل کر دیا گیا۔ انکوائری کمیٹی نے ان افراد کے بیانات بھی قلم بند کر لیے ہیں اور بہت جلد ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
میری معلومات کے مطابق، بعض افراد کو سیاسی دبائو اور بعض کو رقم کے لالچ میں جعلی اسناد اور ڈی ایم سیز جاری کیے گئے۔ مَیں نے یونی ورسٹی کے تمام معاملات شفّاف بنانے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں، تا کہ آیندہ کوئی بھی بد انتظامی یا جعل سازی نہ ہو سکے۔ اب کرپشن اور غفلت کے مرتکب کسی بھی اہل کار کو معاف نہیں کیا جائے گا اور جعلی اسناد اور سرٹیفکیٹس حاصل کرنے والے جن افراد کے پتے ہمارے پاس موجود ہیں، اُن سے یہ واپس لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر انہوں نے مزاحمت کی، تو اُن کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔