پچھلے سال جولائی میں جب اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھوبیٹھے، تو ان کی جماعت میں مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں متضاد رائے پائی جاتی تھی۔ ایک طرف مسلم لیگ ن کے وہ رہنما تھے جو وقتی طور پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف کسی قسم کے منفی ردعمل کے حق میں نہیں تھے، دوسری جانب وہ رہنما بھی تھے جن کے نزدیک یہ فیصلہ کسی مبینہ سازش کا شاخسانہ تھا۔ ان( قدرے نوجوان) رہنمائوں نے اپنے پارٹی لیڈر کو مشورہ دیا کہ وہ مصالحت کی بجائے جارحانہ رویہ اختیار کریں۔ میاں نواز شریف نے اسلام آباد سے بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور آنے کا فیصلہ کرکے فرنٹ فٹ پر کھیلنے کا فیصلہ کر لیا، اس سفر کے دوران تقریباََ ہر قصبے اور شہر میں کافی تعداد میں عوام ان کا خطاب سننے آئے۔ ہر خطاب میں نواز شریف ایک ہی بات دہراتے، کیا کسی وزیر اعظم کو محض اس بنیاد پر نا اہل کر دینا درست ہے کہ وہ اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لیتا؟ اسلام آباد مارچ کے آغاز سے قبل مسلم لیگ ن کی سیاسی بقا کے بارے میں جو سوالات اٹھنے شروع ہو گئے تھے، لاہور پہنچنے تک ان میں سے اکثر کے جواب بھی مل گئے۔ جی ٹی روڈ پر نواز شریف نے جو" شو آف اسٹرینتھ" کیا اس سے ان کی جماعت کو بہت فائدہ ہوا۔
نواز شریف کو پانامہ فیصلے کے بعد بڑا جھٹکا تب لگا جب بلوچستان میں ان کی جماعت کی حکومت کو راتوں رات تبدیل کر دیا گیا۔جولائی سے لے کر جنوری تک نواز شریف شاید اپنا بیانیہ عوام تک پہنچانے میں اتنے مصروف رہے کہ انہیں بلوچستان میں اپنی پارٹی میں جاری ٹوٹ پھوٹ کا اندازہ ہی نہ ہو سکا۔ ان کی اپنی جماعت کے وزراء نہ صرف اپنے ہی وزیر اعلیٰ کے خلاف صف آرا ء ہو گئے بلکہ تحریک عدم اعتماد بھی اسمبلی میں پیش کر دی۔ جب وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری نے حالات کی نزاکت کا خیال کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تو مسلم لیگ کے انہی اراکین اسمبلی نے مسلم لیگ ق کے ممبر صوبائی اسمبلی عبدالقدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ منتخب کروا لیا۔چند ہی دنوں میں عددی اکثریت رکھنے والی مسلم لیگ ن اسمبلی میں سے تقریباََغائب ہی ہو گئی۔ بلوچستان اسمبلی میں ہونے والی تبدیلی کا اثر صرف بلوچستان کی حد تک ہی محدود نہیںرہا،بلوچستان میں حکومت چلے جانے کے بعد بہت سے ایسے افراد جو دو ہزار تیرہ میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں نئے سرے سے سوچنا شروع ہو گئے۔
لیکن ابھی نواز شریف اور ان کی جماعت کے لئے مشکلات ختم نہیں ہوئی تھیں۔ قومی اسمبلی کی رکنیت کے لئے نا اہل ہونے کے بعد مسلم لیگ ن نے ایک ترمیم کے ذریعے نواز شریف کو پارٹی کا سربراہ بنانے کا جو راستہ ڈھونڈا تھا اسے سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں یہ کہہ کر رد کردیا کہ ایک نا اہل شخص کسی بھی صورت میں سیاسی جماعت کی صدارت کا اہل نہیں ہو سکتا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعدمسلم لیگ ن کے رہنمائوں میں مایوسی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ جماعت میں پانامہ کیس کے بعد سے بنے دونوں دھڑوں کے مابین بھی حالات کچھ کشیدہ ہو گئے۔ محاذ آرائی سے اجتناب کرنے کا مشورہ دینے والے پارٹی رہنما ئوں کے لئے پارٹی میں جگہ تنگ پڑنے لگی ۔جو پارٹی رہنما فرنٹ فٹ پر کھیلنے کے حق میں تھے انہوں نے نواز شریف کو مشورہ دیا کہ جب ان کے پاس کھونے کو کچھ بچا ہی نہیں تو پھر کھل کر کھیلنا ہی بچائو کا واحد حل ہے۔
اگلا جھٹکا مسلم لیگ ن کو مارچ کے سینیٹ انتخابات میں لگا جب صدر کی نااہلی کے بعد سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈرز کے ٹکٹ بھی منسوخ کر دیئے گئے۔ پھر انتخاب کے بعد چیئرمین سینیٹ کے لئے الیکشن ہوا تو عددی برتری رکھنے کے باوجود بھی مسلم لیگ ن اپنا چیئر مین سینیٹ منتخب کروانے میں ناکام ہو گئی۔ بات یہیں تک محدود نہیںتھی بلکہ چیئرمین منتخب ہونے والے محمد صادق سنجرانی بلوچستان سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے ممبر بننے والوں کے ووٹوں سے منتخب ہو کر سینیٹ میں پہنچے تھے ۔ اس انتخاب سے مسلم لیگ ن میں بیٹھے ہوئے مستقبل کے لیے فکرمند"Electables"کے لئے بھی ایک نیا راستہ کھل گیا۔ پہلے بلوچستان اسمبلی اور پھر سینیٹ میں مسلم لیگ ن کو جس شکست کا سامنا کرنا پڑا اس کے بعد یہ لوگ آئندہ انتخابات میں اپنے لائحہ عمل کے بارے میں ایک بار پھر سے سوچنے پر مجبور ہو گئے۔ ان میں سے کئی تو مسلم لیگ ن کو خیر باد کہہ چکے ہیں، بہت سے ایسے ہیں جو کہ فی الحال تو جماعت سے منسلک ہیں لیکن آنے والے دنوں میں شاید وہ بھی مسلم لیگ ن سے علیحدگی کا اعلان کر دیں۔
پے درپے عدالتی فیصلوں کی زد میں آئے نواز شریف اوران کی جماعت کے لئے لاہور ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں۔ ابھی تک نواز شریف اور ان کی جماعت کا تمام تر بیانیہ عدالتی فیصلے پر تنقید کے گرد گھومتا رہا ہے۔ نواز شریف کے بہت سے مخالفین کی نظر میں بات صرف تنقید تک ہی محدود نہیں ہے، مخالفین نواز شریف اور ان کے ساتھیوں پر توہین عدالت کے مرتکب ہونے کا الزام بھی لگاتے رہے ہیں۔ اسی ضمن میں ان کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی سے متعلق متعدد درخواستیں پیمرا کے پاس ہیں ۔ مختلف عدالتوں میں بھی اس سلسلے میں مقدمات دائر کئے جا چکے ہیں۔ اس سب کے تناظر میں شاید ٹی وی چینلز مستقبل میں نوازشریف کی تقریروں کولائیو چلانے سے گریز کرنے لگیں، نہ صرف نواز شریف بلکہ ان کی جماعت کو بھی آنے والے دنوں میں بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ ان کا اپنا نقطہ نظر ایک طرف، لیکن اداروں کا احترام بھی سب پر لازم ہے۔ قصور جیسے واقعات کسی طور پر بھی مناسب نہیں اور قومی و صوبائی اسمبلی اور ضلع کونسل کی جس قیادت نے اس جلوس کی رہنمائی کی انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ وہ اپنے قائد کے راستے میں پھول بچھا رہے ہیں یا ببول کے کانٹے۔ خدارا سیاسی اختلافات کو سول وار کی بنیاد نہ بننے دیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)