محمد راشد ہاشمی کا تعلق پاکستان کی انتہائی معتبر اور مایہ نازکاروباری ’ہاشمی فیملی‘ سے ہے۔ یہ وہی ہاشمی فیملی ہے، جس نے 1794میں ’محمد ہاشم تاجر سرمہ‘ کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔ آج ’ہاشمی‘ ناصرف پاکستان اور برصغیربلکہ دنیا بھر میں، ہر گھر میں جانا پہچانا اور قابل اعتماد برانڈسمجھا جاتا ہے۔ ہاشمی خاندان نے اس برانڈ کو نسل در نسل دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی دینے کے لیے زبردست محنت کی ہے۔ ہاشمی خاندان کی اس روایت کو اس کمپنی کے موجودہ روح رواں محمد راشدہاشمی نے ناصرف برقرار رکھا ہے، بلکہ اسے نئی بلندیوں پر لے گئے ہیں۔
جنگ: آپ کی کمپنی کی Business Philosophy کیا ہے؟
محمد راشد ہاشمی: ہاشمی کا’ویژن‘ یہ ہے کہ ایک قومی ادارہ ہونے کے ناطے ، جو ’آئی کیئر‘ میں دو صدیوں سے زائد ورثہ کامالک ہے، ہم اپنا کردار بڑھاتے ہوئے، ہربل میڈیسن کے کاروبار کے ساتھ جڑی بین الاقوامی Community کے باہمی تعاون کے ساتھ عالمی ماحولیاتی اور سماجی صحت کی سرگرمیوں میں کردار ادا کریں۔ ہمارا ’مشن‘ یہ ہے کہ اپنے پراڈکٹس کے اعلیٰ ترین معیار کو برقرار رکھتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہم جن کے ساتھ کام کرتے ہیںاور جن کمیونٹیز کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے، ان کے ساتھ انسانی رویہ رکھیں اور ان سے وفادار رہیں اور ہم جو بھی کام کریں اس سے ماحولیات کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
جنگ: ’ہاشمی‘ برانڈ کے تحت جو پراڈکٹس بنائے جاتے ہیں، ان میں ٹیکنالوجی کا استعمال کس طرح کیا جاتا ہے؟
محمد راشد ہاشمی: اپنی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہم بین الاقوامی نمائشوں میں شرکت کرتے ہیں۔ ان نمائشوں میں ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اس وقت مارکیٹ میں کون سی جدید ٹیکنالوجی دستیاب ہے، جس کا استعمال کرتے ہوئے ہم اپنے پراڈکٹس میں مزید بہتری لاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم متعلقہ بین الاقوامی مینوفیکچررز اور سپلائرز کے ساتھ بھی مسلسل رابطے میں رہتے ہیں، جو ٹیکنالوجی میں آنے والی جدت سے ہمیں آگاہ رکھتے ہیں۔
جنگ: پاکستان کے معاشی مسائل کیسے حل ہوں گے؟ آپ کے خیال میں تین سب سے بڑے چیلنجز اور مواقع کیا ہیں؟
محمد راشد ہاشمی: تعلیم، کاروباری تحفظ اور ذہانت۔ ہمارے پاس ٹیلنٹ ہے لیکن اسے ضایع کیا جارہا ہے۔ کوئی سوشل سیکیورٹی نہیں ہے اور ناہی Payment Advancesہیں۔ بلند ٹیکس شرح کے باعث قیمتیں بہت زیادہ ہیں، جب کہ تنخواہیں بہت کم ہیں، اس لئے کام کرنے کی ترغیب کم ہے۔
جنگ: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اچھے طرز حکمرانی (Good Governance)کے ذریعے ان مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے، اچھے طرز حکمرانی سے متعلق آپ کیا سمجھتے ہیں؟
محمد راشد ہاشمی: جی ہاں، میں سمجھتا ہوں کہ اچھے طرزحکمرانی میں ہی سارے مسائل کا حل ہے۔ ایک اچھی حکومت ہی ، سماجی، ثقافتی، دانشورانہ اور کاروباری میدان میں قوم کو آگے لے کر جاسکتی ہے۔
جنگ: آج کے دور میں ہر کوئی انٹرپرنیوئر شپ کی بات کرتا ہے۔ ہم نوکری کی تلاش کرنے والوںکے بجائے نوکری کے مواقع پیدا کرنے والے کیسے بناسکتے ہیں؟
محمد راشد ہاشمی: بنیادی بات یہ ہے کہ ہمیں سب کو ترغیب دینا ہوگی۔ چھوٹے کاروباری افراد کو فروغ دینے کے لیے ان کو مدد اور معاونت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں چھوٹے کاروباری افراد کو سپورٹ فراہم کرنے کے لیے لوگ آگے آرہے ہیں، کیوں کہ کلائنٹس کو اس میں پوٹینشل نظرآرہا ہے۔ میرے نزدیک انٹرپرنیوئر بننے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ اپنا کاروبار شروع کیا جائے۔ میرے لیے انٹرپرنیوئرشپ کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس طرح محنت کریں کہ اس میں دوسروںکے لیے بھی ویلیو ہو اور اس کا دنیا اور آپ کے ارد گرد کے لوگوں پر مثبت اثر ہو۔ جب آپ محنت کریں گے اور آپ کا یقین پختہ ہوگا تو اس کے نتیجے میں پیسہ تو آہی جاتا ہے۔ میں بچپن سے ہی زبردست چیزیں کرنے کے لیے Motivated تھا اور دوسرے لوگوں کو بھی زبردست نتائج کے حصول کے لیے ترغیب دیتا تھا، جس کے باعث میں کئی بڑے بڑے کام کرنے میں کامیاب ہوسکا۔
جنگ: تعلیمی ادارے تجارتی بنتے جارہے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں سے جو گریجویٹس نکل رہے ہیں، کیا آپ ان کے معیار سے خوش ہیں؟
محمد راشد ہاشمی: اگر معیار تعلیم کے حوالے سے یہ بات کریں کہ ایک گریجویٹ اپنے مضامین میں کس معیار کا علم رکھتا ہے تو وہ یقیناً غیراطمینان بخش ہے۔ میں یہ مشورہ دینا چاہوں گا کہ تعلیمی نصاب کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ تعلیمی اداروں میں آج بھی وہی پڑھایا جارہا ہے جو تیس سال پہلے پڑھایا جاتا تھا۔
جنگ: اگر ہم بات کریں اس Segment کی جس میں آپ کاروبار کررہے ہیں تو اس میں آپ کو کیا چیلنجز درپیش ہیں اور سرمایہ کاری کے مواقع کیا ہیں؟
محمد راشد ہاشمی: صارفین کی قوت خرید۔ اگر چھوٹے کاروباری افراد صحیح کام کے لیے صحیح وقت پر صحیح لوگوں کو ذمہ داریاں سونپیں تو وہ ترقی کرنے لگیں گے۔ارتقا کے لیے ای۔کامرس کا فروغ لازمی ہے۔
جنگ: آپ کے نزدیک لیڈرشپ کیا ہے؟ ایک لیڈر اور منیجر میں کیا فرق ہوتا ہے؟
محمد راشد ہاشمی: لیڈرشپ دراصل جذباتی اور دماغی ذہانت کا نام ہے۔ قائدانہ صلاحیت یہ ہے کہ آپ اپنے ملازمین کی بہترین صلاحیتوں کو ناصرف بروئے کار لائیں، بلکہ ان میں مزید نکھار پیدا کریں۔ ایک لیڈر اپنی ٹیم کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔ اور ایک لیڈر ایسی صلاحیتوں کے حامل افراد کو Hire کرتا ہے، جن صلاحیتوں کی خود اس لیڈر میں کمی ہوتی ہے۔ توسیع لازمی ہے۔ انھیں کامیاب ہونے دیں۔
جنگ: پاکستان میں CEOs اور بزنس لیڈرز کو کن چیلنجز کا سامنا ہے؟
محمد راشد ہاشمی: ٹیم بلڈنگ، مارکیٹ کی درست Segmentation، کسٹمر Persona اور مارکیٹ Traction کو برقرار رکھنا۔
جنگ: ایک چیف ایگزیکٹو آفیسر (CEO) میں ایسی تین خصوصیات جو آپ آج کی نئی نسل کے CEOs میں دیکھنا چاہیں گے؟
محمد راشد ہاشمی: ہم احساسی، فکر اور فہم و فراصت اور Artistry۔
جنگ: اگر آپ کے ادارے کی بات کریں، تو وہاں کارپوریٹ کلچر کو آپ کس طرح بیان کریں گے؟آپ اس بات کو کیسے یقینی بناتے ہیں کہ وہاں کام کرنے والے لوگ آپ کے ادارے کے ویژن، مشن اور Core Values کو Own کرتے ہیں؟
محمد راشد ہاشمی: ہم بہت ہی دوستانہ ماحول رکھتے ہیں اور ہر ایک کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ کون کس کام میں سب سے بہتر ہے۔ اس طرح سے ہم ہر فرد کی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
جنگ: آپ ایک کامیاب ٹیم کیسے تشکیل دیتے ہیں اور انھیں کیسے بہتر سے بہتر کارکردگی کی ترغیب دیتے ہیں؟ یہ بھی بتائیں کہ آپ اپنی ٹیم کی کارکردگی کس طرح جانچتے ہیں اور کیسے نتائج کے لیےانھیں جوابدہ بناتے ہیں؟
محمد راشد ہاشمی: ٹیم کے ساتھ فرینڈلی رہیں۔ انھیں پتہ ہو کہ کاروبار کے اصول کیا ہیں، تاہم ان اصولوں میں ان کو باندھیں مت۔ ایک فرد اسی وقت بہترین نتائج دیتا ہے، جب اسے وہ بننے کا موقع دیا جاتا ہے جوکہ وہ ہوتاہے۔ معاملات ان کے کنٹرول میں دے دیں۔ اس کے علاوہ، کاروبار کے فروغ کے لیے ان کی رائے بھی اہم ہے۔
جنگ: اہم لوگوں کو اپنے ادارے کے ساتھ جوڑے رکھنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ آپ باصلاحیت لوگوں کو کس طرح اپنے ادارے کے ساتھ جوڑے رکھتے ہیں؟
محمد راشد ہاشمی: ہم انھیں وہ بننے دیتے ہیں جو وہ بننا چاہتے ہیں۔اس کے علاوہ، ہم انھیں ان کی صلاحیتوں سے بڑھ کر آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
جنگ: ٹریننگ، کوچنگ اور Mentoring کو آپ کتنی اہمیت دیتے ہیں؟ آپ ان شعبوں میں کام کرنے کے لیے کتنا بجٹ خرچ کرتے ہیں؟
محمد راشد ہاشمی: ہم سب ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔ ہم ایک ہی شخص سے نا سیکھتے ہیں اور نا کوچنگ لیتے ہیں۔ لیڈرشپ اسی طرح کام کرتی ہے۔
جنگ: ایک کمپنی کا چیف ایگزیکٹو آفیسر ہونے کے ناطے، یہ بتائیں کہ Succession Planning کے حوالے سے آپ کا کیا لائحہ عمل ہے؟
محمد راشد ہاشمی: میں کئی معاملات میں بے فکر رہتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہمیشہ ڈیڈلائنز پر پورا اُترتے ہیں۔ میں اپنی ٹیم کے ساتھ فرینڈلی رہتاہوں۔ میں یہ کوشش کرتا ہوں کہ وہ خود کو اہم اور آرام دہ محسوس کریں۔ یہ ایک وجہ ہے کہ وہ ٹکے رہتے ہیں اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
جنگ: چیلنجنگ وقت میں ایک چیف ایگزیکٹو آفیسر کے لیے(Emotional Intelligence) کیوں اہم ہے؟
محمد راشد ہاشمی: آپ Emotional Intelligence کی بدولت ہی اپنی ٹیم سے بہترین کارکردگی حاصل کرپاتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی ایک چیز کا ذکر کیا تھا۔ ہم احساسی(Empathy)۔ اس جذبے کا ہونا ایک نایاب خصوصیت ہے۔ ایک لیڈر کے لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ وہ اپنےاور اپنے ملازمین کے کام کی نوعیت کو سمجھتا ہو اور دیگر تمام چیزوں کے بارے میں اسے Emotional Intelligence کی حد تک زیادہ علم ہو۔ اسی طرح ہی کمپنی ایک رہتی ہےاور آگے بڑھتی ہے۔اگر لیڈر چیزوں کو نہیں سمجھتا اور جذباتی طور پر وہ طاقتور نہیں ہے تو پھر کاروبار اور باصلاحیت لوگ آپ سے دور جاسکتے ہیں۔ لوگ نوکری کا انتخاب نہیں کرتے، وہ لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں۔ ٹیم کا آرام دہ رہنا ضروری ہے۔
جنگ: آپ کا رول ماڈل کون ہے؟
محمد راشد ہاشمی: کئی شخصیات میرا رول ماڈل ہیں۔ میراایک رول ماڈل ملائیشیا سے تعلق رکھنے والے سیاست دان اور سب سے زیادہ عرصے تک ملائیشیا کے وزیراعظم رہنے والے مہاتیر محمد بھی ہیں۔
جنگ: کام اور گھر میں ایک اچھا توازن کیا ہوسکتا ہے؟
محمد راشد ہاشمی: میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ جو وقت کہیں بھی دیتے ہیں، اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ آپ کتنی ذہانت اور کتنا فکر وہاں دے رہے ہیں۔اگر آپ کوئی بھی کام بھرپور توجہ کے ساتھ کریں تو وہ کم سے کم وقت میں مکمل کیا جاسکتا ہے۔ اگر میری ٹیم کا کوئی فرد چھٹی لینا چاہتا ہے تو میں اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔ ہم نے پہلے بھی بات کی کہ ایک لیڈر کے لیے Emotional Intelligence بہت ضروری ہے۔ میں اپنی ٹیم کو بتاتا ہوں کہ ’ہر وقت کام اور کوئی آرام نہیں‘ فارمولا کامیابی کی کنجی نہیں ہے۔
جنگ: آپ کو کتابیں پڑھنا پسندہے؟ کس طرح کی کتابیں پڑھتے ہیں؟
محمد راشد ہاشمی: میں اپنی جوانی کے دور میں بہت پڑھتا تھا۔ میرے پاس ریڈرز ڈائجسٹ کا پورا Collection تھا۔ سنجیدہ ادب میں، میں خلیل جبران کی تخلیقات کا بڑا مداح تھا۔ اب تو مصروفیات اتنی ہوگئی ہیں کہ ادبی کتب پڑھنے کا وقت کم ملتا ہے۔ تاہم اخبارات باقاعدگی سے روزانہ پڑھتا ہوں، انڈسٹری میگزینز جیسے ٹائم اور فارچون وغیرہ ضرور پڑھتا ہوں۔ اور ٹیکنالوجی کی بدولت اب میں سفرکے وقت اپنے آئی پیڈ پر الیکٹرانک کتابیں پڑھ لیتا ہوں۔