سکھر (بیورو رپورٹ/چوہدری محمد ارشاد) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ادارے آپس میں لڑرہے ہیں، کوئی جمہوری عمل میں مداخلت کررہا ہے، نظام جیسا بھی ہے چلنا چاہیے، بدقسمتی کی بات ہے کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ الیکشن ہونگے یا نہیں ہونگے؟ میں کہتا ہوں کہ کیوں الیکشن نہیں ہونگے، ٹھیک ہے نواز شریف کی غلطی کی وجہ سے یہ شکوک و شبہات بڑھے ہیں، پارلیمنٹ کی طاقت، بالا دستی کو ماننا ہوگا، جو ملک عوام کی طاقت کو تسلیم نہیں کرتے وہ ملک نہیں چل سکتے، آج ہماری سیاست بدقسمتی سے گالم گلوچ کی سیاست ہوگئی ہے، ایسے ایسے الفاظ سیاستدان اور بڑے بڑے لیڈر کہتے ہیں کہ جنہیں سن کر میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ لوگ ہوشیار ہوجائیں ، الیکشن آرہے ہیں اب ایسے امیدوار آئیں گے ،ا ب مزے دیکھنا اگر کہیں شادی ہوگی تو امیدوار دوڑے دوڑے جائیں گے ۔ وہ نواحی علاقے کندھرا میں منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ بدبختی کی بات ہے کہ آج ایسی سیاست ہورہی ہے جس میں ہر آدمی لڑا پڑا ہے، ادارے اداروں سے لڑ رہے ہیں، یہ دیکھ کر مجھے خوف ہوتا ہے، میں ڈرتا بھی ہوں، ہمارے پاس پارلیمنٹ ہے، اس کی بالا دستی کو قبول کرو، اس کی طاقت کو قبول کرو، یہی طاقت ہے جو پاکستان کو بچاسکتی ہے، پارلیمنٹ کے پیچھے اس ملک کے 20کروڑ عوام کھڑے ہیں، یہ پارلیمنٹ اپنی اس طاقت کے ذریعے اداروں کو طاقتور بناتی ہے، اس کے پیچھے سے نہیں ہٹو، اس کے ساتھ چلو گے تو یقینا پاکستان بھی مضبوط ہوگا، پاکستان کے ادارے بھی مضبوط ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدان کہتے ہیں کہ میں وزیراعظم بنوں گا مجھے وزیراعظم بناؤ، شہید بے نظیر بھٹو نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں وزیراعظم بنوں گی یا مجھے وزیراعظم بناؤ، اگر انہیں وزیراعظم بننا ہوتا تو وہ پاکستان نہیں آتیں، وہ کہتیں کہ میں دبئی سے الیکشن جیتوں گی جیسا اسے کہا گیا تھا مگر اس نے کہا کہ مجھے وزیراعظم نہیں بننا بلکہ لوگوں میں اعتماد پیدا کرنا ہے اور وہ وطن واپس آئیں،پی پی قائدین نے ثابت کیا کہ مرنا بھی عوام کے ساتھ جینا بھی عوام کے ساتھ ہے، آج کے سیاستدان وہ ہیں، جن کے کارکنان نیچے کھڑے ہوکر مار کھاتے ہیں مگر وہ انہیں بچانے نہیں جاتے اوپر سے دیکھتے ہیں اور ڈنڈ مارتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج ہماری سیاست بدقسمتی سے گالم گلوچ کی سیاست ہوگئی ہے، ایسے ایسے الفاظ سیاستدان اور بڑے بڑے لیڈر کہتے ہیں کہ جنہیں سن کر میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ کیا ہم نے یہ سیکھا، یہ ترقی کی، یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، لیکن ہمیں پہچان نہیں کہ کونسا لیڈر کیا کرتا ہے، کون سی پارٹی نے کیا پروگرام کیا، کس پارٹی کے دور میں کسان، مزدور خوشحال ہوا، بیوہ خواتین کو سوشل پروگرام دیا گیا، سیلاب کا مقابلہ کیا گیا، صوبوں کو خود مختاری دی گئی، صوبے کا نام تبدیل کرنا بڑی بات ہوتی ہے، گلگت بلتستان نیا صوبہ بنایا، کس پارٹی نے تنخواہوں میں 125فیصد اضافہ کیا، لوگوں میں خوشحالی آئی۔انہوں نے کہا کہ آج لوگ اسلام آباد میں آتے ہیں ڈنڈے کھاتے ہیں، ان کی بات سننے والا کوئی نہیں آتا، ہمارے زمانے میں آتے تھے ہم ان سے معلوم کرتے تھے، ہمیں پتہ ہے کہ مجبوری، غربت، مسائل کیا ہے، مگر آج کوئی سننے والا نہیں ہے۔ دریں اثناء قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے اپنی 67 ویں سالگرہ کی تقریب سکھر کے نواحی علاقے کندھرا میں منائی گئی، جہاں پارٹی رہنماؤں اور کارکنان نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ سید خورشید احمد شاہ نے اپنی سالگرہ کا کیک کاٹا اور خطاب میں سالگرہ کی تقریب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب مجھے کوئی بتائے کہ میں عمر کس طرح چھپاؤں، اب اسلام آباد میں بھی سب کو پتہ چل جائے گا کہ میری عمر کیا ہے۔