نیٹ فلکس اور ایمازون جیسے پلیٹ فارمز کے عام ہونے کے بعد بالی ووڈ کو ہالی ووڈ سے شدید مقابلے کا سامنا ہے۔ دن بدن بالی ووڈ کی فلموں میں ہالی ووڈ کی جھلک بڑھتی جارہی ہے۔چاہے وہ ایکشن ہو، سائنس فکشن ہو، یا پھر اسپیشل ایفیکٹس، بالی ووڈ اپنے مغربی کاؤنٹر پارٹ سے متاثر نظر آتا ہے۔ تاہم بالی ووڈ کی ایک خصوصیت ہے جو اسے ہالی ووڈ فلموں سے جدا کرتی ہے، وہ ہے ناچ گانا۔ شروع سے لے کر آج تک اور آنے والے نامعلوم عرصے تک ناچ گانا ہندی فلموں کا ناگزیر حصہ رہا ہے اور رہے گا۔
بالی ووڈ فلم اس وقت تک نامکمل رہتی ہے جب تک کہ فلم کے ہیرو اور ہیروئن کسی گانے پر ناچ گانے کا مظاہرہ نہ کرلیں۔ یہ سب بالی ووڈ کے ان کوریوگرافرز کی مرہون منت ہے، جو بڑی محنت سے سونگز پر ڈانس ڈیزائن کرتے ہیں۔ بالی ووڈ نے چند بہترین کوریوگرافرز پیدا کیے ہیں، تاہم اس وقت کیا ہوتا ہے، جب یہ کوریوگرافرز ، ڈائریکشن کے میدان میں آجاتے ہیں، آئیے یہی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
فرح خان
فرح خان کی پیدائش 9جنوری 1965کو ہوئی۔ فرح خان کا بالی ووڈ کے ساتھ پیدائشی تعلق ہے۔ فرح خان کے والد کامران خان، اسٹنٹ مین تھے، جو بعد میں فلم میکر بن گئے۔ فرح کی والدہ، میناکا ایرانی، ماضی کی چائلڈ آرٹسٹوں ہنی ایرانی اور ڈیزی ایرانی کی بہن ہیں۔ کئی لوگوں کو شاید معلوم نہیں ہوگا کہ فرح خان، زویا اختر اور فرحان اختر کی فرسٹ کزن ہیں(جو ہنی ایرانی کی اولاد ہیں)۔فرح کی ڈانس میں دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی، جب وہ کالج میں تھیں۔ جب انھوں نے مائیکل جیکسن کا گانا Thrillerسنا۔
وہ اس گانے سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ اس پر جھومنا شروع کردیا اور خود سے سارا ڈانس سیکھا۔ اس کے بعد فرح نے کالج میں اپنا ڈانس گروپ بھی بنالیا۔ بالی ووڈ میں فرح خان کو بڑا بریک فلم ’جوجیتا وہی سکندر‘ سے ملا۔ اصل میں سروج خان اس فلم کی کوریوگرافر تھیں، تاہم کسی تنازعہ کی وجہ سے سروج خان نے فلم کرنے سے انکار کردیا اور یہ ذمہ داری فرح خان کو دے دی گئی، جو سروج کی اسسٹنٹ تھیں۔فرح کا کوریوگراف کیا ہوا اس فلم کا گانا ’پہلا نشہ‘ آج بھی کوریوگرافی،برجستگی، زندہ دلانہ تاثرات اور اپنے جداگانہ اسٹائل کے باعث یادگار مانا جاتا ہے۔
فرح نے بہترین کوریوگرافر کا فلم فیئر ایوارڈ 6بار جیتا ہے۔ فرح خان نے بطور ڈائریکٹر اپنی پہلی فلم ’میں ہوں ناں‘ 2004))اپنے بہترین دوست شاہ رخ خان کے ساتھ بنائی۔دوسری فلم ’اوم شانتی اوم‘((2007بھی شاہ رخ خان ہی کے ساتھ بنائی۔ اس کے علاوہ فرح خان ’تیس مار خان‘ اور ’ہیپی نیو ایئر‘ بھی ڈائریکٹ کرچکی ہیں۔ 2012میں فرح خان نے اداکاری میں بھی طبع آزمائی کی اور فلم ’شیریں فرہاد کی تو نکل پڑی‘ میں بومن ایرانی کے ساتھ مرکزی کردار میں نظر آئیں۔
پرابھو دیوا
پرابھودیوا کو اکثر بھارت کا مائیکل جیکسن کہا جاتا ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ 25سال سے زائد عرصہ پر محیط اپنے کیریئر میں پرابھو دیوا نے ایسے ڈانس اسٹائلز متعارف کرائے ہیں جو کوریوگرافی کے میدان میں انقلابی ثابت ہوئے۔ وہ کوریوگرافی میں دو نیشنل ایوارڈز بھی جیت چکے ہیں۔ ایک تامل فلم ’منساراکناوو‘ پر اور دوسرا بالی ووڈ فلم ’لکشیہ‘ میں رتھک روشن سے بہترین ڈانس پرفارمنس لینے پر۔ پرابھو دیوا کو بچپن سے ہی ڈانس میں دلچسپی تھی۔ ان کے والد مگور سندر جنوبی بھارت کی فلموں میں کوریوگرافر تھے۔ پرابھو دیوا نے بھارت نتیم سے کلاسیکی اور مغربی انداز کا ڈانس سیکھا۔1989میں انھیں کمل ہاسن کے ساتھ جنوبی بھارت کی فلم ’ویتری وزھا‘ سے بڑا بریک ملا۔اس کے بعد وہ ایک سو سے زائد فلموں میں کوریوگرافی کرچکے ہیں۔
وہ ساؤتھ کی فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھا چکے ہیں۔ فلموں کی ہدایت کاری کا آغاز بھی انھوں نے تیلگو فلموں سے کیا۔ 2005میں ان کی ڈائریکشن میں بننے والی تیلگو فلم ’نینودانتانا‘ اس سال کی ٹالی ووڈ کی دوسری کامیاب ترین فلم ثابت ہوئی ۔ بالی ووڈ میں انھوں نے سلمان خان کی ’’وانٹڈ‘ سے قدم رکھا، جو باکس آفس پر شاندار بزنس کرنے میں کامیاب رہی۔اس کے بعد پرابھودیوا، بالی ووڈ کو کئی فلمیں دے چکے ہیں؛ ’راؤڈی راٹھور‘، ’آر راجکمار‘، ’سنگھ از بلنگ‘ اور ’ایکشن جیکسن‘۔ اب پرابھو دیوا ایک بار پھر سلمان خان کے ساتھ واپس آرہے ہیں اور سلمان کی کامیاب فلم فرنچائز’دبنگ‘کی تیسری انسٹالمنٹ کو ڈائریکٹ کررہے ہیں۔
ریمو ڈی سوزا
ریمو ڈی سوزا نے 2000میں فلم ’دل پہ مت لے یار‘ کے ذریعے کوریوگرافی کا آغاز کیا۔وہ ڈانس ریئلٹی شو ’ڈانس انڈیا ڈانس‘ کے جج بھی رہ چکےہیں۔ جب کہ بطور کوریوگرافر وہ کئی بڑی فلموں جیسے ’یہ جوانی ہے دیوانی‘، ’اسٹوڈنٹ آف دا ایئر‘، ’بجرنگی بھائی جان‘ اور ’دل والے‘ بھی کرچکے ہیں۔ 2011میں فلم ’فالتو‘ کے ذریعے ریمو نے ہدایت کاری کے میدان میں قدم رکھا۔ یہ فلم تو کامیاب نہ ہوسکی، تاہم ریمو کی اگلی فلم ’اے بی سی ڈی‘ نے ریمو کو بطور ہدایت کار ایک شناخت دلوادی۔اس فلم میں پرابھو دیوانے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
اس کے بعد آئی ’اے بی سی ڈی ٹو‘، یہ فلم پارٹ و’ن سے ہر لحا ظ سے بڑی فلم ثابت ہوئی۔ ریمو اپنی تیسری فلم ’اے فلائنگ جٹ‘ کے ذریعے ناظرین کو متاثر کرنے میں ناکام رہے ، تاہم انھیں امید ہے کہ وہ اپنی آنے والی بڑی فلم ’ریس تھری‘ کے ذریعے ناظرین کے دلوں میں دوبارہ سے جگہ بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
احمد خان
احمد خان نے 1987میں ریلیز ہونے والی فلم ’مسٹرانڈیا‘ میں چائلڈ آرٹسٹ کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد وہ فلموں میں بطور کوریوگرافر آئے اور ’رنگیلا‘، ’شاسترا‘، ’اوزار‘، ’پردیس‘، ’غلام‘ اور دیگر کئی فلمیں کوریوگراف کیں۔ 2014 میں فلم ’کِک‘ کے لیے انھوں نے بہترین کوریوگرافر کا ایوارڈ حاصل کیا۔
بطور ڈائریکٹر احمد خان کی ابتدائی دونوں فلمیں ’لکیر‘جو 2004میں ریلیز ہوئی اور شاہد کپور اسٹارر ’فول این فائنل‘ ناکامی سے دوچار ہوئیں۔احمد خان نے ’باغی ٹو‘ کی سپر سکسیس کے ذریعے بالآخر بطور ہدایت کار وہ کامیابی حاصل کرلی ہے، جس کی انھیں تلاش تھی۔