اہرام زمانہء قدیم کی مصری تہذیب کے سب سے پرشکوہ اور لافانی یادگار ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ میں یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان اہرام کی تعمیر کا مقصد فراعین مصر اور شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کا مدفن تھا۔ اہرام مصر میں غزہ کا عظیم اہرام دنیا کے سات عجائبات میں سے وہ واحد عجوبہ ہے جو ابھی تک اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔
اہرام مصرکی تعمیر ہمیشہ سے ایک معمہ رہی ہے ۔ قوی ترین قیاس یہی تھا کہ مصریوں کے پاس شاید کشش ثقل سے آزاد ہونے کا کوئی فارمولا تھا جس کی مدد سے وہ کئی کئی ٹن وزنی پتھر آرام سے اٹھا کر ایک دوسرے پر رکھتے چلے جاتے تھے۔اب تحقیق کہتی ہے کہ مصریوں نے ہوا کا استعمال کیا یعنی قاہرہ شہر سے باہر ایسا کرنے کے لیے مصریوں نے خاص اس مقصد کے لیے کشتیاں تیار کی تھیں جن کی مدد سے ان پتھروں کو ڈھویا جاتا تھا۔اس طرح انہوںنے اہرام مصر تعمیر کرنے کے لیے ڈیڑھ لاکھ ٹن سے زائد وزنی چونا پتھر کس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیااور چار ہزار سال یعنی تقریباََ 2550 قبل مسیح میں تعمیر کیے جانے والا کنگ خوفو کا اہرام تعمیر کیا ۔
ماہرین کو ایک عرصے سے اس بات کی آگاہی تھی کہ اہرام کی تعمیر میں استعمال ہونے والے کچھ پتھر گیزا سے آٹھ میل دور تورا کے مقام سے نکالے جاتے تھے جبکہ گرنائیٹ کا پتھر 500 میل دور سے لایا جاتا تھا لیکن اس میں ا ختلاف تھا کہ وہ پتھر لاتے کیسے تھے۔لیکن برطانیہ کے چینل فور پر اہرام مصر پر بنائی گئی نئی دستاویزی فلم میں بتایا گیا ہے کہ آثار قدیمہ کے ماہرین نے چار سال قبل پاپیریس کا مخطوطہ، ایک کشتی کا ڈھانچہ اور پانی کی گزر گاہ اہرام کے پاس سے دریافت کی، جس سے یہ سمجھنے کے لیے نئی معلومات ملیں کہ مصریوں نے کس طرح اہرام مصر تعمیر کیے تھے اور وہ بیس سال کے دوران 23 لاکھ پتھروں کو گیزا کے میدان کے پاس لے کر آئے تھے۔
تقریباََ دس سال پہلے ایک امریکی سافٹ ویئرکنسلٹنٹ، مارین کلیمنز اہرام مصر کی تعمیر کے بارے میں کسی تحقیقی کتاب کا مطالعہ کر رہی تھیں۔ اس کتاب کے ایک صفحے پر انہیں ایک عجیب و غریب تصویر دکھائی دی۔ یہ پتھر پر کندہ، قدیم تصویری تحریر (hieroglyph) کا عکس تھا۔ آج سےتقریباََ3500 سال پہلے جب اہرام مصرتعمیر کئے جا رہے تھے، ان دنوں مصر میں یہی طرز تحریررائج تھا جس میں تصاویر کو علامات و حروف کی جگہ استعمال کیا جاتا تھا۔ مارین نے اس تصویری تحریر میں جو عجیب و غریب چیز محسوس کی، وہ یہ تھی کہ اس میں کئی آدمی ایک قطار کی شکل میں،غیر معمولی انداز سے کھڑے تھے۔
ان کے ہاتھوں میں رسی جیسی کوئی چیز تھی جو درمیان میں کسی میکانکی نظام سے گزر کر،ہوا میں معلق (پرندے جیسی) کسی چیز سے منسلک ہورہی تھی۔ اگر یہ کوئی پرندہ تھا تو یقیناًاس کی لمبائی بہت کم تھی جبکہ اس کے بازوؤں (Wings)کی چوڑائی بہت زیادہ تھی۔ مارین کے ذہن میں یہیں سے نت نئے خیالات نے سر ابھارنا شروع کر دیا۔
ہوا میں معلق وہ دیوقامت پرندہ کہیں کوئی ’’پتنگ‘‘ تو نہیں تھا؟کیا یہ ممکن نہیں کہ ان لوگوں اور عجیب سے میکانکی نظام کا مقصد ہوا کی طاقت کو قابو میں رکھنا ہو؟انہی خیالات نے مارین کو پریشان کئے رکھا۔ انہوں نے اپنے کچھ پراسراریت پسند دوستوں سے اس بارے میں بات چیت کی اور فیصلہ کیا کہ ایئروناٹکس اور ایئرو ڈائنامکس کے کسی ماہر سے رابطہ کرنے سے قبل مناسب ہوگا کہ اپنے طور پر ابتدائی تجربات کرکے دیکھے جائیں۔
ان لوگوں نے بازار سے عام پتنگیں خریدیں اور انہیں نارتھ رج،کیلیفورنیا میں جاکر اڑایا۔ پہلے تو پتنگ کے ساتھ ریڈووڈ درخت سے کاٹا ہوا ڈھائی میٹر لمبا شہتیر باندھا گیا جسے پتنگ نے بہ آسانی اُٹھا لیا۔ بعد ازاں یہی تجربہ، سیمنٹ سے بنے ہوئے،180کلوگرام وزنی ستون پر دہرایا گیا۔ یہ تجربہ بھی کامیاب رہا۔ان ابتدائی کامیابیوں کے بعد مارین کلیمنز نے مختلف جامعات میں ایئروناٹکس کے شعبوں سے رابطہ کرنا شروع کر دیا تاکہ یہ کام آگے بڑھایا جاسکے۔
جہاں تک ہوا کی طاقت سے فائدہ اٹھانے کا تعلق ہے تو مصریوں جیسے کامیاب کشتی رانوں کے لئے یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں رہا ہو گا۔ وہ بادبانی کشتیاں بنانے میں مہارت رکھنے کے علاوہ لکڑی کی ایسی مضبوط چرخیاں بھی بنایا کرتے تھے جو کئی ٹن وزنی پتھروں کا بوجھ تک سہار سکتی تھیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کو آج یہ احساس ہو رہا ہے کہ اس صلاحیت کا کتنا قریبی تعلق، اہرام مصر کی تعمیر سے ہوسکتا ہے۔ ٹنوں وزنی پتھر ڈھونے میں لکڑی کی چرخیاں استعمال کرنے والے مفروضے کی تائید میں کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے بہت سے ماہرین کو یہ یقین ہے کہ اگر لکڑی کو اس کے ریشے سے ایک خاص سمت میں کاٹا جائے تو اس طرح بننے والے چوبی گٹھے، دھات سے بھی زیادہ مضبوط اور سخت جان ہوں گے۔
آج بھی دنیا میں کئی مقامات ایسے ہیں جہاں کے لوگوں کی بھاری مشینوں تک رسائی نہیں لیکن وہ لوگ ہوا سے کام لینا، کشتی رانی(بادبان سازی) اور میکانیات کے بنیادی اصولوں سے واقف ہیں۔ گزشتہ دنوں نکاراگوا میں ایک جگہ پرکنکریٹ سے بنی محرابوں پرپہلے سے تیار شدہ (سیمنٹ کی) چھت رکھنا تھی جبکہ اس علاقے میں بھاری مشینوں کا لے جانا ممکن نہیں تھا۔ خیال یہ تھا کہ پہلے محرابیں، افقی انداز میں تیار کی جائیں اور انہیں عموداً کھڑا کیا جائے۔ پھر اسی طرح پہلے سے تیار شدہ چھتیں، براہ راست اٹھا کر ان محرابوں(یا عمودی ستونوں) پر رکھ دی جائیں۔
شروع شروع میں جب مارین کلیمنز نے یہ خیال پیش کیا کہ اہرام مصر کے پتھر اور چٹانیں اٹھانے میں ہوا کی طاقت استعمال کی گئی ہوگی تو ان کا بہت مذاق اڑایا گیا تھا۔ انہی دنوں جب ایک مصری وزیر تک یہ خبر پہنچی تو اس نے بڑی حقارت سے مارین کو’’اہرامی‘‘ (pyramidiot)کا لقب دے ڈالا۔ مگر اب یوں لگتا ہے جیسے پتنگوں کے ذریعے اہرام مصر کی تعمیروالا مفروضہ کسی دیوانے کی بڑ نہیں ہے۔ اس میں واقعی کوئی نہ کوئی حقیقت ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ بظاہریہی احمقانہ خیال، کئی غریب ممالک کے لئے ایک کم خرچ حل ثابت ہوجائے۔