• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کی چند قدیم جامعات کا مختصر تذکرہ

علم و آگاہی کا سفر

ڈاکٹر شیر شاہ سید

کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک وقوم کی ترقی کا راز اس کے نظام تعلیم میں پوشیدہ ہوتا ہے،ہمارے ملک میں بھی اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے کئی وعدے اور دعوے کو تو کیے جاتے ہیں، لیکن وہ اکثر و بیش تر کاغذوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔ملک میں اعلی ٰ تعلیم کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ٹائمز ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ رینکنگ میں دنیا کی 500بہترین جامعات میں پاکستان کی صرف ایک جامعہ شامل ہے، جب کہ بہترین 800میںسے صرف 2 اس فہرست مین شامل ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2017کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ کیو ایس یونیورسٹیزرینکنگ 2017ءکے مطابق پاکستان کی180جامعات میں سے صرف ایک یونیو رسٹی دنیا کی 500بہترین یونیورسٹیوں میں جگہ بنا سکی۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے مطابق تما م صوبے اپنا ہائر ایجوکیشن کمیشن بنا سکتےہیں،لیکن اب تک پنجاب اور سندھ کے علاوہ کسی اور صوبے میں صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی تشکیل عمل میں نہیں لا ئی جا سکی اعلیٰ تعلیم کا فروغ کسی کی بھی ترجیحات میں شامل نہیں وطن عزیز کے درجنوں کالجز اور جامعات بغیر سربراہ کے چل رہے ہیں۔جامعات یا اعلیٰ تعلیمی ادارے ہمیشہ ہی سے قوموں کی ترقی کے ضامن رہے ہیں، جامعات دور حاضر یا جدید دور کی ایجاد نہیں ہیں، بلکہ زمانۂ قدیم ہی سے ان اداروں کا قیام عمل میں آگیا تھا۔ ہم نے ایک سلسلہ شروع کیا ہے، جس میں آپ کو دنیا کی چند قدیم و مشہور جامعات کے بارے میں آگاہ کریں گے، ان جامعات کے بارے میں آپ وقتاً فوقتاً پڑھتے رہیںگے۔ اس ہفتے ٹیکسلا اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے بارے میں ملاحظہ کیجیے۔


ٹیکسلا یونیورسٹی


پاکستان کے شہر راولپنڈی میں بادشاہ شیر شاہ سوری کے بنائے ہوئے گرانڈ ٹرنک روڈ کے قریب آج تک کی معلومات کے مطابق دنیا کی سب سے پرانی یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالی گئی۔ یہ یونیورسٹی تقریباً 600سال قبل مسیح تعمیر کی گئی۔ اس علاقے کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے یہاں ہر دور میں جنگیں ہوتی رہی ہیں۔ مختلف حکمران اس علاقے پر قبضے اور حکمرانی کرتے رہے۔ تاریخی شہادتوں کی رو سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ دنیا کے اس علاقے میں پہلے تعلیم و تدریس کا ابتدائی سلسلہ شروع ہوا اور بعد میں باضابطہ تعلیمی نظام کے ساتھ سند (سرٹیفکیٹ، ڈگری، ڈپلومہ) دی جانے لگی۔ اکثر محققین کا خیال ہے کہ دنیا کے بعض دوسرے علاقوں میں تعلیم کا سلسلہ تو شروع ہو چکا تھا، مگر باضابطہ تعلیم، پڑھنے کے کمرے، لائبریری کے طلبا کے لئے رہنے کی جگہ اور تعلیم کے بعد اسناد دینے کی روایت کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ باقاعدہ یونیورسٹی کے طور پر شاید ٹیکسلا کی یونیورسٹی ہی دنیا کی پہلی یونیورسٹی تھی۔


قدیم ہندوستان کی تاریخ کے مطابق ٹیکسلا کا نام بھارتا کے بیٹے اور رام کے بھائی ٹاکسا پر رکھا گیا تھا۔ ٹاکسا نے ٹاکسا کھانڈا نام کے علاقے پر حکمرانی کی اور ٹیکسلا شہر کی بنیاد رکھی تھی۔


بدھوں کی قدیم کتابوں میں بھی ٹیکسلا کا ذکر ہے۔ پانچویں صدی میں سری لنکا میں لکھی جانے والی بدھ مذہب کی کتاب میں ٹیکسلا کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے کہ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں تعلیم و تدریس کا انتظام ہے اور عالم مختلف مضامین پڑھاتے ہیں۔ ٹیکسلا گندھارا تہذیب اور حکمرانوں کا دارالحکومت تھا اور دُور دُور سے لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ اسی طرح سے چین کے دو قدیم سیاح فاکسین اور ژوان زانگ نے بھی اپنے سفر ناموں میں ٹیکسلا کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ فاکسین نے 405عیسوی اور ہانگ سانگ نے 603عیسوی میں ٹیکسلا میں قیام کیا تھا۔ ان دونوں سیاحوں کے توسط سے اس زمانے کے ٹیکسلا کے بارے میں بہت سی معلومات منظر عام پر آتی ہیں۔ٹیکسلا کے نوادرات کی کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے یہ پتا لگا ہے، کہ اس علاقے میں انسانوں کی مختلف تہذیبی تین ہزار سال قبل مسیح سے نشو و نما پا رہی تھیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شاید ایران کے بادشاہ ساسرس اعظم نے بھی اس علاقے کا دورہ کیا تھا اور ٹیکسلا پر قبضہ کر کے اسے اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔ 326قبل از مسیح میں سکندر اعظم نے مقامی حکمرانوں کو شکست دے کر ٹیکسلا پر قبضہ کر لیا تھا۔ امفس (امبعی) یونان کا تاریخ دان جو سکندر اعظم کے ساتھ تھا اس نے ٹیکسلا شہر کی بہت تعریف کی ہے، اسے ایک نفیس اور اپنے وقت کا بہترین شہر قرار دیا تھا۔


شہنشاہ چندرگپت موریا نے اپنے دورِ حکومت میں ٹیکسلا کو صوبے کا دارالحکومت بنایا تھا۔ اسی چندرگپت موریا کے پوتے اشوک کے دور حکومت میں ٹیکسلا کو صحیح معنوں میں ایک تعلیمی مرکز کی حیثیت حاصل ہوئی اور اسی نے ٹیکسلا سے اپنی راج دھانی پاٹلی پر (آج کے پٹنہ شہر) تک سڑک بنوائی تھی۔ موریا خاندان کے آخری حکمران بھرت راتھا کا قتل اس کے سپہ سالار سامترا سنگا نے فوجی پریڈ کے دوران کر دیا تھا۔ موریا خاندان کی حکمرانی کے ختم ہونے کے بعد یونان کے حکمرانوں نے ٹیکسلا کو فتح کر کے اپنی حکمرانی میں لے لیا تھا۔ 90قبل ازمسیح میں یونانی دور کا خاتمہ ہوا اور پارتھین دور کا آغاز ہوا۔ عیسائیوں کے مذہبی رہنما سینٹ تھامس نے 46عیسوی میں ٹیکسلا کا دور کیا۔ 76عیسوی میں پارتھین دور کا خاتمہ بادشاہ کشن کانے کیا۔ ایک طویل عرصے کے امن و امان کے بعد چوتھی صدی میں ساسانی بادشاہ شاہ پور دوئم نے ٹیکسلا پر قبضہ کر لیا۔ 460سے 470عیسوی تک ساسانیوں نے ٹیکسلا میں بدھ عبادت گاہوں اور درسگاہوں کو تباہ کر دیا اور یونیورسٹی کے نظام کو شدید نقصان پہنچایا۔ جس کے بعد یہ یونیورسٹی دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہو سکی۔


1863ء میں الیگزرینڈر کنگھم نے ٹیکسلا دریافت کیا اور پہلی بار دنیا کو ٹیکسلا تہذیب کی ان باقیات کو دیکھنے کا موقع ملا۔ جس کا ذکر داستانوں اور روایات میں تھا۔ ٹیکسلا یونیورسٹی کو ایک عظیم درس گاہ کی حیثیت حاصل رہی ،جہاں بدھ اورہندو مذہب کے علاوہ دیگر علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ شواہد ملے ہیں کہ یہاں طلبا کا داخلہ سولہ سال کی عمر میں کیا جاتا تھا۔ جانوروں کو سدھانے سے لے کر علم طب، قانون، فلسفہ، زراعت، جنگ اور فنِ تعمیر کی تعلیم و تربیت دی جاتی تھی۔ ٹیکسلا یونیورسٹی اور موہنجوڈارو کے تعلیمی ادارے کے درمیان تعلقات تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان اور دنیا کے دور دراز علاقوں سے طلبا یہاں علم کے حصول کےلئے آتے تھے۔ ٹیکسلا یونیورسٹی میںان کے رہنے کے انتظامات تھے، طلبا اور اساتذہ کی قیام گاہوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔ آنے والے طلبا کے پڑھائی کے اوقات اساتذہ مقرر کرتے تھے۔ اس زمانے میں ٹیکسلا علم و دانش کا عظیم مرکز بن گیا تھا، جس کےاثر و نفوذ دُور دُور تک تھا۔ یہاں کی تہذیب کا اثر ہندی اور سنسکرت زبان پر ہوا۔ یہاں کے طلبا فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے مضامین کے ماہر کہلائے جاتے تھے اور انہیں استاد کا درجہ دیا جاتا تھا۔ ٹیکسلا کے مشہور طلبا میں چندرگیت موریا کے مشیر چانکیہ، آیورویدک طریقہ علاج کے ماہر چراکا، سنسکرت زبان و گرامر کے ماہرپانانی اور گوتم بدھا کے مشہور معالج یاسان جت کا شمار ہوتا ہے۔


آکسفورڈ یونیورسٹی


انگلستان کے قصبےآکسفورڈ میں بنائے گئے اس تعلیمی ادارے میں تعلیم کا سلسلہ 1096عیسوی سے جاری تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا آغاز ایک مذہبی ادارے کے طور پر ہوا تھا، شاید یہی وجہ ہو کہ ادارے کا نعرہ ’’خدا ہی میری روشنی‘‘ ہے۔ بہت عرصے تک انگلستان میں مذہبی اداروں پر اس یونیورسٹی کا اثر رہا ۔


بادشاہ ہنری دوئم نے انگلستان کے طلبا کی پیرس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ اس پابندی کی وجہ سے آکسفورڈ کے تعلیمی ادارے میں طلبا کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ بادشاہ ہنری سوئم نے ،اس ادارے کو یونیورسٹی کا چارٹر دیا۔ یونیورسٹی کے سربراہ کو چانسلر کہا جاتا تھا۔ جس کا انتخاب اساتذہ اور طلبا مل کر کرتے تھے۔یونیورسٹی کے ابتدائی برسوں میں انگلش اور اسکاٹس طلبا کی گروہ بندی ہو گئی تھی ،کیوں کہ انگلینڈ اور اسکاٹ لینڈ سے آنے والے طلبا اپنے علاقے سے وابستہ طلبا کے درمیان رہنے کی کوشش کرتے تھے ۔ اسی طرح سے آئر لینڈ اور ویلز سے آنے والے طلبا کی بھی علیحدہ گروہ بندی تھی۔ یہ طلبا اپنے اپنے حلقے بناکررہتے اور قومیتوں کی بنیاد پر ان کے درمیان کھینچائو رہتا، بعض اوقات ان کے درمیان جھگڑا بھی ہو جاتا تھا۔


انگلستان کے بہت سے کالج آہستہ آہستہ یونیورسٹی سے الحاق لیتے گئے۔ وقت کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا تھا۔ یونیورسٹی سے الحاق شدہ ہر کالج مکمل طور پر خود مختار ہوتا ہے اور اپنی تعلیمی سرگرمیوں خود منظم کرتا ہے۔


یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ 1209ء میں یونیورسٹی کے طلبا اور آکسفورڈ کے شہریوں کے درمیان ایک بڑا تصادم ہو گیا تھا، اس لڑائی کو ’’ٹائون بمقابلہ گائوں‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آئے دن کے ہنگاموں سے نالاں تدریسی عملے کے کچھ ارکان نے کیمبرج شہر میں جا کر ایک نئی یونیورسٹی کا آغاز کر دیا۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے کچھ اساتذہ یونیورسٹی کی انتظامیہ سے ناراض ہو گئے تھے، انہوں نے اسٹام فورڈ لنکا شائر میں ایک اور یونیورسٹی بنانے کی کوشش کی مگر آکسفورڈ اور کیمبرج کے اساتذہ یہ سمجھتے تھے کہ ا نگلستان میں کسی اور یونیورسٹی کی ضرورت نہیں ہے، وہ اس قسم کے کسی بھی اقدام کے خلاف متحد ہو کر بادشاہ کو قائل کر لیتے تھے۔ اس کے برعکس یورپ کے دوسرے ممالک میں کسی بھی یونیورسٹی نے اس قسم کا سخت رویہ نہیں اپنایا، یونیورسٹی میں مقابلہ اور مخاصمت کے باوجود بلکہ نئی یونیورسٹیاں بنانے میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہے۔ انگلستان میںکئی سو سال تک دوسری یونیورسٹی نہیں بنی یہاں تک کہ لندن یونیورسٹی کا قیام بھی بہت بعد میں عمل میں آیا۔


ابتدائی دنوں میں تو یونیورسٹی میں مذہبی تعلیمات پر بہت زور دیا گیا ،مگر بعد میں جب کلیسا کا اثر و رسوخ کم ہونا شروع ہوا تو یونیورسٹی میں ہر قسم کے علوم کی گنجائش پیدا ہو گئی اور دوسرے جدید علوم یونیورسٹی میں چڑھائے جانے لگے۔


1875ء تک آکسفورڈ یونیورسٹی میں لڑکیوں کو داخلہ نہیں ملتا تھا۔ 1875ء کے بعد کالج بنائے گئے، جہاں صرف لڑکیوں کو داخلہ ملتا تھا، مگر آہستہ آہستہ جہاں لڑکوں کے کالج میں لڑکیوں کو داخلہ دیا گیا وہاں لڑکیوں کے کالج میں لڑکوں کو بھی داخلہ ملنا شروع ہوا۔ 2008ء میں سینٹ ہلڈا کالج میں ایک لڑکے کو داخل کر کے پوری یونیورسٹی کو مکمل طور پر مخلوط تعلیمی ادارہ بنا دیا گیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی لائبریری انگلستان کی دوسری بڑی لائبریری ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس دنیا کا ایک بڑا اشاعتی ادارہ ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں قائم میوزیم بہت ا ہمیت کے حامل ہیں۔ اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا دنیا کے مختلف ملکوں میں کلیدی عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں۔ یہاںکے پڑھے ہوئے ریاضی داں، ماہر طبیعات ، طب کے ماہر، فلسفی، مذہبی عالم اور ماہرین معاشیات کادنیا کی تعمیر و ترقی میں بہت اہم کردار رہا ہے۔ ایسے لوگوں کی ایک طویل فہرست انٹرنیٹ پر موجود ہے ،جن کی داستانیں بہت دل چسپ ہیں۔


آکسفورڈ یونیورسٹی کے مشہورطلبا میں ٹی ای لارنس، ہیرالڈولسن، مارگریٹ تھیچر، ٹونی بلیئر شامل ہیں۔ انگلستان کے 26وزرائے اعظم آکسفورڈ سے پڑھے ہوئے ہیں،دنیاکے تیس دوسرے ممالک کے وزیر اعظم بھی آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے ہیں، جن میں لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی، فیروز خان نون، ذوالفقار علی بھٹو ،بے نظیر بھٹو ، من موہن سنگھ، اندرا گاندھی،وغیرہ کا نام شامل ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے کئی سائنس دانوں کو نوبل انعام مل چکا ہے۔ مذہبیات، سائنس، ادب، فلسفہ، کھیل سے وابستہ نامی گرامی لوگوں کا تعلق آکسفورڈ یونیورسٹی سے رہا ہے۔ دور حاضر میں انگلستان میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی تعلیمی حیثیت کا بڑا مقام ہے۔

تازہ ترین