نصف ملک خواجہ آصف کی نااہلی کا جشن مناتے ہوئے اس پیش رفت کو اصطبل صاف کرنے کی اہم کوشش قرار دے رہاہے، باقی نصف اسے ایک ضرب قرار دے رہا ہے جس کا مقصد 2018 ء کے انتخابات میں موجودہ حکمران جماعت کو ہر ممکن طریقے سے کامیاب ہونے سے روکنا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم بطور ملک کس قدر منقسم ہیں۔ ملک کو خطرے سے نکالنے کے تصور پر بھی ہماری فکری دوری مشرق و مغرب کے تفاوت سے کم نہیں۔ تاثر عام ہے کہ عدلیہ ، جو غیر جانبدار اور غیر متنازع ہونی چاہیے ، سیاست دانوں کی قسمت کے فیصلے کرتے ہوئے خود کو کراس فائرنگ کی زد میں لے آئی ہے ۔
2003-04 ء میں جب مشرف ایک قابل ِ اعتماد مسیحا کے طور پر سیاسی گند صاف کرنے پر تلے ہوئے تھے، کچھ لوگ اُن کی آمریت کے خلاف لب کشائی کی جرات رکھتے تھے ۔ خواجہ آصف کا شمار اُن میں ہوتا ہے ۔ وہ کیمبرج کے علاوہ میساکاسٹس میں گئے اور دوٹوک الفاظ میں ، کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر، مشرف کی جابرانہ آمریت پر بات کی۔ اُنھوںنے بتایا کہ کس طرح سیاست دانوں کو قید کرکے وفاداری تبدیل کرنے کے لئے دبائو ڈالا گیا ۔ نیب انکار کرنے والوں کا تعاقب کرتاہے۔ ایک طاقت ور اور صاحب ِ اقتدار کمانڈو پر کھلی تنقید ہوا کے ایک تازہ جھونکے کی طرح تھی ۔ یہ کوئی پندرہ سال پہلے کی بات ہے۔
پی پی پی حکومت کے دوران ، جب جسٹس چوہدری کی عدالت نے اسے گردن سے دبوچا ہوا تھا، خواجہ آصف اپوزیشن لیڈر اور مدعی ، دونوں کا کردار یکساں جوش و جذبے سے ادا کررہے تھے ۔ اُنھوںنے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ وہ آرٹیکل 184(3) کے تحت ہوشربا بدعنوانی کا نوٹس لے ۔ اُس وقت کی عدالت نے خواجہ صاحب کو مایوس نہ کیا۔ جسٹس چوہدری کی قیادت میں سپریم کورٹ ہمیں پی پی پی کی بدعنوانی اور بدانتظامی سے بچانے کے لئے پرعزم تھی۔ اُس وقت خواجہ آصف ’’بھل صفائی ‘‘ کا مطالبہ کرنے والوں میں شامل تھے ۔ آج عدالت ہمیں پی ایم ایل (ن) کی مکاری اور بدعنوانی سے بچانے کے لئے کمر بستہ ہے ۔ آج خواجہ آصف خو دبھل صفائی کرنے والی مشین کی زد میں آگئے ہیں۔
نوازشریف نااہلی کیس خواجہ آصف نااہلی کیس سے مختلف ہے ۔ نواز شریف کیس سپریم کورٹ کے بنیادی قانونی سوالات کو حل کرنے کی بنیاد پر تھا۔ کیا سپریم کورٹ کسی ٹرائل کے بغیر کمزور شواہدکی بنیاد پر نااہلی سے متعلقہ ایشو ز کا فیصلہ کرنے کے لئے درست پلیٹ فارم ہے ؟کیا اعلیٰ عدلیہ کو منتخب شدہ نمائندوں کے قانونی تنازعات پرخود فیصلہ کرنا چاہیے یا انہیں الیکشن ٹربیونلز کے پاس بھجوادینا چاہیے ؟کیا سیاست دانوں کی اہلیت یا تاحیات نااہلی کا فیصلہ کرنا عدالتوں کا کام ہے یا اس کا فیصلہ عوام کی رائے پر چھوڑ دیا جائے ۔ نواز شریف، عمران خان اور جہانگیر ترین نااہلی کیسز میں سپریم کورٹ نے اپنی قانون سازی کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے ان تمام سوالات کا جواب اثبات میں دے دیا ہے ، کہ ہاںان کا فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے ۔ چنانچہ اب قانون یہ ہے (اور ہائی کورٹ پر بھی اس کی پابندی لازمی ہے ) اگر کسی ممبر کی انتخابات لڑنے کی اہلیت پر کوئی شک اٹھے تو اس پر اعلیٰ عدلیہ کووارنٹو رٹ جاری کرسکتی ہے ۔ منتخب ہونے کے بعد بھی اہلیت کا تعین کرنے کا اختیار اب الیکشن ٹربیونلز کا نہیں رہا۔ نااہلی کے ایسے کیسز میں اب ا سپیکر یا الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کوئی کردار نہیں ۔
اب نااہلی قرار دینے والا پیمانہ بہت تنگ ہے ۔ اگر آپ نے کوئی غلط بیانی کی، یاکاغذات میں کوئی بھول چوک ہوگئی تو عدالت سمجھے گی کہ آپ نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے، چنانچہ آپ صادق او ر امین نہیں رہے ۔ سپریم کورٹ(اور اب اسلام آبادہائی کورٹ)کا کہنا ہے کہ اس کا معروضی انداز میں جائزہ لیا جائے گا، کسی کی نیت نہیں دیکھی جائے گی۔یہ بات ناقابل ِ فہم ہے ۔ گویا اب عدالتیں کسی باقاعدہ ٹرائل کے بغیر اپنے تاثر کو معروضی مان کر منتخب شدہ ارکان کی قسمت کا فیصلہ کردیا کریں گی۔
طے شدہ حقائق کے کیس میں بھی آپ قانون شہادت کو استعمال کیے بغیر ’’جرم کی نیت ‘‘ کا تعین نہیں کرسکتے ۔ خواجہ آصف کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی رولنگ پڑھ کر ذہن دبائو میں آجاتا ہے ۔ یہاں عدالت ہمارے وزیر ِخارجہ کو نااہل قرار دیتے ہوئے لکھ رہی ہے کہ وہ ایسا بوجھل دل کے ساتھ کررہی ہے ۔ کہا گیا کہ اسے سیاسی مقدمات میں الجھا دیا گیا ہے ، جس کی وجہ سے فاضل عدالت کا وقت ضائع ہورہا ہے ، نیز یہ معاملات سیاسی میدان میں ہی طے ہونے چاہیے تھے ۔ اور دوسرا یہ کہ اسے ایسا فیصلہ سنانا پڑا جس نے لاکھوں رائے دہندگان کی خواہشات کو متاثر کیا ۔
چاہے عدالتوں کو سیاسی تنازعات میں الجھنا اور اس کے سیاسی نتائج کا سامناکرنا چاہیے یا نہیں، اس کیس سے تباہ کن حقائق برآمد ہوئے ہیں۔ اب ہمارے سامنے ہمارے وزیر ِ دفاع او ر وزیر ِخارجہ ہیں جو متحدہ عرب امارات کی کسی کمپنی کے کل وقتی ملازم بھی ہیں۔ ہمارے سامنے ملازمت کا ایک معاہدہ ہے جو اُنہیں ہفتے میں صرف ایک دن کام کی چھٹی دیتا ہے، اور اگر سال میں بیس دن سے زیادہ کام سے غیر حاضر رہیں تو اُن کی ملازمت منسوخ کردی جاتی ہے۔ ملازمت کے اس معاہدے کی گزشتہ موسم ِ گرما میں تجدید ہوئی تھی ۔ کمپنی کے 1250 ملازمین میں اُن کا نمبر303 ہے، جوکہ ایک مستری اور مزدور کے درمیان ہے ۔ اُ ن کے کاغذات ِ نامزدگی یا ٹیکس گوشواروں میں تنخواہ ظاہر نہیں کی گئی۔ خواجہ آصف نے غیر ملکی کمپنی کا حلف نامہ پیش کیا تھا جس کے مطابق ملازمت کا یہ معاہدہ محض یواے ای کے قوانین کی تسلی کے لئے تھا، اورحقیقی، لیکن غیر اعلانیہ مفاہمت (جو کہ یواے ای کے قوانین کی از خود خلاف ورزی ہے) یہ تھی کہ اُن کی یو اے ای میں جسمانی طور پر موجودگی پر اصرار نہیں کیا جائے گا۔
نمائندہ جمہوریت اور سویلین بالا دستی کی وکالت کرنے والوںکے ایک طرف چٹان ہے ، دوسری طرف کھائی۔ یہ انکشاف کہ ایک ملک کا وزیر ِخارجہ بیک وقت کسی غیر ملکی کمپنی کا ملازم بھی ہے ، اور اُس سے کسی بھی وقت فون پر مشاورت کے لئے رابطہ کیا جاسکتا ہے ، اور اس سروس کے عوض اُسے ہر ماہ تنخواہ بھی ملتی ہے ، کسی بھی جمہوریت میں ایک بہت بڑا اسکینڈل بن جاتا۔اس سے ہمارے ہاں یہ دلیل تقویت پاتی ہے کہ تمام سیاست دان نااہل، بدعنوان اورریاستی ذمہ داریوںکی انجام دہی کے قابل نہیں۔ ممکن ہے کہ آپ خواجہ آصف کے حامی ہوں ، لیکن آپ بھی اُ ن کے یواے ای کی کسی کمپنی میں ملازمت کا جواز پیش نہیں کرسکتے ۔ حتیٰ کہ پی ایم ایل (ن) کے درست سوچ رکھنے والے حامیوں کو بھی خواجہ آصف کا دفاع کرنے میں دقت پیش آرہی ہے ۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر آپ خواجہ آصف کے اس ایشو کو نواز شریف کی نااہلی، بلوچستان اسمبلی پر ’’شب خون‘‘، موجودہ سینٹ الیکشن ، پی ایم ایل(ن) کی صفوں سے نکلنے والوں کی نئی منزل کو دیکھیں تو یہ کیس بھی ایک طے شدہ نمونے کا حصہ دکھائی دیتا ہے اور یہی تاثر اصل مسئلہ ہے ۔ جب بھی آپ اصطبل صاف کرنے کی ذمہ داری زبردستی اپنے سرلیں گے ، ایسے مسائل پیدا ہوں گے ۔ اپنی خود مختاری کا دفاع کرنا انسانی فطرت کا حصہ ہے ۔ اگر آپ اُنہیں معلومات فراہم کریں گے ، اور اُنہیں اپنی راہیں چننے کا موقع دیں گے تو وہ معلومات کی روشنی میں معقول انتخاب کریں گے ۔ لیکن اگر آپ ان پر چوائس مسلط کردیں گے تو وہ مزاحمت کریں گے ۔ جب پاناما اسکینڈل منظر عام پر آیا، حتی کہ پی ایم ایل (ن) کے پرزور حامیوں نے بھی شرمندگی سے سرجھکا لیا تھا۔ لیکن بعد میں پیش آنے والے واقعات سے یہ تاثر تقویت پاتا گیا کہ اس سے سیاسی نتائج نکالنا مقصود ہے۔ اس پر وہ حامی پھر نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔
عدالتوں نے غیر جانبدار رہتے ہوئے قانون کی تشریح کرنی ہوتی ہے ۔ عدالتوں کے ذریعے سیاسی گند صاف کرنے میں مسئلہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے عدالتیں سیاسی تنازعات کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اگر اُن کے فیصلوں پر نصف آبادی خوشیوں کے شادیانے بجارہی ہو، اور باقی نصف اسے سیاسی شکار قرار دے رہی ہو تو اس سے عدالت کی ساکھ پر ضرور سوال اٹھے گا۔ ا ب یہ فیصلہ خود عدالت نے کرنا ہے کہ کیا وہ غیر جانبدار رہتے ہوئے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرے گی یا سیاسی گند صاف کرنے میں الجھی رہے گی ۔ ایک اور مسئلہ بھی اپنی جگہ پر موجود ہے اس طرح بیرونی صفائی کاعمل نتائج نہیں دیتا ہے ۔ ہم نے ا س سے پہلے بھی ایسی کاوشیں دیکھی ہیں۔ ایک کاوش یہ تھی کہ انتخابات لڑنے کے لئے گریجویشن لازمی ہو۔ اس کے بعد نیب کو بدعنوان سیاست دانوں کے تعاقب پر لگادیا۔ لیکن ان سے کیا تبدیلی آئی ؟اب چاہے کچھ بوتلیں نئی ہوں یا پرانی، مشروب وہی پرانا ہے ۔ موجودہ ماڈل سے طے پانے والا اصول یہ ہے کہ کسی عوامی عہدیدار سے ہونے والی ہر لغزش کا محاسبہ ہوگا۔ مسئلہ یہ ہے کہ محاسبے کا یہ عمل بے لاگ نہیں ہے ۔ اس ماڈل کا انجام بھی وہی ہوگا جوا س سے پچھلے والے کا ہوا تھا۔ کنٹرولڈ جمہوریت کا یہ مرحلہ یا تو فل ٹائم کنٹرول کی راہ ہموار کرے گا یا ہمیں پھر واپس اسی موڑ پر لے آئے گا۔ہماری اصل بیماری یہی ہے کہ ’’درد منت کش ِ دوا نہ ہوا۔‘‘
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)