چند ہی دنوں بعد رحمت و مغفرت کا موسم بہار،شہر الصیام ،نزولِ قرآن اور نیکیوں کا ماہ مبارک’’رمضان المبارک‘‘ہم پر سایۂ فگن ہونے والا ہے۔روایت کے مطابق اس برکتوں والے ماہِ مبارک کے آنے سے قبل شعبان المعظم میں ہی سرکارِ دو عالمﷺ اس کے استقبال کے لیے کمر بستہ ہو جاتے،آپ ﷺ کی عبادات میں اضافہ ہوجاتا،نہ صرف خود بلکہ اس فکر میں آپ ﷺ اپنی امت کو بھی شریک فرماتے ۔احادیثِ نبویؐ میں ماہِ شعبان اور اس کی پندرہویں شب،شبِ برأت کے متعدد فضائل بیان کیے گئے ہیں۔یہ مبارک رات گناہوں پرندامت،توبہ ومناجات اور دعاؤں کی قبولیت کے بابرکت لمحات پر مشتمل ہے، اس شب رحمتوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں،برکتوں کا نزول ہوتا ہے،خطاؤں کو معاف کیا جاتا ہے۔روایت کے مطابق اس ماہ کے شروع ہوتے ہی آپ ﷺ کی عبادات میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ، اس کا اندازہ ام المومنین،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس ارشاد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، آپ فرماتی ہیں:میں نے آپ ﷺ کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینے میں کثرت سے (نفلی)روزے رکھتے نہیں دیکھا۔( صحیح مسلم )
حضور اکرمﷺ کے شعبان المعظم میں بکثرت روزہ رکھنے کی وجہ سے اس مہینے میں روزہ رکھنے کو علامہ نووی رحمہ اللہ نے مسنون قرار دیا ہے،فرماتے ہیں: ومن المسنون صوم شعبان(المجموع شرح المہذب) مذکورہ حدیث اوردیگر بہت سی احادیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کا یہ عمل اور امت کو ترغیب دینا استقبال رمضان کے لیے ہوتا تھا،جس کی طرف حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اب خاص اس روزے کی حکمت بھی سمجھیے، میرے نزدیک یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان سے پہلے نصف شعبان کا روزہ رمضان کے نمونے کے لیے مسنون فرمایا ہے،تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ رمضان کا روزہ کیسا ہو گا ؟اور کیا حال ہو گا؟ اس لیے آپ نے پندرہ شعبان کا روزہ مقرر فرمادیا کہ اس دن کا روزہ رکھ کر دیکھ لو ،چوںکہ یہ ایک ہی روزہ ہے، اس لیے اس کی ہمت آسانی سے ہوجاتی ہے،جب وہ پورا ہو گیا تو معلوم ہو جاتا ہے کہ بس رمضان کے روزے بھی ایسے ہی ہوں گے اور اس تاریخ میں رات کی عبادت بھی تراویح کا نمونہ ہے،اس سے تراویح کے لیے حوصلہ بڑھتا ہے کہ جب زیادہ رات تک جاگنا کچھ بھی معلوم نہ ہوا تو تراویح کے لیے ایک گھنٹہ زیادہ جاگنا کیا معلوم ہو گا ؟بس یہ تو اعانت بالمثل علیٰ المثل ہوئی۔(وعظ الیسر مع العسر،بعنوان نظامِ شریعت:/،مکتبہ اشرف المعارف، ملتان)
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نبی اکرم ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا: اللہ عزوجل پندرہویں شعبان کی رات میں آسمان ِ دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق)نزول ِاجلال فرماتا ہے اور اس رات ہربندۂ مومن کی مغفرت کر دی جاتی ہے،سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے، یا ایسے شخص کے جس کے دل میں بغض و کینہ ہو۔(شعب الایمان،للبیہقی)
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا (اے عائشہ ؓ)جانتی بھی ہو، یہ کون سی رات ہے؟میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺہی زیادہ جانتے ہیں، فرمایا، یہ شعبان کی پندرہویں شب ہے،اللہ عزوجل اس رات اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتا اور بخشش چاہنے والوں کی مغفرت فرماتا ہے،رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتا ہے، اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کو ان کی حالت پر ہی چھوڑ دیتا ہے۔(شعب الایمان ،للبیہقی)
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓرسول اللہ ﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات رحمت کی نظر فرما کر تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتا ہے،سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کے۔(سن ابن ماجہ)
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: شعبان کی پندرہویں رات اللہ عزوجل اپنی مخلوق کی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے، سوائے دو شخصوں کے باقی سب کی مغفرت کردی جاتی ہے،ایک کینہ ور، دوسرے کسی کو ناحق قتل کرنے والا۔ (مسند احمد بن حنبل)
حضرت عثمان بن ابی العاص ؓ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو(اللہ تعالیٰ کی طرف سے )ایک پکارنے والا پکارتا ہے ، ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ میں اس کی مغفرت کر دوں،ہے کوئی مانگنے والاکہ میں اسے عطا کروں،اس وقت جو (سچے دل کے ساتھ)مانگتا ہے اسے (اس کی شا ن کے مطابق )ملتا ہے،سوائے بدکار عورت اور مشرک کے (کہ یہ اپنی بد اعمالیوں کے سبب اللہ کی عطا سے محروم رہتے ہیں)۔(شعب الایمان ،للبیہقی)
حضرت عائشہ ؓ نبی اکرم ﷺ سے روایت فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے اس رات یعنی شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟انہوں نے دریافت فرمایا کہ یارسول اللہﷺ،کیا ہوتا ہے؟آپ ﷺنے فرمایا: اس شب یہ ہوتا ہے کہ اس سال جتنے بھی پیدا ہونے والے ہیں، سب کی تفصیل لکھ دی جاتی ہے ،اور جتنے اس سال مرنے والے ہیں وہ سب بھی اس رات لکھ دیے جاتے ہیں ،اور اس رات میں سب بندوں کے (سارے سال کے)اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی مقررہ روزی (مقررہ وقت پر) اترتی ہے۔(الدعوات الکبیر ،للبیہقی)
حضرت عطاء بن یسار ؒ فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو موت کا فرشتہ ایک شعبان سے دوسرے سال کے شعبان تک مرنے والوں کا نام (اپنی فہرست سے)مٹا دیتا ہے اور کوئی شخص،تجارت اور کوئی عورتوں سے نکاح کر رہا ہوتا ہے اس حال میں کہ اس کا نام زندوں سے مردوں کی طرف منتقل ہو چکا ہوتا ہے،شب قدر کے بعد کوئی رات اس رات سے افضل نہیں ۔(کنز العمال)
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:جبرائیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ شعبان کی پندرہویں رات ہے ،اللہ تعالیٰ اس رات میں بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے،جن کی تعداد قبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے، مگر اس رات میں اللہ تعالیٰ مشرک، اور کینہ ور ،اور رشتے ناطے توڑنے والے (یعنی قطع تعلق کرنے والے)اورازار(یعنی پاجامہ ،شلوار وغیرہ)ٹخنوں سے نیچے رکھنے والے،(لوگوں)اور ماں باپ کے نافرمان اور شراب کے عادی لوگوں کی طرف رحمت کی نظر نہیں فرماتا۔(شعب الایمان، للبیہقی)
حضرت عثمان بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: (زمین پر بسنے والوں کی )عمریں ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک طے کی جاتی ہیں ،یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں، حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں داخل ہو چکا ہوتا ہے۔(شعب الایمان للبیہقی)
امام شافعی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ پانچ راتوں میں دعاؤں کو قبول کیا جاتا ہے،جمعہ کی رات ،عید الاضحیٰ کی رات ، عید الفطر کی رات،رجب کی پہلی رات،اور شعبان کی پندرہویں رات۔(شعب الایمان، للبیہقی)
مذکورہ ارشادات کے علاوہ اور بہت سی روایات میں اس رات کے فضائل وارد ہوئے ہیں۔ مذکورہ تمام احادیث میں جہاں عظیم الشان فضائل مذکور ہیں،وہاں بہت سے ایسے (بدقسمت)افراد کا تذکرہ ہے ،جو اس مبارک رات میں بھی رب عزوجل کی رحمتوں اور بخششوں سے محروم رہتے ہیں،ذیل میں ان گناہوں کا اجمالی تذکرہ کیا جاتا ہے،تاکہ تھوڑا سا غور کر لیا جائے کہ کہیں ہم بھی ان رذائل میں تو مبتلا نہیں۔شب برأت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم افراد:۔٭…مسلمانوں سے کینہ،بغض رکھنے والا٭…شرک کرنے والا٭…ناحق قتل کرنے والا٭…زنا کرنے والا٭…قطع تعلقی کرنے والا٭…ازار(شلوار،تہبند وغیرہ) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا٭…والدین کا نافرمان٭شراب پینے والا۔ان سب گناہوں سے جتنا جلد ہو سکے اور کم از کم شعبان کی پندرہویں رات سے پہلے پہلے توبہ کر کے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
علامہ ابن الحاج مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس رات کے بڑے فضائل ہیں اور یہ بڑی خیر والی رات ہے،ہمارے اسلاف اس کی بڑی تعظیم کرتے اور اس رات کے آنے سے پہلے اس کی تیاری کرتے تھے۔(المدخل لابن الحاج)
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگردابن رجب حنبلی فرماتے ہیں کہ شام کے مشہور تابعی خالد بن لقمان رحمہ اللہ وغیرہ اس رات کی بڑی تعظیم کرتے،اوراس رات میں خوب عبادت کرتے۔(لطائف المعارف)علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شعبان کی پندرہویں رات کو بے داررہنا مستحب ہے۔ (البحر الرائق)
علامہ حصکفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شعبان کی پندرہویں رات کو عبادت کرنا مستحب ہے۔علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بے شک یہ رات، شب برأ ت ہے اور اس رات کی فضیلت کے سلسلے میں روایات صحیح ہیں۔(العرف الشذی)شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس رات بیداررہنا مستحب ہے اور فضائل میں اس جیسی احادیث پر عمل کیا جاتا ہے ،یہی امام اوزاعی کا قول ہے۔ (ما ثبت بالسنہ)
آخر میں اس مبارک رات میں کرنے والے کیا کیا کام ہیں ؟ان کا ذکر کیا جاتا ہے،تاکہ افراط وتفریط سے بچتے ہوئے اس رات کے فضائل کو سمیٹا جا سکے، نماز عشا اور نماز فجر کو باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کرنا۔اس رات عبادت کی توفیق ہو یا نہ ہو ،گناہوں سے بچنے کا خاص اہتمام کرنا،بالخصوص ان گناہوں سے جو اس رات کے فضائل سے محرومی کا سبب بنتے ہیں۔اس رات میں توبہ واستغفار کا خاص اہتمام کرنااور ہر قسم کی رسوم اور بدعات سے اجتناب کرنا۔اپنے لیے اور پوری امت کے لیے ہر قسم کی خیرکے حصول کی دعا کرنا۔بقدر وسعت ذکر اذکار ،نوافل اور تلاوت قرآن پاک کا اہتمام کرنا۔ اگر بہ آسانی ممکن ہو تو پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا۔واضح رہے کہ مذکورہ تمام اعمال شب برأت کا لازمی حصہ نہیں،بلکہ ان کا ذکر محض اس لیے ہے کہ ان میں مشغولیت کی وجہ سے اس رات کی منکرات سے بچا جا سکے۔ بعض ایسے بدنصیب ہیں جو اس مقدس رات میں فکر آخرت اور عبادت ودعا میں مشغول ہونے کے بجائے لہوولعب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔آتش بازی،پٹاخے اور دیگر ناجائز امور میں مبتلا ہوکر وہ اس مبارک رات کا تقدس پامال کرتے ہیں،ہمیں چاہیے کہ ایسے لغو کاموں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں،ایسے کام اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی ناراضی کا سبب ہیں۔